آخر وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا۔ کشمیر کی مسلم آبادی کو ہمیشہ کے لیے سیاسی طور پر بے وزن بنانے کی غرض سے بھارت کی طرف سے قائم جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں ’حد بندی کمیشن‘ نے ریاستی اسمبلی کے لیے ہندو اکثریتی علاقے جموں سے نشستیں بڑھانے کی سفارشات پیش کی ہیں۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ءکو جب ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے اس کو دو مرکزی تحویل والے علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا، تو اسی وقت بتایا گیا تھا کہ ’’جموں و کشمیر کی نئی اسمبلی میں ۱۱۴نشستیں ہوں گی، جس میں ۹۰نشستوں پر انتخابات ہوںگے، بقیہ ۲۴نشستیں آزاد کشمیر یا پاکستان کے زیر انتظام خطے کشمیر کے لیے مخصوص رکھی جائیں گی‘‘۔ کمیشن نے جموں کے لیے چھے سیٹیں اور کشمیر میں محض ایک نشست بڑھانے کی سفارش کی ہے۔
گویا ا ب نئی اسمبلی میں وادیِ کشمیر کی ۴۷ اور جموں کی ۴۳سیٹیں ہوں گی۔ان میں نچلی ذات کے ہندوؤں یعنی دلتوں یا شیڈیولڈ کاسٹ اور قبائلیوں کے لیے ۱۶نشستیں مخصوص ہوں گی۔ چونکہ وادی کشمیر میں شیڈ یولڈ کاسٹ آبادی صفر ہے، اس لیے مخصوص نشستوں سے انتخابات لڑوانے کے لیے امیداواروں کو باہر سے لانا پڑے گا۔ کشمیر ی اُمیدوار، ان نشستوں سے انتخاب لڑہی نہیں سکیں گے۔ اس سے قبل کشمیر کی ۴۶ اور جموں کی ۳۷سیٹیں تھیں۔ وادیِ کشمیر کی سیٹیں اس لیے زیادہ تھیں کیونکہ ۲۰۱۱ءکی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۶۸ لاکھ تھی، جب کہ جموں خطے کی آبادی ۵۳لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی، یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۳لاکھ زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے اسمبلی میں اس کے پاس جموں کے مقابلے میں نو سیٹیں زیادہ تھیں،جب کہ اصولاً یہ فرق ۱۲سیٹوں کا ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ کشمیر میں اوسطاً ایک لاکھ ۵۰ ہزار نفوس پر ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا، جبکہ جمو ں کے اسمبلی حلقوں کی اوسطاً آبادی ایک لاکھ ۴۵ ہزار رکھی گئی تھی۔
یہ طے شدہ بات ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے لیڈروں کے ایما پر ہی یہ ساری حد بندی ترتیب دی ہے، تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور ۶۸ء۳۱ فی صد مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کرایا جائے۔ ویسے پچھلے دو سو برسوں کے دوران میں یعنی ۱۸۱۹ء میں سکھوں کی فوج کشی کے بعد،۱۹۴۸ء سے ۲۰۱۸ءتک ۷۰برسوں میں مسلمان لیڈر حکومتی مسندوں پر براجمان ہوتے رہے۔ اب شاید محبوبہ مفتی اس خطے کے آخری مسلم وزیر اعلیٰ کے طور پر تاریخ میں درج ہوں گی۔
اگر مقامی بیوروکریسی کاجائزہ لیا جائے، تو فی الوقت ۲۴سیکرٹریوں میں پانچ مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ ۵۸ اعلیٰ سول سروس افسران میں ۱۲ مسلمان ہیں۔ یعنی ۶۸فی صد آبادی کا تناسب اعلیٰ افسران میں محض۱۷ء۴ فی صد ہے۔ دوسرے درجے کے افسران میں کُل ۵۲۳ میں ۲۲۰ مسلمان ہیں۔ یعنی تناسب ۴۲ء۰۶ فی صد ہے۔ اسی طرح ۶۶ اعلیٰ پولیس افسران میں سات مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے ۲۴۸ پولیس افسران میں ۱۰۸ مسلمان ہیں۔ اس خطے کے ۲۰؍اضلاع میں صرف چھے میں، یعنی بانڈی پورہ، بڈگام، کلگام، پلوامہ، رام بن اور سرینگر میں مسلمان ڈپٹی کمشنر یا ضلعی مجسٹریٹ ہیں۔
کمیشن نے اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی میں آبادی کے بجائے رقبے کو معیار بنایا ہے۔ اگر یہ معیار واقعی افادیت اور اعتباریت رکھتا ہے، تو اس کو پورے بھارت میں بھی نافذ کردینا چاہیے۔ کمیشن کے اس استدلال کے مطابق تو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی ۵۴۳ رکنی پارلیمنٹ میں ۸۰نشستیں یا تو پھر کم ہونی چاہییں یا دیگر صوبوں پر بھی رقبہ کا فارمولہ لاگو کرکے رقبہ کے لحاظ سے بھارت کے سب سے بڑے صوبہ راجستھان کو پارلیمنٹ میں ۱۱۳نشستیں ملنی چاہییں، جب کہ فی الوقت اس کے پاس صرف ۲۵سیٹیں ہیں۔ اسی طرح دہلی شہر، جس کے پاس سات پارلیمانی سیٹیں ہیں، اس کو رقبہ کے لحاظ سے ایک بھی سیٹ نہیں ملنی چاہیے۔
کشمیر کی مین اسٹریم یا بھارت نواز مسلم پارٹیوں نے پہلے تو ’انتخابی حد بندی کمیشن‘ کا بائیکاٹ کیا تھا، مگر جون ۲۰۲۱ء میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد نیشنل کانفرنس اس کھیل میں شامل ہوگئی۔ چونکہ صرف بی جے پی اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر لوک سبھا کے اراکین ہیں، اس لیے وہ اس کمیشن کے ایسوسی ایٹ اراکین بھی تھے۔ ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے کمیشن کی ساکھ مشکوک تھی۔ سرینگر اور جموں میں کمیشن کی طرف سے بلائے گئے اجلاسو ں میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بغیر دیگر جماعتوں نے بھی میمورنڈم پیش کیے۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کی پہلے یہ دلیل تھی، کہ ’’یہ کمیشن غیر قانونی ہے، اور جس ایکٹ کے تحت اس کی تشکیل ہوئی ہے، اس کے وجود کو نیشنل کانفرنس نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔ اس لیے وہ کمیشن کو تسلیم ہی نہیں کرتے‘‘۔ مگر جون میں دہلی میں اس کے لیڈروں پر کیا جادو ہوا، کہ انھوں نے نہ صرف اس کمیشن کو تسلیم کیا، بلکہ اس کے اجلاسوں میں بطور ایسوسی ایٹ ممبر بھی حصہ لیا۔ اپنی کمزور سیاسی ساکھ کے باوجود اس وقت بھی اس کے لیڈر مفادات کا سودا کرنے سے گریز نہیں کر رہے۔ اقتدار کی ہوس نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی ’نیشنل کانفرنس‘ کو بزدل بناکر رکھ دیا ہے۔ بد قسمتی سے اس جماعت کا محور صرف یہ ہے کہ اقتدار سے کسی طرح تعلق استوار کیا جائے۔
ایک عشرہ قبل دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک مذاکرہ کے دوران بی جے پی کے لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے کہا تھاکہ ’’کشمیر کا واحد مسئلہ اس کا مسلم اکثریتی کردار ہے اور کشمیر کی ترقی میں بھی یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوں کے لوگ وہاں بس نہیں سکتے ہیں،جس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی ہے‘‘۔ پھر کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے، آئینی خلاف ورزیوں کے لیے راہ ہموار کی۔ دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵اے کی صورت میں سیاسی گرداب سے بچنے کے لیے جو معمولی سا پردہ رہ گیا تھا، اس کو بھی ہٹاکر کشمیریو ں کی عزت نیلام کرکے، ان کو اب اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے اور بیگانہ کرنے کا یہ ایک گھناؤنا کھیل جاری ہے۔ جس میں حصہ ڈالنے کے لیے خود کشمیر کے متعدد لیڈر ایک دوسرے پر بازی لے جا رہے ہیں۔