اللہ کی زمین پر، اللہ کے بندوں کو، اللہ کی بتائی ہوئی راہ پر چلانے والے انسان خوش نصیب ہوتے ہیں۔ لکھنے اور سنانے والے تو ہزاروں ہیں، مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے والے تھوڑے ہیں۔ ایسے ہی کم یاب لوگوں میں مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کا نام مدتوں یادوں کا عنوان بنارہے گا۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی ۹جولائی ۱۹۳۲ء کو ضلع اٹک (صوبہ پنجاب،پاکستان) کے قصبے ’پرملی‘ میں پیدا ہوئے اور ابھی چار سال کے تھے کہ ۱۹۳۶ء میں ان کے والد گرامی شیخ الحدیث مولانا عبدالقدیم (م:۱۹۸۹ء) اپنے بچوں سمیت بریلی (یوپی) منتقل ہوگئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مظاہرالعلوم سہارن پور سے حاصل کی، پھر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں چار برس تک زیرتعلیم رہے،جہاں مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم (۱۹۰۱ء-۱۹۵۸ء) کی شاگردی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ اختر احسن وہی ہیں، جن کے بارے میں مولانامودودی نے لکھا ہے: ’’مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب فی الواقع اس زمانے کے اولیاء اللہ میں سے تھے‘‘۔
محمد یوسف صاحب ۱۹۵۱ءمیں مولانا مودودی کی تحریروں سے آشنا ہوئے۔ اصلاحی صاحب، جماعت اسلامی سے متعارف ہونے کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: ’’میں نے گیارہ سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کیا۔ ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد میرے والدمحترم چاہتے تھے کہ میں صرف علم دین حاصل کروں۔ ہمارے محلّے میں ایک صاحب پیشے کے اعتبار سے درزی تھے۔ وہ آتے جاتے مجھے کوئی نہ کوئی کتاب مطالعے کے لیے دے دیا کرتے تھے، لیکن میں ان کی دی ہوئی کتاب کبھی پڑھتا نہیں تھا، اور کتاب لاکر الماری میں رکھ دیا کرتا تھا۔ چندروز بعد وہ مجھ سے کتاب کے بارے پوچھتے تو کتاب لاکر واپس کر دیتا، اور وہ ایک دوسری کتاب دے دیتے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ ایک دن نہ جانے کس موڈ میں، میں نے ان کی دی ہوئی ایک کتاب اُٹھائی اور پڑھ ڈالی۔ اس کتاب نے تو میرے خیالات میں ایک انقلاب برپا کر دیا،اور اندر کی دنیا تہ و بالا کرڈالی۔ اس کتاب کا نام تنقیحات تھا، اور مصنف کا نام سیّدابوالاعلیٰ مودودی تھا‘‘۔
۱۹۵۴ء میں جماعت اسلامی ہند کے رکن بن گئے اور ۱۹۵۹ء سے رام پور کو اپنا مستقل مستقر بنا لیا۔ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے طویل عرصے تک رکن رہے۔ مولانا ابوسلیم عبدالحئی (م: ۱۶ جولائی ۱۹۸۷ء) نے رام پور (اترپردیش) میں جامعہ الصالحات کے نام سے طالبات کی ایک بہترین دینی، اقامتی درس گاہ قائم کی۔ ان کے انتقال کے بعد توسّل خان صاحب اور پھر آخر دم تک محمد یوسف اصلاحی صاحب کی نگرانی میں یہ درس گاہ پورے ہند میں ایک مثالی درس گاہ کے طور پر اپنی پہچان رکھتی اور خدمات انجام دے رہی ہے۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب ۲۱دسمبر ۲۰۲۱ء کو انتقال فرماگئے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مولانا کے انتقال کو اسلام اور اسلامی تحریکات کے لیے بڑا نقصان قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سعادت اللہ حسینی کے بقول: ’’مولانا محمد یوسف مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نہایت مقبولِ عام کتابیں ہیں، جنھوں نے بلامبالغہ کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کی کتاب آدابِ زندگی نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اَن گنت مسلمان گھروں کی بک شیلف کا لازمی حصہ ہے۔ مائیں اپنی بچیوں کو شادیوں کے موقعے پر اس کتاب کا تحفہ اس اُمید کے ساتھ دیتی ہیں کہ اس کے مطالعے سے ان کی زندگیاں سلیقہ مند اور اسلامی آداب کی آئینہ دار ہوں گی۔ مولانا مرحوم کی کتابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہرطبقے میں مقبول ہیں۔ آسان، سادہ، لیکن دل کش زبان اور پُرکشش اسلوب میں بنیادی اسلامی تعلیمات کی ترسیل و ابلاغ کا جو ملکہ، اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو عطاکیا تھا، اس کی نظیر مشکل ہی سے نظر آتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر زاہد حسین بخاری (واشنگٹن) نے بتایا کہ ’’ایک روز مَیں نے مولانا اصلاحی صاحب سے کہا کہ آپ کی ہر تقریر کے تین حصے ہوتے ہیں، مگر موضوعات الگ الگ‘‘۔فرمایا: ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے کہا: ’’آپ کی تقریر کے پہلے حصے میں قرآن، حدیث اور سیرت پاکؐ کا لازمی حوالہ ہوتا ہے۔ دوسرے حصے میں آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا امریکا آنا، اللہ تعالیٰ کا ایک احسان اور ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ یہاں اسلام کے داعی اور اسلامیت کا نمونہ اورحُسنِ معاشرت کی بہترین مثال بنیں گے، تو آخرت میں کامیاب و کامران ہوں گے۔ اور تیسرے حصے میں آپ کسی نہ کسی حوالے سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا حوالہ ضرور دیتے ہیں‘‘۔
ایک تقریر میں دُنیا کی حقیقت اور فرد کی ذمہ داری مولانا اصلاحی صاحب نے ان لفظوں میں سمجھائی: ’’کویت کے محل پر ایک جملہ لکھا ہے: لَوْ دَامَتْ لِغَیرِکَ مَا وَصَلَتْ اِلَیْکَ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اگر یہ [دُنیا] کسی اور کے لیے دائمی ہوتی تو تم کو کبھی نہ ملتی‘‘۔ مراد یہ کہ اگر یہ محل تیرے پچھلوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ہوتا تو تجھے نہ ملتا، اور تجھے اس لیے ملا ہے کہ پچھلے رخصت ہوگئے۔ جب ان کے لیے ہمیشہ کے لیے نہیں تھا، تو تجھے بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ تیرے لیے بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے کہ تیرے بھی جانشین رخصت کا انتظار کر رہے ہیں۔بیٹا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ باپ رخصت ہو تو سارے کارخانے اور کاروبار کا مَیں مالک بن جائوں۔ پھر اس کا بیٹا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ یہ رخصت ہوجائے تو میں اس کا مالک بن جائوں۔ یہ دُنیا اسی طرح چل رہی ہے۔ ہمارے سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہماری زندگی کا زمانہ کیسا گزرا؟ کل ہم نہیں ہوں گے ، تو اللہ کرے ہمارا یہ زمانہ ایسے گزرے کہ لوگ کہیں: کچھ لوگ تھے کہ جنھوں نے نیکیاں پھیلائیں اور بھلائیاں پروان چڑھائیں اور وہ انھیں یاد کرکے دُعائیں دیں کہ اللہ ان کی عاقبت اچھی کرے‘‘۔
اکثر اوقات کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے: ’’جماعت اسلامی والو! تم خوش قسمت ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے، جس نے اپنی کتاب تمھارے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔ جب وہ ناراض ہوگا تو یہ کتاب [قرآن] تمھارے ہاتھوں سے لے لے گا‘‘۔ آپ نے اس ایک جملے سے اللہ کی نعمت کی قدر اور اللہ کے فضل سے محرومی و بربادی کا راستہ واضح کر دیا۔
مولانا یوسف اصلاحی دل کش بزرگی اور علم و فضل کی بلندی کے باوجود، ایک خوش گوار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی سنجیدگی میں وقار اور سماجی روابط میں دل بستگی تھی۔ لہجے میں نرمی کے باوجود، جملوں میں بلا کی قوت اور داخلی دنیا کو ہلادینے کی صلاحیت تھی۔ مجلس میں آپ شرکاء کی حوصلہ افزائی کرتے کہ سوال پوچھے جائیں اور اگر کسی چیز کے بارے میں معلومات کم ہوتیں تو بلاتکلف کہہ دیتے، ’’یہ بات معلوم نہیں لیکن معلومات حاصل کرکے بتادوں گا‘‘۔
مولانا اصلاحی کبھی کبھی اپنے وطنِ مالوف کا دورہ کیا کرتے تھے۔ آخری مرتبہ ۲۰۱۶ء میں آئے اور ایک ہفتہ لاہور میں، دوسرا ہفتہ اپنے گائوں (پرملی، حضرو) میں گزارا۔ قرب و جوار کے لوگ اُن کی زیارت و ملاقات کے لیے اُمڈ آئے۔ ہرنزدیکی گائوں اور قصبے سے مطالبہ تھا کہ مولانا آئیں اور خطاب کریں۔
آپ نے اپنے پیچھے علم دین اور بہترین انسانی زندگی گزارنے کے اسالیب اور اسباق کا ایک خزانہ چھوڑا ہے، جو مدتوں علم کے متلاشیوں کی تسکین کا باعث بنا رہے گا۔ انھوں نے جو کچھ لکھا، اُردو میں لکھا، اور کیا شان دار اُردو میں لکھا ،ایسی شاندارکہ پڑھتے ہوئے جس میں شیرینی کی سی حلاوت کا احساس ہوتا ہے۔
مولانا مودودیؒ ان کی تحریروں کے قدردان تھے۔ انھوں نے ۲؍اگست ۱۹۶۷ء کو اُن کے نام خط میں لکھا: ’’قرآنی تعلیمات کا سیٹ موصول ہوا۔ آپ نے یہ ایک بڑا مفید مجموعہ مرتب کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس خدمت کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور خلقِ خدا کو اس سے فائدہ پہنچائے‘‘۔پھر ۲۳جنوری ۱۹۷۸ء کو لکھا: ’’میں دُعا کرتا ہوں کہ آپ نے سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو مختصر کتاب [داعی اعظمؐ] لکھی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو‘‘۔ دل گواہی دیتا ہے کہ مولانا مودودی مرحوم کی یہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب نے اکتوبر۱۹۷۲ء میں رام پور سے ماہ نامہ ذکریٰ کا اجرا کیا، اور اسے اپریل ۲۰۰۴ء سے ماہ نامہ ذکریٰ جدید کے نام سے دہلی سے شائع کیا جارہا ہے۔ اس میں لکھنے والوں کی تربیت اور پڑھنے والوں کی رہنمائی کا وافر سامان موجود ہے۔ یہ پرچہ اس اعتبار سے بہت قیمتی ماخذ ہے کہ اس میں تسلسل سے لکھی جانے والی تحریریں اصلاحی صاحب کی کتب کا ذریعہ بنیں۔بہت سی تصانیف میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: l قرآنی تعلیمات lتفہیم الحدیث lداعی اعظمؐ lگلدستۂ حدیثlآدابِ زندگی lاسلامی توحید lفقہ اسلامی lآسان فقہ lشمع حرم lسچا دین lحُسنِ معاشرت lشعورِ حیات lخاندانی استحکام lروشن ستارے lمسائل کا اسلامی حل lحج اور اس کے مسائل وغیرہ۔