مرحوم ومغفور ڈاکٹر محمود احمد غازی کا نام اور شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ ایک عالمِ دین تھے اور محقّق اور مفکّر بھی۔ ماہنامہ تعمیر افکار نے غازی صاحب پر ۲۰۰۳ء میں ایک خصوصی اشاعت شائع کی تھی۔ پیشِ نظر جلد دوم میں بھی غازی صاحب کی متنّوع خدمات کا جائزہ شامل ہے۔ اس میں آپ کے محاضرات سمیت، تصانیف کا تعارف اور آپ کی خدمات کے مختلف پہلوئوں پر اہلِ علم کی نگارشات دی گئی ہیں۔ مختلف اداروں سے آپ کا جو تعلق رہا ،ان کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی نے سترہ برس کی عمر میں درسِ نظامی سے فارغ ہو کر مولانا عبدالجبار غازی کے مدرسۂ عربیہ ملّیہ ،راولپنڈی میں تدریس شروع کر دی تھی۔ ۱۹۶۹ء میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی سے بحیثیت محقّق منسلک ہو گئے ۔بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے قیام میں ان کی کاوشوں کا بھی دخل ہے ۔وہ اس کے سربراہ بھی رہے۔اسّی کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں قادیانی ،خود کو مسلمان ظاہر کرکے ،قادیانیت پھیلا رہے تھے ۔وہاں کے مسلمانوں نے سپریم کورٹ میں درخواست گزاری کہ انھیں غیر مسلم قرار دیا جائے۔ انھوں نے حکومت ِ پاکستان سے چند قدیم علوم کے علما اور جدید قوانین کے ماہر بھیجنے کی درخواست کی۔ حکومت نے جو وفد بھیجا، اس میں غازی صاحب بھی شامل تھے، جن کے دلائل سے عدالت کو فیصلہ کرنے میں بہت مدد ملی۔
غازی صاحب فیصل مسجد میں خطیب ،شریعہ اکیڈمی کے ناظم اعلیٰ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہے۔ بحیثیت وزیرمذہبی اُمور گراں قدر خدمات کے علاوہ انھوں نے وفاقی شرعی عدالت میں بطور جج بھی کام کیا۔ وہ نہایت ذہین اور ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔(رفیع الدین ہاشمی)
دُنیا بھر میں جدیدیت کی تیز لہر نے گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں کے دوران جس تہذیبی قلعے پر شدید ترین حملہ کیا ہے، اس قلعے کا نام ’خاندان‘ ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ عالمی سامراجیت کے زیراثر تعلیم، معاشرت، عائلی قوانین میں ریاستی مداخلتوں اور فکرونظر کی تبدیلی نے بڑی تیزی سے ، مسلم دُنیا کے خاندانی نظام کی بنیادوں کو بھی ہلاکر رکھ دیا ہے۔جس کے نتیجے میں عائلی یا خاندانی مسائل کا ایک طوفان ہے، جو مسلم معاشروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر عبدالحی ابڑو(سابق ڈائرکٹر جنرل، شریعہ اکیڈمی) نے ایک محقق اور استاد کی حیثیت سے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں طویل عرصے تک خدمات انجام دی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے اسلام کے خاندانی نظام کے جملہ اُمور پورے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ عقدِنکاح، احکامِ مہر، احکامِ نفقہ،احکامِ طلاق، عدالتی تفریق، احکامِ خلع، احکام نسب و حضانت اور احکامِ عدت کی مناسبت سے پیش آمدہ مسائل کی کیفیت اور اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کے تحت رہنمائی، نہایت عام فہم انداز سے پیش فرمائی ہے۔
اس موضوع پر متعدد کتب اُردو میں موجود ہیں، لیکن یہ کتاب ان سب کی جامع ہے۔ علما، اساتذہ اور بالخصوص وکلا کو زیرمطالعہ لانا چاہیے۔(س م خ)
زوال وانحطاط نے ہماری زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح تعلیم وتعلّم اور تحقیق وتدوین کو بھی متأثّر کیا ہے، چنانچہ قریبی زمانے میں لکھے جانے والے جامعات کے تحقیقی مقالے سرسری پن کی وجہ سے مطلوبہ معیار سے بہت فروتر ہیں۔ کبھی کبھار کوئی اِستثنائی نمونہ نظر سے گزرتا ہے۔ زیر نظر مقالہ فی الواقع تحقیق کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اس مقالے پر ۲۰۰۷ء میں پنجاب یونی ورسٹی نے محموداحمد کاوش کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی تھی۔
مشفق خواجہ بنیادی طور پر محقق تھے۔ ان کے جملہ قلمی آثار میں، حتیٰ کہ طنزومزاحیہ تحریروں میں بھی تحقیقی رنگ موجود ہے، لیکن ان کی کثیرالجہات شخصیت کا اظہار ان کی شاعری، ان کے کالموں، ہزارہا خطوط اور تراجم میں ملتا ہے۔ وہ ادبی مجلات کے ایڈیٹر بھی رہے۔کاوش صاحب کی زیرنظر کاوش میں مشفق خواجہ کی مختلف حیثیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ تحقیقی اور تدوینی خدمات میں ان کی ۱۳ کتابوں، ایک ہزار سے زائد خطوط اور متفرقات (دیباچہ ،تبصرہ،خاکہ،ترجمہ، ادارت) کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ آخری باب میں خواجہ صاحب کے ادبی مقام ومرتبے کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقالہ نگار لکھتے ہیں:’’ مشفق خواجہ ایک ایسے ادیب تھے جن کی ذات میں بیک وقت تخلیق اور تحقیق دونوں کی اعلیٰ پائے کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ تحقیق کی سنگلاخ وادیوں میں گھومتے گھومتے جب وہ تھک جاتے تو تھوڑی دیر کے لیے تبدیلیِ آب وہوا کے لیے تخلیق کی وادیِ گل رنگ میں آنکلتے۔ ‘‘ چنانچہ کاوش صاحب نے بجا طو ر پر انھیں ’خواجۂ تخلیق وتحقیق ‘ قرار دیا ہے۔
ہماری آج کے تحقیق کا ر چاہیں تو اس مقالے کو راہ نما بنا سکتے ہیں۔ اشاعتی معیار اطمینان بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی )
مسلم دُنیا میں، اسلامی بنکاری کے نام پر خدمت بھی کی جارہی ہے اور ایک کھیل بھی کھیلا جارہا ہے۔ جناب اشتیاق احمد فاروق نے اس بڑے اور پھیلے ہوئے موضوع پر، پاکستان میں ہونے والی پیش رفت کواختصار اور گہرائی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ انھوں نے پاکستان میں ریاستی سطح اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں مسئلے کو دیکھا ہے اور بتایا ہے کہ درست طرزِ عمل کون سا ہے، جس سے اسلامی بنکاری کو تشکیل دیا جانا چاہیے۔(س م خ)
کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اوّل میں پانچ مضامین ہیں، ایک بانی ِجماعت سیّدمودودی پر، اور چار امرائے جماعت (میاں طفیل محمد،قاضی حسین احمد، سیّد منور حسن ، سراج الحق) پر۔ حصہ دوم میں جماعت اسلامی کی تنظیم، قیادت، دستور، شورائی نظام، مالیاتی نظام، تربیتی پروگرام، کارکنانِ جماعت کے اوصاف اور تفہیم القرآن کا تعارف کرایا گیا ہے۔ حصہ سوم میں ایسی تحریریں اور مصنف کے کالم یکجا ہیں، جن سے جماعت اسلامی کی عملی سرگرمیاں، اتحادی سیاست، سندھ میں جماعت اسلامی، کرپشن کے خلاف جماعت کی مہم اور جماعت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا پتا چلتا ہے۔
میرافسر امان ایک سینئر کالم نگار، دانش ور، تجزیہ نگار ہیں۔ انھوں نے جماعت اسلامی کی دعوت پھیلانے کے لیے اسلام آبادمیں قلم کارواں اور ’اقبال، قائد اور سیّد مودودی فکری فورم‘ بنا رکھا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
پروفیسر محمد اسلم (سابق صدر شعبۂ تاریخ، پنجاب یونی ورسٹی لاہور) نے ایک زمانے میں (بشمول خفتگانِ خاکِ لاہور اور خفتگانِ کراچی) وفیات کے سلسلے میں کئی کتابیں شائع کیں۔ ڈاکٹر محمدمنیر سلیچ نے بھی سلسلۂ وفیات میں متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔ اسی انداز میں یہ کتاب تیار کی ہے، جس میں ضلع گوجرانوالا میںمدفون اور ضلع گوجرانوالا کے مشاہیر مگر ضلع گوجرانوالا سے باہر مدفون مرد و زن کے مختصر حالات اور بہت سوں کی قبروں کے کتبے نقل کیے ہیں۔ مؤلف کی زیرنظر کتاب سے مستقبل کے مرتبّینِ تاریخ گوجرانوالا کو بہت سہولت ملے گی۔(رفیع الدین ہاشمی)
آنکھوں میں نمی رکھنا ،ڈاکٹر محمد اورنگ زیب رہبر۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰- ۳۶۸۰۹۲۰۱- ۰۲۱۔ صفحات:۱۳۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [رہبر بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں مگر مجموعے میں خاصی مقدار میں نظمیں (شیخ احمد یاسین شہید، صاحبِ تفہیم مودودی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، الحرا اسکول کے لیے، میری جمعیت، اہلِ کشمیر کا عزم، سیّد منور حسن، عنایت علی خاں، کراچی خوب صورت ہے) شامل ہیں۔ دو حمدیں، چار نعتیں اور چند متفرق اشعار بھی۔ شاعر کی اسلام دوستی ایک ایک شعر سے عیاں ہے۔]