یہ بات واضح ہے کہ مستشرقین کی دونوں طرح کی تحریریں مسلم معاشرے کے حق میں بُری ثابت ہوئیں، کیونکہ انھوں نے اُمہ کے ذہن میں محرومی کا احساس بھر دیا۔ خواہ وہ مدح سرائی یا قصیدہ خوانی کی شکل ہی میں ہو۔ اس چیز نے موجودہ حقائق پر غوروفکر سے ہٹاکر، ہمیں شان دار ماضی کی خیالی جنّت میں پہنچا دیا۔ ہم پر اس طرح نکتہ چینی کی گئی اور ہمیں یوں بے قیمت ثابت کیا گیا کہ ہم موحدین کے بعد کے زوال پذیر معاشرے کے محافظ تصور کیے جانے لگیں۔ اس صورت میں ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اسلامی نقطۂ نظر کے تحت مستشرقین کی تحریروں کو علم و عقل کی کسوٹی پہ پر کھیں اور اسلامی حقیقت کو واضح کریں۔ اس لیے کہ اسلامی حقیقت کی وضاحت یا دفاع کا حق اور ذمہ داری مسلمانوں پر ہی ہے۔
اگر اس استشراق کا کوئی مثبت پہلو ہے، تو وہ اسلامی فکر کی قصیدہ خوانی نہیں بلکہ اس پر ٹھوس تنقید کی صورت میں ہے۔ اس لیے کہ جب استشراق کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جائے گا کہ ’’عربوں نے سائنسی علوم میں کوئی حصہ نہیں لیا‘‘ تو ہوسکتا ہے، اس کی تلافی سطحی علمیت سے کی جائے جیساکہ طنطاوی جوہری نے تفسیر میں کیا ہے۔ لیکن مثبت اور ٹھوس تنقید کے نتیجے میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسلام کے مخالفین شدت پسندی اور حقیقت سے انکار کی بنا پر، اسلام اور سائنس کا مسئلہ ایک نئی شکل میں پیش کیا جائے، جو دین کے بلندمقام اور سائنس کی منطق سے زیادہ قریب ہو۔ قرآنی آیات میں کوئی خلا کو ڈھونڈنے یا ایٹمی توانائی کے تجزیے کا مفہوم تلاش کرنے کے بجاے، ہمارے سامنے اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ کیا قرآنی آیات کی روح سائنسی عمل کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے یا اس کی ہمت افزائی کرکے اسے ترقی دیتی ہے؟
یہ سوال بھی توجہ چاہتا ہے کہ کیا قرآن کسی معاشرے میں سائنسی ترقی کے لیے سازگار فضا قائم کرسکتا ہے؟ اور کیاوہ سائنسی علوم کو قبول کرنے اور انھیں دوسروں تک پہنچانے کے لیے لازمی ذہنی صلاحیتیں بیدار کرسکتا ہے؟
اس ضمن میں ہمیں نفسیاتی اور سماجی پہلو سے مسئلے کو پیش کرنا چاہیے، نہ کہ سائنسی علوم کی ترقی کے پہلو سے ۔اگر ہم اسلامی فکر کو اس پہلو سے صحیح ثابت کرسکیں تو اس کے کھاتے میں ان دو انکشافات کو درج کرسکتے ہیں، جن کے بغیر بیسویں صدی کی سائنسی ترقیات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آج نیوکلیائی سائنس کے باب میں جو حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے، کیا طبیعیات کے ماہرین اسے ریاضی کے قواعد اور الیکٹرانک کیلکولیٹر کے بغیر حاصل کرسکتے تھے؟ اور کیا یہ آلات اعشاری نظام کے بغیر اپنا عمل جاری رکھ سکتے تھے، جس کے ذریعے ہم مثلاً ایووگیڈرو نمبر{ FR 645 } کے صرف پانچ یا زیادہ صحیح یہ کہ سات نمبروں کو لکھ سکتے ہیں؟ کیا ریاضی کا یہ حیرت انگیز نظام اس ذہنی فضا کا ثمر نہیں ہے، جو اسلامی معاشرے میں قرآنی تعلیمات نے قائم کی تھی؟
یہاں ہم ریاضیات کی ترقی میں ’الجبرا‘ کے کردار پر بھی سوال اُٹھائیں گے، جس نے مادی اعداد کے علم کو خالص رُموز و علامات کا علم بنادیا۔ ’الجبرا‘ کا لفظ ہی اس کے عرب ماخذ کی نشان دہی کے لیے کافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی عقل، اسلامی دانش کی اس معنی میں احسان مند ہے کہ اس نے ایک ایسا ذریعہ دیا، جس کے بغیر انسانیت ریاضیاتی سائنس کے میدان میں ترقی نہیں کرسکتی تھی۔ ہمیں اس کی فکر نہیں کہ فرید وجدی کی طرح مستشرقین کے کاسہ لیس شاگردوں نے بغیر کسی دلیل و ثبوت کے ’الجبرا‘ کو یونانی فلسفی دیوفانتوس کی طرف منسوب کر دیا، بلکہ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ’الجبرا‘ کا علم اس ذہنی فضا میں پیدا ہوا تھا ،جو قرآن نے قائم کی تھی۔ لیکن یہ بھی ایک بے معنی اور طفلانہ حرکت ہوگی کہ سائنسی علوم کی ترقی کی نشان دہی کرتے ہوئے ہم اعشاری نظام اور ’الجبرا‘ کو قرآنی آیات سے مربوط کردیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں براہِ راست اعشاری نظام یا ’الجبرا‘ کا ذکر نہیں ہے، لیکن قرآن نے ایک ایسی نئی ذہنی فضا ضرور قائم کر دی، جس میں سابقہ یونانی اور رومی دور کی طرح سائنسی علوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ سائنسی ترقی کو صرف سائنس کی کامیابیوں میں نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ اسے ان تمام ذہنی اور سماجی حالات کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے، جن سے ایک مخصوص ماحول تشکیل پاتا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہردور میں عقل کی دل چسپی کے مراکز ذہنی فضا کی تبدیلی کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔
ہم تاریخی اعتبار سے صنعت اور صنعت کاری کو ڈونیس بیبان کے انکشاف سے مربوط کرسکتے ہیں، جس نے آگ پر رکھی ہوئی کیتلی کے ڈھکن کو بھاپ سے اُوپر نیچے ہوتے دیکھ کر اتفاقیہ طور پر اسٹیم کی طاقت دریافت کرلی تھی۔
لیکن ہمیں یہاں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آگ کے انکشاف کے لمحے سے لے کر یہ اتفاق تمام انسانی نسلوں میں پیش آتا رہا تھا، لیکن بیبان کے دور تک کوئی شخص بھی بھاپ کی طاقت کا انکشاف نہ کرسکا۔ ایسا کیوں تھا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈونیس بیبان یا انگریز موجد واٹ اپنے تجربات اور جائزوں کو اس نئے ذہنی ماحول میں پروان چڑھا رہے تھے، جو یورپ میں دو صدی پہلے سے قائم تھا، جب ڈیکارٹ نے میتھڈ پر اپنی مشہور کتاب میں اس طرح پیش گوئی کی تھی:
ایسے علم کا حصول ممکن ہے جس کی زندگی میں نفع بخش طریقے سے تطبیق کی جاسکے۔ اس طرح درس گاہوں کو تصوراتی فلسفہ ترک کرکے ایسے فلسفے کی تعلیم دینا چاہیے، جو تطبیق کے قابل ہو۔ آگ، ہوا، اجرامِ فلکی، اور آسمانوں اور ہماری زمین کے اردگرد جو سیارے ہیں، ان سب کے بارے میں معلوم کرکے ہمیں یہ موقع فراہم کرے، کہ خود ان کے قانون کے تحت اسے اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرسکیں، تاکہ ہم فطرت کی قوتوں پر قابو پاکر انھیں زیراستعمال لاسکیں۔
یہ عبارت واضح طور پر ڈیکارٹ کے بعد آنے والے سائنس اور ٹکنالوجی کے انقلاب کی پیش گوئی اور اس راہ کی نشان دہی کر رہی ہے، جسے سودمند علمی حقیقت کی تلاش کے لیے یورپی فکر نے اختیار کیا۔ یہ ضروری تھا کہ اس راہ پر چل کر یورپی فکر کو اسٹیم کی طاقت ملتی، خواہ اس کا انکشاف کرنے والا ڈوینس بیبان ہوتا یا کوئی اور۔
اس طرح ڈیکارٹ کے اسلوب اور قاعدے (میتھڈالوجی) نے وسیع پیمانے پر وہ ذہنی ماحول تشکیل دیا، جس میں فائدے کی متلاشی عقلی توانائیاں پروان چڑھیں، جو نئی تہذیب کی علامت ہیں۔
٭سائنس کیا ہے؟ یہی وہ مقام ہے، جہاں ہم اسلام اور سائنس کے عمومی تعلق کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس لیے کہ مظاہرِ قدرت کی دنیا کے مقابلے میں ایک مسلمان قرآنی متن کے زیراثر اسلامی ذہن سے اپنے لیے جو راہ اختیار کرے گا، اور جس نئے عقلی ماحول میں یہ ذہن ترقی کرے گا، یہ سب درحقیقت مسئلے کے مختلف بنیادی پہلو ہیں۔
سائنس بذاتِ خود معلومات کا اور اسے حاصل کرنے کے طریقوں کے مجموعے کا نام ہے۔ لیکن اس تعریف میں جو ہم نے سائنسی ترقی کی تاریخ کے نقطۂ نظر سے کی ہے، کچھ اور اضافہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ سائنسی ترقی صرف اسی گوشے تک محدود نہیں ہے ، بلکہ اس کے لیے متعدد ذہنی اور سماجی شرائط لازم ہیں، جو منفی یا مثبت طریقے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس طرح کہ وہ یا تو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنیں گی یا اسے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کریں گی۔
اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ جب گلیلیو نے سورج کے گرد زمین کے گھومنے کا نظریہ پیش کیا، تو اسے کسی علمی مخالفت کا نہیں بلکہ مخصوص مذہبی عقائد کے اختلاف کا سامنا کرنا پڑا۔ گلیلیو کو کسی سائنسی اکیڈمی نے مجرم قرار نہیں دیا تھا، بلکہ ایک مذہبی عدالت نے عیسائی عقیدے کے تحفظ کے نام پر مجرم قرار دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ گلیلیو کو جبرو محرومی کے متعدد عوامل نے مجرم قرار دیا تھا جو اسے موت کی سزا سنانے والے اس معاشرے کی ذہنیت میں جمے ہوئے تھے۔
اس بات کی حقیقت اور مفہوم کو سمجھنے کے لیے ہمیں ڈیکارٹ سے پہلے کے اس یورپی معاشرے کو دیکھنا ہوگا، جس نے فلکیات کے ایک بڑے سائنس دان کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اس معاشرے میں [ستاروں کا علم رکھنے کا دعویٰ کرنے والے]نجومی کو ایک اہم ترین مشیر کا مقام حاصل تھا، جیسے تھوسٹراڈ موسی جو فرانس کے ایوانِ شاہی میں ملکۂ کاترینا کا مشیر خاص تھا۔
اس امر کی مزید وضاحت کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر یہ گلیلیو،ایک مسلممعاشرے میں زندگی گزار رہا ہوتا (باوجودیکہ اس دور میں مسلم تہذیب رُوبہ زوال تھی) تو اسے ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا، جو اس کی علمی تحقیق کی راہ میں رکاوٹ بنے اور نتیجے کے طور پر اسے اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تیسری صدی ہجری کے اوائل میں اس دور کے ایک بڑے ملحد اسحاق ابن الراوندی [م:۹۱۱ء] نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کہا تھا:
لَقَدْ تحجر عَرِیْضًا اِبْنِ اَبِیْ کِبْشَۃَ حِیْنَ ادّٰعِی اَنَّہٗ خَاتَمَ الْاَنْبِیَآء (ابن ابی کبشہ نے کس ہٹ دھرمی سے آخری نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے)
سب کو معلوم ہے کہ یہاں ’ابن ابی کبشہ‘ سے کون مراد ہے؟ اسلام کی عظیم ترین ہستی کی شان میں گستاخی کے باوجود ابن الراوندی پر مقدمہ چلانے اور اسے مجرم قرار دینے کے لیے کوئی مذہبی عدالت نہیں لگائی گئی، تاہم اسے اپنی گستاخی کا نتیجہ خود بھگتنا تھا۔ اس نے مکہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں خودکشی کرلی۔
اسی طرح قرآن کے بارے میں اندلس کے ایک یہودی کی دریدہ دہنی کے خلاف ابن حزم نے بڑا مؤثر جواب دیا تھا، جو رسالۃ ابن التجریلۃ کے نام سے مشہور ہے۔ ایسے سخت رو واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نئے ذہنی ماحول میں، جب اسلامی معاشرہ دنیا کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ اور مثالی معاشرہ تھا، فکروخیال کی آزادی کو زبردستی ختم نہیں کیا جاتا تھا۔
اسلامی تاریخ میں فکری جبر کی مثالیں شاذونادر ہی ملیں گی، جیسے مامون الرشید کے دور میں ’خلق قرآن‘ کا مسئلہ سامنے آیا تھا۔ ان حالات میں بھی بعض اُمور سامنے آتے ہیں،جو فکری جبر کی شدت کے عوامل کو ممکن حد تک کم کردیتے تھے۔یہ اُمور اسلامی ضمیر میں قرآنی تعلیمات کے زیراثر جاگزیں تھے۔ آیئے دیکھیں کہ نزولِ وحی کے بعد سے کیسا ذہنی ماحول تشکیل پارہا تھا؟
٭ نزولِ وحی کے بعد کا ذہنی ماحول: عہد نامہ قدیم میں باب ’پیدایش‘ کی ابتدا کائنات کے مادی مظاہر سے ہوتی ہے۔ انجیل یوحنا کے عہدنامہ جدید کی ابتدا تجسیم کے عمل سے ہوتی ہے، جب کہ قرآن کی ابتدا ذہنی پہلو لیے ہوئے ہوتی ہے: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ ، ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے‘‘۔ اِقْرَاْ …یہ پہلا لفظ ہے جو پہلے اسلامی ضمیر، یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمیر پر وارد ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہرمسلمان کے ضمیر پر اپنے لیے جگہ بناتا چلا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ الفاظ ہی ’روح‘ اور پیغام و بیان کا وسیلۂ اظہار ہیں۔ وہ ہرمعرفت کے حامل اور علامت ہوتے ہیں۔ نزولِ قرآن کا اوّلین لمحہ اِقْرَاْ کی شکل میں الفاظ کی اہمیت کی نشان دہی، ان کے موضوع کا خصوصی تذکرہ اور اسلامی ضمیر میں ان کی قدروقیمت کو ثبت کردیتا ہے۔
لفظ، ’روح‘ کو منتقل کرنا اور اس کے پیغام کو پہنچانا ہے اور اس کے ساتھ اسے ضائع ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ لفظ سب سے پہلے خود قرآن کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس کا چودہ سو سال سے ایک حرف بھی نہیں بدلا جاسکا۔ اس کے برعکس دورِ قدیم سے دورِ جدید تک کی تمام کتابیں ہیں کہ جن کی تاریخی صداقت کو جدید تنقید ، علمی توثیق کے بغیر صرف علامتی حیثیت میں قبول کرتی ہے۔
یہ خصوصیت اس جدید فکر کا پہلا علمی نتیجہ تھی، جو قرآنی فضا میں پروان چڑھی۔ اس ماحول کا آغاز ٹھیک اس وقت ہوا، جب سیّدنا عثمانؓ کے زمانے میں نوخیز اسلامی معاشرے نے قرآنی آیات کو جمع کیا، تاکہ انھیں ضائع ہونے سے بچایا جاسکے اور ان کا اس طرح احاطہ کیا جاسکے کہ کسی قسم کی تبدیلی کی گنجایش باقی نہ رہے۔ سیّدنا زید بن ثابتؓ کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے یہ کام انجام دیا تھا۔ درحقیقت منہج (میتھڈ) کے مطابق یہ پہلا علمی کام تھا۔ زیربحث موضوع میں اس کی تفصیلات کا تذکرہ ممکن نہیں، لیکن تدوین قرآن میں جس محنت، احتیاط اور متن کی صحت سے کام لیا گیا ہے، اسے جدید تنقید کی نظر میں قابلِ ستایش ہونا چاہیے۔
درحقیقت یہ فکر ِاسلامی کا ہی نہیں بلکہ اس انسانی فکر کا پہلا علمی کارنامہ تھا، جس نے قابلِ تقلید مثالی شخصیت کے سامنے بے چون و چرا سر جھکا کر اپنی طویل تاریخ میں بارہا ٹھوکریں کھائی ہیں، بلکہ اس جدید دور میں بھی بسااوقات انسانی فکر کے قدم ڈگمگائے ہیں۔ اس سلسلے میں سوویت یونین [اشتراکی روسی سلطنت]کی مثال دی جاسکتی ہے، جہاں بائیولوجی جدید سائنسی قافلہ سے ۳۰سال پیچھے رہ گئی کیونکہ لیسنکو نے خود کو قابلِ مثال نمونہ سمجھ لیا تھا۔
تمام انسانی معاشروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انھیں اپنی ذہنی عمر کی ترقی کے مختلف مراحل میں اس طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانیت اپنی ذہنی ترقی کے عمل میں عمر کے بالعموم تین مراحل سے گزرتی ہے:
عمر کے پہلے دور (ایامِ طوفُولت) میں وہ اپنے فیصلے ’عالم الاشیاء‘ (مادی اشیا کی دنیا) کے معیار کے مطابق کرتی ہے۔ اس طرح کہ اس کا معمولی سا فیصلہ بھی ابتدائی ضرورت کے مطابق ہوگا۔
اپنی عمر کے دوسرے دور میں انسانیت کے اپنے فیصلے مثالی نمونے کے اصول و معیار کے مطابق ہوں گے، اور ان کا تعلق ’عالم الاشخاص‘ (اشخاص کی دنیا) سے ہوگا۔ اس مرحلے میں فکروخیال تجسیم سے دُور نہیں ہوتا۔ اس کی ساری قیمت اس ذات پر منحصر ہوتی ہے، جو ہماری نظروں میں فکروخیال کا مجسم نمونہ ہوتی ہے۔
اس کے بعد انسانیت بلوغ کے مرحلے، یعنی اپنی عمر کے تیسرے دور ’عالمِ الافکار‘ (افکار کی دنیا) میں داخل ہوتی ہے۔ اس وقت افکار کی بذاتِ خود ایک منفرد حیثیت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ’عالم الاشیاء‘ یا’عالم الاشخاص‘ میں سے کسی کی توثیق کی ضرورت نہیں رہتی۔
یہاں اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ انسان جب عقلی پختگی کی عمر کو پہنچ جاتا ہے، تو فکر اپنی قدروقیمت کی بقا کے لیے اشخاص یا اشیا کی محتاج نہیں رہتی۔ آگے آنے والی ایک قرآنی آیت اس صورتِ حال کو پوری طرح واضح کردے گی۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسلامی فکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بڑی حد تک مربوط تھی۔ جس معاشرے میں اسلام کی دعوت دی جارہی تھی، اس کی نظروں میں یہ فکر آپؐ کی ذات میں مجسم تھی۔ لیکن قرآنِ کریم چاہتا تھا کہ اس کی آیات اس قید سے آزاد ہوجائیں، تاکہ جدید معاشرہ بھی اس قسم کی تمام قیود سے آزاد ہوجائے، جو علم وفکر کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی:
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ۰ۭ (اٰل عمرٰن۳:۱۴۴)محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسولؐ ہیں، اُن سے پہلے اور رسولؐ بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل کردیے جائیں تو تم لوگ اُلٹے پاؤں پھرجاؤ گے؟
اس آیت کے نزول نے نوخیزمعاشرے کو مادی اشیا اور شیئیت (مادہ پرستی)کے دور سے نکال کر فکر کے دور میں پہنچا دیا۔
٭ علم کی حقیقت:ہم دیکھتے ہیں کہ نزول اِقْرَاْ کے بعد سے اس معاشرے کے نفسیاتی خدوخال میں تبدیلی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں ایک نیا ذہنی ماحول وجود میں آیا۔ اس کے ساتھ اس ماحول پر ایسے تجربات کیے جارہے تھے، تاکہ نوخیز اسلامی ضمیر میں اس کی شکل خوب واضح ہوجائے۔ قرآن سوال کرتا ہے:
ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۰ۭ (الزمر ۳۹:۹) کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟
مذکورہ آیت جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سوال کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، وہ درحقیقت اسلامی ضمیر میں علم کی قدروقیمت بٹھانے، اور نئے معاشرے میں جاہل کے مقابلے میں اہلِ علم کی فوقیت کا اعلان تھا۔
اگر چند لفظوں میں علم کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ’’ ہرمیدان میں حقیقت کی تلاش کا نام علم ہے ، خواہ وہ اخلاق، قانون اور سماجیات ہوں یا طب و طبیعیات وغیرہ‘‘۔ البتہ اس تلاش کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں اور وہ تلاش بے راہ بھی ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم کسی وہم کو حقیقت سمجھ لیں اور خیالات کے جنگل میں بھٹک جائیں۔ بسااوقات خیالات غلط بھی ہوتے ہیں۔ علم کو ایسے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، جن میں عقل شک و یقین کی کیفیت میں مبتلا ہو۔ اسے ان حالات کے مقابلے کے لیے عقل کو تربیت دینا چاہیے۔
قرآن نے اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا، بلکہ وہ اشارے کنائے میں اس طرف توجہ مبذول کراتا ہے، مثلاً وہ ’حقیقت‘ اور ’وہم‘ کا فرق یہودیوں کی بدعنوانی اور گمراہی کے واقعات سنا کر واضح کرتا ہے:
وَمِنْھُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِىَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ۷۸ (البقرہ ۲:۷۸) ان میں ایک دوسرا گروہ اُمّیوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں۔ بس اپنی بے بنیاد اُمیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔
یہاں نفس کا میلان، شک و شبہہ اور محض امکانات بے یقینی کی مختلف کیفیتیں ہیں، جنھیں ہم ایک ’روشن حقیقت‘ کے بالمقابل نہیں رکھ سکتے کہ جو ذہنی یقین کی واضح ترین شکل کی نشان دہی کرتی ہے۔ پھر دوسری قرآنی آیات میں اس روش کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو زیربحث موضوع کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیے بغیر ان مسائل پر بحث کرے، جن کا اسے کوئی علم نہیں ہے:
ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ حَاجَجْتُمْ فِـيْمَا لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْـمَا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳:۶۶) تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو اُن میں تو خوب بحثیں کرچکے، اب اُن معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں۔
یہ قرآنی آیات، اسلامی فکر کو علم کی راہ پر گامزن کرتی ہیں اور حصولِ علم کے لیے اسے بہتر طریق کار کی ہدایات دیتی ہیں۔ اس اعتبار سے قرآن کے نظام تعلیم و تربیت کا تفصیلی مطالعہ ضروری ہے۔ تاہم، قرآنی تصور کو حدیث نے عملی طور پر ان احکام کی شکل میں پیش کیا ہے جن کا تعلق براہِ راست مسلمان کی روزمرہ زندگی سے ہے: ’’علم کا حصول ہرمسلمان پر فرض ہے‘‘۔ ایسی احادیث، عملی طور پر ان ذہنی بنیادوں کو مزید مستحکم کرتی ہیں، جو فکر ِ اسلامی میں قرآن کے زیراثر قائم ہوئی تھیں، تاکہ یہ اسلامی فکر اپنے علمی، سیاسی اور معاشرتی کردار کو بہتر طریقے پر انجام دے سکے۔
قرآن کے جس نظامِ تربیت نے نئے معاشرے کو عقلی ذمہ داریوں کے لیے تیار کیا تھا، اس کے اثرات فرد کے طریق عمل اور زندگی کے معمول کے مطابق تجربات میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عمر بن الخطابؓ ایک دن مدینہ کی کسی گلی سے گزرتے ہوئے والہانہ جذبے سے قرآن پڑھتے جارہے تھے۔ اور جب وہ ان آیات پر پہنچے:
اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا۲۵ۙ ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا۲۶ۙ فَاَنْۢبَتْنَا فِيْہَا حَبًّا۲۷ۙ وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا۲۸ۙ وَّزَيْتُوْنًا وَّنَخْلًا۲۹ۙ وَّحَدَاۗىِٕقَ غُلْبًا۳۰ۙ وَّفَاكِہَۃً وَّاَ بًّـا۳۱ۙ (عبس ۸۰: ۲۵- ۳۱) ہم نے اُوپر سے پانی برسایا، پھر زمین کو پھاڑا، پھر ہم نے اس میں غلہ، انگور، ترکاری، زیتون، کھجور، گنجان باغ اور میوے اور چارہ پیدا کیا۔
حضرت عمرؓ نے ’اَ بًّـا‘ کے لفظ پر توقف کرتے ہوئے محسوس کیا کہ انھیں اس لفظ کے معنی معلوم نہیں ہیں۔ اب آیئے دیکھیں کہ حضرت عمرؓ اس مشکل کو کیسے حل کرتے ہیں؟ حضرت عمرؓ لغت کے عالم نہیں ہیں۔ اس وقت تک یہ علم وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس کو کتاب العین کے مؤلف الخلیل بن احمد الفراھیدی نے رائج کیا، جنھیں آج کی اصطلاح میں ’ماہر لسانیات‘ کہنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ مفسر بھی نہیں تھے۔ وہ تو صرف عام انسان تھے، ایک ایسا عملی انسان، جو اپنے دائرۂ کار سے باہر کے اُمور میں دخل دینا پسند نہیں کرتا۔اور وہ اس آیت کو پیش نظر رکھتے ہیں:
فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْمَا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ۰ۭ (الِ عمرٰن ۳:۶۶) اُن معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اس لفظ پر چند لمحے توقف کیا، کہ ایک لفظ کے معنی کی ناواقفیت مومن کے ضمیر کے لیے آیت کے مفہوم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ حضرت عمرؓ کے نزدیک اس وقت مسئلے کا تعلق علم کے دائرے سے نہیں بلکہ طریقِ عمل سے تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے خود اپنی سرزنش کرکے اس مسئلے کو حل کرلیا۔ انھوں نے کہا: ’’عمر کا اَ بًّـا سے کیا تعلق؟ اَ بًّـا سے ناواقفیت ہے تو کیا ہوا؟عمر ! یہ اپنے آپ کو خواہ مخواہ مشقت میں ڈالنا ہے‘‘۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ اپنے معاملات کی طرف متوجہ ہوگئے، جہاں بڑی بڑی ذمہ داریاں ان کی منتظر تھیں۔
اسی طرح ایک بار حضرت عمرؓ نے عورت کے مہر کی حد مقرر کرنا چاہی، اس لیے کہ ان کے خیال میں وہ مناسب مقدار سے زیادہ وصول کیا جارہا تھا۔ لیکن اس وقت ایک عورت نے یہ کہتے ہوئے ان کی مخالفت کی: ’’اے عمرؓ! اللہ نے آپ کو اس کا حق نہیں دیا‘‘ اور پھر اس عورت نے یہ آیت پڑھی:
وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ ۰ۙ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَـيْـــًٔـا۰ۭ اَتَاْخُذُوْنَہٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا۲۰(النساء۴:۲۰) اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو، تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اُس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔ کیا تم اسے بہتان لگاکر اور صریح ظلم کرکے واپس لوگے؟
حضرت عمرؓ خاموش ہوگئے اور پھر کہا:’’اے عمر، سب لوگ تم سے زیادہ ذی علم ہیں، یہاں تک کہ یہ بوڑھی عورت بھی‘‘۔ اور اس طرح حضرت عمرؓ نے اپنی راے سے رجوع کرلیا۔
ان دونوں حالتوں میں تجربات کے سامنے عقل کا موقف واضح ہوجاتا ہے۔ پہلی حالت میں نئے ماحول کے زیراثر عقل ظاہری قیدوبند، یعنی الفاظ کی بالادستی سے آزاد ہوجاتی ہے، جو علم کی ترقی کی راہ میں اکثر رکاوٹ بنتی ہے۔اور دوسری حالت میں حضرت عمرؓ ہٹ دھرمی سے باز رہتے ہیں، جو حقیقت کی اَزلی دشمن اور اس کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں متعدد ایسی مثالیں ملیں گی، جو قرآن کے زیراثر نئے تشکیل شدہ عقلی ماحول کی نشان دہی کرتی ہیں، مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہروان کے معرکے کے دوران نجومی کی راے کی پروا کیے بغیر، اس کے بتائے ہوئے مقررہ وقت کے بجاے قصداً کسی دوسرے وقت جنگ شروع کرتے ہیں اور دشمن پر غالب رہتے ہیں۔ پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: ’’اگر ہم نجومی کے بتائے ہوئے وقت پر جنگ شروع کرتے، تو وہ کہتا کہ ہمیں ستاروں کی چال کی بدولت فتح نصیب ہوئی ہے‘‘۔
لیکن دوسرے موقعے پر یہی حضرت علیؓ، زیاد بن النظر کو پرچم دے کر کہتے ہیں: ’’تمھیں مجاہدین کی قیادت کرنا ہے۔ ان کے اہلِ علم کے مشورے سے فائدہ اُٹھاؤ اور ان کے جاہلوں کو تعلیم دو‘‘۔
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی فکر اس نئے ماحول میں فرد کے لیے ایک زینہ تیار کرتی ہے، جس کے ذریعے وہ بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔ وہ کم علم کو سکھاتا ہے اور ذی علم سے سیکھتا ہے۔ اس طرح علم و معرفت کی یہ برقی رو دونوں رُخ پر دوڑنے لگے گی۔ بسااوقات یہ رو نیچے سے اُوپر آتی ہے، مثلاً مہر کی حد مقرر کیے جانے کے موقعے پر حضرت عمرؓ کے خلاف عورت کا اعتراض۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی زینے کی بدولت فکر ِ اسلامی دورِ جاہلیت کی شیئیت (مادیت) سے نکل کر ان بلندیوں تک پہنچی، جہاں سے اس نے تاریک دنیا کو علم کی روشنی سے منور کردیا۔
آج مستشرقین کی تحریروں میں جب ہم ان بلندیوں کی جھلک دیکھتے ہیں، تو ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور ہم خیال کی وادیوں میں کھو جاتے ہیں۔ لیکن یہی مستشرقین اگر مسلمانوں کے ان علمی کارناموں کا انکار کرتے ہیں، تو ہم احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ دونوں ہی حالتوں میں مستشرقین کی یہ تحریریں ہمارے ذہنوں میں دوطرفہ محرومی کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ اس مخمصے سے ہم اسی حالت میں نجات حاصل کرسکتے ہیں، جب ہم قرآن کے تیارکردہ اس زینے کو دیکھیں، جسے طے کرکے انسانی فکر ان علمی کارناموں کی بلندیوں تک پہنچی ہے، جنھیں آج ٹکنالوجی کی ترقی کا بامِ عروج سمجھا جاتا ہے، مثلاً ریاضی کا اعشاری نظام، الجبرا، کیمیا، بائیولوجی کے متعدد اصول،طبیعیات اور فلکیات۔
جب ہم علم کے اس زینے پر نظر ڈالیں، تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر اسلامی معاشرہ چاہے تو یہ علمی زینہ اس وقت بھی اس کے قبضے میں بلکہ اس کے قدموں میں آسکتا ہے۔ ہمیں صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسلامی فکر کی جانب سے انسانیت کے علمی سرمایے میں اضافے کا مسئلہ صرف ان کارناموں پر منحصر نہیں ہے، جنھیں ایک مستشرق اپنی مرضی سے ثابت کرے یا ان کا انکار کرے، بلکہ اِقْرَاْ کے نزول کے بعد سے قرآنی مفہوم کے زیراثر عقلی فضا اور عقلی ڈھانچے میں جو بنیادی تبدیلی رُونما ہوئی، وہ اس کا حقیقی معیار ہے۔
اس جائزے کی روشنی میں مستشرقین کی تحریروں کے بارے میں اپنے موقف کے تعین کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اوّلاً ہم مستشرقین کی تحریروں کی علمی قیمت سے انکار نہیں کرسکتے بلکہ بسااوقات وہ قابلِ ستایش ہوتی ہیں، جیسے سیڈیو، گوسٹاف لوبون اور آسین پلاتھیوس کی تحریریں جو علمی لحاظ سے قابلِ احترام سمجھی جاتی ہیں ، اور اخلاقی پہلو کی حامل ہیں۔
٭ بنیادی پہلو: بیسویں صدی کا تمام فکری کام جو تاثیر اور فعالیت کے اعتبار سے اعلیٰ معیار کا قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا ایک عملی پہلو بھی ہے، جس سے سیاست اور منفعت پسندی کے میدان میں ناجائز فائدہ بھی اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اعلیٰ اور گھٹیا دونوں قسم کی کتابیں پریس سے باہر آتی ہیں۔ بسااوقات ان کے مصنّفین کی لاعلمی میں، ان ماہرین کے ہاتھوں تک پہنچ جاتی ہیں جو انھیں فکری کش مکش کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ہنگامہ آرائی، اخلاقی بے راہ روی اور صرف توجہ ہٹانے اور بہلانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اس قسم کی کتابیں جب یورپ کے کسی شہر سے شائع ہوتی ہیں، تو اسی وقت کسی عرب دارالحکومت سے اس کا عربی ایڈیشن بھی شائع ہوجاتا ہے۔
اس مطابقت پر ان ملکوں میں بھی توجہ نہیں دی جاتی، جو فکری کش مکش کے ناپسندیدہ اثرات سے دوچار ہیں۔ ان ملکوں کو یہ تک خبر نہیں کہ اس فکری کش مکش کے ذرائع اور مقاصد کیا ہیں؟ بلکہ وہ اس کے مفہوم سے بھی ناآشنا ہیں، گویا ان کے نزدیک ’فکری کش مکش‘ محض ایک بے معنی لفظ ہو۔
آیئے کسی ’روشن خیال‘ شخص سے پوچھیں وہ مبہم اور غیرواضح جواب دے گا، ’’فکری کش مکش؟ غالباً آپ فلسفۂ وجودیت اور مارکسیت کا ذکرکر رہے ہیں؟‘‘ اگر آپ نے اپنے سوال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ’’نہیں جناب! میں اس مارکسیت کا ذکر کر رہا ہوں، جس کا مارکس سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ یہ محض چند الفاظ اور نعرے ہیں، جنھیں ہمارے نوجوانوں کو اس لیے سکھایا جاتا ہے کہ ہمارے بعض حکام کے خیال میں مارکسیت کو صرف ایک ذریعہ بناکر اس سے اسلام کے خلاف کام لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اس فلسفۂ وجودیت کو ہمارے وجود سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ اشیا درحقیقت نئی نسل کے ذہنوں پراثرانداز ہونے کے ذرائع ہیں، جنھیں اس مقصد کے لیے وہ حلقے استعمال کر رہے ہیں، جو ان کے فلسفیانہ ، فنی یا سماجی پہلو کے خود بھی قائل نہیں ہیں۔ میرا اشارہ ڈائجسٹ قسم کی ان کتابوں کی طرف ہے، جو مفت یا بہت معمولی قیمت پر نوجوانوں میں تقسیم کی جارہی ہیں، تاکہ ان کی جیب پر بوجھ نہ پڑے، اور وہ ضمیر پر اثرانداز ہونے والے ان افکار کو بآسانی قبول کرلیں۔
صدافسوس کہ نام نہاد روشن خیال لوگ اس گفتگو کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکتے۔ ان کی نگاہوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔ وہ بزعمِ خود فکری سطح پرہیں، جہاں غیروں کے افکار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’خیال اپنا اپنا، پسند اپنی اپنی۔ اس پر بحث کی ضرورت نہیں‘‘۔
دوسری طرف غالباً آپ نظریاتی سطح پر ہیں، جہاں ہرنئی فکر کا خوردبین (مائیکروسکوپ) سے تجزیہ کرنا چاہیے، کیونکہ اس سطح پر ایک فکر محض فکر نہیں رہ جاتی جسے صرف فکری یا فنی نقطۂ نظر یا صاحب ِ فکر کے عزائم کی روشنی میں دیکھا جائے گا، بلکہ اس فکر کو اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے والوں کے حقیقی عزائم کے اعتبار سے پرکھا جائے گا۔ بہرحال آپ کی باتوں کو وہ لوگ اس لیے نہ سمجھ سکیں گے کہ وہ دنیا کی فکری کش مکش کے مفہوم کو دو بڑی سامراجی طاقتوں کی چپقلش تک محدود رکھتے ہیں۔
زیربحث موضوع کے مطابق ہمیں مستشرقین کی تحریروں کا صرف ان کی ذاتی اور فکری خصوصیات اور عزائم کے نقطۂ نظر سے جائزہ نہیں لینا چاہیے، بلکہ اس پہلو سے بھی دیکھنا چاہیے کہ کون لوگ مستشرقین کی تحریروں کو عالمِ اسلام میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں؟
ان مقاصد میں، جیساکہ ہم پہلے نشان دہی کرچکے ہیں، تسخیر عقل و ضمیر بھی شامل ہے۔ اسے ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ہروہ نظریاتی خلا جہاں ہمارے افکار معدوم ہوں گے، اسے ہمارے مخالف اور دشمن افکار سے پُر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ ایک عام اصول ہے، جس سے فکری کش مکش کے ماہرین بخوبی واقف ہیں۔ لیکن یہاں یہ بتادینا ضروری ہے کہ یہ ماہرین محض ایسے دانش ور نہیں ہیں، جو حقیقت براے حقیقت کی جستجو کررہے ہیں، بلکہ وہ اسے سیاسی مفادات کے میدان میں عملی شکل دینا چاہتے ہیں۔ اس طرح وہ نظریاتی خلا ظاہر ہونے تک کا انتظار نہیں کریں گے تاکہ اسے پُر کرسکیں، بلکہ یہ خلا وہ خود پیدا کریں گے۔ ہوسکتا ہے اس خلا کو عارضی طور پر دوسروں کے افکار سے پُر کردیں تاکہ پہلے مرحلے کے طور پر وہ ہم کو ہمارے افکار سے جداکرسکیں۔
درحقیقت یہ وہ میدان نہیں ہے کہ جہاں ’خط ِ مستقیم‘ کے اصول کے تحت کام ہوتا ہو۔ صاف سی بات ہے کہ ایک منطقی عمل کا منطقی نتیجہ ہی نکلے گا۔ اس کے برعکس فکری کش مکش کی اپنی ایک علیحدہ منطق ہے۔ عموماً اس کی راہ پُرپیچ ہوتی ہے۔ یہاں ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک درمیانی اور پُرپیچ راہوں سے پہنچا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ نقلی مارکسزم جو بائیں بازو کے خیالات کے حامل ہمارے نوجوانوں کو گھول کر پلائی جارہی ہے، صرف ایک درمیانی مرحلہ ہے۔ جس کا مقصد ہمارے نوجوانوں کے ایک طبقے کو ملک میں نظریاتی محاذ سے علیحدہ کرنا ہے۔ علیحدگی کی اس کارروائی کا ذمہ دار لیڈر، نوجوانوں سے یہ تو کہہ نہیں سکتا کہ ’’ہم آپ کے ملک میں ترقی کی رفتار کم کرنا چاہتے ہیں ، اس لیے کیا آپ ان افکار و خیالات کی تحریر و تنقیص میں ہماری مدد کریں گے جو ترقی کی اس رفتار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں؟‘‘ اس لیے کہ اس قسم کی باتوں کو سراسر یاوہ گوئی اور جنون کہا جائے گا۔ اب اس کے سامنے صرف ایک ہی راہ ہے کہ وہ نوجوانوں کی اس جماعت کو بیرونی افکار کے پُل سے دوسرے کنارے تک لے جائے، جہاں نقلی مارکسسٹ، فریبی قوم پرست اور جعلی انقلاب کے نقاب اُوڑھے ہوئے افراد نظر آئیں گے۔
فکری اور عملی بہروپ کے ان سوداگروں کی اس کارروائی کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ وطن کا اخلاقی اتحاد ختم ہوگیا، جب کہ آزادی کے بعد کے اہم اور نازک مسائل کا سامنا کرنے کے لیے وطن عزیز کو اس اتحاد کی اشد ضرورت تھی۔ اس کارروائی کے منفی فکری نتائج جس قدر ہمارے نوجوانوں پر، اور سماجی نتائج جس قدر ہمارے معاشرے پر ظاہر ہوں گے، اسی قدر ان مسائل میں کمی کے بجاے اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اس طرح ان نوجوانوں کی شکل میں، مخصوص فکری کش مکش مسلط کرنے کے ماہرین کے ہاتھوں میں ہماری نکیل ہوگی___ کتنا بڑا المیہ ہے!
٭ ایک شبہہ اور اس کا ازالہ:ہو سکتا ہے کہ مستشرقین کے حوالے سے زیربحث موضوع پر ہماری ان باتوں کا بظاہرکوئی تعلق نظر نہ آرہا ہو، لیکن سچ پوچھیے تو یہ موضوع سے علیحدہ نہیں ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پوری کارروائی کا مجموعی اور مکمل جائزہ لیں۔ وہ اس طرح کہ فکری کش مکش کے یہ ماہرین ایک طرف نوجوانوں کی ایک جماعت کو دینی شعائر کا مذاق اُڑانے اور اسلام کے مخالف خیالات کا انجکشن دے کر انھیں پاگل کتوں کی طرح بھونکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسری طرف یہی ماہرین ہمارے نوجوانوں کی ایک دوسری جماعت کو مستشرقین کی تحریروں سے تیار کردہ خواب آور گولیاں مہیا کرنے اور کھلانے کا کام کرتے ہیں۔ اس طرح ہمارے دونوں قسم کے نوجوانوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ایک ہیجان انگیزی کے زیراثر فکری طور پر مفلوج اور دوسرا خواب آور دوا کی وجہ سے فکری طور پر ناکارہ و نامراد۔ ایک ہنگامہ آرائی پر آمادہ اور دوسرا خوابوں کی دنیا میں مست۔ ہمارے خیال میں مسلم دنیا میں فکری کش مکش کے دائرے میں مستشرقین کی تحریروں کا یہی کردار ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس دائرے میں ہمارے فکری عمل کی کیا شکل ہونی چاہیے؟ یہاں مجھے یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ تفصیلات کو نظرانداز کرکے صرف اس خیال کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جو زبان زدخاص و عام ہے کہ صرف سیاسی آزادی کا حصول ہی کافی نہیں، اسے معاشی آزادی کے ذریعے مستحکم کرنا بھی ضروری ہے۔
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے لیکن ہم اس میں اتنا اضافہ کرنا چاہیں گے کہ جو معاشرہ اپنے بنیادی افکار خود وضع نہیں کرتا، وہ نہ تو ضروریاتِ زندگی کی اشیا تیار کرسکتا ہے اور نہ صنعت کاری کے لیے لازمی مصنوعات۔ ایک زیرتعمیر معاشرہ درآمد شدہ افکار سے تعمیر نہیں کیا جاسکتا، خواہ یہ افکار استشراق سے ماخوذ ہوں یا اشتراکیت اور وجودیت سے۔ اسے کتابوں کے بجاے عملی تجربے سے اپنی راہ نکالنی ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنا ذاتی تجربہ حاصل کرنا چاہیے اور اپنے دائرۂ فکر و عمل کا تعین خود کرنا چاہیے نہ کہ کسی اور کی طرف سے ہمارے لیے متعین کیا جائے۔ آخری بات یہ کہ عقیدے اور فکر کے میدان میں اپنا حقیقی وجود، اور آزادی بحال کرکے ہی ہم معاشی اور سیاسی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔
مالک بن نبی (یکم جنوری ۱۹۰۵ءقسطنطنیہ ،۳۱؍اکتوبر۱۹۷۳ء، الجزائر) نے ابتدائی تعلیم الجزائر، ثانوی تعلیم مصر میں اور اعلیٰ تعلیم پیرس میں حاصل کی اور انجینیرنگ کی ڈگری لی۔ آپ گذشتہ صدی میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کی مؤثر آواز تھے۔ وہ جمال الدین افغانی اور ان کے شاگردوں کی طرح سامراج ہی کو ہمارے تمام امراض کا سبب نہیں تصور کرتے، بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ’دشمن تو دشمن ہے، لیکن مرض خود ہم میں ہے‘۔ اپنی کتاب شروط النھضۃ (نشاتِ ثانیہ کی شرائط) میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر ہم میں سامراج کو قبول کرنے کا مرض نہ ہوتا تو سامراج نہ سیاسی و سماجی طور پر ہم پہ کبھی مسلط ہوتا اور نہ فکری اور تہذیبی اعتبار سے ہم پہ اثرانداز ہوتا۔ کسی نشاتِ ثانیہ کے لیے ہم کو اپنے نفسیاتی، فکری اور اجتماعی امراض کا علاج کرنا ہوگا‘‘۔ مالک بن نبی، مغربی افکار کی بڑے پیمانے پر قبولیت اور اپنے ہاں متعارف کرانے کی بھیڑچال کے بھی خلاف ہیں اور مسلم دنیا پر مسلط ادبار کو ’تہذیبی افلاس‘ (Civilizational bankruptcy) سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’نشاتِ ثانیہ کے لیے عقیدے میں پختگی، تحریک اور مثبت قوت ضروری ہے‘‘۔(ادارہ)
سب سے پہلے ہمیں اصطلاح ’مستشرقین‘ (Orientalists)کا مفہوم متعین کرنا ہوگا۔ مستشرقین سے ہماری مراد وہ مغربی اہلِ قلم ہیں، جو اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب پر تحقیق و تالیف سے خود کو وابستہ کرتے ہیں۔ انھیں دو جماعتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
الف: زمانے کے اعتبار سے، قدیم مستشرقین، مثلاً گربر ڈور بیک اور سینٹ تھامس اکویناس [م: ۱۲۷۴ء] وغیرہ، اور جدید مستشرقین جیسے برنارڈ کارے ڈی فو [م: ۱۹۵۳ء] اور ایگناز گولڈزیہر [۱۸۵۰ء- ۱۹۲۱ء] وغیرہ۔
ب: اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی تحریروں کے عام انداز کے اعتبار سے ان میں سے ایک طبقہ اسلامی تہذیب کی مدح سرائی کرتا ہے اور دوسرے کا مقصد محض نکتہ چینی اور اس کی مقبولیت کو داغ دار کرنا ہے۔
استشراق (Orientalism)کا جامع مطالعہ اسی ترتیب سے کرنا چاہیے۔ مضمون کے اختصار کے سبب، ہم یہاں ایک خاص پہلو پر ہی گفتگو کریں گے۔
یہ واضح بات ہے کہ قدیم مستشرقین، مغربی دنیا کے فکری دھارے پر نہ صرف یہ کہ ماضی میں بلکہ اب تک اثرانداز ہورہے ہیں، جب کہ ہم مسلمانوں کے افکار پر ان کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوا۔ قدیم مستشرقین کی تحریریں یقینی طور پر ان افکار کا محور تھیں، جو یورپ کی نشاتِ ثانیہ (رینے ساں) کی بنیاد بنے۔ دوسری طرف آج جسے ہم اسلامی نشاتِ ثانیہ کہتے ہیں، اس پر ان قدیم مستشرقین کی تحریروں کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے یہ مسئلہ ہم تواریخ کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح سردست ہم اسلامی تہذیب پر نکتہ چینی کرنے والے مستشرقین کو بھی نظرانداز کردیں گے۔ خواہ ہمارے اہلِ قلم پر وہ کسی نہ کسی طرح اثرانداز ہوئے ہوں یا انھوں نے اپنے زمانے میں اپنے یہاں کچھ شہرت بھی حاصل کی ہو، جیسے فادر ہنری لامنس [۱۸۶۲ء- ۱۹۳۷ء] وغیرہ۔
درحقیقت یہاں یہ پہلو زیر بحث نہیں ہے، کیونکہ اس مفروضے کے باوجود کہ ان کی تحریروں کا ہماری ثقافت پر تو کسی حد تک اثر رہا ہے، لیکن وہ ہمارے مجموعی افکار پر مکمل طور پر اثرانداز نہ ہوسکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم میں ان کے خطرات کا فوری مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود تھی، کیونکہ قدرتی طور پر یہ ہمارے ثقافتی اور تہذیبی وجود کے دفاع کا مسئلہ تھا۔ اس کی ایک واضح مثال دورِ جاہلیت کی شاعری کے بارے میں طٰہٰ حسین [م: ۱۹۷۳ء] کی کتاب الشعر الجاھلی ہے۔اس کتاب کی اشاعت سے ایک سال قبل برطانوی مستشرق ڈیوڈ سموئیل مارگولیوتھ [۱۸۵۸ء-۱۹۴۰ء] نے شعر جاہلی کے بارے میں ایک مفروضہ پیش کیا تھا۔ طٰہٰ حسین کی مذکورہ کتاب کی اشاعت کے بعد مصر میں غم و غصے کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور مصری شاعر مصطفےٰ صادق الرافعی [۱۸۸۰ء-۱۹۳۷ء] کے شعلہ بار قلم نے اسلامی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی اس کتاب کا اثر زائل کرنے کی کوشش کی تھی۔
لیکن اس کے برعکس، ہم اسلامی تہذیب کی قصیدہ خوانی کرنے والے مستشرقین کے نمایاں اثر کو محسوس کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اس قسم کے مدح خواں استشراق کے سلسلے میں ہمارا کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا، کیوںکہ بظاہر اس کے دفاع کی کوئی وجۂ جواز نہ تھی۔ گویا اس باب میں ہماری قوتِ مدافعت سلب ہوگئی۔
یہاں ہماراموضوع بحث یہ ہے کہ ہمارے ثقافتی وجود کے دفاعی نظام میں قصیدہ خواں مستشرقین کے بارے میں جو یہ خلل پایا جاتا ہے، اس کا ایک صدی قبل سے اور خصوصاً بیسویں صدی کے دوران اسلامی معاشرے کے بدلتے ہوئے افکار پر کیا اثر ہوا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی تہذیب کی تعریف و توصیف کرنے والے مستشرقین ، مثلاً جوزف رینو [۱۷۹۵ء-۱۸۶۷ء]، جس نے انیسویں صدی کے وسط میں جغرافیے پر ابوالفدا دمشقی [۱۲۷۳ء- ۱۳۳۱ء] کی کتاب کا ترجمہ کیا، اور رین ہنٹ ڈوزی [۱۸۲۰ء-۱۸۸۳ء] جس کے قلم نے اسپین میں عربوں کی روشن صدیوں کو اُجاگر کیا، اور لویس سیڈیو[۱۸۰۸ء-۱۸۷۵ء] جو زندگی بھر اس کے لیے برسرِپیکار رہا، تاکہ عرب عالم فلکیات و انجینیرابوالوفا، البوزجانی [۱۹۴۰ء- ۱۹۹۸ء] کو ’چاند کی حرکت کے دوسرے قانون‘ کا موجد قرار دیا جاسکے۔ اسی طرح آسین پلاتھیوس [۱۸۷۱ء-۱۹۴۴ء] جس نے ’الاھیاتی کا میڈیا‘ کے عرب مآخذ کا انکشاف کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان مغربی اہلِ قلم حضرات نے علمی حقائق کی برتری ثابت کرنے اور حقیقی تاریخ کو اُجاگر کرنے کے لیے لکھا، اور یہ سب انھوں نے اپنے مغربی معاشرے کے لیے کیا۔ لیکن ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کے دانش وَر طبقے پر یہ افکار زیادہ اثرانداز ہوئے ہیں۔
میں عمر کے اعتبار سے اس مسلم نسل سے تعلق رکھتا ہوں، جو ان مغربی مستشرقین کی اس معنی میں احسان مند ہے کہ ان کے توسط سے اسے وہ ذریعہ ہاتھ لگا، جس سے مغربی تہذیب کی چمک دمک سے متاثر اسلامی ضمیر کا احساس کمتری دُور ہوسکتا تھا۔لیکن اگر ہم اس مسئلے کا اپنے حالیہ تجربات کی روشنی میں جائزہ لیں، تو محسوس ہوگا کہ اس طریقے کے نتائج ہماری فکروثقافت کی خوش آیند تبدیلی تک ہی محدود نہیں رہے، بلکہ دوسری طرف اس کے منفی اثرات بھی ظاہر ہوئے۔ انھی اثرات کو ہم یہاں زیربحث لانا چاہتے ہیں۔
اسلامی معاشرے پر ان اثرات کی حقیقی شکل کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ہمیں اس قسم کے استشراق کا جائزہ اس کے اصل تاریخی مآخذ کی روشنی میں لینا ہوگا۔
یورپ نے اپنی تاریخ کے دو مرحلوں میں اسلامی فکر کا انکشاف کیا ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے مرحلے میں تھامس اکویناس [م: ۱۲۷۴ء] سے پہلے اور بعد کے دور میں یورپ نے اس فکر کا انکشاف اور ترجمہ کرکے اپنی تہذیب اور ثقافت کو مالا مال کرلیا تھا، اور اسی سبب وہ پندرھویں صدی کے آخر سے اپنی نشاتِ ثانیہ کی جانب کامیابی سے گامزن ہوسکا۔
جدید سامراجی دور میں اس نے فکر اسلامی کا ایک بار پھر انکشاف کیا۔ اس بار ثقافتی ترمیم کے لیے نہیں بلکہ سیاسی ترمیم کے لیے، تاکہ وہ اپنے سیاسی منصوبوں کو مسلم ملکوں کے حالات کے مطابق جماسکے اور ان حالات کو مسلم ملکوں کے لیے اپنی طے شدہ پالیسیوں کے رُخ پر موڑ کر مغلوب اقوام پر اپنی گرفت مضبوط کرسکے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اہلِ مغرب ان علمی کوششوں کے ذریعے انسانیت کے تمدنی سرمایے میں ان اقوام کی خدمت کی صرف ستایش کرنا چاہتے ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لویس سیڈیو اور چارلس گستاولیبان [۱۸۴۱ء-۱۹۳۱ء] جیسے مستشرقین حقیقی علمی جذبے کے تحت تحقیق و تلاش کر رہے تھے۔ لیکن یہاں اس بات کو سامنے رکھنا ضروری ہے کہ یہ تعارف ایسے تاریخی حالات میں ہوا، جب اسلامی علوم کی یہ حیثیت نہیں تھی کہ ان کو اساتذہ کے لیکچرز اور ان کی جدید تالیفات سے حاصل کیا جاسکتا، بلکہ وہ ایک طرح سے آثارِ قدیمہ کی شکل اختیار کرچکے تھے، جن کا انکشاف مغربی اہلِ علم کے ہاتھوں محض اتفاقاً ہوتا تھا۔ وہ انھیں منتقل کرنے میں کبھی دیانت داری اور کبھی بددیانتی سے کام لیتے۔ یہ سائنسی دریافتیں کبھی مسلمان علما اور کبھی اہل یورپ کی طرف منسوب کر دی جاتی تھیں۔ اس طرح عظیم انکشاف کو اصل موجدوں کے بجاے دوسروں کی طرف منسوب کیا جاتا رہا۔ جیسے خون کی گردش کے نظام کا پتا لگانا برطانیہ کے ماہر حیاتیات اور معروف معالج ولیم ہاروے [۱۵۷۸ء-۱۶۵۷ء] سے منسوب کیا گیا، حالاںکہ دراصل مسلمان طبیب علاء الدین ابن النفیس [۱۲۱۳ء-۱۲۸۸ء] اس سے چارسو سال قبل اس کا انکشاف کرچکا تھا۔
مذکورہ رویوں سے عالمِ اسلام کو مغربی ثقافت سے سخت دھچکا لگا۔ اس کے دو طرح کے اثرات ظاہر ہوئے: ایک طرف تو اسے واضح احساسِ کمتری سے دوچار ہونا پڑا، اور دوسری طرف اس احساسِ کمتری کے ازالے کی کوشش میں وقت اور قوت کا ضیاع ہوا، خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی رہی ہو۔
اس صدمے نے مسلم دانش وروں کی ایک جماعت کی ثقافتی قوتِ مدافعت کے نظام کو تقریباً مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اس احساسِ کمتری کے نتیجے میں وہ مغرب کی ثقافتی یلغار کا مقابلہ نہ کرسکے اور فکری جنگ شروع ہوتے ہی کسی شکست خوردہ فوج کی طرح میدان میں اسلحہ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس قسم کے دانش وروں کو مغرب کی پوشاک، رہن سہن اور طور طریقے اپنانے ہی میں راہِ نجات نظر آئی، خواہ ان کے اس طرزِعمل کا مغرب کی حقیقی تہذیبی اقدار سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو۔
اس طرح اسلامی ثقافتی اُفق پر ایک نئی فکر نمودار ہونا شروع ہوئی، جو ایک طرف ہندستان کی پہلی جنگ ِ آزادی [۱۸۵۷ء] کے بعد سرسیّداحمد خان [م: ۱۸۹۸ء]کے ہاتھوں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے قیام کی شکل میں سامنے آئی۔ دوسری طرف اسلامی نشاتِ ثانیہ کے بانی جمال الدین افغانی [م:۱۸۹۷ء] کے رُوپ میں جلوہ گر ہوئی۔ یوں اسلامی فکر دو کیمپوں میں بٹ گئی۔ ایک کیمپ مغربی علوم و فنون اور مادی اشیا یہاں تک کہ مغربی لباس تک اپنانے کی دعوت دیتا تھا، تو دوسرا احساس کمتری کے ازالے کے لیے فخر و انبساط کی خوراکیں کھاکھا کر اپنے دل کو بہلاتا رہا۔
پہلی لہر کے نتیجے میں ذہنی، سیاسی اور سماجی میدان میں دو طرح کے اثرات رُونما ہوئے: ایک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے قیام اور دوسرا جمال الدین افغانی کی دعوت کی شکل میں اُبھر کر سامنے آیا۔ مقاصد میں اختلاف کے باوجود دونوں نے جو یکساں طریق کار اپنایا، وہ دونوں حالتوں میں عالمِ اسلام کو ترقی کی اس منزل تک لے گیا جو شیئیت اور تکدیس (مادی اشیا اور وسائل کو جمع کرنے) کی شکل میں ظاہر ہوا۔
دوسری لہر جو مستشرقین کی تحریروں کے تعلق سے ہمارا موضوعِ بحث ہے، اسے اپنے سفر کے لیے ہموار راستہ فخر اور اسلاف پرستی پر مبنی تاریخی اثاثے (لٹریچر) میں ملا، جو اسلامی تہذیب پر ڈوزی، جیسے مستشرقین کی تحریروں کے منظرعام پر آنے کے بعد انیسویں صدی ہی سے وجود میں آگئی تھی۔
بہرحال، ہم دونوں مکاتب ِ فکر کے درمیان کوئی قطعی حد مقرر نہیں کرسکتے، کیوں کہ دوسرا مکتب ِ فکر پہلے سے کوئی علیحدہ وجود نہیں رکھتا، بلکہ وہ فکر اسلامی میں عمومی طور پر سرایت کرچکا ہے۔ اس نے ایسی صورت اختیارکرلی ہے، جس میں مغربی ثقافت کی برتری کی ذلت کا اثر دُور کرنے کے لیے اسی طرح فخر کی دوا کی تلاش ہوتی ہے، جس طرح منشیات کا عادی اپنی وقتی تسکین کے لیے کسی نشہ آور انجکشن کا متلاشی رہتا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس فکری مدرسہ اور اس کی ادبیات نے اسلامی معاشرے کے مستقبل پر کوئی بہتر اثر مرتب نہیں کیا۔ یقینا اسلامی معاشرے کے تشخص کے تحفظ میں ان ادبیات نے قابلِ ذکر کردار ادا کیا ہے۔ میں جس نسل سے تعلق رکھتا ہوں وہ اپنے اسلامی تشخص کی بقا کے لیے اس لٹریچر کی بہرحال احسان مند ہے۔ مثال کے طور پر مَیں نے پندرہ اور بیس سال کی عمر کے درمیان اسلامی تہذیب کی خوبیوں کو جن کتابوں کے ذریعے دریافت کیا، ان میں ڈوسلان کا مقدمہ ابن خلدون کا فرانسیسی ترجمہ اور رین ہنٹ ڈوزی اور احمد رضا کی تحریریں بھی شامل ہیں۔
ان کتابوں نے میرے ذہن و فکر پر کیا اثرات مرتب کیے، ان کا مجھے بخوبی اندازہ ہے۔ میں چالیس سال کے تجربے کے بعد نہ صرف یہ کہ ذاتی بلکہ اسلامی معاشرے کی سطح پر بھی اس علاج کی حقیقت کی نشان دہی کرسکتا ہوں۔ مختصراً اتنا کہنا کافی ہوگا کہ میرے خیال میں متعدد اسباب کی بناپر اس علاج کی خرابیاں، اس کی خوبیوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
پہلا واضح سبب ذہنی تشکیل اور اس کے نفسیاتی ردعمل میں نمایاں ہے، مثلاً: جب ہم غریب و مسکین سے (جو پیٹ بھر روٹی کا محتاج ہو) اس دولت و ثروت کا تذکرہ کریں، جو ماضی میں اس کے آبا و اجداد کے پاس تھی، تو گویا وقتی تسکین کے لیے ہم اسے کوئی نشہ آور چیز دے کر اس کے فکروضمیر کو مفلوج کردینا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس طرح اس کے غم کا مداوا نہیں کریں گے۔
اسی طرح ماضی کی شان دار روایات کا تذکرہ کرکے ہم کسی معاشرے کی بیماریوں کا علاج نہیں کرسکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موحدین{ FR 692 } کے بعد کے دور میں، فن قصہ گوئی کے ماہرین مسلمان نسلوں کو الف لیلہ کی کہانیاں سناسنا کر، ہرمحفل کے بعد ان پر ایسا سرور طاری کردیتے تھے کہ وہ ماضی کے سنہرے خواب سجانے نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔لیکن عظمت رفتہ کے داستان گو حضرات کو اس بات کی کوئی فکر نہ تھی کہ دوسری صبح یہ عوام بیدار ہوکر پھر زندگی کے انھی زندہ اور تلخ حقائق کا سامنا کریں گے، جو کسی صورت قابلِ رشک نہیں۔
تواریخ پر مبنی وہ کتابی اثاثہ جس میں اسلامی تہذیب کے عہد زریں کا راگ الاپا گیا ہو، ان کے یہی دوکردار رہ جاتے ہیں: ان کے ذریعے ایک خاص مرحلے میں مغرب کے ثقافتی چیلنج کا جواب دیا گیا، اور دوسرے عوامل کے ساتھ وہ اسلامی تشخص کی بقا کے لیے بھی مفید ثابت ہوئیں۔ لیکن دوسری طرف اس لٹریچر نے اسلامی تشخص کو خودپرستی کے سانچے میں ڈھال دیا اور متحرک اور میکانیکی دور کے مطابق نہیں بنایا۔
اس خیال کو سرسری طور پر ایک عام بات سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ہمارے لیے بہت غوروفکر کا مقام ہے۔ معاشرتی اعتبار سے تو اس کی اہمیت ہے ہی، لیکن موجود دور میں عالمی سطح پر عوام عموماً اور اسلامی معاشرے کی سطح پر، خصوصاً افکارکی جو جنگ جاری ہے، اسے دیکھتے ہوئے اس خیال کی اہمیت اور بھی زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔
یہاں ہم عالمِ اسلام کی ’فکری کش مکش‘ کے بارے میں اپنے فہم کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ مسلّمہ امر ہے کہ جب کوئی ایک یا چند مسلمان، اپنے کسی سماجی مسئلے کو موضوعِ بحث بناتے ہیں، تو اس سے پہلے سامراج کی زیرسرپرستی ماہرین کی ایک جماعت اس مسئلے کا جائزہ لینا شروع کرچکی ہوتی ہے۔ اس مسئلے کے حل میں جس قدر کامیابی حاصل ہوگی، اتنی ہی تیزی کے ساتھ ماہرین اس حل کا جائزہ لیں گے۔ اگر وہ غلط ہوا تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کی غلطی کے دائرۂ اثر میں مزید اضافہ کردیں گے، اور اگر کچھ فائدہ مند نظر آیا تو وہ اس کی اہمیت کو گھٹانے اور اسے بے قیمت ثابت کرنے میں اپنا سارا زور صرف کردیں گے، تاکہ اس کا کوئی فائدہ ہی باقی نہ رہے۔
یہ اس فکری کش مکش کا عام اصول ہے جس کی ہم نشان دہی کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے یہ لازم آتاہے کہ عالمِ اسلام میں جب بھی کسی اہم پیش رفت کی جھلک دکھائی دے گی ، خواہ وہ ہماری انگلیوں کے دائرے میں ہی ہو، وہ تجزیے کے لیے فوراً ان ماہرین کی خوردبین (مائیکروسکوپ) کے نیچے پہنچ جائے گی۔ اگر اس میں انھیں عالمِ اسلام کی فکری تحریک سے ادنیٰ سا بھی ربط نظر آئے گا تو وہ نشترزنی کرکے اور تجرباتی عمل سے گزار کر، اس کے سماجی اثرات اور کارکردگی کی صلاحیت کو کم کریں گے اور اس کی راہ میں دشواریاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
درحقیقت کسی معاشرے کا صحیح رُخ معلوم کرنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کے افکار کس رُخ کو جارہے ہیں؟ اِن کا رُخ ایک تعمیری اور صحت مند اور مطلوب مستقبل کی طرف ہے، یا ایک مرض کی شکل میں انھیں پیچھے مڑمڑ کر دیکھنے کی عادت ہے؟ فکری کش مکش کے ان گہرے اور اُلجھے ہوئے پہلوؤں کا مزید جائزہ لینے کے بجاے آیئے، یہ دیکھیں کہ مدح سرائی اور فخرومباہات پر مبنی یہ کتابی اثاثہ موجودہ مسلم معاشرے میں افکار کی رفتار اور سمت پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟
ہمارے ملکوں میں فکری کش مکش کے تاروں کو حرکت دینے والے ماہرین جب ان کتب کے ذریعے اپنا شیطانی کھیل شروع کر دیتے ہیں، تو فوراً ہی ان ادبیات کا دوسرا رُخ بھی ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ اس خطرناک عمل کا آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور اپنی فکری، سیاسی اور سماجی زندگی کے ہر گوشے میں اس کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔ خصوصاً عرب ممالک میں جہاں ایک عام شہری اور ادیب و صحافی کی حیثیت سے میرے تجربات و مشاہدات پروان چڑھے ہیں۔ یہاں صرف ایک واقعے کی نشان دہی کر رہا ہوں:
گذشتہ دنوں پیرس میں یورپ کے الجزائری مزدوروں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے ذمہ داروں نے ہمارے کسی مسئلے کے بارے میں ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس مسئلے کا تعلق الجزائر سے تھا، جس کے آئین میں ملک کے نام کے ساتھ ’ڈیمو کریٹک‘ کی صفت کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ فکری کش مکش کے ماہرین نے اس موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ان کی کوشش تھی کہ مذکورہ پمفلٹ میں شامل وہ افکار کہ جن میں سے بعض کانفرنس کے سامنے اُٹھائے جانے والے تھے، ان کا راستہ کیسے روکا جائے، اور کانفرنس کے شرکا پر ان کے اثرات کو امکانی حد تک کیسے کم کیا جائے؟
اس کا حل یہ نکالا گیا کہ شمس اللہ تشرق علی الغرب (مغرب پر عرب تہذیب کے احسانات) نامی کتاب کی مصنّفہ ڈاکٹر این میری شمل [۱۹۲۲ء-۲۰۰۳ء]کوکانفرنس کی طرف سے دعوت نامہ بھیجا گیا۔ وہ اپنی کتاب کے ساتھ کانفرنس کے اجتماع میں شریک ہوئیں اور کانفرنس، دورِحاضر کے اہم مسائل پر بحث مباحثہ کرنے کے بجاے ماضی کی شان و شوکت کی طرف متوجہ ہوگئی۔ میرے دوستوں نے بتایا کہ آخر میں جب کانفرنس کے تمام شرکا کھڑے ہوکر مذکورہ جرمن خاتون کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے، تو انھیں خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ اس واقعے کا آج کی فکری کش مکش کے مسئلے سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں؟
درحقیقت اس واقعے کے دو پہلو سامنے آتے ہیں: ایک یہ کہ مسلم عوام اپنے حال کو بہتر بنانے سے زیادہ اپنے ماضی کی عظمت کے بارے میں حد درجہ جذباتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ حالیہ مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے مسلم عوام کی جذباتیت سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے۔
یہاں ہم اسی پہلو کو زیربحث لائیں گے، کیوں کہ یہ دنیا کو درپیش فکری کش مکش کی موجوں کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ بنیادی طور پر اس کا رُخ عالمِ اسلام کی طرف ہے۔ یہاں تک کہ بسااوقات مسلم ملکوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ درحقیقت فکری کش مکش کو اپنے حق میں پھیرنے والے یہ ماہرین اس تاک میں رہتے ہیں کہ مسلم عوام کو جب فکروعمل کی کوئی راہ دکھائی جائے، تو وہ اس موقعے پر بڑی چابک دستی سے ایسے خیالات پیش کردیں، جو زیادہ پُرکشش ہوں اور مسلم عوام کو خوابوں کے خوش گوار لمحات اور الف لیلہ کی رنگین دنیا میں کھینچ کر لے جاتے ہوں۔
ہمیں اس عام اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ ہمیں جب کسی مسئلے کا سامنا ہوگا اور ہم اس کا حل تلاش کر رہے ہوں گے، تو فکری کش مکش کے ماہرین اس مسئلے سے ہماری توجہ ہٹانے اور اسے غلط رنگ میں پیش کرنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
سیاسی میدان میں ہماری مشکلات کا جو حل شام کی بعث پارٹی، یا الجزائر میں بربر قومیت، پان افریقن ازم یا اشتراکیت کی شکل میں پیش کیا گیا، اسی لٹریچر میں ہمارے شان دار ماضی کی مدح سرائی بھی کی گئی۔ وہ عصرِحاضر میں عالمِ اسلام کے اہم ترین فکری، تہذیبی، سماجی، سیاسی، معاشی مسائل سے توجہ ہٹاکر، اسے خیالی مسائل اور ان کے تصوراتی حل میں اُلجھا دینا چاہتے ہیں۔ ۵جون ۱۹۶۷ء کو عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شرمناک شکست اس سنگین صورتِ حال کا ایک بھیانک اور فطری نتیجہ تھی۔
درحقیقت توجہ ہٹانے اور بہلاوے کی کارروائیوں کا مسئلہ پہلی جنگ ِ عظیم [۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء] کے زمانے سے ہی باربار سامنے لایا جارہا ہے۔ تاہم، آج، عالمِ اسلام میں اس مسئلے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ یہاں تک کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر عالمِ اسلام کی بعض ظاہری ترقیات کو نظرانداز کردیا جائے، تو آج سے چند عشرے قبل جب یہاں پر سامراج کا غلبہ تھا، وہ اپنے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرنے کا سوچ سکتے تھے۔ کیوں کہ اس وقت ان کے درمیان روحانی یا نظریاتی اتحاد آج سے کہیں زیادہ پاے دار تھا۔ لیکن اب، جب کہ عالمِ اسلام مغربی سامراجی شکنجے سے آزاد ہوچکا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقصد سے دُور ہوتا جارہا ہے۔ کیوںکہ اس آزادی کے حصول کے دوران چند عشرے قبل، تقسیم کے عمل جراحی نے اس کا یہ اتحاد پارہ پارہ کردیا ہے۔
بعض ظاہری ترقیات سے قطع نظر، یہی صورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے اگر مجموعی طور پر تمام مسلم معاشروں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ کوئی قابلِ ذکر ترقی نہیں کرسکے، بلکہ مزید پیچھے چلے گئے ہیں تو ہماری اس بات کی سچائی سے انکار لازم نہیں آئے گا۔ یہاں ہماری بنیادی غلطی کا سبب یہ بھی ہے کہ تمام کے تمام مسائل کو سیاسی پیمانے سے ناپنا ہماری عادت ہے۔ کیوںکہ ہم مسلم مملکتوں کو تاریخ کے دو کناروں پر رکھ کر ان کی حالت کا موازنہ کرتے ہیں۔ یعنی دوسری جنگ ِ عظیم سے پہلے جب مسلم ممالک سامراج کے زیراثر تھے اور جنگ کے بعد جب ان میں سے اکثر سیاسی آزادی حاصل کرچکے تھے، حالانکہ موہوم آزادی کی اس حقیقت پر ہم نے غور نہیں کیا۔ ذرا سوچیے کہ یہ کیسی سیاسی آزادی ہے کہ جو ان ملکوں کو اسرائیل جیسی چھوٹی ریاست کی تباہ کاریوں سے بھی نہ بچاسکی۔ مسلم ملکوں کے حالات یا ترقیات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مسلم معاشرہ اس عرصے میں اپنے حقیقی سرمایے سے بھی ہاتھ دھو چکا ہے۔ اور اس میں یہ احساس مفقود ہوچکا ہے کہ تمام مسلم معاشرے ایک ہی مستقبل سے وابستہ ہیں اور ان سب کے مسائل کا ایک ہی حل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نقلی اشتراکیت، افریقیت، جدیدیت اور الف لیلہ کے خیالی قصے کہانیوں سے عالمِ اسلام کے غم کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ آج عالمِ اسلام کے لیے یہ مسئلہ مزید سنگین ہوگیا ہے۔ آج مسئلہ ہماری بقایا عدم بقا کا ہے۔ وقت کی رفتار دوسرے امکان کی نشان دہی کر رہی ہے، خصوصاً جون ۱۹۶۷ء کے واقعات کے بعد سے سیاسی اور فوجی بے اعتباری و کمزوری کا احساس مزید شدت اختیار کرچکا ہے، کیوں کہ ان کی بنیاد ’شیئیت‘ یعنی صرف مادی اشیا تھیں، جو ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے بیس سال کے عرصے تک دفاع کے لیے جمع کی گئی تھیں۔ لیکن وہ تو اسرائیل کے پہلے ہی حملے میں ریت کے گھروندوں کی طرح بکھر گئیں۔ اب جان لینا چاہیے کہ محض مادی اشیا کی جدت کاری قابلِ قدر اقدام نہیں ہے بلکہ افکار کی بنیادی تجدید لازمی ہے، تاکہ اس اسلحے اور سامانِ حرب کے پیچھے کھڑے انسان کی فکری و شخصی تعمیر کے ذریعے وہ بنیادی کمی پوری ہوسکے، جو بھیانک اور شرمناک شکست کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لیے کہ زندہ افکار ہی سے انسان بڑے بڑے معرکے سر کرتا ہے، اور اسلام کے حقیقی پیغام سے بڑھ کر کون سی فکر ہوسکتی ہے؟
ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کسی معاشرے کے مصائب کا سبب مادی اشیا کی کمی نہیں بلکہ اس کا فکری افلاس ہوتا ہے۔یہاں ہم اس سے ایک عبرت یہ حاصل کرسکتے ہیں کہ اسرائیل نے عربوں کے پاس موجود ناکارہ اشیا کے ڈھیر پر جو اچانک فتح حاصل کی تھی، اب [۱۹۶۷ء سے پہلے کی عرب ریاستوں کے مقابلے میں، ان حکمرانوں کے بجاے عوام کی سطح پر جنم لینے والے اُبھار سے] اسرائیل کو غیرمتوقع دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج اس کا ایسے اشخاص سے مقابلہ ہے جو نئے افکار کے تحت حرکت میں آچکے ہیں، بلکہ ان افکار نے ان افراد کی شخصیت کو ایک نئے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اسرائیل کے جنگی جہاز ’ایلات‘ پر گولہ باری اور اُردن کی سرحدوں پر فلسطینی چھاپہ ماروں کا سرفروشانہ موقف، اسرائیل سے شکست کے بعد مادی اشیا کی دنیا میں نہیں بلکہ عربوں کے افکار کی دنیا میں تبدیلی کا مظہر ہے۔
خلاصہ یہ کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی ضمیر کو جو دھچکا لگا، اسے افکار کی دنیا میں خصوصیت کے ساتھ محسوس کیا گیا اور سائنسی افکار کی دنیا میں اس کا اثر زیادہ نمایاں شکل میں سامنے آیا، یہاں تک کہ قرآن کی تفسیر بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکی۔ اس پس منظر میں مجھے کوئی شک نہیں کہ طنطاوی جوہری [۱۸۶۲ء-۱۹۴۰ء]کی ضخیم اور مفصل تفسیر کا بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ یہ تفسیری کام ایک طرف ہمارے افکار پر سائنسی اثرات کی نشان دہی کرتا ہے تو دوسری طرف معلومات کا ڈھیر لگانے کا رجحان پیدا کرتا ہے۔ اس طرح یہ دشوار گزار عمل، تفسیر قرآن سے زیادہ انسائی کلوپیڈیا بن کر رہ گیا ہے۔ فکر ِ اسلامی کے سلسلے میں اس بے فائدہ سائنسی رجحان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مغربی تہذیب کے مقابلے میں جس میدان میں اپنی کمی کا زیادہ احساس پیدا ہوا، اسے دُور کرنے کی سعی لاحاصل کی گئی۔
آسانی سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مدح سرائی اور قصیدہ خوانی پر مبنی مستشرقین کے لٹریچر کو اس میدان میں اپنی منشیات کی کاشت کے لیے زرخیز زمین مل گئی۔ ہمارا موجودہ اسلامی معاشرہ اسے بڑے ذوق و شوق سے قبول کرتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اس کے ضمیر پر نشے کی کیفیت طاری کرکے اس کا غم غلط کردیتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ضمیر داخلی کش مکش کا شکار ہے، جسے کبھی طنطاوی جوہری، احمد رضا اور محمد فرید وجدی [۱۸۷۸ء-۱۹۵۴ء] جیسے مشرقی مؤلفین یا ڈوزی اور گستاو لیبان جیسے مستشرقین کی کتابیں پڑھ کر سکون ملتا ہے تو کبھی دیگر مشرقی مؤلفین اور مستشرقین کی تصنیفات اسے مشتعل کرتی ہیں۔ کیوں کہ مصنّفین کا آخر الذکر گروپ عربوں کے تمدنی عروج کے زمانے میں سائنسی ترقیات کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجاے یہ کہتا ہے کہ: ان کا کارنامہ صرف اتنا ہے کہ انھوں نے یونانی اور رومی تہذیب کو یورپ تک پہنچایا تھا۔
مغربی مستشرقین کے شاگرد، اور ان کے شاگرد مشرقی مؤلفین، سامراجی حلقوں کی کھلی شہ پر اسلام کے خلاف تخریبی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کھوکھلی ترقی پسندی کے نام پر عالمِ اسلام سے ہرتمدنی خوبی سلب کرکے اُلٹا ، اسلام ہی کو ان کی حالیہ پس ماندگی کا ذمہ دار ٹھیرانا چاہتے ہیں۔ الایدیدلو جیات العربیۃ فی محضر الغرب (عرب افکار پر مغربی اثرات)کے نام سے ایک کتاب فرانسیسی مستشرق میکسیم روڈنسن [۱۹۱۵ء-۲۰۰۴ء] کے مقدمے کے ساتھ کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب مذکورہ مکتب ِ فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ کتاب کے مراکشی مؤلف، روڈنسن کے شاگرد ہیں۔ اس مکتب ِ فکر میں ایسے سادہ لوح بھی شامل ہوجاتے ہیں، جو بے سوچے سمجھے مغربی ثقافت بلکہ مغربی سیاست میں قدم رکھ دیتے ہیں اور ایسے غیراہم مسائل کا ناقص حل پیش کرتے ہیں، جن کو وہ عالمِ اسلام کے اہم ترین مسائل تصور کرتے ہیں۔ ایسے بے خبرلوگوں کے بارے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی نیت میں کھوٹ نہیں ہے۔ تاہم، فکری کش مکش کے ماہرین کے آلۂ کار دوسرے دانش ور اپنے اسلوب اور طرزِ نگارش سے ہی پہچان لیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے مستشرقین اساتذہ کی طرح فکر اسلامی کو بے قیمت ثابت کرنا چاہتے ہیں، بلکہ ان سے ایک قدم آگے بڑھ کر نام نہاد ترقی پسندی کی بے معنی باتوں سے اسلامی فکر کے مستقبل کو مشکوک اور مبہم بنانا چاہتے ہیں۔
اس طرح مسلم قائدین کا ضمیر داخلی کش مکش کا شکار رہتا ہے، جب کہ عوام میں کبھی قصیدہ خوانوں کی تحریریں باعث تسکین ہوتی ہیں اور کبھی نکتہ چینیوں کا قلم مشتعل کردیتا ہے۔ یہ کش مکش گذشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے مسلسل جاری ہے۔ جس میں عالمِ اسلام کی مفید فکری صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں۔ اس طرزِعمل نے اسلامی فکر کی ترقی میں کوئی حقیقی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ صرف دل کش ادبی آتش بازیاں ہی کی ہیں۔ جس کی ایک مثال روحِ اسلام کے نام سے سیّد امیرعلی [م:۱۹۲۸ء] کی کتاب بھی ہے۔
ان تحریروں کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسی کیسی اعلیٰ فکری صلاحیتوں کو بے دریغ ضائع کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف یورپ کی تحریک اصلاح کے دوران مارٹن لوتھر [۱۴۸۳ء- ۱۵۴۶ء] اور بیدرو کالدرون [۱۶۰۰ء-۱۶۸۱ء] کی تحریروں نے فکری فرسودگی کے برعکس نیا رنگ پیدا کیا تھا۔ ڈیکارٹ کی تحریروں نے یورپ کو ٹکنالوجی میں ترقی کی راہ دکھائی۔ اور صنعتی دور میں داخل ہونے پر مارکس [م:۱۸۸۳ء]، اینجلز [م:۱۸۹۵ء]اور لینن [م:۱۹۲۴ء]نے ایک بالکل مختلف معاشرہ تشکیل دینا چاہا ۔(جاری)