اگست ۲۰۱۷

فہرست مضامین

پاکستان میں سائنسی ترقی کا راستہ

ڈاکٹر بلال مسعود | اگست ۲۰۱۷ | قلمی مذاکرہ

Responsive image Responsive image

پاکستان بنتے وقت اس میں صرف ایک (پنجاب)یونی ورسٹی تھی اوراب سرکاری و نجی   کم وبیش ۱۸۳یونی ورسٹیاں ہیں۔اس نوعیت کے کئی پیمانےہیں، جن کے مطابق ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ تاہم دوسرے معیارات کے مطابق صورت حال مایوس کن ہے۔

سائنس ایک ایسا میدان ہے جس میں انسانوں کی مجموعی دانش نے حصہ ادا کیا ہے۔ خود  ہم نے ہرایک سےسائنس سیکھی اور ہر ایک کے ساتھ کام کیا چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم۔   پاکستان میں اس سفر کا بیان ڈاکٹر رفیع محمد چودھری سے شروع کر سکتے ہیں، جنھوں نے کیمبرج (انگلینڈ) میں نوبل انعام یافتہ ردر فورڈسے ڈاکٹریٹ کی۔ پاکستان بننے کے بعد برطانیہ چھوڑ کر یہاں آئےاوربرطانیہ کی مدد سے گورنمنٹ کالج لاہور میں ہائی ٹینشن لیبارٹری بنائی۔ یہیں سے شروع ہونے والے سفر کے تحت آخر کا رپاکستان نے ایٹم بم بنایا۔ ان ابتدائی برسوں میں پاکستانی سائنس دان حکومت پاکستان سے زیادہ یورپ کی مدد لیتے رہے۔ساٹھ کے عشرے سے حکومت پاکستان نے مدد کرنا شروع کی، مگر اس طرح پاکستان میں سائنسی تحقیق زیادہ ترحکومتی اداروں میں ہونے لگی، جب کہ دنیا میں زیادہ تحقیق یونی ورسٹیوں میں ہی ہوتی ہے۔

ہمارے مخصوص جغرافیائی حالات کے سبب ہماری سائنس کا آخر کارسب سے بڑا مقصد ایٹم بم اور میزائل پروگرام بنا۔ ایٹم بم بنانے کے اعلان کے بعد حکومتی اداروں نے یونی ورسٹیوں سے تعاون بڑھایا۔قائد اعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کا اس ضمن میں کلیدی کردار رہا، اور نیشنل سنٹرفار فزکس کی تعمیر ایک اہم سنگ ِ میل ثابت ہوا۔ اس میں بیرونِ ملک پاکستانی سائنس دانوں اور انجینیروں کا بھی تعاون حاصل رہا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو۱۹۷۹ء میں نوبل پرائز ملا اور انھوں نے ۱۹۶۴ء میں اٹلی میں ’عبدالسلام مرکز براے تھیوریٹیکل فزکس‘  قائم کیا، جس میں تربیت حاصل کرنے والے پاکستانی سائنس دانوں نے پاکستان میں سائنس کی ترقی میں بڑا حصہ ادا کیا۔ –پاکستان میں موجود سائنسی ادارے بھی خاصی حد تک یورپی، امریکی اور اب چینی اور جاپانی اداروں کی مدد سے ہی کام کرتے ہیں۔

بیرونِ پاکستان سے اعلیٰ مہارت حاصل کرنے اور وطنِ عزیز کی خدمت کے لیے پوری زندگی تج دینے والی ایک روشن ترین مثال ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں، جنھوں نے ایٹمی پروگرام کی تعمیروتکمیل میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ –کیمسٹری میں اس طرح کا ایک اہم ادارہ ’حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری‘، کراچی ہے، جہاں سے معروف سائنس دان ڈاکٹر عطاءالرحمان نے جنرل مشرف کے دورِحکومت میں سائنس کو بہت ترقی دی۔یاد رہے، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں زراعت، میڈیکل اور بیالوجی کے ادارے بھی ہیں۔

حکومت نے اپنے اداروں کے علاوہ یونی ورسٹیوں کی بھی مالی امداد کی۔یہ بھی ایک اچھا اقدام ہے۔ دراصل ہر طرح کے سائنسی علوم کی تدریس و تربیت حکومتی اداروں میں نہیں ہوتی۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۲ء تک یونی ورسٹیوں کی یہ امداد یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے ذریعےملتی رہی۔ ۲۰۰۲ء کے بعد اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن میں تبدیل کر دیا گیا، اور ۲۰۰۸ءتک ڈاکٹر عطاءالرحمان کی قیادت کے دوران میں پاکستان میں تحقیق کی سہولیات کئی گنازیادہ ہوئیں اور نتیجے میں پاکستان میں، تحقیق ۴سے ۱۰گنا تک زیادہ ہوئی اور یہ ترقی آج بھی جاری ہے۔

موجودہ صورتِ حال کو دیکھا جائے اور حقیقی قومی تقاضے پیش نظر ہوں تو سائنس میں ترقی کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔دوسرے یہ کہ اس ’ترقی‘ کےمطلب اور مفہوم پرکچھ اختلاف بھی موجود ہے ۔اس ترقی میں کہیں اعداد وشمار کی شعبدہ بازی بھی شامل ہوسکتی ہے اور ایسا کیا بھی جارہا ہے ۔ یونی ورسٹیاں کئی بار وہ حرکتیں بھی کرتی ہیں، جو میڈیاکے چینل اپنی رینکنگ یا ریٹنگ میں اضافے کے لیے کرتے ہیں۔ سائنس کے بہت سے اساتذہ نے اپنےتحقیقی مقالات کی تعداد بڑھانے کے ایسے گُر سیکھ لیے ہیں، کہ جن پر جتنا سوچا جائے، انسان اتنا ہی ندامت میں ڈوبتا چلاجاتا ہے۔تاہم، تحقیق میں سارا اضافہ کھوکھلا نہیں ہے۔

–اگلا سوال یہ ہے کہ: ’’تحقیق کی اس ترقی سے کیا پاکستان کے عوام کی حالت اچھی ہو جائے گی؟‘‘ اس کا کوئی سادہ جواب ’نہیں‘ ہے۔ تحقیق ویسے بھی اپنے عوام کی بہتری کے لیے کم اور زیادہ اس (اکثرغیر ملکی) رسالے کے لیے کی جاتی ہے، جو اسے شائع کرسکتاہے۔اس لیے عملاً سب سے زیادہ تحقیق، ترقی یافتہ ملکوں کے سائنس دانوں کے پراجیکٹس پر ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی بہت سے ملکوں نے اسی تحقیق سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی ہے۔ پاکستان نے بہرحال امتیازی ترقی نہیں کی، سواے انفارمیشن ٹکنالوجی کے، جس میں ہم کچھ بنانے بھی لگ گئے ہیں۔ ورنہ زیادہ تر تو ہم     خام مال ہی برآمد کرتے ہیں۔

–تحقیق کے رُخ کو قومی ضروریات کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر  غیر ملکی سائنس دانوں کے پراجیکٹس پر کام کے نتیجے میں زیادہ اہم چیز وہ صلاحیت اور مہارت ہے، جو ہمارے سائنس دانوں میں قومی ضروریات پورا کرنے میں مددگار ہو۔ ہمارے ہاں ایسی منصوبہ سازی کسی حد تک فوج کرتی ہے۔ اس کے برعکس –عام معاشرہ زیادہ تر اس جاگیر دارانہ مزاج میں جکڑا ہوا ہے کہ کسی قسم کی ترقی ہو یا نہ ہو۔ مقام و مرتبے کا رُعب داب برقرار رہنا چاہیے۔ جدید دور میں ترقی کے لیے سرمایہ دارانہ مقابلے کی فضا عام طور پر بہتر ثابت ہوئی ہے کہ جس نے منڈی پر حاوی ہونے کے لیے سائنس اور ٹکنالوجی کی سرپرستی کرکے ناقابلِ تصور سرمایہ سمیٹا، اور انسانوں کے لیے سہولتیں بھی مہیا کیں۔ ہمارے ہاںصنعت نہ ہونے کے برابر ہے، اور ا س کے ذمہ دار سائنس دان نہیں ہیں۔دراصل حکومت اور صنعت کار کومسائل سائنسی اور عقلی انداز سے  حل کرنے کے بجاے بنے بنائے حل اور مشینیں باہر سے منگانا ہی آ سان لگتا ہے۔

اصل کمی اس سوچ اور ہمت کی ہے کہ ہم خود بھی سائنسی صلاحیت حاصل کرسکتے ہیں۔ عموماً مسلم معاشرے سائنس کو اپنا سمجھتے ہی نہیں۔ٹکنالوجی کی اہمیت ہم سب مانتے ہیں، مگر اس کی بنیاد جس سائنس پر ہے، اس کے بارے میں ہمارا ذہن واضح نہیں۔ ہم دوسروں کی پیدا کردہ سائنس سے فائد ہ تو اٹھانا چاہتے ہیں، مگر خود سائنسی طور پر سوچنا نہیں چاہتے۔اس نفسیاتی کیفیت کا ہماری تعلیم پر اثر یہ پڑا ہے کہ ہم باہر سے آئے نتائج یاد کرنے (رٹنے) میں مصروف رہتے ہیں، مگر ان کااپنی لیبارٹری یا زندگی میں استعمال نہیں کرسکتےیا نہیں سوچتے۔ اگر ہم خود سائنسی انداز سے نہیں سوچیں گے تو اپنے مسائل کیسے حل کریں گے؟

اسی طرح ہم سائنسی طریقے کے بھی خلاف چل پڑتے ہیں، خصوصاً سوشل سائنسز (معاشیات، سیاسیات، سماجیات وغیرہ) میں۔ اس میں قصور سار ا ہما را نہیں۔ ردعمل پیدا کرنے کے لیے سائنس اور عقل (Reason)کانام لے کر ہمارے عقائد تک پر بلاوجہ حملے کیے گئے۔   ردعمل کی نفسیات سے مسلمان امت نے جتنے فائدے اٹھانے تھے اٹھالیے، –لیکن جب یہ نفسیات، سائنس اور عقل پسندی کو مغربی کہتے ہوئے ان سے بے زاری پیدا کرتی ہے، تو اس سے ہمارا نقصان بھی ہوتا ہے۔

سائنسی ترقی میں ہم ان پاکستانیوں پر بہت انحصار کررہے ہیں، جنھیں سائنس کے مطالعہ و تحقیق سے کوئی بے زاری نہیں ہے،لیکن یہ لوگ بہت کم ہیں۔عوام اور سیاست دان اپنے مسائل سائنس اور عقل کے بجاے جذبات سے ہی حل کرنا چاہتے اوران کو ہربار یہی نظر آتا ہے کہ جذبات سے کام بن جائے گا، مگر وقت گزرنے کے بعد پتا چلتاہے کہ سائنس اور ترقی کا کام محض جذباتی نعروں سے ممکن نہیں۔ خود صحافت اور ابلاغِ عامہ کے میدان پر نظر دوڑائیں تو پاکستانی معاشرے میں شاید ہی کچھ صحافی سائنسی سوچ رکھتے ہوں۔

چاہیے یہ کہ ہم سائنس کو مغربی یا غیرمغربی سمجھنے کے بجاے ایک اعلیٰ انسانی کاوش اور صلاحیت سمجھیں جو غیرمسلم کی طرح ہمارے اندر بھی ہے۔ پھر اسلام نے ہمیں اس صلاحیت کے استعمال کی ترغیب دی ہے۔ ۷۰برس گزرنے کے بعد ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ماضی میں ہمارے ہاں یہ سوچ کیوں پیدا نہ ہوسکی اور آیندہ اس سفر کو کس طرح طے کرنا ہے؟