ڈاکٹر بلال مسعود


آج اگر استعماری قوتیں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے مستقبل کی صورت گری کا اختیار رکھے ہوئے ہیں، تو اس کی بظاہر وجہ یہی ہے کہ یہ قوتیں ہماری دنیاوی کمزوری کی وجہ سے ہم پر حاوی ہوگئی ہیں ۔ غیر ملکی استعمار کے مقابلے میں دنیاوی طاقت حاصل کرنا ہمارا اور ہمارے حکمرانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ مگردوسری طرف ہمارے یہی حکمران، ہمارے ہاں مسلط غاصب طبقے میں بھی شامل ہیں، الا ماشاءاللہ ۔ غاصب طبقے کی اجارہ داری کی وجہ شاید آج کی مسلم امہ کی علمی و ذہنی پس ماندگی اور فکری انتشار ہے۔ اوراگر یہ غاصب طبقہ اسلام کے لیے رکاوٹ بھی ہے تو یہ مغرب کی سائنسی ترقی سے مرعوبیت کی وجہ سے ہے –۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ طبقہ مسلمان اقلیتوں کا بھی سیاسی اور ثقافتی راہنما ہے۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۰۱ء )

 ہماری پسماندگی معاشی ہو، سائنسی ہو یا ذہنی، ایک دنیاوی کمزوری ہے۔ دنیاوی حالت کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کی مثال صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے، جس کاذکر مولانا مودودیؒ نے تفہیمات (حصہ اول) کے مضمون ’آزادی کا اسلامی تصور‘ میں کیا ہے، اور پھر ’رسولؐ کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی‘ میں۔ پہلے مضمون میں مولانا مودودی مرحوم لکھتے ہیں: ’’ایک مرتبہ حضور نے مدینے کے باغبانوں کو کھجور کی کاشت کے متعلق ایک مشورہ دیا۔ لوگوں نے اس پر عمل کیا مگر وہ مفید ثابت نہ ہوا۔ آپؐ سے اس بارے میں عرض کیا گیا تو جواب میں آپؐ نے فرمایا:تمھیں اپنے دُنیوی معاملات کا زیادہ علم ہے‘‘۔ آخری فقرہ اور حوالہ دوسرے مضمون میں ہے۔ یہ ایک دنیاوی مسئلہ تھا، جو ایک دنیاوی تجربہ چھوڑنے سے پیدا ہوا۔ دنیاوی علم کا ذکرصرف ایک حدیث میں ہی نہیں۔ ایسی پانچ مزید احادیث مبارک مولانا کےاِس پہلے مضمون ہی میں ہیں۔

مولانا مودودی بتاتے ہیں کہ جنگ ِ بدر کے موقع پرخیموں کی جو جگہ حضرت خباب بن منذرؓ نے (دنیاوی تجربے سے )تجویز کی اس پر عمل بھی کیا گیا۔ پیوندکاری اور خیموں کے علم کو عقلی علم کہیں، دنیاوی کہیں، یا آج سائنسی یاتجرباتی علم کہیں،یہ قرآن وسنت یا اسلامی علم سے مختلف ہے۔ ایسا کہنا ایک زُمرہ بندی(categorization) ہے۔ یہ تقسیم کوئی سیکولرزم یا گمراہی نہیں قراردی جاسکتی۔ سیکولرزم تب ہے اگر دنیاوی علم دین کے خلاف استعمال کیا جائے ۔ اسلامی روایت میں نقلی اور عقلی (دینی اور دنیاوی) علوم کے تعلق پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ان دونوں طرح کے علوم میں کوئی فرق تو ہے جس کی وجہ سے یہ بحث کرنا پڑی۔ اس لیے یہ فرق ماننا نہ گمراہی ہے اور نہ سیکولرزم۔

دنیاوی علم اسلامی حدوں کا منطقی تقاضا ہے، کیونکہ ایک پابندی کی پیروی کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً اسلام نے کھانے پینے میں حرام سے منع کیا ہے۔ اب حرام کی کوئی فہرست یہ نہیں بتاتی کہ حلال کیا کیاہے؟ مثلاً ’سُور نہیں کھانا‘ ایک پابندی ہے۔ مگر اِس(اور دوسری اسلامی پابندیوں) کی خلاف ورزی کیے بغیر آپ جائز میں سے کچھ بھی کھا سکتے ہیں، جیسے چاول ، روٹی، سالن، پھل، سبزی، وغیرہ۔ ( بدر میں خیموں کی جگہ کی طرح) جائز کھانوں میں انتخاب ایک دوسرے ’علم‘ (جیسے میڈیکل سائنس )کا موضوع تو ہوسکتاہے، اسلام کا نہیں۔ یہ ایک علم میں دوسرےعلم کی گنجایش کی مثال ہے ۔

اسلام بہت سی تفصیلات انسانی تجربے(دوسر ے علم) کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ ہم دو جائز کاموں میں سے اُس کا انتخاب کرسکتے ہیں، جس کے حق میں تجرباتی گواہی زیادہ ہو۔ اسلام میں سائنس کی گنجائش اس طرح سے ہے ۔ اسلام میں مباح (جائز)کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں سائنس اور دیگر انسانی علوم کو وہ پوری آزادی مل سکتی ہے، جو ان کے لیے ضروری ہے۔ مسلمانوں کی دنیاوی کمزوری دُور کرکے انھیں اتنا طا قت ور بنانا کہ استعماری قوتیں ان پر حاوی نہ رہیں ، ایک دنیاوی مسئلہ ہے۔ اس کو حل کرنا سائنس یا سماجی علوم کا بھی کام ہے۔ اور یہ بھی شاید ایک دنیاوی یا انسانی مسئلہ ہی ہے کہ مسلمانوں میں اتنی قابلیت کیسے پیدا کی جائے کہ غاصب طبقے انھیں بے وقوف نہ بنا سکیں؟

اگست ۲۰۲۴ء کے ترجمان القرآن  میں مضمون نگار سید سردار علی صاحب، اسلامی تہذیب کودرپیش مشکلات کے انسانی حل کی بات کرتے ہیں، اور سائنس ایک انسانی علم ہے۔ سردار علی لکھتے ہیں: ’’کوئی سابھی اخلاقی نظام ہو، انسان اپنے اظہار کے لیے بہرحال اسی مادی دنیا کے اسباب اوروسائل کا محتاج ہوتا ہے …اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کی وہ تمام کوششیں، جو مسلم دنیا اور مسیحی مغرب کے درمیان فوجی طاقت، مادی دولت، اور ثقافتی اثر و رسوخ کےمسلسل بڑھتے ہوئے فرق کی تشخیص کے لیے تھیں، سودمند ثابت ہوتیں کیونکہ یہ تشخیص انسانی معاشروں کے عروج و زوال کے معروضی اور آفاقی پیمانوں کے بجائے صرف عقائد کے زیرِ اثر ، جزوی، یا سطحی مفروضوں پر مبنی تھی‘‘۔

آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’دُنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف دینِ اسلام کی راہ سے بھٹکنا ان کی اس کمزوری کا سبب نہیں ہے…جب تک مسلمان تجزیے اور اصلاحِ احوال کی کوششوں کوان مبادیاتی غلطیوں سے پاک نہیں کریں گے، اُس وقت تک، اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کے لیے مسلمانوں کی سب کوششیں ماضی کی طرح لا حاصل ہی رہیں گی…مسلمانوں کے اندر ایسے نظریات نہیں پنپ سکے جو انھیں اطمینان دلاتے کہ سائنس، عقل اور سماجی ارتقاء سے حاصل کیے گئے ذرائع کا استعمال کوئی غیر اسلامی عمل نہیں ہے… جدید ٹکنالوجی، جدید تصورات اور جدید ادارے جب کبھی مسلم معاشروں میں راہ پاتے ہیں تو ان کو بے دلی سے اپنایا جاتا ہے، جس سے کسی بہتری کا امکان نہیں پیدا ہوتا ‘‘۔ مادی دنیا کے اسباب کا مطالعہ سائنس کا موضوع ہے۔ اس میں انسانی معاشروں کے عروج و زوال کے معروضی اور آفاقی پیمانوں کا مطالعہ سماجی علوم (سوشل سائنسز )کاکام ہونا چاہیے، جن میں معاشیات ، بشریات، نفسیات، معاشریات اور سیاسیات شامل ہیں۔ یہ صرف دوافرا د یعنی راقم اور سیّد سردار علی کی تشخیص اور رائےنہیں ہے۔

یہی بات جب اخوان المسلمون کے سابق مرشد عام حسـن الہضـيبی نے اپنی کتاب دعـاة لا قضـاة  (ہم داعی ہیں قاضی نہیں )میں لکھی ہے تو بہت سی ایسی مثالیں دی ہیں جن کا سائنس ہونا واضح ہے۔ اس کتاب کی چوتھی فصل (بعنوان:اِنِ الْحَكُمْ   اِلَّا  لِلهِ) میں لکھا ہے: ’’شریعت میں اعمال فرض ، حرام یا جائز ہیں۔ جو چیز فرض ہے… کسی انسان کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ یہ واجب نہیں ہے…اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے، وہ قیامت تک حرام ہے… جہاں تک مباحات (جائز امور) کا تعلق ہے، مسلمانوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق ان میں ضابطے بنائیں، چاہے وہ فیصلہ ہو، قرارداد ہو، یا قانون ہو،تاکہ ان اصولوں کو نافذ کیا جا سکے جو عمومی مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہیں… اسی طرح عوامی سڑکوں پر ٹریفک کے قوانین، صحت سے متعلق حفاظتی قوانین، زرعی آفات کا مقابلہ کرنے کے قوانین، پانی کے ذرائع کے استعمال کے ضوابط، تعلیم سے متعلق قوانین، مختلف پیشوں جیسے میڈیکل سائنسز، انجینئرنگ، اور فارمیسی کے قوانین، اور ان کو انجام دینے والوں کے لیے مقرر کردہ شرائط بھی شامل ہیں۔ مزید برآں، انتظامی اداروں کو منظم کرنے اور ہرایک کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو متعین کرنے کے قوانین…یہ اس بات کی نفی کے لیے کافی ہے کہ ’’قانون سازی صرف اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے‘‘۔

دنیاوی قوانین، دنیاوی علم کا حصہ ہیں، اور یہ علم ہم نے انسانی تجربے اور منطق سے سیکھنا ہے۔ دنیاوی علوم سیکھے بغیر امت کا احیاء ممکن نہیں ، چاہے یہ علوم ان کے پاس ہوں جواس وقت ہمارے دشمن ہیں ۔ اس صورت حال پر ایک اچھا تبصرہ اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے سابق استاد اور معروف اسلامی محقق ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کا ہے۔ یہ تحریر ’متاع گم گشتہ‘ کے عنوان سے ان کی فیس بک پر ہے:

’’انسانی تہذیب کے ارتقاء میں ہر عہد اور ہر خطے کے لوگوں نے حصہ ڈالا۔ مسلمانوں نے اس کی آخری ترقی یافتہ شکل کو لے کر اس پر اضافے شروع کردیے۔ وہیں سے مغرب نے اس کا آخری سرا پکڑا اور اسے آگے بڑھانے میں جت گیا۔ آج ہم تسخیر کائنات کے ناقابلِ تصور مقام پر کھڑے ہیں۔ لیکن اگر ہم اسے مغرب کی تہذیب کہہ کر رد کریں گے تو واپس غاروں میں چلے جائیں گے۔ یہ پوری انسانیت کا مشترک اثاثہ ہے اور اس کی پرورش میں ہم نے بھی خون جگر جلایا ہے۔ اس پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا مغرب یا کسی دوسری قوم کا ہے۔ کسی بھی انسانی ورثے کو کسی قوم کی طرف منسوب کر کے اسے ترک کرنے کی تلقین کرنا جہالت اور بے نصیبی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔

ڈاکٹر طفیل ہاشمی مزید لکھتے ہیں: ’’البتہ جس طرح درخت ارتقائی مراحل میں بےمصرف برگ و بار اٹھا لیتے ہیں، یا انسان کے بال ناخن وغیرہ بڑھ جاتے ہیں، بالکل اسی طرح تہذیب میں بھی کچھ ایسے عناصر شامل ہو جاتے ہیں، جو ماینفع الناس کے زمرے میں نہیں آتے ۔ صرف انھی کو الگ کرنا ہوتا ہے۔ مغرب میں مدون بے شمار قوانین، ادارے، نظام اسی زمرے میں آتے ہیں کہ وہ مشترکہ انسانی اثاثے ہیں اور تزئین گلستاں میں ہمارا خون بھی شامل رہا ہے۔ اس لیے جہاں آپ کھڑے ہیں اور جن قوتوں کے مالک ہیں، جو خزانے آپ کے پاس آ چکے ہیں انھیں ’دوسروں کا مال‘ کہہ کر رد کرنے کے بجائے اپنی متاع گم گشتہ سمجھ کر اس میں اضافے کی سعی کریں۔ ایک بار ہم نے فیڈرل شریعت کورٹ میں پاکستان پینل کوڈ کا مطالعہ شروع کیا۔ اس ٹیم میں میرے اور ڈاکٹر محموداحمد غازی صاحب کے علاوہ اور بھی متعدد احباب شامل تھے۔ ہم نے دیکھا کہ یہ قانون جو یہاں برٹش پینل کوڈ کے تحت رائج تھا، اس کی [کم و بیش ہر] دفعہ کسی نہ کسی اسلامی فقہ سے ہم آہنگ ہے۔ کئی صدیاں پہلے ہونے والی اس کی تدوین میں فقہ مالکی کے سکالر بھی شریک رہے‘‘۔

بوسنیا کے پہلے( مسلمان) صدر اور معروف مصنف علیجاہ عزت بیگووچ [م:۲۰۰۳ء] نے اپنی کتاب Islam Between East and West  کے دوسرے باب میں یہی بات اس طرح لکھی ہے: ’’ترقی civilization میں ہوتی ہے، جس کا اہم حصہ سائنس اور بہت سے ادار ے ہیں، جب کہ مذہب اور کئی ’اخلاقی اقدار‘ cultureکا حصہ ہیں‘‘۔ اردو میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترقی ’تمدن‘ میں ہوتی ہے اور اسلام ہماری تہذیب کی بنیادہے۔ تہذیب تو اسلامی یا غیراسلامی ہو سکتی ہے ، مگر ’تمدن‘ اسلامی غیراسلامی نہیں ہوتا۔ تمدن صرف قدیم یا جدید ہوتا ہے۔ جدید تمدن کو صرف اس وجہ سے رَد کرنا کہ اس پر مغربی تہذیب کے اثرات پڑگئے ہیں، کوتاہ نظری ہے ۔

’تمدن‘ کا لفظ زیادہ استعمال نہیں ہوتا، اس لیے طفیل ہاشمی صاحب نے اسے مغربی تہذیب کہا ہوگا۔ استعماری قوتیں مسلمانوں کے مستقبل کی صورت گری کا اختیار اپنے پاس اس لیے رکھے ہوئے ہیں کیونکہ آج مسلمان کمزور ہیں، یعنی ہم ’تمدن‘ میں پیچھے رہ گئے ہیں ۔ یہ مسئلہ کسی ایک گروہ یا جماعت کا نہیں ہے، اوراسے حل کرنے میں ہر ایک کو حصہ ڈالنا ہے۔ کسی پس ماندہ ملک میں ایک عام فرد کروڑوں میں سے ایک ہوسکتا ہے ۔ ایک پڑھا لکھا انسان لاکھوں میں سے ایک ہو تو ترقی کی کوشش میں اس کا لاکھواں حصہ ہونا چاہیے۔ ایک اہم سیاسی پارٹی سیکڑوں یا درجنوں قوتوں میں سے ایک ہوگی۔ اس کو ترقی کے لیے سو میں ایک یا درجن میں سے ایک حصہ ڈالنا چاہیے۔

ترقی کرنے کا کوئی طریقہ اگر اسلام کے خلاف ہو تو اس کا کوئی ایسا متبادل راستہ بھی ہوگا جس میں اسلام کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ یہ دوسرا متباد ل اختیار کیا جائے نہ کہ پہلا۔ اس کام کے لیے جدوجہد شایدصرف اسلام دوست طبقے ہی کریں۔ مسلم اکثریتی ملکوں میں اس مقصد کےلیے دباؤ برقرار رکھا جانا چاہیے۔

مسلم اقلیتی ملکوں کے کچھ عملی مسائل ایسے ہیں، جن کا حل شایدمقامی حالات کے مطابق ہی سوچا جاسکتا ہے۔ فکری اقدامات اس صورت حال کے لیے سوچے جا سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی دنیاوی حالت مناسب ہو اور ان کا بڑا مسئلہ اپنے عقائد اور تہذیب کی حفاظت ہو۔ ایک وقت میں بھارت میں بھی مسلمان اس مسئلے پر توجہ دینے کے قابل تھے، اور وہاں ڈاکٹر ذاکر نائیک اور دیگر افراد نے اسلامی عقائد کے پھیلاؤ کے لیے بڑا مؤثر اور چیلنجنگ کام کیا۔ بھارت میں اسلام پر پابندیاں زیادہ شکلوں میں سامنے آئی ہیں، مگر فرانس وغیرہ میں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔

تاہم، مغربی ممالک میں اپنا پیغام پھیلانے کی آزادی ہے۔ یہاں اگر مذہب کے خلاف لکھا اورکہا جارہا ہے تو مذہب کی حمایت میں بھی آوازیں اورتحریر یں کچھ کم نہیں ۔ دونوں طرف پہلا موضوع عیسائیت ہی ہے۔ لیکن اگر ایک عیسائی مبلغ اِن عقائد کے حق میں اچھا اور مؤثر لکھے جو اسلام اور عیسائیت میں مشترک ہیں (جیسے خدا کا وجود، انسانی روح اور کچھ مذہبی اخلاقیات)، تو ہم اس مشترکہ کام کو استعمال کرسکتے ہیں، کم از کم فلسفے ، ریاضی اور سائنس کے نام سے ان پیچیدہ سوالوں کے جواب دینے میں جہاں خود آج کے بہت سے مسلمان علما تفصیلات میں جانے کی قابلیت نہیں رکھتے۔

مسعودہ بانو کی کیمبرج یونی ورسٹی سے شائع شدہ کتاب (۲۰۲۰ء):The Revival of Islamic Rationalism  کا ایک مجموعی تاثر یہ ہے کہ: مشرق کے مقابلے میں مغربی معاشروں میں زیادہ ذہین افراد اسلامی علوم حاصل کرنے کے لیے زندگیاں لگا رہے ہیں اور کئی تعلیمی ادارے بھی قائم کرچکے ہیں۔ اس کی وجہ مغرب میں نسبتاًمعاشی بے فکری ہوسکتی ہے۔ اسلامی عقائد کے لیے جس طرح ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھار ت میں کام کیاتھا، اب یورپ میں حمزہ زوٹز (Hamza Tzortzis) اور دیگر حضرات یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ مغرب میں مذہب کے حق میں دلائل کا منطقی معیار ہے۔ مگریہ سارا علمِ کلام ابھی تک روحانیت ، مناظرہ بازی یا موجود تحریریں اکٹھا کرنےسے اُوپر اُٹھ کر انسانی تمدن کے ارتقاء کو اسلامی راہنمائی دینے کے مرحلے میں داخل نہیں ہوا ہے۔  اس مختصر تحریر میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ اسلام میں ایک دوسرے علم( سائنس) کی گنجایش ہے۔  اسی انداز سے سائنس اور تمدن کے ارتقاء کے ساتھ ایک تہذیب اور ہدایت کی منطقی گنجایش کی نشان دہی کی جاسکتی ہے اور لازمی طور پر کی جانی چاہیے (ایک سائنسی اصول کی پیروی بھی کئی طرح سےممکن ہے)۔ انسانی، روحانی، معاشرتی اور تہذیبی زندگی میں رہنمائی کے لیے اسلام نے جو ہدایت عطا فرمائی ہے، اس کا فہم اور روحِ عصر کا چیلنج ہمارے سامنے رہنا چاہیے۔

بہرصورت،امت مسلمہ کی احیاء کی کسی بھی بحث میں پہلاموضوع ’اسلام اور دنیاوی علوم کا تعلق‘ ہونا چاہیے۔ دُنیاوی علوم میں سائنس، سماجی علوم اور انسانی اقدار شامل ہیں۔ مسلم اکثریتی ممالک میں یہ بھی دیکھناہے کہ اسلام کی خلاف ورزی کیے بغیر دنیاوی علو م کو ترقی کے لیے کیسے استعمال کیا جاسکتاہے

پاکستان بنتے وقت اس میں صرف ایک (پنجاب)یونی ورسٹی تھی اوراب سرکاری و نجی   کم وبیش ۱۸۳یونی ورسٹیاں ہیں۔اس نوعیت کے کئی پیمانےہیں، جن کے مطابق ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ تاہم دوسرے معیارات کے مطابق صورت حال مایوس کن ہے۔

سائنس ایک ایسا میدان ہے جس میں انسانوں کی مجموعی دانش نے حصہ ادا کیا ہے۔ خود  ہم نے ہرایک سےسائنس سیکھی اور ہر ایک کے ساتھ کام کیا چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم۔   پاکستان میں اس سفر کا بیان ڈاکٹر رفیع محمد چودھری سے شروع کر سکتے ہیں، جنھوں نے کیمبرج (انگلینڈ) میں نوبل انعام یافتہ ردر فورڈسے ڈاکٹریٹ کی۔ پاکستان بننے کے بعد برطانیہ چھوڑ کر یہاں آئےاوربرطانیہ کی مدد سے گورنمنٹ کالج لاہور میں ہائی ٹینشن لیبارٹری بنائی۔ یہیں سے شروع ہونے والے سفر کے تحت آخر کا رپاکستان نے ایٹم بم بنایا۔ ان ابتدائی برسوں میں پاکستانی سائنس دان حکومت پاکستان سے زیادہ یورپ کی مدد لیتے رہے۔ساٹھ کے عشرے سے حکومت پاکستان نے مدد کرنا شروع کی، مگر اس طرح پاکستان میں سائنسی تحقیق زیادہ ترحکومتی اداروں میں ہونے لگی، جب کہ دنیا میں زیادہ تحقیق یونی ورسٹیوں میں ہی ہوتی ہے۔

ہمارے مخصوص جغرافیائی حالات کے سبب ہماری سائنس کا آخر کارسب سے بڑا مقصد ایٹم بم اور میزائل پروگرام بنا۔ ایٹم بم بنانے کے اعلان کے بعد حکومتی اداروں نے یونی ورسٹیوں سے تعاون بڑھایا۔قائد اعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کا اس ضمن میں کلیدی کردار رہا، اور نیشنل سنٹرفار فزکس کی تعمیر ایک اہم سنگ ِ میل ثابت ہوا۔ اس میں بیرونِ ملک پاکستانی سائنس دانوں اور انجینیروں کا بھی تعاون حاصل رہا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو۱۹۷۹ء میں نوبل پرائز ملا اور انھوں نے ۱۹۶۴ء میں اٹلی میں ’عبدالسلام مرکز براے تھیوریٹیکل فزکس‘  قائم کیا، جس میں تربیت حاصل کرنے والے پاکستانی سائنس دانوں نے پاکستان میں سائنس کی ترقی میں بڑا حصہ ادا کیا۔ –پاکستان میں موجود سائنسی ادارے بھی خاصی حد تک یورپی، امریکی اور اب چینی اور جاپانی اداروں کی مدد سے ہی کام کرتے ہیں۔

بیرونِ پاکستان سے اعلیٰ مہارت حاصل کرنے اور وطنِ عزیز کی خدمت کے لیے پوری زندگی تج دینے والی ایک روشن ترین مثال ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں، جنھوں نے ایٹمی پروگرام کی تعمیروتکمیل میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ –کیمسٹری میں اس طرح کا ایک اہم ادارہ ’حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری‘، کراچی ہے، جہاں سے معروف سائنس دان ڈاکٹر عطاءالرحمان نے جنرل مشرف کے دورِحکومت میں سائنس کو بہت ترقی دی۔یاد رہے، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں زراعت، میڈیکل اور بیالوجی کے ادارے بھی ہیں۔

حکومت نے اپنے اداروں کے علاوہ یونی ورسٹیوں کی بھی مالی امداد کی۔یہ بھی ایک اچھا اقدام ہے۔ دراصل ہر طرح کے سائنسی علوم کی تدریس و تربیت حکومتی اداروں میں نہیں ہوتی۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۲ء تک یونی ورسٹیوں کی یہ امداد یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے ذریعےملتی رہی۔ ۲۰۰۲ء کے بعد اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن میں تبدیل کر دیا گیا، اور ۲۰۰۸ءتک ڈاکٹر عطاءالرحمان کی قیادت کے دوران میں پاکستان میں تحقیق کی سہولیات کئی گنازیادہ ہوئیں اور نتیجے میں پاکستان میں، تحقیق ۴سے ۱۰گنا تک زیادہ ہوئی اور یہ ترقی آج بھی جاری ہے۔

موجودہ صورتِ حال کو دیکھا جائے اور حقیقی قومی تقاضے پیش نظر ہوں تو سائنس میں ترقی کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔دوسرے یہ کہ اس ’ترقی‘ کےمطلب اور مفہوم پرکچھ اختلاف بھی موجود ہے ۔اس ترقی میں کہیں اعداد وشمار کی شعبدہ بازی بھی شامل ہوسکتی ہے اور ایسا کیا بھی جارہا ہے ۔ یونی ورسٹیاں کئی بار وہ حرکتیں بھی کرتی ہیں، جو میڈیاکے چینل اپنی رینکنگ یا ریٹنگ میں اضافے کے لیے کرتے ہیں۔ سائنس کے بہت سے اساتذہ نے اپنےتحقیقی مقالات کی تعداد بڑھانے کے ایسے گُر سیکھ لیے ہیں، کہ جن پر جتنا سوچا جائے، انسان اتنا ہی ندامت میں ڈوبتا چلاجاتا ہے۔تاہم، تحقیق میں سارا اضافہ کھوکھلا نہیں ہے۔

–اگلا سوال یہ ہے کہ: ’’تحقیق کی اس ترقی سے کیا پاکستان کے عوام کی حالت اچھی ہو جائے گی؟‘‘ اس کا کوئی سادہ جواب ’نہیں‘ ہے۔ تحقیق ویسے بھی اپنے عوام کی بہتری کے لیے کم اور زیادہ اس (اکثرغیر ملکی) رسالے کے لیے کی جاتی ہے، جو اسے شائع کرسکتاہے۔اس لیے عملاً سب سے زیادہ تحقیق، ترقی یافتہ ملکوں کے سائنس دانوں کے پراجیکٹس پر ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی بہت سے ملکوں نے اسی تحقیق سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی ہے۔ پاکستان نے بہرحال امتیازی ترقی نہیں کی، سواے انفارمیشن ٹکنالوجی کے، جس میں ہم کچھ بنانے بھی لگ گئے ہیں۔ ورنہ زیادہ تر تو ہم     خام مال ہی برآمد کرتے ہیں۔

–تحقیق کے رُخ کو قومی ضروریات کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر  غیر ملکی سائنس دانوں کے پراجیکٹس پر کام کے نتیجے میں زیادہ اہم چیز وہ صلاحیت اور مہارت ہے، جو ہمارے سائنس دانوں میں قومی ضروریات پورا کرنے میں مددگار ہو۔ ہمارے ہاں ایسی منصوبہ سازی کسی حد تک فوج کرتی ہے۔ اس کے برعکس –عام معاشرہ زیادہ تر اس جاگیر دارانہ مزاج میں جکڑا ہوا ہے کہ کسی قسم کی ترقی ہو یا نہ ہو۔ مقام و مرتبے کا رُعب داب برقرار رہنا چاہیے۔ جدید دور میں ترقی کے لیے سرمایہ دارانہ مقابلے کی فضا عام طور پر بہتر ثابت ہوئی ہے کہ جس نے منڈی پر حاوی ہونے کے لیے سائنس اور ٹکنالوجی کی سرپرستی کرکے ناقابلِ تصور سرمایہ سمیٹا، اور انسانوں کے لیے سہولتیں بھی مہیا کیں۔ ہمارے ہاںصنعت نہ ہونے کے برابر ہے، اور ا س کے ذمہ دار سائنس دان نہیں ہیں۔دراصل حکومت اور صنعت کار کومسائل سائنسی اور عقلی انداز سے  حل کرنے کے بجاے بنے بنائے حل اور مشینیں باہر سے منگانا ہی آ سان لگتا ہے۔

اصل کمی اس سوچ اور ہمت کی ہے کہ ہم خود بھی سائنسی صلاحیت حاصل کرسکتے ہیں۔ عموماً مسلم معاشرے سائنس کو اپنا سمجھتے ہی نہیں۔ٹکنالوجی کی اہمیت ہم سب مانتے ہیں، مگر اس کی بنیاد جس سائنس پر ہے، اس کے بارے میں ہمارا ذہن واضح نہیں۔ ہم دوسروں کی پیدا کردہ سائنس سے فائد ہ تو اٹھانا چاہتے ہیں، مگر خود سائنسی طور پر سوچنا نہیں چاہتے۔اس نفسیاتی کیفیت کا ہماری تعلیم پر اثر یہ پڑا ہے کہ ہم باہر سے آئے نتائج یاد کرنے (رٹنے) میں مصروف رہتے ہیں، مگر ان کااپنی لیبارٹری یا زندگی میں استعمال نہیں کرسکتےیا نہیں سوچتے۔ اگر ہم خود سائنسی انداز سے نہیں سوچیں گے تو اپنے مسائل کیسے حل کریں گے؟

اسی طرح ہم سائنسی طریقے کے بھی خلاف چل پڑتے ہیں، خصوصاً سوشل سائنسز (معاشیات، سیاسیات، سماجیات وغیرہ) میں۔ اس میں قصور سار ا ہما را نہیں۔ ردعمل پیدا کرنے کے لیے سائنس اور عقل (Reason)کانام لے کر ہمارے عقائد تک پر بلاوجہ حملے کیے گئے۔   ردعمل کی نفسیات سے مسلمان امت نے جتنے فائدے اٹھانے تھے اٹھالیے، –لیکن جب یہ نفسیات، سائنس اور عقل پسندی کو مغربی کہتے ہوئے ان سے بے زاری پیدا کرتی ہے، تو اس سے ہمارا نقصان بھی ہوتا ہے۔

سائنسی ترقی میں ہم ان پاکستانیوں پر بہت انحصار کررہے ہیں، جنھیں سائنس کے مطالعہ و تحقیق سے کوئی بے زاری نہیں ہے،لیکن یہ لوگ بہت کم ہیں۔عوام اور سیاست دان اپنے مسائل سائنس اور عقل کے بجاے جذبات سے ہی حل کرنا چاہتے اوران کو ہربار یہی نظر آتا ہے کہ جذبات سے کام بن جائے گا، مگر وقت گزرنے کے بعد پتا چلتاہے کہ سائنس اور ترقی کا کام محض جذباتی نعروں سے ممکن نہیں۔ خود صحافت اور ابلاغِ عامہ کے میدان پر نظر دوڑائیں تو پاکستانی معاشرے میں شاید ہی کچھ صحافی سائنسی سوچ رکھتے ہوں۔

چاہیے یہ کہ ہم سائنس کو مغربی یا غیرمغربی سمجھنے کے بجاے ایک اعلیٰ انسانی کاوش اور صلاحیت سمجھیں جو غیرمسلم کی طرح ہمارے اندر بھی ہے۔ پھر اسلام نے ہمیں اس صلاحیت کے استعمال کی ترغیب دی ہے۔ ۷۰برس گزرنے کے بعد ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ماضی میں ہمارے ہاں یہ سوچ کیوں پیدا نہ ہوسکی اور آیندہ اس سفر کو کس طرح طے کرنا ہے؟