حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جو نہایت صحیح اور معتبر روایتیں کتب ِ حدیث میں وارد ہوئی ہیں، وہ ملاحظہ ہوں: بخاری میں حضرت علیؓ کے صاحب زادےمحمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ ’میں نے اپنے والد ماجد سے پوچھا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟‘ فرمایا: ’ابوبکرؓ‘۔ میں نے عرض کیا: ’پھر کون؟‘ فرمایا: ’عمرؓ‘۔ اس کے بعد مجھے اندیشہ ہوا کہ میں پھر یہی سوال کروں گا تو یہ کہہ دیں گے : ’عثمانؓ‘۔ اس لیے میں نے پوچھا: ’اُن کے بعد کیا آپ ہیں؟‘ فرمایا:’ مَا اَنَـا اِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ،[بخاری، کتاب المناقب، حدیث ۳۴۸۹](میں کچھ نہیں ہوں مگر بس مسلمانوں میں سے ایک آدمی)۔ یہ جواب ٹھیک اُس بلند اور پاکیزہ سیرت کے مطابق ہے جو سیّدنا علیؓ کی تھی۔ اُن جیسے عالی ظرف انسان کا یہی مقام تھا کہ اپنے مرتبےکی فضیلت بیان کرنے سے اجتناب فرماتے اور اپنی ذات کو عام مسلمانوں کی صف ہی میں رکھتے۔
بیہقی [المدخل اِلی السنن الکبریٰ] اور مسنداحمد [فضائلِ صحابہؓ]میں حضرت علیؓ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ: مَا کُنَّا نُبْعِدُ اَنَّ السَّکِیْنَۃَ تَنْطِقُ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ (ہم لوگ اس بات کو بعید نہیں سمجھتے تھے کہ سکینت عمر کی زبان سے بولتی ہو)۔
بخاری و مسلم اور مسنداحمد میں ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ: جب حضرت عمرؓ کا انتقال ہوگیا اور آپ کو غسل دینے کے لیے تختے پر لاکر رکھا گیا، تو چاروں طرف لوگ کھڑے ہوئے ان کے حق میں دُعاے خیر کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص پیچھے سے میرے شانے پر کہنی ٹیک کر جھکا اور کہنے لگا: ’’اللہ تم پر رحمت فرمائے، تمھارے سوا کوئی ایسا نہیں ہے، جس کے متعلق میرے دل میں یہ تمنا ہو کہ میں اُس کا سا نامۂ اعمال لے کر اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوں۔ مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ اللہ تم کو ضرور اپنے دونوں رفیقوں (یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ ہی رکھے گا، کیوں کہ میں اکثر حضوؐر کو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ فلاں جگہ مَیں اور ابوبکرؓ و عمرؓ تھے۔ فلاں کام میں نے اور ابوبکرؓ و عمرؓ نے کیا۔ فلاں جگہ مَیں اور ابوبکرؓ و عمرؓ گئے۔ فلاں جگہ سے مَیں اور ابوبکرؓ و عمرؓ نکلے‘‘۔ ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ: ’میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ علیؓ بن ابی طالب تھے‘۔(’رسائل و مسائل‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۸، عدد۵، ذی قعد ۱۳۷۶ھ، اگست ۱۹۵۷ء، ص ۵۶-۵۹)