ہماری بری فوج نے ملک کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں، لیکن ہماری اعلیٰ عسکری قیادت نے اپنی نا اہلی کے سبب ان قربانیوں کو ضائع کر دیاہے اور ملک کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ مثلا قیام پاکستان کو ۱۰سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ جنرل ایوب خان نے امریکا کو اپنا آقا بنا لیا اور پچھتانے پر کتاب لکھ ڈالی لیکن اس کمبل نے آج تک ہماری جان نہیں چھوڑی۔ ایوب خان مایوس ہوئے تو اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا، جنھوں نے ایسی حکمت عملی اپنائی کہ ملک دولخت ہوگیا۔ ۱۹۷۱ء میں لیفٹیننٹ جنرل نیازی نے سقوط ڈھاکہ کے معاہدے پر دستخط کر نے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے آقاوں کی خوش نودی میں منتخب وزیراعظم کو پھانسی دینے میں کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی سلامتی کو دائو پر لگادیا، اور برادر پڑوسی ملک افغانستان کے خلاف امریکا کی جنگ میں شامل ہونے سے نہ صرف پاکستان پر دہشت گردی کا عذاب نازل ہوابلکہ افغانستان کے ساتھ ایک نیا محاذ بھی کھل گیا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ اس جرم میں ہماری عدلیہ، انتظامیہ، کچھ سیاسی جماعتیں اور اشرافیہ برابر کے شریک رہے ہیں۔
جنرل مشرف کی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری فوج افغانستان کی جنگ آزادی سے لاتعلق ہوچکی ہے اور ہم بھی نہیں سوچتے کہ ۴ کروڑ ۵۰ لاکھ پختون ڈیورنڈ لائن کی دونوں جانب رہتے ہیں۔ ان میں سے ۶۰ فی صد پاکستان میں ہیں، ۴۰ فی صد افغانستان میں اور ۱۰ فی صد پاکستان کے دل، یعنی کراچی میں آباد ہیں، جنھوں نے گذشتہ تین دہائیوں میں دنیا کی بڑی سے بڑی قوتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ ان کی اس جدوجہد آزادی میں پاکستانی پختونوں نے ان کی بھرپور مدد کی ہے اور یہ مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ وہ غاصب قوتوں سےاپنی آزادی چھین نہیں لیتے۔ایک عرصے سے پختون قوم کو تقسیم اور علیحدہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ گذشتہ ایک سو پچیس سال سے ڈیورنڈ لائن اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ طاقت کا استعمال ہمیشہ ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہواہے اور اب قائد اعظم کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کاوقت آگیا ہے۔ قائد اعظم نے پختون قوم کو متحد رکھنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں سے فوج کو ہٹا لیاتھا اور اس کی نگرانی پختونوں کو سونپی تھی۔قائد اعظم کا ویژن پختون قوم کی یک جہتی اور اس کے پھیلائو سے متعلق تھا جوڈیورنڈ لائن سے آگے کوہ ہندوکش تک اوراس سے آگےآمو دریا تک پھیلی ہوئی ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جسےجھٹلانے کی کوشش میں ہم نے ان سرحدوں پر دوسرا محاذ کھول لیاہے۔
ان تمام ترغلطیوں کے باوجود ہماری فوج نے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں وہ صلاحیت حاصل کرلی کہ جس کے سبب اسے دنیا کی بہترین افواج میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں جو ہمارے تجدیدی عمل کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوئیں۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں Armed Forces War College کی بدولت ہماری عسکری قیادت اعلیٰ عسکری تعلیم سے آراستہ ہو چکی تھی اور فوجی فارمیشنوں،اداروں اور اکثر عسکری شعبوں کی سربراہی وار کالج کے فارغ التحصیل افسروں کے ہاتھوں میں تھی، جنھوں نےبّری فوج کے تمام نظام کو ترقی یافتہ بنانے کا جامع منصوبہ بنایا تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے کثیرالجہتی خطرات سے احسن طریقے سے نمٹا جا سکے۔دوسری بڑی تبدیلی چین کے ساتھ ہماری دفاعی شراکت مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد نوعیت حاصل کر چکی تھی۔اسی شراکت کی بدولت ہماری فوج ۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعد اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ ہماری عسکری قیادت اب اعلیٰ عسکری تعلیم سے مزین ہے اور ساتھ ہی ہمیں چین کی غیرمشروط مدد بھی حاصل ہے، جسے ہم رحمتِ ایزدی سمجھتے ہیں۔یہی دو اہم عوامل ہیں جن کی بدولت پاکستانی فوج ایک جدید ترین فوج بننے کے اہداف حاصل کرسکی ہےاور ۹۰فی صدتک خودانحصاری اور چالیس دنوں تک جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی حاصل ہے،الحمد للہ۔
ہماری فوج کا ترویجی عمل ایک تزویراتی حقیقت ہے جو دشمنوں کے عزائم کے خلاف مضبوط چٹان کی مانندہے، قومی سلامتی اورترقی و کمال کی ضمانت بھی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان اس اشتراک کی بدولت ہمارا تزویراتی محور (Strategic Pivot)قائم ہے۔ الحمدللہ ہم نےاب وہ صلاحیت حاصل کر لی ہےجس کی بدولت اپنی تزویراتی سوچ کوجنگی منصوبوں سے ہم آہنگ کیاہے،یعنی پہلے حملہ کرنے (Pre-emption)اور جارحانہ دفاع کی صلاحیت (Offensive Defence) میں حقیقت کا رنگ بھرنے اورحریف قوت کے خلاف فیصلہ کن جنگ جیسے اہداف حاصل کیےہیں۔یہ ایسی صلاحیت ہے جو بذاتِ خود مزاحمت(deterrence ) بھی ہے اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی فتح یاب ہونے کی نویدبھی۔ یہ اَمر باعث اطمینان ہے کہ جدوجہد کی اس گھڑی میں ہم تنہا نہیں ہیں، قوم ہمارے ساتھ ہے۔ یہ ہماری قوم ہی ہے جس نے انتہائی مشکل حالات کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا ہے بلکہ عزت و وقار سے زندگی گزارنا بھی جانتی ہے۔
دوسری اہم بات جو ہمارے لیے انتہائی حوصلہ افزا ہے وہ ہماری مغربی سرحدوں کے پار افغانستان میں حریت پسندوں کی جدوجہدآزادی کی کامیابی ہے جواب اپنے منطقی انجام کے قریب ہے۔سوپر پاورز کے توسیع پسندانہ عزائم کے دن گزر چکے ہیں اور عنقریب افغانیوں کے غلبے کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔
ہماری فوج کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا احساس ہے اور اپنی قومی ذمہ داریوں کا بھی ادراک ہے لیکن ہماری سب سے بڑی کمزوری ہماری قوم کی پراگندا سوچ ہے جوبے حد خطرناک ہے۔ اس خطرے سے ترکی کے صدر نے پاکستان کے دورے کے موقعے پر قوم کو آگاہ کیا تھاکہ: ’’پاکستان کی سلامتی کو فتح اللہ گولن طرز کے خطرات کا سامنا ہے‘‘ جس سے نمٹنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاسی و نظریاتی تفریق خطرناک ہوتی جا رہی ہے جو فوری تدارک کی متقاضی ہے۔ہماری نظریاتی تفریق اور نظریات سے عاری موجودہ سیاسی نظام ان مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو ایک خطرناک صورت حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نظام حکومت منتخب کرنے کااختیاردیا ہے جس کی بنیاد قرآن و سنہ کے اصول ہیں۔یہی ہمارا نظریۂ حیات ہے جس کی تشریخ ۱۹۷۳ء کے آئین میں ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’پاکستان کا نظامِ حکومت جمہوری ہوگا، جس کی بنیادقرآن و سنت کے اصولوں پرقائم ہو گی‘‘۔
لیکن بدقسمتی سے ہم نےقرآن و سنت کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف جمہوریت کو ہی ترجیح دی ہے۔نہ ماضی کی کسی حکومت کو، نہ موجودہ حکومت کو اور نہ متعدد مذہبی جماعتوں کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ قوم کی نظریاتی شناخت کو محفوظ بنانے کی طرف توجہ دیتیں۔ ہم اپنے بچوں کو مسلم شناخت دینے میں ناکام ہوئے ہیں، کیوںکہ ہمارا نظام تعلیم قرآن و سنت کے اصولوں سے یکسر عاری ہے۔ ہماری سیاسی و نظریاتی تفریق کاسبب ہمارا برسرِ اقتدار طبقہ ہے، جس نےہمارے معاشرے کولبرل ’سیکولر‘ روشن خیال اور قوم پرست گروپوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ مذہبی طبقات نظرانداز ہونے کے سبب نمایاں سیاسی مقام نہیں رکھتےاور نہ حکمرانی سے ہی متعلق معاملات یا پالیسی سازی کے عمل میں ان کا کوئی عمل دخل ہے۔وہ تو بذات خود زیادتی کا شکار ہیں اور ہمارے عوام انھیں ووٹ نہیں دیتے۔ ہماری دینی جماعتیں اپنی ظاہری اور باطنی کاوشوں کے باوجود جن کا پرچار میڈیا پر دن رات ہوتا ہے، پاکستانی قوم کے رخ کودرست سمت میں رکھنے میں ناکام ہیں۔
ہمارے قومی نظریۂ حیات کے دونوں عناصر کے مابین توازن پیدا کرنے کا ایک ہی راستہ ہے، یعنی جمہوریت ہمارا نظام حکمرانی ہوگا اور قرآن و سنت اس نظام کو نظریاتی تحفظ فراہم کریں گے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار جنھوں نے ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحفظ اوردفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے‘‘، وہی قومی نظریۂ حیات کے تقدس کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ لہٰذا،موجودہ ابتر صورت حال کے تدارک کی ذمہ داری جہاں ارباب اختیار پر عائد ہوتی ہے وہاں سیاسی اور دینی جماعتوں کی بھی اوّلین ذمہ داری ہے، کیوںکہ لبرل اور سیکولر عناصر ملکی معاملات سے دینِ اسلام کو الگ کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کی دانست میں ’’انسانی بقا کا محور اللہ تعالیٰ کی ذات کے بجاے ترقی پسندانہ نظام ہے جو شخصی خودمختاری کا قائل ہے۔اوّلیت اللہ تعالیٰ کی ذات کو نہیں بلکہ انسان کو حاصل ہے‘‘( نعوذ باللہ)۔ بنگلہ دیش اس امر کی واضح مثال ہے لیکن پاکستان کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔خدانخواستہ اگر ویسی صورت حال پیدا ہوئی تو پاکستان ایک طوفان میں گھر جائے گا۔ کچھ ایسے ہی حالات۶۶-۱۹۶۵ء میں انڈونیشیا کو درپیش تھے جب سوشلزم اور کمیونزم کی تبلیغ کی جارہی تھی، جس کےخلاف وسیع پیمانے پراحتجاجی تحریک چلی اور خانہ جنگی ہوئی، جو ڈیڑھ ملین عوام کی موت کا سبب بنی اورآخر کار صدر سہارتو نے اقتدار سنبھالا۔ خدانخواستہ اگر ہم اس گرتی ہوئی صورتِ حال کا تدارک کرنے میں ناکام رہے توہمیں تباہ کن خطرات کا سامنا ہوگا کیوںکہ پاکستان انڈونیشیا کی طرح جزیرہ نہیں ہے۔ہمارے پڑوس میں انقلابی ایران اور افغانستان جیسے جہادی ممالک ہیں جو خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوگا جسے سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
آج ہم اس مقام پر ہیں جہاں ہماری افواج اپنی جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن ہماری سیاسی و مذہبی قیادت اپنی نظریاتی سرحدوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔ہمارا نظریۂ حیات کمزور ہو چکا ہے اور جب نظریۂ حیات کمزور ہو جائے تو قوم باوقار زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ہمارے ایک دانش ور کے بقول: ’’ہماری قوم آج ان مسائل کے بجاے اپنے آپ سے برسرِپیکار ہے جو ایک تباہ کن شغف ہے۔ اس میں جیت ہی ہماری سب سے بڑی ہار ثابت ہوگی‘‘۔