پاکستان میں علمی وادبی تحقیق زوال کاشکار ہے۔ اس زوال کاپاکستان کی سیاسی تاریخ سے گہرا تعلق ہے۔ سیاسی نشیب وفراز(فراز سے نشیب کی طرف سفر)اورحکمرانی کا (گوارا یا بہتر معیار سے پست ہوتا ہوا)معیار، زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح علم وتحقیق اورعلمی وتحقیقی اداروں پر بھی اثر انداز ہواہے۔
قیامِ پاکستان کے اوائل میں نئی یونی ورسٹیوںاورمتعددعلمی اداروں کے قیام کی صورت میں بعض خوش آیند اقدام کیے گئے ،جس کے نتائج حوصلہ افزاتھے(اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض پہلوؤں سے چند اداروں کی کارکردگی مایوس کن تھی)۔
جس طرح ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں جڑنہیںپکڑسکی اور جمہوریت کے پودے کو بار بارنوچ کر،جڑسے اُکھاڑپھینکاجاتارہا،اسی طرح اداروں میں بھی من پسنداورنااہل افراد کا تقرر کیا جاتا رہا،خصوصاً ۱۹۷۲ء کے بعد کے اَدوار میں تواہلیت اورمیرٹ کوایک طرف ہی نہیں، بالاے طاق رکھ دیاگیا۔ مثال کے طور پر کم و بیش تمام ہی وفاقی تحقیقی و ادبیاتی اداروں کے سربراہان کچھ ایسا تعارف رکھتے ہیں کہ جنھیں تحقیق و تفکر سے کم ہی واسطہ ہے۔اسی طرح بیرون ملک (برطانیہ، جرمنی وغیرہ)پاکستان اوراقبال مسندوں(chairs)پرمیرٹ سے ہٹ کر ایسے من پسند افراد کا تقرر کیا جاتا رہا جواِن مسندوںکے لیے مقررہ ضابطوں اور شرائط ومعیارپرقطعی پورے نہیں اُترتے تھے (یا پھر ایسی متعدد مسانیدِ دانش (chairs) آج تک خالی پڑی ہیں)۔
ایسے سربراہ اور’عالم‘اپنے مربیّوں کی خوش نودی کو مقدم سمجھتے تھے چنانچہ لاہور کے ایک علمی ادارے کے سربراہ نے حاکمِ وقت کے اشارۂ ابرو پرپہلے توملّاپر چاند ماری کی اور کندھا علّامہ اقبال کا استعمال کیا۔پھرانھیں اقبال کی شاعری میں بھی کیڑے نظرآنے لگے۔مغربی تہذیب پراقبال کی تنقیدان کی آنکھوںمیںکانٹے کی طرح کھٹکنے لگی اورانھوں نے بڑے بھد ّے انداز میںاقبال پر بھی تبر ّا کیا۔
اقبال کا ذکرہواتو سمجھ لینا چاہیے کہ تخیل پاکستان، تشکیل پاکستان اور پھر تعمیرپاکستان میں اقبال کے کلام و پیغام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ محض ایک شاعر نہیں بلکہ پاکستان کے وجود کو تقویت عطا کرنے کا ایک زندہ و توانا حوالہ بھی ہیں۔ اس لیے آج ۷۰برس گزرنے کے بعد ہمیں اقبال کے حوالے سے روا رکھے جانے والے طرزِعمل کا توجہ سے جائزہ لینا چاہیے۔
اقبال کے فکرپرتحقیق اوران کے پیغام کی نشرواشاعت کے لیے حکومتی سطح پر لاہورمیںدوادارے قائم ہیں:اقبال اکادمی پاکستان وفاقی حکومت کاادارہ ہے اور بزم اقبال پنجاب کی صوبائی حکومت کا۔ دونوں اداروں نے سیکڑوں کتابیں چھاپی ہیں،مگرفروغِ اقبالیات کے ضمن میں صرف کتابیں چھاپناہی کافی نہیں،اقبال کے فکراورپیغام کی نشرواشاعت کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کرناناگزیرہے مگر ایسا کچھ نہیں کیاگیا (البتہ ایک استثنیٰ ہے۔اقبال اکادمی نے خصوصاً محمد سہیل عمرکے زمانۂ نظامت میں، ابلاغِ فکراقبال کے لیے کتابوں کی اشاعت کے علاوہ نشرواشاعت کے جدید برقی ذرائع بھی اختیار کیے،جن میں آڈیو کیسٹ،وڈیوکیسٹ،سی ڈی، نمایشیں، اقبالیات کے مختلف النّوع مقابلوں اورمذاکروں کا انعقاد وغیرہ شامل ہیں)۔تاہم ان اداروں میں بہ حیثیت ِمجموعی تنظیم،ترتیب اورمنصوبہ بندی کی خاصی ضرورت ہے۔
یہ منصوبہ بندی کی کمی ہی تھی، جس کی وجہ سے ، مثلاً اقبال کے صدسالہ جشنِ ولادت تک علامہ اقبال کی کوئی ڈھنگ کی سوانح عمری نہ لکھی جاسکی تھی۔ پچاس کے عشرے میں بزمِ اقبال نے یہ منصوبہ ابتدامیں غلام رسول مہرکے سپرد کیا، پھر ان سے واپس لے کرعبدالمجیدسالک کودے دیا۔ انھوں نے۱۹۵۵ء میں ذکراقبال لکھ دی تو اس پرشدیدتنقید ہوئی۔بعض افراد نے اپنے طورپر سوانح عمریاں لکھیں، مگر اداروں کی سطح پرمزیدکوئی کوشش نہ کی گئی۔اسی لیے ۱۹۷۷ء کی صدسالہ جشن اقبال کمیٹی نے ایک مفصّل اورمعیاری سوانح عمری لکھنے کاکام پہلے سید نذیر نیازی، بعد ازاں ڈاکٹرعبدالسلام خورشید کے ذمے لگایا مگر بات نہیں بنی۔آخر علامہ کے فرزندِارجمندجاویداقبال مرحوم نے زندہ رود لکھ کر اس کمی کوپوراکیا۔
میراتاَثّر یہ ہے(اوراکثرحضرات اس سے اتفاق کریں گے)کہ اقبالیات ہو،غالبیات ہو یا تاریخِ ادب یاادبِ اردو کا کوئی شعبہ،جوچند ایک قابل ِقدرکام ہوئے ،بیش تروہ انفرادی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ اداروں کی کارکردگی بالعموم ناقص رہی ہے،حالاںکہ وسائل،بہ نسبت افراد کے، اداروں کو میسرہوتے ہیں۔
ڈاکٹرعطاء الرحمٰن ہائرایجوکیشن کمیشن کے سربراہ مقرر ہوئے، توعلمی وادبی تحقیق میں تیزی و تیزرفتاری آئی، مگرمعیار،مقدارکاساتھ نہ دے سکا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے ایما پر پی ایچ ڈی اورایم فل کے وظائف دینے کے مثبت قدم نے، عملاً معیارکونیچے کھینچنے میں حصہ لیا ہے اوراب تو جامعات میںتحقیقی مقالے یوں دھڑادھڑ تصنیف ہورہے ہیں، جس طرح کسی فیکٹری سے خاص وضع قطع کے بُرے بھلے پُرزے تھوک کے حساب سے ڈھل ڈھل کر نکلتے چلے آتے ہیں۔ تحقیق کرانے والے اساتذ ہ کی کمی نہیں مگر محنت کرنے اور کرانے والے اساتذہ بہت کم ہیں۔ آج ایک اخبار نویس نے اپنے بقول’انکشاف‘کیاہے کہ پاکستانی جامعات میں۱۱ہزار پی ایچ ڈی اسکالر (اساتذہ) اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ مزید۳۰ہزار اسکالروں کی ضرورت ہے۔ ہائرایجوکیشن کمیشن کی کوشش ہے کہ اگلے سال میں مزید۲۰ہزار اسکالرتیارکیے جائیں (روزنامہ۹۲نیوز،۲۳؍جولائی ۲۰۱۷ء)۔ گویاکمیشن مقداربڑھانے کی فکر میںہے، حالاںکہ ضرورت ان ’خدمات‘ کا معیار بڑھانے کی ہے، جو موجودہ ۱۱ہزار اسکالرانجام دے رہے ہیں۔
بقول رشیدحسن خاں: ’’ہمارے اساتذہ (اسکالر)کو ترقی کے ہجے کرنے سے فرصت نہیں ہے‘‘۔ چمک نے چندھیادیاہے۔ تحقیق کا معیار بلندہوتوکیسے؟ معیار تو بعدکی بات ہے، اب تو پی ایچ ڈی اور ایم فل اسکالر موضوعاتِ تحقیق کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، کیوں کہ ان کے اساتذہ نے موضوعات کی تلاش بھی شاگردوںکے ذمے ڈال دی ہے(حقیقت یہ ہے کہ موضوعات موجود ہیں، مگر ان پر کام کرانے کے لیے اساتذہ کو خود بھی محنت کرنی پڑتی ہے،دل جمعی سے مطالعہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے وہ ان مشکل موضوعات کے قریب نہیں پھٹکتے)۔
پاکستان کامستقبل تعلیم(تحقیق جس کالازمی جزوہے)کے اچھے معیاراورانصاف کی بلاتاخیر فراہمی پرمنحصر ہے، اور یہی دوچیزیں ہمیں نظرنہیں آتیں۔مگرخوش آیندبات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میںشایدپہلی باراحتساب کاسلسلہ شروع ہوا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ علمی تحقیق خصوصاً جامعات کے تحقیقی مقالوں کا بھی جائزہ لیا جائے(خصوصاً سماجی و ادبیاتی علوم)۔ جامعات کے تحقیقی مقالوں کے پست معیار کاایک سبب ہائرایجوکیشن کمیشن کی غفلت بھی ہے۔ وہ کم ہی اس بات کااہتمام کرتی ہے کہ تحقیقی مقالات کے لیے اس نے جو اصول اورضابطے مقرر کیے ہیں، یہ دیکھے کہ کیا تحقیقی مقالوں میں ان کی پابندی کی جارہی ہے؟ ماضی قریب میںہائرایجوکیشن کمیشن نے ضابطہ جاری کیاتھاکہ مقالہ نگاروں کا زبانی امتحان (viva)کھلے بندوں لیاجائے گا اور مقالہ نگار اپنے مقالے کا کھلا دفاع (open defence)کریںگے۔شعبوںسے کہاگیاتھاکہ وہ اس کے لیے امتحان کاوقت اورتاریخ میڈیاپرنشرکرانے کااہتمام کریں ،عنوان بھی بتایا جائے اورعوام النّاس کو دعوت دی جائے کہ وہ اس موقعے پر زبانی امتحان کا مشاہدہ کریںاور امیدوار سے سوالات کریں۔ اگر مقالہ نگار، تسلی بخش جواب نہ دے سکے تواسے تیاری کاایک اورموقع دے کردوبارہ امتحان لیا جائے۔ افسوس ہے کہ ہماری جامعات میں اِلاّماشاء اللہ ،اس کااہتمام نہیں کیاجاتا۔ شعبے اخبارات میں اطلاع نہیں بھیجتے۔ خانہ پُری کے لیے متعلقہ شعبے میں فقط ایک نوٹس لگا دیا جاتا ہے، بسااوقات اسی روزیاایک آدھ روز پہلے۔ یہ کمیشن کے ضابطے کا مذاق اُڑانے والی بات ہے مگر کمیشن نے مذاق اُڑانے والوں کاشاید ہی کبھی احتساب کیاہو۔ اگر کمیشن غفلت نہ برتے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کھلے بندوں دفاع کے ضابطے پرپابندی سے عمل کیاجارہاہے تواس سے مقالات کامعیاربہتر ہوگا۔
بہرحال، اُمیدرکھنی چاہیے کہ حالات بہترہوں گے۔ ہمیںایک لمبافاصلہ طے کرنا ہے، تب کہیں جاکرقیام پاکستان کے مقاصد پایۂ تکمیل کوپہنچیں گے۔