اگست ۲۰۱۷

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اگست ۲۰۱۷ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

سوال : ’اسلامی بنیاد پرستی‘ کی جو لہر گذشتہ عشروں سے شدت پکڑتی جارہی ہے، اس پر انڈیا میں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی صورت میں بڑا سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور وہ یہ کہ ’’اگر دوسرے مذاہب اپنے سیکڑوں سال پرانے قوانین پر اصرار کرتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہ کریں؟‘‘ اس عمل اور ردعمل کے باعث آج بھارت جیسی ریاست میں ۲۰کروڑ سے زائد مسلمانوں کے مستقبل کی تباہی اور گذشتہ ہزار برس کے تمام مسلم تہذیبی نشانات مٹ جانے کا شدید خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس صورتِ حال میں برعظیم پاک و ہند کے کچھ ’روشن خیال‘ دانش وروں کا خیال ہے کہ برعظیم کے تمام مذاہب کے سرکردہ رہنما مل کر مذہبی بنیادوں پر سیاسی نظام نافذ کرنے پر اصرار کرنے کے بجاے سیکولر کلچر کو رواج دیں، مذہبی حوالے سے پُرامن بقاے باہمی کو عام کریں، اور اسی حوالے سے اپنے مذاہب کی صرف تبلیغ و اشاعت اور محض رفاہِ عامہ کا کام کریں اور بھارت میں یرغمال مسلمانوں کو بچانے اور ان کا مستقبل سنوارنے کا کام کریں؟

جواب:اگر یہی کام کرنا تھا تو پھر پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سوال میں پوشیدہ ’ہمدردانہ مشورہ‘ قیامِ پاکستان کی بنیادی اپروچ ہی سے متصادم ہے۔ یہ بات بھی غلط فہمی پر مبنی ہے کہ بھارت میں جس چیز کو آپ ’ہندو بنیاد پرستی‘ کہہ رہے ہیں، اس کی تاریخ ولادت، شاید قیامِ پاکستان یا پاکستان میں اسلامی نظام کی بات یا پھر اسلامی نشاتِ ثانیہ کی تحریک کے وجود میں آنے سے متعلق ہے۔ مَیں بڑے ادب سے کہوں گا کہ جو حضرات یہ بات کہتے ہیں وہ اس برعظیم کی تاریخ سے واقف نہیں۔ یہاں برعظیم میں ’شدھی‘ کی تحریک انیسویں صدی کے آخر میں دیاندا سرسوتی (م:۱۸۸۳ء) نے شروع کی، جب کہ اس سے قبل ’سنگھٹن‘ وغیرہ کی تحریکیں بھی ’رام راج‘ ہی کی پکار تھیں۔ سیّداحمد شہید کی تحریکِ جہاد کا توڑ کرنے کے لیے جو برعظیم پاک و ہند میں مغربی استعمار اور ’سکھاشاہی‘ کے لیے مزاحمت کی سب سے بڑی قوت تھی، جو مختلف فتنے جنم دیے گئے ہیں، اِن میں ایک ’قادیانیت‘ کا فتنہ بھی تھا۔ مذہبی فرقہ پرستی کا فتنہ بھی تھا اور اسی تسلسل میں ہندو احیا پرستی کا اقدام بھی تھا۔

انیسویں صدی میں ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے بعد اور خصوصیت سے تحریک ِ مجاہدین کے مقدمات اور ۱۸۸۴ء میں ان کا جو آخری مقدمہ قائم ہوا، اس میں آپ دیکھیں گے کہ برہمنوں کی زیرقیادت ہندو قوم پرستی کا بخار پروان چڑھ چکا تھا۔ ’دھرتی ماتا‘ کی محبت اور دھرم سے شیفتگی کے اس نسل پرستانہ نعرے کی رہنمائی اور آبیاری انگریزوں نے کی تھی۔ اس وقت سے لے کر پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد تک ہندو بنیاد پرستی اور ٹھیٹ ہندو قوم پرستی سے سرشار پُرتشدد تحریک اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں ہندو مسلم فسادات رُونما ہوئے اور ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اسی دوران مسٹرگاندھی کے باطن میں چھپا ہوا برہمن بے نقاب ہوا تھا۔ یاد رہے کہ ۱۹۲۴ء سے پہلے برعظیم کی تاریخ میں مسلمانوں کے ۹۰۰سالہ دورِاقتدار اور انگریز کے سوسالہ دور میں کبھی ہندو مسلم فساد رُونما نہیں ہوئے تھے۔

برہمنی نفرت کے انھی شعلوں کی بنیاد پر ۱۹۲۵ء کو پہلے تو ’راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ ‘ (RSS) قائم ہوا۔ اگرچہ اس کے بانی کیشوو ہیڈگوار [م: ۱۹۴۰ء] تھے مگر پنڈت مدن موہن مالویہ اس کے فکری لیڈروں میں سے تھے، جو پہلے پہل تو ہمارے ہندستانی مسلم قائدین مولانا محمدعلی جوہر، عبدالباری فرنگی محل، قائداعظم اور دوسرے اکابر مسلمانوں کے ممدوح تھے،لیکن مسلمان قائدین کی وسعتِ قلبی اور وسیع المشربی بھی گاندھی جی اور موہن مالویہ جی کے ذہن میں جمے ہوئے برہمنی تعصب اور تنگ نظری کو نہ دھو سکی۔ یہ پارٹی ہندو مذہبی انتہاپرستی اور ہندو قوم پرستی پر مبنی تھی اور اس نے غیرمنقسم ہند میں باقاعدہ مسلح جتھے منظم کررکھے تھے۔ پھر اس پارٹی نے ۱۹۵۱ء میں اپنے سیاسی بازو ’بھارتیہ جن سنگھ‘ کو جنم دیا اور آخرکار ۱۹۸۰ء میں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کا رُوپ سامنے آیا۔ اب اگر برہمنی تعصب اور مسلمانوں سے نفرت کے ارتقا کو کچھ لوگ پاکستان میں اسلامی نظام کی تحریک کا ردعمل قرار دیتے ہیں تو یہ ان کی علمی بددیانتی ہے۔ لیکن جو مسلمان ان کی ایسی باتیں سن کر اسلامی احیا کی تحریک کی مذمت کرتے ہیں تو دراصل وہ اپنے مطالعۂ تاریخ کی نفی کرتے ہیں۔

اس پس منظر میں پورے معاملے کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ بھارت میں ہندو تعصب اور انتقام کی موجودہ لہر کا کوئی تعلق قیامِ پاکستان اور پاکستان کی تحریک نفاذِاسلام کے ردعمل میں نہیں، بلکہ یہ سرتاپا Anti Muslim تحریک ہے، جس کی جڑیں انیسویں صدی میں مضبوط کی گئی تھیں۔ ایک پہلو اور بھی قابلِ غور ہے۔ تمام اہم سیاسی تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ ہندو انتہاپسندی کی تازہ لہر کو پروان چڑھانے میں خود اندراگاندھی اور راجیوگاندھی کا غیرمعمولی حصہ ہے۔ ۱۹۸۰ء کے دوران جنوبی بھارت میں مسلمانوں کی دعوتی سرگرمیوں کے نتیجے میں نچلی ذات کے لوگ جب اسلام کی دعوت کی طرف متوجہ ہوئے، تو خود اندراگاندھی اور بھارت کی برہمن اسٹیبلشمنٹ نے تب باقاعدہ ہندو انتہاپسندی کی حوصلہ افزائی کی۔ خصوصیت سے شمالی بھارت کی ہندو پٹی (belt) میں مسلم کش فسادات کی ایک رَو چل پڑی۔ بابری مسجد کا مسئلہ اُٹھایا گیا۔ مسلمانوں کے عائلی قوانین کو متنازع بنایا گیا اور محض سیاسی فائدہ اُٹھانے کے لیے مذہبی تعصب کی فضا پیدا کی گئی، لیکن تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ کانگریس جس نے اس فضا کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، وہ اس سے فائدہ نہ اُٹھا سکی اور اصل فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو پہنچا___  فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ ۔

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ہندوئوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ اب ردعمل کے طور پر بھارتی مسلمانوں کا خود اپنے اُوپر اعتماد بڑھ رہا ہے اور وہ اپنے ووٹ کا سیاسی دبائو استعمال کر رہے ہیں۔ خصوصاً بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے ۱۹۷۵ء میں جب ایمرجنسی لگائی۔ اس دوران مسلمانوں کی ’نس بندی‘ کا مسئلہ بھی بنیادی موضوع بنا۔ مسلمانوں نے اس کے خلاف جدوجہد کی اور مسلم ووٹ نے کانگریس کی پہلی شکست اور جنتاپارٹی کی کامیابی میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا۔ دراصل یہی ہے وہ مقام جہاں پر ہندو انتہاپسندی نے خاص سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اور اس کی بھی فکری بنیادیں انیسویں صدی سے اُٹھائی جارہی تھیں، اور یہ چیز یکایک نہیں ہوئی۔

اسی طرح میری نگاہ میں یہ بہت طویل عرصے تک رہنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوازم میں اجتماعی معاملات کے لیے کوئی واضح تصورِحیات موجود نہیں ہے۔ معاشرت اور عدل کے بارے میں ان کے ہاں کوئی قابلِ لحاظ رہنمائی نہیں ملتی۔ مجھے مولانا مودودیؒ کی وہ تحریر یاد آرہی ہے جس میں انھوں نے ایک ہندو سے یہ کہا تھا کہ اگر آپ کے پاس حقیقی الہامی مذہبی ہدایت موجود ہو، اور آپ اس کے مطابق معاملات چلانا چاہیں اور واقعی اللہ کی بندگی پر مبنی کوئی راستہ اختیار کرلیں تو اس میں آپ کی خیر ہوگی، لیکن آپ کے پاس ایسی کوئی چیزنہیں ہے تو پھر آپ کو تعصب سے کام نہیں لینا چاہیے، بلکہ جس مذہب کے پاس الہامی ہدایت پر مبنی نظامِ زندگی موجود ہے، اسے اختیار کرنا چاہیے کہ اسی میں انسانیت کی خیر ہے۔ دراصل یہی وہ شعور ہے جس پر پاکستان کی تحریک وجود میں آئی۔

اگر ہمیں خوش نما لفظوں اور مفروضوں پر مبنی سیکولرزم کے سائے تلے کوئی نظام بنانا تھا، تو اس کے لیے پاکستان قائم کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پھر یہ بھی ایک معروضی حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب نے آج انسان، معاشرے، اسٹیٹ اور قوم کے جو تصورات دیے ہیں، وہ ایک ایک کر کے منہدم ہورہے ہیں۔ کمیونزم نے اس کے مقابلے میں جو بند کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی، وہ بھی تنکے کی طرح بہہ گیا۔ ان حالات میں وہ ہدایت، وہ اصول اور وہ نظام جس کی بنیاد پر انسانیت کے مسائل فی الحقیقت حل ہوسکیں ، صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام صرف پاکستانیوں کا دین نہیں ہے، اسلام پر محض نسلی مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں ہے، بلکہ اسلام تو وہ پیغام ہے جو انسانیت کو زندگی، بقا اور تہذیب کا راستہ سکھانے کا نمونہ پیش کرتاہے۔ یہی ہمارا دعویٰ ہے اور یہی پیغام۔

آ پ نے سوال میں ہندو انتہاپسندی کے علاج کے لیے جو دوا تجویز کی ہے، وہ تو دراصل مسلمانوں کے پورے نظام کو دریا برد کرنے کے مترادف ہے۔ اسی لیے ہم اس نوعیت کی ’ہمدردانہ اور دانش ورانہ‘ تجاویز کو مسترد کرتے ہیں۔ گو آج کے انسان نے فضائوں میں پرندوں کی طرح اُڑنا اور سمندر میں مچھلیوں کی طرح تیرنا سیکھ لیا ہے، لیکن بدقسمتی سے زمین پر انسانوں کی طرح رہنا نہیں سیکھا۔ اسلام ہی دراصل زمین پر انسانوں کی طرح رہنا سکھاتا ہے اور ہم یہی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ قائم ہوجاتا ہے تو پھر ان شاء اللہ اس کے اچھے اثرات ہندو ذات پات کی شکار اقوام پر بھی پڑیں گے اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں اور مقہور ہریجنوں تک بھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا جائے گا، کیوں کہ اسلام میں مذہبی رواداری کا ان لوگوں نے ابھی تک نظارہ نہیں کیا، بلکہ اس وقت، جب کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ بھی نہیں ہے، تب بھی پاکستان کا اپنی اقلیتوں کے ساتھ رویّہ کسی بھی دوسرے ایشیائی ملک سے بہتر، بلکہ بہت زیادہ بہتر ہے۔(پروفیسر خورشیداحمد)