پاکستان انتہائی نامساعد حالات میں وجود میں آیا۔ غیر منقسم ہندستان کے جن علاقوں پر یہ مشتمل تھا، وہ پس ماندگی کی نچلی سطح پر تھے، اور اگر اس علاقے میں کوئی قابل ذکر انفراسٹرکچر تھا (مثلاً ریلوے یا نہری نظام) تو وہ یہاں کی عمومی معاشی ترقی کے لیے نہیں، بلکہ روس کی ممکنہ جارحیت کو روکنے اور جنگ آزادی میں انگریز کا ساتھ دینے والوں کو جاگیروں سے نوازنے اور ان کی زمینوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے تھا۔ چنانچہ، اس قدر پس ماندہ علاقوں پر مبنی ایک علیحدہ اور خودمختار ریاست کا وجود میں آنا اور قائم رہنا بہت سے تجزیہ نگاروں کے نزدیک ایک بڑا محیرالعقول واقعہ رہا ہے۔ کانگریس کے کچھ لیڈروں نے یہ کہہ کر اس مطالبے کی مخالفت ختم کردی کہ چھے ماہ سے زیادہ یہ چل نہیں سکے گا، اور خوار ہو کر واپس آن ملے گا۔ لیکن ان تمام تجزیوں اور پیش گوئیوں کے باوجود، نہ صرف اللہ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں پر اپنی اس نعمت کو قائم رکھا، بلکہ یہ ملک دسمبر ۱۹۷۱ءمیں دو لخت ہونے کے بعد بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
اس مضمون میں ہم نہایت اختصار سے اس سفر کی رُوداد بیان کریں گے: ہم کہاں کھڑے تھے(جس کا مختصر ذکر ہوگیا)، کہاں پہنچ گئے ہیں، اور مستقبل کے کیا امکانات ہیں؟
اس دور میں پاکستان نے زبردست معاشی ترقی حاصل کی اور یہ بھی قریب تھا کہ ہم پس ماندہ ممالک کی فہرست سے نکل کر تیز رفتار ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل ہوجاتے۔ پانچ سالہ منصوبہ بندی کا سلسلہ جاری ہوا اور ایک مضبوط مرکزی حکومت نے سارے معاشی عمل کو قوانین، ضابطوں اور منظوریوں کے زیر اثر رکھا۔
بلاشبہہ اس دور میں پاکستان کی معیشت نے بڑی تیز رفتار ترقی کی، جس کی اوسط شرح ۶فی صد سے زیادہ رہی۔ ملک میں صنعتوں کا جال بچھا، زراعت میں سبز انقلاب آیا، شہروں کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا، غربت میں کمی واقع ہوئی اور تعلیم اور صحت ایسے سماجی شعبوں میں بھی گراںقدر کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی (جی ڈی پی) جس کا اندا زہ ۱۹۴۷ء میں ۲۴ ؍ارب روپے تھا، وہ بڑھ کر ۵۵ ؍ارب ہوگئی، جب کہ فی کس آمدنی ۳۱۱ روپے سے بڑھ کر ۴۵۰ روپے ہوگئی۔
بدقسمتی سے اس دور میں ہم سے کم از کم تین بڑی خطائیں بھی سرزد ہوئیں: lاول، معاشیات میں غیر شعوری طور پر سیاست بھی در آئی lدوم، سماجی انصاف کی ضرورتوں کا ہمیں صحیح ادراک نہیں ہو سکا؛ اور l سوم، ترقی کے لیے جو وسائل درکار تھے، ان کے حصول میں ہم اپنے اہم قومی مفادات کا کما حقہ تحفظ نہ کرسکے۔ ہم یہاں پر تینوں خطاؤں کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں:
اس دور کا خاتمہ مارچ ۱۹۶۹ء میں جنرل ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہوگیا، لیکن اس کے اثرات میں ملک دو لخت بھی ہوگیا۔
اس دور میں معیشت کی تنظیم کا نظریہ یکسر بدل گیا۔ یہ پہلے دور کی غلطیوں اور خطاؤں کا ردعمل تھا۔ تمام بڑی صنعتوں کو اور سارے بنکنگ اور مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ نجی شعبے کا معاشی عمل میں کوئی قابل قدر کردار باقی نہ رہا۔ آجر و مزدور کے تعلقات میں زبردست ضد (antagonism) پیدا ہوگئی، اور دوسری جانب زرعی اصلاحات کی وجہ سے عام محنت کش کسانوں اور جاگیرداروں کے درمیان بھی حالات کشیدہ ہوگئے۔ لیکن ان اقدامات سے کسی حد تک معاشرے میں سیاسی حقوق سے آگہی اور ان کے جدوجہد کے راستے بھی کھل گئے۔ گو اس دور میں سرکاری شعبے میں بنیادی صنعتوں کا جال پھیلایا گیا (مثلاً اسٹیل ملز،نیوکلر پاور، بنیادی کیمیکلز اور مصنوعی دھاگا وغیرہ)، لیکن ان کے ثمرات فوری طور پر قومی اور سماجی زندگی میں سامنے نہیں آئے۔ معاشی ترقی کی رفتار جو گذشتہ دور میں حاصل ہوئی تھی، وہ بھی کم ہوکر رہ گئی۔ ۶ فی صد کے مقابلے میں، اس دور میں یہ رفتار ۴ فی صد سے بھی کم سطح پر آرہی۔
اس کے ساتھ ہی حکومت نے ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (IMF) کے کہنے پر شرح تبادلہ میں یکمشت ۱۰۰ فی صد سے زیادہ اضافہ devaluation)) کردیا، جس کی وجہ سے قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوگیا اور مہنگائی کا سیلاب آگیا، جو عام آدمی کے لیے بہت تکلیف کا باعث بنا۔ یوں باوجود اس دور میں تقسیم آمدنی میں بہتری لانے کی کوششوں کے، غربت میں قابل قدرکمی واقع نہ ہوسکی۔ شرح تبادلہ میں اس بڑی تبدیلی سے درآمدات کو زبردست فائدہ ہوا اور ملک کا بیرونی ادایگیوں کا توازن (Balance of Payments) ۱۹۵۱ءکے بعد دوبارہ منافع میں بدل گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب دسمبر ۱۹۷۱ء میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت نے اقتدار سنبھالا، تو ملک نہ صرف دولخت ہونے کے صدمات سے نبردآزما تھا، بلکہ سرد جنگ میں بڑی طاقتوں کی قربت اور ان کی امداد سے حاصل کی ہوئی معاشی ترقی سے منسلک گمبھیر مسائل کا بھی سامنا تھا۔ لہٰذا، ایک لحاظ سے شرح تبادلہ میں مناسب اضافہ ضروری تھا، تاکہ درآمدات کو برآمدات پر بے جا ترجیح دینے کا عمل ختم ہو۔ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ اس دور کی غلطیوں کا ازالہ بھی کیا جائے، خصوصاً آمدنی اور دولت کے ارتکاز کو توڑا جائے۔
پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت کے انقلابی اقدامات اور سوشلسٹ پالیسیوں کے نتیجے میں مغربی ذرائع سے بیرونی وسائل کی آمد بند ہوگئی۔ لیکن اس کمی کا توڑ کرنے کے لیے بھٹو صاحب نے مسلم ممالک سے تعاون کو زبردست فروغ دیا۔ فروری۱۹۷۴ء میں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تعاون نے بیرونی وسائل کے حصول میں آسانی پیدا کردی۔ خصوصاً اس دور میں پاکستان کی افرادی قوت کی مشرق وسطیٰ میں درآمد کے راستے کھل گئے اور ان کی بھیجی ہوئی ترسیلات (Remittances) کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس دور میں ابتدائی طور پر یہ کوشش کی گئی کہ دوسرے دور کے وہ انقلابی اقدامات، جن سے بڑی حد تک معاشی نظام تتر بتر ہوگیا تھا، اس کی تلافی کی جاسکے۔ اس مقصد کے تحت ’عقیلی کمیٹی‘ بنائی گئی، جس نے بلا کم و کاست تجویز کیا کہ: ’’قومیائے گئے اثاثوں کو اصلی مالکان کو واپس کردیا جائے‘‘ اور کچھ اثاثے واپس بھی کردیے گئے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ بہت جلد حکمرانوں کو احساس ہوگیا، یا پھر احساس دلایا گیا کہ سرکاری شعبے میں اتنی عظیم الشان معاشی طاقت کو نج کاری یا پرانے مالکان کو واپس کرنے کے بجاے، موجودہ نظام کو خوش اسلوبی سے چلایا جائے، تاکہ سیاسی سرپرستی (political patronage) اور ’مثبت‘ سیاسی نتائج کے حصول کے لیے حکومت کے پاس دینے کے لیے ترغیبات موجود ہوں ۔ لہٰذا، جلد ہی ایک نظام وضع کرلیا گیا، جس کے تحت سرکاری کارپوریشنوں میں تعینات مینیجرز کے لیے علیحدہ نام نہاد مینجمنٹ اسکیلز بنادیے گئے اور ان کی کارکردگی کے جانچنے کے لیے پہلے سے موجود ایک ادارے کی تنظیمِ نو کی گئی۔ یوں اس عوامی حکومت کے بنائے ہوئے نظام کو ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘ کے مصداق فوجی حکومت کی حمایت حاصل ہوگئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، گو اس کا حجم بہت کم ہوگیا ہے۔
اس دور میں سب سے بڑی تبدیلی اُس وقت رونما ہوئی، جب دسمبر ۱۹۷۹ء میں اشتراکی روسی افواج، افغانستان میں کھلے عام ،پوری قوت سے گھس آئیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے اس مداخلت کی مخالفت اور اس کی مزاحمت کا فیصلہ کرلیا۔ یوں ۱۰ سال کا عرصہ اس مزاحمت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نبرد آزما ہونے میں صرف ہوگیا۔ اس صورتِ حال میں ایک دفعہ پھر پاکستان اور امریکا کے درمیان قربت پیداہوگئی، لیکن ازاں بعد اس کا بھی خاتمہ ویسے ہی ہوا جیسے کہ ماضی میں ہوا تھا۔ لیکن اب کی بار پاکستان اپنے تحفظ کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔۹۰ کا عشرہ اندونی اور بیرونی سازشوں کو ناکام بنانے میں صرف ہوگیا۔ پاکستان نے اس مزاحمت کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور آج تک کررہا ہے۔ افغان مہاجرین کی آمد کے نتیجے میں مناسب نظم و ضبط کی کمی کے باعث اسلحے کی فراوانی اور منشیات کی اسمگلنگ، معاشی بدنظمی، معاشرتی بگاڑ اور امن و امان کی صورتِ حال کی خرابی جیسے مسائل کھڑے کردیے۔
یہ وہ دور ہے، جو اَب بھی جاری ہے۔ ہم نے عرصے کی طوالت کے علی الرغم اس دور کو اس لیے جاری دور کہا ہے کہ اس کی جوہری صفت آج بھی ہماری معاشی تنظیم میں موجود ہے۔ لیکن اس دور میں ایک عرصہ پھر فوجی حکومت کے زیراثر گزرا ہے۔ یہاں ہمیں کسی حد تک فوجی حکومت کے آٹھ برسوں کو الگ سے دیکھنا ہوگا۔ لہٰذا ،ہم اس کو تین ذیلی حصوں میں تقسیم کریں گے:
اس دور کا آغاز ۷جولائی ۱۹۷۷ء کو جنرل محمد ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت کے تحت، پیپلزپارٹی کے بنے سیاسی نظام کے ڈرامائی خاتمے کے بعد ہوا۔ اس دور میں مسلسل سیاسی کشیدگی رہی، جس کا ایک بڑا سبب اپریل ۱۹۷۹ء میں ایک مقدمۂ قتل میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا بھی تھا۔ دوسری جانب نسبتاً نوعمر قیادت کی ناتجربہ کاری سے پیدا ہونے والے مسائل تھے۔ اس کے ساتھ دنیا میں تاریخی تبدیلیاں رُونما ہوگئیں۔ سودیت یونین کا دسمبر ۱۹۹۱ء میں خاتمہ ہوگیا، برلن کی دیوار گرگئی، یورپ متحد ہوگیا اور امریکا دنیا میں واحد سوپر پاور بن کر اُبھرا۔
اس کے ساتھ ہی ایک نیا معاشی نظام وجود میں آنے لگا، جس کو ’عالم گیریت‘ سے منسوب کیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر نئے نظام میں سرمایہ بغیر روک ٹوک کے ساری دنیا میں گردش کرنے لگا۔ شرح سود کھلی مارکیٹ میں طے ہونے لگی۔ سرکاری سطح پر امداد کی فراہمی کا عمل تیزی سے ختم ہونے لگا۔ دنیا میں نج کاری، آزاد معیشت، حکومتی کنٹرول کا خاتمہ، بیرونی سرمایہ کاری کے لیے منڈیوں کو کھولنا اور تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے ساری دنیا کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی عام ہوگئی۔ مزید افتاد یہ آن پڑی کہ افغانستان سے روس کے اخراج کے ساتھ ہی امریکا بھی علاقے سے نکل گیا اور پاکستان کی امداد کا سلسلہ بھی رک گیا۔ علاوہ ازیں امریکی کانگرس کی جانب سے’پریسلر ترمیم‘ کے ذریعے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے سے ایک نئے امتیازی دور کا آغاز ہوا، جس میں پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کی معطلی اور CTBT پر دستخط کے مطالبات بھی شامل ہوگئے۔
اس دور میں ملک میں شدید سیاسی عدم استحکام رہا۔ ۱۰ سال کے عرصے میں اوسطاً ۳۰ ماہ کی مدت پر مشتمل پے در پے چار حکومتیں بنیں، جو ناکام ہوتی رہیں اور بالآخر اکتوبر۱۹۹۹ء میں ملک میں پھر مارشل لا لگا دیا گیا، جو تقریباً ۱۰ سال تک مختلف صورتوں میں سیاسی نظام کی پشت پہ کام کرتا رہا۔ اس دوران معاشی پالیسی کی سمت اور اس کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا اور ترقی کی شرح ۴ فی صد سے بھی کم ہوگئی۔ بعض تجزیہ نگار اس عرصے کو ’معاشی ترقی کا گم شدہ عشرہ‘ بھی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اس دور میں معاشی ترقی کا عمل معکوسیت کا شکار ہوگیا۔ افراطِ زر کا دباؤ بڑھ گیا اور ملک کو پہلی دفعہ دیوالیہ ہونے کے خطرات لاحق ہوگئے۔ اس دور کی درج ذیل خصوصیات قابل ذکر ہیں:
(ا) نج کاری کا اجرا؛ (ب) معاشی میدان میں حکومتی منظوریوں اور کنٹرول کی تمام صورتوں کا خاتمہ یا ان میں بڑی کمی اور آسانیاں؛ (ج) نجی شعبے کی بتدریج معاشی عمل میں شمولیت اور بالخصوص ان کے لیے نئے شعبوں، مثلاً بجلی کی پیداوار میں سرکایہ کاری کی اجازت؛ (د) نئے ریگولیٹری اداروں کا قیام (نیپرا اور پی ٹی اے وغیرہ)؛ مرکزی بنک کو خودمختاری دینے کا آغاز؛ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی)کا قیام اور کیپٹیل مارکیٹ کی وسعت شامل ہیں۔
اس عرصے میں بیرونی وسائل کی کمیابی ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی، لہٰذا ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ کے پاس حکومت ِ پاکستان کا جانا ناگزیر ہوگیا۔ اس کی پہلی درخواست اور شرائط کی منظوری خود جنرل محمد ضیاء الحق کی بنائی ہوئی عبوری حکومت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے اکتوبر۱۹۸۸ء میں دے دی تھی۔ اگرچہ اس پر عمل درآمد بے نظیر حکومت (۹۰-۱۹۸۸ء) نے کیا۔ بعدازاں ۲۰ماہ بعد جب بے نظیر کی حکومت ختم کی گئی تو محمدنوازشریف کی پہلی حکومت (۹۳-۱۹۹۰ء) نے اس پروگرام پر عمل درآمد روک دیا۔ اس کے بعد نواز حکومت نے معاشی میدان میں ایسے فیصلے کیے جو مقبول ضرور تھے، لیکن ان کی معاشی حکمت مشتبہ تھی۔لہٰذا، کچھ ہی عرصے میں معاشی اشاریوں میں عدم توازن پیدا ہونا شروع ہوگیا، خصوصاً بیرونی ادایگیوں کا توازن اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے لگے۔ اس فضا میں اپریل ۱۹۹۳ء کے شروع میں ایک درخواست عالمی مالیاتی فنڈکو دی گئی۔
دوسری طرف نوازحکومت، صدر مملکت سے محاذ آرائی میں اُلجھ گئی، جو بالآخر ۱۸؍اپریل ۱۹۹۳ء کو ان کی معزولی کا باعث بن گئی۔ عبوری وزیراعظم (۱۸؍اپریل-۲۶مئی ۱۹۹۳ء) بلخ شیرمزاری کے وزیرخزانہ سردار فاروق لغاری نے ’فنڈ‘ سے ایک نئے پروگرام کے لیے ابتدائی مذاکرات شروع کیے، گو وہ نامکمل رہے، کیوں کہ سپریم کورٹ نے نوازحکومت کو بحال کردیا۔ اس کے بعد بھی صدر اور وزیراعظم کے درمیان کشیدگی نہ صرف جاری رہی بلکہ مزید بگڑ گئی۔ اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل وحیدکاکڑ نے دونوں کو استعفا دینے پر راضی کرلیا اور ۱۹۹۳ء میں نئے انتخابات کا راستہ کھل گیا۔ عبوری حکومت میں وزارتِ عظمیٰ (۱۸جولائی-۱۹؍اکتوبر ۱۹۹۳ء) کے لیے ڈاکٹر معین قریشی صاحب کو درآمد کیا گیا، جن کی حکومت کی عبوری نوعیت کے باوجود ’فنڈ‘ کے ساتھ مذاکرات مکمل کرلیے اور ایک نیا پروگرام شروع کر دیا۔
ابتدا میں بے نظیر کی دوسری حکومت (۱۹۹۳ء-۱۹۹۶ء) نے اس پروگرام کو اپنا لیا، لیکن جلد ان سخت مشکل اصلاحات کو جاری نہ رکھ سکی۔ ایک سال بعد ہی یہ پروگرام معطل ہوگیا۔ دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی تیزی سے بڑھنے لگی اور پنجاب میں مرکز کی اتحادی حکومت کے ساتھ بھی زبردست اختلافات کھڑے ہوگئے۔ ان مسائل نے حکومت کو کمزور کردیا اور آہستہ آہستہ وہ خود اپنے بنائے ہوئے صدر کے ہاتھوں معزولی کا شکار ہوگئی۔ جب حکومت کا خاتمہ ہوا اس وقت نئے وزیرخزانہ نویدقمر کے ساتھ ’فنڈ‘ کے مشن کے مذاکرات نئے پروگرام کے لیے کامیاب ہوگئے تھے، لیکن اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔
دوسری نواز حکومت (۱۹۹۷ء-۱۹۹۹ء) زبردست عوامی اعتماد کے ساتھ منتخب ہوئی اور اس نے ایک بڑی پارلیمانی حمایت کے ساتھ وہ آئینی ترمیم ختم کردی، جو صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار دیتی تھی۔ لیکن اس غیرمعمولی تحفظ کے علی الرغم یہ حکومت جلد ہی عدلیہ اور صدر کے ساتھ غیرضروری مسائل میں اُلجھ کر رہ گئی اور اس حکومت کا خاتمہ ڈرامائی انداز میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی برادر ججوں کے ہاتھوں برطرفی اور صدر فاروق احمد خان لغاری کے استعفا کی شکل میں سامنے آیا۔کچھ عرصے بعد مئی ۱۹۹۸ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی مئی ۱۹۹۸ء ہی میں ایٹمی دھماکے کردیے۔ جس کے جواب میں اُسے مغرب کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقعے پر حکومت نے ایک بڑی غلطی کر کے ملک میں موجود فارن کرنسی اکائونٹس کو غیرضروری طور پر منجمد کردیا، جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بُری طرح مجروح ہوا۔بعدازاں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ بھی طرزِحکمرانی کے معاملے میں اختلافات کھڑے ہوگئے اور بالآخر انھوں نےبھی استعفا دے دیا اور حکومت کو نیا آرمی چیف بنانے کا موقع مل گیا، لیکن ان کا نئے چیف جنرل پرویز مشرف سے بھی نباہ نہ ہوسکا کیونکہ کارگل کی مہم جوئی کے نتیجے میں وزیراعظم نے ان کو برطرف کرنے کی کوشش کی اور فوج نے جوابی قدم اُٹھا کر حکومت کا خاتمہ کردیا۔
اس نئی حکومت نے ابتدا میں اس پروگرام کو شروع کرنے کی کوشش کی جس پر بے نظیر بھٹو حکومت میں اتفاق ہوگیا تھا۔ لیکن جلد ہی یہ پٹڑی سے اُتر گیا اور بعدازاں ایٹمی دھماکوں پر لگنی والی پابندیوں کی وجہ سے ملک کو قرضوں کی خاطر ازسرِنو پیرس اور لندن کلب جانا پڑا، جس کے لیے ’فنڈ‘ کا پروگرام لازمی ضرورت تھی۔ لہٰذا ، معطل شدہ (Rescheduling) ادایگیوں کے لیے شرائط رکھی گئیں۔ یہ عمل ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ حکومت ختم ہوگئی اور اسی پروگرام کو دوبارہ شروع کرنا پڑا۔
یہ ہے وہ دور جب قومیائے گئے اداروں میں بڑے پیمانے پر سیاسی مداخلت شروع ہوگئی اور خصوصاً بنکوں اور مالیاتی اداروں سے سیاسی بنیادوں پر قرضوں کا اجرا شروع ہوگیا۔ ایک طرف سیاسی بنیاد پر دیے گئے قرضوں سے بنکوں کا دیوالیہ نکل گیا، تو دوسری طرف اس ریاستی سرپرستی سے فیض یاب ہونے والے عناصر سیاسی طور پر مضبوط ہوتے چلے گئے۔
یہ دور معاشی اعتبار سے سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کا دور ہے۔ ہرچند کہ اس کا آغاز نسبتاً سُست رہا، لیکن نائن الیون کے فوراً بعد بیرونی وسائل کی آمد بڑھ گئی۔ جب تک امریکا کی نظرالتفات قائم رہی (جو مشرف اور صدربش کی دوستی تک موجور رہی) آسانیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔
اس دور کا آغاز ناخوش گوار حالات میں ہوا تھا، جب مئی ۱۹۹۹ء میں کارگل کی جنگ کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف میں اعتماد کا شدید فقدان پیدا ہوگیا تھا اور حالات بتدریج یوں مرتب ہوئے کہ منتخب جمہوری حکومت کو فوج نے ختم کردیا۔ پہلے تین سال تک یہ فوجی حکومت اس انداز میں چلائی گئی، جیسے ایک کارپوریشن کو چلایا جاتا ہے۔ سیاست کا حکومت میں وہ دخل جو سیلابی شکل میں ہماری قومی زندگی میں شامل ہوگیا تھا، اس کے اثرات بہت حد تک ختم ہوگئے۔ معاشی عمل آہستہ آہستہ مستحکم ہوتا گیا۔ اسی دوران عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر آگئی تھیں، جس کی وجہ سے افراط زر بھی کم ہوگیا۔ سرمایہ کاری میں اضافہ ہونے لگا۔ شرح تبادلہ مستحکم ہوئی اور زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی سطح پر پہنچ گئے۔ جی ڈی پی میں اضافے کی شرح ۶۰ کے عشرے والی رفتار سے بڑھنے لگی۔ اس زمانے میں یوں لگتا تھا کہ ملک تیز رفتار ترقی کرکے شاید دنیا کی اُبھرتی (Emerging) معیشتوں کی صف میں شامل ہوجائے گا۔ تین سال کے بعد ۲۰۰۲ء میں فوجی حکومت نے انتخابات کرا کے ایک کنٹرولڈ جمہوری نظام کی بنیاد رکھی اور مسلم لیگ(ن) کے جبری خلا کو ایک نئی مسلم لیگ (ق) بنا کر پورا کیا گیا جو پیپلز پارٹی کے کچھ اراکینِ پارلیمنٹ کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور اس نے اپنی مدت بھی پوری کی۔ لیکن حکومت عملاً فوج ہی کے ہاتھوں میں رہی، کیوں کہ جنرل مشرف نے وعدہ کرنے کے باوجود صدر ہوتے ہوئے وردی نہیں اتاری۔ جوں جوں ۲۰۰۷ء کے انتخابات کا وقت قریب آتا گیا، نئی صف بندیاں ہونے لگی اور امریکا سے تعلقات میں سرد مہری کے آثار بھی نمایاں ہونے لگے۔
پھر جس طرح ماضی کی حکومتوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑا، خود جنرل مشرف حکومت کے خاتمے کا سبب ان کا یہ خوف بنا کہ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ان کو دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کے خلاف درخواست کو قابل سماعت قرار دے کر فیصلہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس سے پیدا ہونے والی بداعتمادی اس حد تک بڑھی کہ جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس سے ایک ملاقات میں استعفا طلب کیا، جس سے انھوں نے انکار کردیا اور صدر نے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیج دیا۔ اس کے ساتھ ہی وکلا کی زبردست تحریک شروع ہوگئی اور سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کو مسترد کردیا اور ان کو اپنے عہدے پر بحال کردیا۔ لیکن اس کے باوجود عدلیہ اور جنرل مشرف کے درمیان ٹکرائو جاری رہا اور صدر انتخاب جیتنے کے بعد بھی پے دَر پے مشکلات کا شکار ہوتے رہے اور بالآخر اگست ۲۰۰۸ء میں ان کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔
ان واقعات کا آغاز مارچ ۲۰۰۷ء میں ہوا اور ۱۶ ماہ میں یہ واقعات مختلف شکلوں میں ظہور پذیر ہوتے رہے۔ یوں عملاً مارچ ۲۰۰۷ء ہی سے حکومت کی توجہ اہم مملکتی اُمور سے ہٹ گئی اور بڑی محنت سے حاصل کیا ہوا سارا معاشی اور سیاسی استحکام ابتری کا شکار ہوگیا۔ عالمی مالیاتی بحران سر اٹھا رہا تھا، لیکن بٹی ہوئی توجہ اور غفلت نے اصلاحی اقدامات اُٹھانے کا موقع نہیں دیا اور معیشت تیزی سے بحران کی طرف لڑھکنے لگی۔ جب اکتوبر ۲۰۰۸ء میں مالیاتی بحران آیا تو وفاق میں پیپلزپارٹی کی نئی حکومت نے اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ سابق صدرجنرل مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے سر ڈال دیا۔
یہ دور جو اَب بھی جاری ہے جنرل مشرف اور ان کے وضع کردہ نظام کے خاتمے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں برسرِاقتدار آنے والی جمہوری قوتوں نے بلا جھجک اس سارے نظام کو آہستہ آہستہ جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا، اس بات سے قطع نظر کہ یہ عمل کس قدر مبنی بر انصاف تھا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ۱۰سال کے بعد ملک پھر اسی بے یقینی کا شکار ہوگیا، جس کے خاتمے کی نوید فوجی حکومت نے دی تھی۔ اس طرح پالیسیوں میں ردوبدل اور ترجیحات کو متعین کرنے کا عمل دوبارہ شروع کرنا پڑا۔ اس سب کا گہرا اثر ملک کی معیشت اور سرمایہ کاروں کے اعتماد پر پڑا اور باہر کی دنیا بھی یہ سمجھنے لگی کہ: ’’پاکستان جیسے ملک میں کبھی، کچھ بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا، ان کے ساتھ کام کرنے میں خطرات زیادہ ہیں، جن کا خیال رکھنا چاہیے اور شاید کام کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے‘‘۔
اس دور کے پہلے حصے میں حکومت پیپلز پارٹی نے بنائی اور اپنی مدت بھی پوری کی، تاہم اس دوران ایک وزیر اعظم کو سپریم کورٹ نے نااہل بھی قرار دے دیا۔ پیپلز پارٹی اپنا صدر بھی لانے میں کامیاب ہوگئی اور آرمی چیف کو توسیع بھی دے دی۔ لیکن یہ دور معاشی ترقی کے میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا، جس کی ایک وجہ تو شدید عالمی مالیاتی بحران تھا، جس کے ساتھ تیل کی عالمی قیمت ۱۵۰ ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور شرح تبادلہ میں بھی بڑا اضافہ ہوگیا۔ دوسرا یہ کہ امریکا نے پاکستان پر زور ڈال کر اسے آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل کرادیا، جس نے شرح سود میں اضافہ کرنے کی سابقہ شرط لگادی، جس کے ساتھ قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ یوں وہ معاشی استحکام، جو فوجی حکومت کے دور میں نظر آتا تھا، پھر ختم ہوگیا۔
نئی حکومت چوںکہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بہیمانہ قتل کے بعد وجود میں آئی تھی، لہٰذا اتنے بڑے المیے اور حادثے کے نتیجے میں پارٹی کی قیادت نسبتاً غیر تجربہ کار ہاتھوں میں آگئی۔ بعدا زاں آصف علی زرداری صاحب کے صدر بنتے ہی طاقت کے کئی مراکز وجود میں آگئے اور پالیسی سازی کے لیے جس یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ حاصل نہ رہی، بلکہ اس میں بڑا بگاڑ پیدا ہوگیا۔ ۲۰۱۰ء میں ملک ایک بڑے سیلاب سے دوچار ہوگیا، جس سے جانی اور مالی نقصانات اُٹھانے پڑے۔ ایک اور مسئلہ جس میں حکومت اُلجھی رہی، وہ عدلیہ سے کشیدہ تعلقات تھے جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی متاثر ہوئی۔
یہ عرصہ ایک اور لحاظ سے سخت مشکلات کا شکار رہا، جو امریکا سے ہمارے تعلقات سے متعلق ہے۔ نئی حکومت کے ساتھ ہی امریکا میں ری پبلکن حکومت ختم ہوگئی اور بارک اوباما صدر بن گئے۔ گو وہ عراق جنگ کے خلاف تھے، لیکن اس الزام سے بچنے کے لیے کہ ڈیموکریٹک لیڈر دفاع کے معاملے میں نرم رویہ رکھتے ہیں، انھوں نے بغیر کسی مؤثر دلیل کے افغانستان میں امریکا کی جنگ کو ’مبنی برانصاف‘ قرار دیا اور وہاں فوج میں اضافے کی منظوری دے دی۔ لیکن ساتھ ہی اس کے قیام کی مدت بھی متعین کردی، جو ۲۰۱۴ء تک تھی۔ اس وجہ سے امریکا اور اتحادیوں کی فوج کی تعداد ۱۳ہزار تک پہنچ گئی۔
صدرجنرل مشرف کے منظر سے ہٹتے ہی نئی حکومت اور امریکا کے درمیان تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا، جو تجزیہ نگاروں کے نزدیک پاکستاں کے کُلی مفاد میں نہیں تھا۔ پھر کچھ تلخ واقعات بھی اسی پس منظر میں پیش آئے۔ ان میں چار بہت اہمیت کے حامل ہیں: بلیک واٹر سے وابستہ اہل کاروں کی بڑے پیمانے پر پاکستان اور خصوصاً اسلام آباد میں مبینہ آمد؛ اسامہ کی ایبٹ آباد میں مبینہ موجودگی اور اس کو ہلاک کرنے کے لیے امریکا کی یک طرفہ کارروائی ؛ ایک امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے دن دہاڑے لاہور میں دو افراد کو قتل کردیا اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ اس کی رہائی کے مطالبے سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوگئے؛ اور، سب سے بڑا مسئلہ اس وقت کھڑا ہوگیا، جب امریکی فوج نے سلالہ میں پاکستانی چوکی پر حملہ کرکے متعدد پاکستانی فوجیوں کو شہید کردیا۔ ان وجوہ سے حکومت بہت کمزور پڑگئی اور ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ کے ساتھ اس کا پروگرام بھی ناکام ہو کر بند ہوگیا اور معیشت بے شمار مسائل کا شکار ہوگئی، جن میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، ملک کو ایک بار پھر دیوالیہ ہونے کے قریب لے گئی۔ مزید ابتری وزیراعظم کی سپریم کورٹ کے حکم پر نااہلی اور ایک خوفناک گردشی قرضے کی وجہ سے توانائی کے بحران نے پیدا کردی۔
اس عرصے کا دوسرا دور مسلم لیگ (ن) کی مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ۱۴ سال کے بعد دائرے کا سفر اسی جگہ پہنچ گیا، جہاں سے سے آغاز ہوا تھا۔ اپنی پیش رو حکومت کے مقابلے میں یہ حکومت بڑی قیادت اور واضح مینڈیٹ کی حامل تھی اور اس نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اپنے کام کو شروع کیا، جو بہت جلد ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام میں بدل گیا، جو تین برسوں پر محیط تھا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ پروگرام جمہوری حکومت کے دور میں کامیاب ہوگیا اور معیشت میں استحکام واپس آگیا۔ افراطِ زر میں کمی ہوئی، شرح نمو میں رفتہ رفتہ اضافہ ہونے لگا اور سال ۲۰۱۷ء میں اس کی شرح ۵ء۳ فی صد تک پہنچ گئی، زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی سطح پر پہنچ گئے۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ CPEC کی شکل میں سرمایہ کاری کے ایک بڑے معاشی و ترقیاتی پروگرام کا سلسلہ شروع ہوا، اور توانائی اور انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبے تعمیروترقی کی جانب گامزن ہوئے۔
تاہم، مسلم لیگ (ن) کی یہ حکومت بھی وقفے وقفے سے حادثات کا شکار ہوتی رہی۔ لیکن تیسرے سال، یعنی ۲۰۱۶ء میں پے دَر پے دو حادثے ایسے پیش آئے، جنھوں نے حکومت کو مفلوج کردیا: ایک ’پانامہ لیکس ‘اور دوسرا ’ڈان لیکس‘۔ ان مسائل کے دوران میں حکومت کی توجہ اہم قومی اُمور سے ایسے ہی ہٹ گئی ہے، جیسی مشرف حکومت اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی ہٹ گئی تھی۔ گو معاشی بگاڑ کی وہ صورت نہیں پیدا ہوئی جیساکہ ماضی میں ہوا تھا، لیکن ابتدائی اشارے اسی سمت میں سفر کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ ایک بار پھر لگتا ہے کہ ہم اسی مشکل صورتِ حال کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں ہمیں پھر آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت پیش آنے والی ہے۔
تیسرے دور کو ہم نے ’کاروبار اور سیاست کا اختلاط‘ سے منسوب کیا ہے اور اس گفتگو کے اختتام پر ہم اس حوالے سے چند بنیادی گذارشات پیش کریں گے:
اول، اگرچہ صدرجنرل ایوب خان، صدر جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے اَدوار میں سرکاری ملازمین کو فراہم کردہ آئینی تحفظات کو ختم کردیا اور پے در پے تین بڑی قسطوں میں بغیر وجہ بتائے اعلیٰ سرکاری افسروں کو ملازمتوں سے نکال باہر کیا گیا، لیکن اس کے باوجود سول سروس میں کچھ دَم خم باقی تھا۔ بعد کے سیاست دانوں نے سول سروس کو اپنے زیراثر لانے کے لیے پسندیدہ افسروں کے گروہ بنا لیے، جس کے نتیجے میں اُن کی وفاداریاں ریاست کے بجاے حکمرانوں کو منتقل ہوگئیں۔ ان حالات میں بعض مؤثر سول سرونٹ بھی سیاست دانوں کے اس مکروہ مفاداتی عمل کا حصہ بننے لگے۔
دوم، پارلیمانی نظام میں بنیادی طور پر حکومت وزیر اعظم اور کابینہ تک محدود ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں حکومتی اراکین پارلیمنٹ، حکومت سے اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ ان کے اس دباؤ کو کم کرنے کی خاطر ان کے لیے ترقیاتی اسکیموں کا اجرا کیا گیا۔ ان کے علاقوں میں انتظامیہ کے اہم ترین عہدے داروں ( SHO , SSP, DCO) کی تعیناتی ان کی خواہش اور منظوری سے ہونے لگی۔
سوم، سیاست دانوں کی پبلک سیکڑ کی کارپوریشنز اور خاص طور پر بنکوں اور مالیاتی اداروں میں زبردست مداخلت شروع ہوگئی اور ان میں نہ صرف تعیناتیاں سیاسی وابستگی اور سرپرستی کی بنیاد پر ہونے لگیں، بلکہ ان کے کاروبار کے محرکات بھی سیاسی مقاصد کے تابع ہوگئے۔ مثلاً قرضوں کا اجرا اور ان اداروں کے بنے مال کی تقسیم (اسٹیل ملز کی پیداوار کی فروخت یا گیس اور بجلی کی فراہمی)، سب کچھ سیاست کی نذر ہونے لگا۔
آخری بات یہ کہ، کاروبار اور سیاست کا اس بڑے پیمانے پر اختلاط ماضی میں نظر نہیں آتا۔ فوج اور کسی حد تک عدلیہ کو چھوڑ کر (گو ان کے ساتھ بھی طرزِ حکمرانی کے مسائل موجود ہیں اور ان پر تفصیل سے گفتگو بھی ہونی چاہیے)، سیاست، قومی ادارے اور کاروبار مربوط ہوگئے اور عوام دیکھتے رہ گئے۔ حکومت تو عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے وجود میں آتی ہے، لیکن اگر یہ اُن ہاتھوں میں چلی جائے، جن سے عوام کو تحفظ چاہیے تو پھر دادرسی کی کوئی جگہ نہیں رہ جاتی اور مایوسیاں پھیلنے لگتی ہیں اور لوگ تبدیلی کے لیے ایسے راستے ڈھونڈنے لگتے ہیں، جو سیاسی عمل سے باہر ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا مدوجزر کے باوجود پاکستان کی معیشت آگے کی طرف بڑھتی رہی ہے۔ ان حادثات نے ترقی کی رفتار اور پالیسی کی یکسوئی کو تو ضرور متاثر کیا ہے، لیکن اس کی سمت کو نہیں بدلا۔ فی الحقیقت اس میں کمال ہمارے لوگوں کا ہے، جو بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں اور محنت کے جذبے سے سرشار ہیں۔
پاکستان کی معیشت مقابلتاً اُس وقت سے کہیں مضبوط اور مستحکم ہے، جب یہ ملک وجود میں آیا تھا۔ اس معیشت کا جوہرِ خاص اس کی بے پناہ انعطاف پذیری (resilience)ہے۔ آج ہماری معیشت ان پابندیوں سے آزاد ہے، جو ایک حکومتی کنٹرول میں چلنے والی معیشتوں کا خاصّہ ہوتا ہے۔ نجی شعبے کو ہر طرح کی آزادی ہے، بڑے منصوبوں میں وہ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں اور آزاد ریگولیٹری اداروں کے ذریعے ان کے معاملات حکومتی اثرات و مداخلت سے محفوظ ہیں۔ بیرونی تجارت پر کسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ زرمبادلہ ہی پر وہ پابندیاں ہیں، جو پانچ عشروں تک ہم پر مسلط رہی ہیں۔
اس مختصر سے جائزے میں قارئین کو یہ اندازہ بھی ہوگیا ہوگا کہ اتنے بڑے حادثات سے گزر کر بھی پاکستان کی معیشت نہ صرف قائم ہے اور ملک کی سلامتی کی ضرورتوں کو پورا کررہی ہے، بلکہ اس کی ترقی کی فطری صلاحیت بھی لامحدود ہے، کیوں کہ یہاں پر حقیقی ترقی کی اصل ضرورت، یعنی انسانی وسائل اور قدرتی وسائل، دونوں موجود ہیں۔ ہمیں جس بات نے ضعف اور صدمہ پہنچایا ہے، وہ رہنماؤں کی کوتاہ نظری اور بے اعتدالی کے ساتھ دُوراندیشی سے تہی دامنی بھی ہے۔ یہ ملک اس قابل ہے کہ اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کم از کم اس نمبر پر آئے، جو اس کی آبادی کے لحاظ سے اس کا حق بنتا ہے۔ اس کے لیے صرف ایک ضرورت ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات پر غیرمتزلزل ایمان اور مستقل مزاجی سے ایک سیدھی سمت میں سُبک رفتار سفر۔ اگر ہم راستے بدلتے رہے تو اوپر بیان کردہ دائرے کا سفر جاری رہے گا۔
_______________