ستمبر ۲۰۱۴

فہرست مضامین

مولانا مودودیؒ کی ایک نادر تصنیف: تاریخ دکن

ڈاکٹر معین الدین عقیل | ستمبر ۲۰۱۴ | تعارف کتاب

Responsive image Responsive image

حیدرآباد دکن یا مملکت ِ آصفیہ حیدرآباد ہندستان کے اُن علاقوں میں سے ایک ہے، جواپنی تاریخی اہمیت اور اپنی تہذیبی شان و شوکت کے لحاظ سے ایک انفرادی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مؤرخین نے بھی اس علاقے اور اس کی تاریخ اور اس کی تہذیبی انفرادیت پر کماحقہٗ توجہ دی ہے۔ اس موضوع پر کثیرتعداد میں کتب تواریخ مطبوعہ اور غیرمطبوعہ، کتب خانوں اور علمی ذخیروں میں موجود ہیں۔ اسی ضمن میں دکن یا مملکت ِ حیدرآباد کی تاریخ پر مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء) کی دو تصانیف: دولتِِ آصفیہ اور مملکت برطانیہ، سیاسی تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر۱؎ اور دکن کی سیاسی تاریخ۲؎ بھی اہم اور معروف ہیں۔

مولانا مودودیؒ ایک مفکروعالم کی حیثیت و شہرت کے حامل ہیں لیکن تصنیف و تالیف کے ابتدائی دور میں انھوں نے تاریخ کے مطالعے اور تراجم میں زیادہ دل چسپی لی تھی اور اپنی نوجوانی ہی میں متعدد اہم مقالات و کتابیں تصنیف کیں جو شائع بھی ہوئیں۔ مذکورہ تصانیف اسی ضمن میں ان کی ابتدائی کاوشیں ہیں۔ ان میں سے اول الذکر ایک عصری تناظر میں لکھی گئی تھی اور ایک تاریخی تسلسل اور عمومی دل چسپی کا اس میں احاطہ نہیں کیا گیا تھا لیکن مملکت ِ آصفیہ کی ایک ایسی تاریخ جس میں اس کے قیام کا پس منظر اور عہد بہ عہد حالات و واقعات شامل ہوں، مولانا مودودیؒ کی نظر میں اس کی ضرورت موجود تھی۔ چنانچہ اپنی مذکورہ اول الذکر کتاب کی تصنیف اور اشاعت کے بعد انھوں نے اس ضرورت کے ذیل میں اپنی اس تصنیف کے لیے جب وہ ۱۹۳۰ء میں بھوپال میں چند ماہ مقیم رہے، تو مواد جمع کرنا شروع کیا تھا اور وہاں سے جولائی ۱۹۳۱ء میں حیدرآباد منتقل ہوئے تو وہاں اسی جستجو اور مآخذ کی جمع آوری میں منہمک ہوگئے۔۳؎ 

ان کاارادہ ایک مفصل تاریخ لکھنے کا تھا جو چار جلدوں پر مشتمل ہوتی۔ انھوں نے اس کا آغاز بھی کردیا تھا لیکن اسے دیکھ کر ان کے ایک مقامی دوست مولوی احمدعارف نے مشورہ دیا کہ ان کا منصوبہ تحقیقی مطالعہ کرنے والوں کے لیے مفید ہوسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسی کتاب کی ضرورت بھی موجود ہے جو مبتدی طلبہ کے لیے ہو۔ یہ مشورہ انھیں پسند آیا۔ چنانچہ انھوں نے اس پر عمل شروع کردیا اور بہت آسان اسلوب میں دکن کے عہدقدیم سے  قطب شاہی تک کے مختصر حالات لکھ دیے۔ پھر یہ طے ہوا کہ خود مولوی احمد عارف بھی اس تصنیف میں شریک ہوجائیں گے۔ چنانچہ مولوی احمد عارف نے اس میں شامل کرنے کے لیے مغلیہ عہد  اور آصف جاہی عہد کے حالات تحریر کیے۔ اس طرح ایک مشترکہ کوشش سے ایک مختصر کتاب تاریخ دکن مرتب ہوگئی اور شائع بھی ہوگئی۔۴؎ 

یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جس کا ذکر خود مولانا مودودی نے اپنی ’خودنوشت‘ میں مختصر تاریخ دکن کے طور پر کیا ہے لیکن اس کا ذکر ان کی تصانیف کی کسی فہرست میں نظر نہیں آتا  ۵؎  ، اور نہ اس کا پھر کہیں کسی جگہ ذکر ہوا، جب کہ دکن کے تعلق سے مولانا مودودیؒ کی کُل کاوشوں پر اور دکن و حیدرآباد سے ان کی نسبتوں پر خاص طور پر ڈاکٹر محمدرفیع الدین فاروقی نے حیدرآباد دکن میں رہ کر دادِ تحقیق بھی دی۔۶؎ 

مولانا مودودی کے یہ دوست مولوی احمد عارف (م: ۱۹۴۹ء) حیدرآباد دکن کے معزز اور معروف شخص تھے۔ وہاں کے اکابر میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ادب اور فنون لطیفہ سے خاصی دل چسپی تھی۔۷؎  وہ صحافت سے منسلک تھے اور ایک بہت مؤثر اخبار صبحِ وطن کے مدیر تھے۔اس اخبار کو قومی تحریکوں میں قومی اُمنگوں کی ترجمانی اور حکومت ِ وقت کی تائید و حمایت کی وجہ سے خاصی مقبولیت حاصل تھی۔۸؎ 

ہمیں حال ہی میں اس نادر و نایاب کتاب کا ایک نسخہ ملا ہے۔ ذیل میں ہم اس کا دیباچہ (از قلم مولانا مودودی) نقل کر رہے ہیں، جس سے اندازہ ہوگا کہ یہ کتاب طلبہ کے لیے لکھی گئی تھی اور اس کا مقصد انھیں دکن کی تاریخ سے واقف کرانا تھا۔ ساتھ ہی مولانا ان میں تاریخ کے مطالعے بلکہ تاریخ کے فلسفیانہ مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اس کتاب کو موضوعات اور   عہد کے لحاظ سے آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا، لیکن ہرباب کو بھی ذیلی اسباق میں تقسیم کیا گیا، تاکہ طلبہ ہر عہد کی ذیلی موضوعاتی تفریق و تقسیم کی مصلحت سے بھی واقف ہوسکیں اور تاریخ کو ان کے تناظر میں سمجھ سکیں۔

تاریخِ دکن کی نایابی اور ندرت، اور مولانا مودودی کی ایک غیرمعروف تصنیف ہونے کے باعث، اس کا دیباچہ اور فہرست ِمضامین ، مع صفحات نمبر، ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں:

ص ۱:’’ تین چار سال سے مَیں دکن کی ایک مفصل تاریخ لکھنے میں مشغول ہوں، جس کے متعلق میرا اندازہ ہے کہ چار جلدوں میں تمام ہوگی۔ اس کے بعض حصوں کو دیکھ کر میرے دوست مولوی احمد عارف صاحب نے یہ راے دی کہ یہ کتاب تحقیقی مطالعہ کرنے والوں کے لیے مفید ہوسکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسی کتاب کی بھی ضرورت ہے جس میں مبتدی طلبہ کے لیے تاریخ کا ایک مختصر اور واضح خاکہ کھینچا جائے۔ ان کی اس تجویز کے مطابق میں نے قدیم زمانے سے قطب شاہی عہد تک کے مختصر حالات لکھ دیے اور ان پر مغل اور آصف جاہی عہد کے حالات کااضافہ مولوی احمد عارف صاحب نے کیا۔ اس متحدہ کوشش سے یہ کتاب مرتب ہوئی۔

’’جہاں تک کتاب کے حُسن و قبح کا تعلق ہے اس کو جانچنا ناقدین کا کام ہے۔ البتہ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے حتی الامکان اس کا تاریخی مواد نہایت معتبرومستند مآخذ سے اخذ کیا ہے اور ایسے واقعات درج کرنے سے پرہیز کیا ہے جن کی سند مشتبہ ہو۔

’’اس کتاب میں جن باتوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے وہ یہ ہیں کہ مبتدی طلبہ کے ذہن میں دکن اور اس کی جغرافی، نسلی، لسانی، تاریخی اور عمرانی حالات کی ایک صاف اور واضح تصویر [نقش] ہوجائے۔ مختلف زمانوں میں جو قومیں یہاں__ ص۲: آئیں اور جو سلطنتیں قائم ہوئیں ان کے زمانی اور جغرافی حدود، ان کے پیدا کردہ تغیرات اور ان کے چھوڑے ہوئے اثرات کو طلبہ کی استعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے، روشن خطوط کے ساتھ نمایاں کردیا گیا ہے۔ پرانی لکھی ہوئی کتابوں کی تقلید میں دکن کی تاریخ کے متعلق جو نظریات قائم کرلیے گئے تھے، ان کو چھوڑ کر وہ نظریات اختیار کیے گئے ہیں جو جدید تحقیق و مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ کوشش کی گئی ہے کہ مبتدی طلبہ کے ذہن میں ابھی سے ایک غیرمحسوس طور پر تاریخ کے فلسفیانہ مطالعے کی بنا پڑ جائے۔

’’بچوں کو یہ کتاب پڑھاتے وقت اساتذہ کو دو باتوں کا خصوصیت کے ساتھ لحاظ رکھنا چاہیے: ایک یہ کہ دو دفعہ پڑھائی جائے۔ پہلی دفعہ میں تاریخ کا صرف ایک عمومی خاکہ ذہن نشین کرنے کوشش کی جائے اور دوسری دفعہ میں تفصیلات یاد کرائی جائیں مگر تفصیلات میں بھی غیراہم اشخاص اور سنین کی طرف زیادہ توجہ نہ کی جائے۔ دوسری یہ کہ ہرسبق کو پڑھانے سے پہلے استاد خود اس کو غور سے پڑھے اور یہ راے قائم کرے کہ اس سبق میں کون سی باتیں اہم ہیں، نیز وہ نقشے کی مدد سے اس سبق کو اچھی طرح سمجھ بھی لے۔ پھر وہی سبق بچوں کو لیکچر کے انداز میں پڑھائے اور باربار نقشے سے مدد لیتا جائے۔ اس کتاب میں جو نقشے دیے گئے ہیں، صرف ان ہی پر اعتماد کرنا ٹھیک نہیں ہے، ہرتاریخی تغیر اور اہم واقعے کو سمجھانے کے لیے نقشے کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ کتاب میں اتنے نقشے نہیں دیے جاسکتے‘‘۔

مولانا مودودی نے اس کتاب کے چھے ابواب تحریر کیے، جن کے عنوانات یہ ہیں:

  • ہمارا ملک اور اس کے باشندے
  • دولت ِ آصفیہ کا رقبہ اور آبادی
  • پرانے زمانے کی تاریخ
  • دکن کی آریہ اور دراوڑ ریاستیں
  • دکن میں مسلمانوں کی آمد
  • سلطنت ِ بہمنیہ
  • دکن کی پانچ ریاستیں۔

یہ ابواب کُل ۱۷۱صفحات پر مشتمل ہیں، جب کہ کتاب کی کُل ضخامت ۲۲۴صفحات ہے۔ اس طرح ۵۳صفحات مولوی احمد عارف نے تحریر کیے تھے۔گویا تین چوتھائی کتاب مولانا کی کاوش کا نتیجہ ہے اور ایک چوتھائی مولوی احمد عارف صاحب کی تحریر ہے۔

حوالے اور حواشی

  1. شائع کردہ: کتب خانہ رحیمیہ، دہلی، ۱۹۲۸ء۔ یہ تصنیف بعد میں ۱۹۴۱ء میں عبدالحق اکیڈمی حیدرآباد نے دوبارہ شائع کی۔ اس کی دوسری اشاعت میں کچھ ترامیم بھی شامل کی گئی تھیں، جیسے ’معاہدۂ برار‘ کا متن اضافہ کیا گیا۔ اس کی مزید ایک اشاعت (سوم) کا اہتمام ہفت روزہ آئین، لاہورنے ۲۵جون ۱۹۸۷ء کے شمارے میں، اپنی خصوصی اشاعت کے طور پر کیا۔
  2. مطبوعہ: دارالاشاعت سیاسیہ، حیدرآباد دکن، ۱۹۴۴ء۔ بعد میں یہ کتاب اسلامک پبلی کیشنز لاہور سے اگست ۱۹۶۸ء میں اور پھر جون ۱۹۶۹ء میں شائع ہوئی۔
  3. سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ’’خودنوشت‘‘،(مشمولہ: ادب اور ادیب، سیدمودودی کی نظر میں (مرتبہ: سفیراختر) دارالمعارف، واہ کینٹ، جنوری ۱۹۹۸ء، ص ۲۹
  4. مطبع عہدآفریں، حیدرآباد، ۱۳۵۱ھ۔
  5. مشمولہ: ادب اور ادیب، سیدمودودی کی نظر میں ،ص ۱۹، ۴۳۔ اس تصنیف کا ذکر اور اشاعتی تفصیلات کسی اور جگہ دستیاب نہیں۔ یہاں تک کہ نصیرالدین ہاشمی صاحب نے ’’دکن کی تاریخوں پر ایک نظر‘‘ (مشمولہ: تاریخ و سیاست، کراچی ، نومبر ۱۹۵۳ء،ص ۶۱-۹۸) کے عنوان سے اپنی مرتبہ وضاحتی فہرست میں بھی اس کا ذکر نہیں کیا، جو ان کی قریب العہد تصنیف ہے۔ اس تصنیف کے دو نسخے کتب خانہ انجمن ترقی اُردو، کراچی میں شمار: الف ۱۹؍۳، ۱۰ اور ۱۱ کے تحت موجود ہیں۔ راقم نے اس تصنیف پر ایک علیحدہ تعارفی مضمون تحریر کیا ہے۔ اس تصنیف کے دو نسخے کتب خانہ انجمن ترقی اُردو، کراچی میں الف ۱۹؍۳،۱۰ اور ۱۱ کے تحت موجود ہیں۔
  6. مقالہ، بعنوان: ’’مولانا مودودی اور حیدرآباد دکن‘‘، مشمولہ: تذکرۂ سیدمودودی (مرتبہ: جمیل احمد رانا، سلیم منصور خالد) جلد۳،ادارہ معارف اسلامی، لاہور، ۱۹۹۸ء، ص ۳۱۲-۳۳۱۔
  7. سید محمد جعفری ، اسٹار ڈائرکٹری ،اسٹار پریس، الٰہ آباد، سن ندارد، ص ۴۴۴-۴۴۵، صبح وطن، ۱۹۲۸ء میں جاری کیا  تھا۔ سید ممتاز مہدی، حیدرآباد کے اُردو روزناموں کی ادبی خدمات۔ قومی کونسل براے قومی زبان، نئی دہلی، ۱۹۹۸ء ،ص ۴۱، دارالعلوم، حیدرآباد سے فارغ التحصیل تھے۔ ۱۹۴۸ء میں یہ اخبار بند ہوگیا، طیب انصاری، حیدرآباد میں اُردو صحافت۔ ادبی ٹرسٹ حیدرآباد، ۱۹۸۰ء، ص۶۰۔
  8. اس اخبار میں اسی زمانے میں کہ جب یہ کتاب لکھی جارہی تھی، مولانا مودودی نے دکن کی تاریخ کے ایک اہم اور غیرمطبوعہ ماخذ فتوحاتِ آصفی ، مصنفہ ابوالفیض معنی کا بغائر مطالعہ کیا اور ایک مفصل مقالہ اس کی اہمیت اور خصوصیات و مندرجات پر لکھا جو اس اخبار کے ’سالگرہ نمبر‘ ، ۱۳۵۱ھ میں شائع ہوا۔ مولانا مودودی کا یہ اہم مقالہ بھی غیرمعروف اور غیرمدوّن ہے۔ اس مقالے کی اہمیت کے پیش نظر ایک ضروری تعارف و حواشی کے ساتھ راقم نے اسے بغرضِ اشاعت علیحدہ مرتب کیا ہے۔
  9. ص ۱۔
  10. ص ۱-۲۔

مقالہ نگار شعبہ اُردو ، جامعہ کراچی کے سابق صدر ہیں