مسلم دنیا یوں توبہت سے داخلی اور خارجی مسائل اور بحرانوں سے دوچارہے، لیکن ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتِ حال وہ ہے، جس میں خود ہم وطن اور ہم نسل مسلمان ، اپنے ہی ہم وطنوں سے ظلم وتشددکارویہ اختیارکرتے ہیں، اور پھراس بہتے ہوئے خون اور تباہ کی جانے والی زندگیوں کواپنی قومی ترقی کا وسیلہ بتاتے ہیں۔ اس سفاکی اور شرمناکی کے لیے بے غیرتی اور غداری سے کم لفظ استعمال کرنا ممکن نہیں۔
عالم اسلام اور خصوصاً عالم عرب میں اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز حکومت کے ہاتھوں امریکا ویورپ جو حیوانی کھیل کھیل رہے ہیں، اسی سے ملتاجلتاحیوانی اور غیرانسانی رویہ، ہندوقوم پرست ریاست ہندستان اپنائے ہوئے ہے۔ اس نے ایک جانب ۶۸برس سے کشمیرکے مسلمانوں کو محکوم بناکرظلم کے پہاڑتوڑے ہیں تودوسری جانب بنگلہ دیش کی مسلم ریاست کواپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس سیاہ رات کے اندھیرے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے محبِ وطن، اسلام دوست اور مسلم قوم پرست بنگلہ دیشی اپنے ملک میں ایک عذاب سے گزررہے ہیں، جس کا ماسٹرمائنڈ بھارت ہے اور اس کے ایجنڈے کو بنگلہ دیش میں نافذ کرنے کا ذریعہ عوامی لیگ اور اس کی مددگارتنظیمیں ہیں۔
عوامی لیگ نے دسمبر۲۰۰۸ء میں اقتدارحاصل کرنے کے بعد سے بنگلہ دیش کی قومی سلامتی کو بھارتی مفادات کے سامنے سرنڈرکرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جن کی بنگلہ دیش کے دُوراندیش اور اپنی قومی آزادی واسلامی تہذیبی تشخص کو تحفظ دینے والے افراد اور تنظیموں نے کھل کر مخالفت کی۔ جواب میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیر اثربنگلہ دیش کی متعدداین جی اوزاور عوامی لیگی حکومت نے بڑے پیمانے پر ریاستی مشینری کو استعمال کرکے ان آوازوں کو کچلنے کا راستہ اختیار کیاہے۔
حکومت نے سب سے پہلے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے خلاف عدالتی ڈرامے کا آغازکیا۔ اُس کے بزرگ رہنماؤں اور فعال کارکنوں کو گرفتارکرکے نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ (ICT) قائم کرکے مقدمات چلانے شروع کیے۔ اس خصوصی عدالت پر بنگلہ دیش کے قانونی حلقوں، راست فکر دانش وروں اور صحافتی تنظیموں نے زبردست احتجاج کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ (HRW) اور دیگربین الاقوامی تنظیموں نے اس انتقامی ڈرامے کو مستردکردیا۔ مگر عوامی لیگی حکومت نے پوری ڈھٹائی سے ، سزاے موت سنائے جانے والے فیصلوں کا نہ صرف اعلان کیا، بلکہ ۱۲دسمبر۲۰۱۳ء کو عبدالقادرمُلّا کو پھانسی دے بھی دی۔ اس عدالتی قتل عام پر دنیابھر نے برملا احتجاج کیا، لیکن یہ انتقامی عدالتی عمل رک نہیںسکا۔اس وقت بھی جماعت اسلامی اور بنگلہ دیشن نیشنلسٹ پارٹی (BNP)کے قائدین کو سزائیں سنائی جارہی ہیں، اور انھیں اپنے دفاع کے لیے آزادانہ طور پر بنیادی عدالتی سہولیات تک بھی میسر نہیں ہیں۔
یادرہے کہ اس نام نہاد عدالت (ICT) کے چیف جج مسٹرنظام کی شرمناک گفتگوکو ۲۰۱۲ء میں سکائپ سے ریکارڈکر کے اکانومسٹ لندن اوربنگلہ دیش کے اخبارات نے شائع کرکے بتایاکہ یہ عدالت حکومت کی ہدایات پر فیصلے کررہی ہے نہ کہ قانون اور عدل کے مسلّمہ اصولوں کے مطابق۔
اسی طرح بنگلہ دیش میں اظہارراے کے ذرائع پر بری طرح پابندیاں عائد ہیں، جس کی چندمثالیںدیکھ کراندازہ ہوسکتا ہے کہ وہاں جبروظلم کاراج کس طرح اپنے شہریوں کی زندگی کو عذاب بنارہاہے۔ ۲۷؍اپریل ۲۰۱۰ء کو نجی شعبے میں سب سے بڑے ٹی وی نیٹ ورک ’چینل ون‘ کو اس لیے بندکردیاگیاکہ وہ حزب اختلاف کی خبریں نشرکرتا ہے۔ ۲۲؍اگست ۲۰۱۱ء کواطلاعاتی ترسیل کے سب سے مؤثرنجی ادارے ’شیرشا نیوز‘(Sheersha News) کوکام کرنے سے روک دیا، اور اس کا سبب بھی حزبِ اختلاف کی خبریں نشرکرنا تھا۔ ۱۶ فروری کوحکومت کی بھارت نواز پالیسیوں پرتنقیدکرنے والے’سوناربلاگ‘ کو بندکردیاگیا۔ ۱۱؍اپریل ۲۰۱۳ء کو بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کے سب سے بڑے حامی اخبار اماردیش (Amar Desh) کے مدیرکواس بنا پر گرفتارکرکے تشددکانشانہ بنایاگیاکہ انھوں نے نام نہادعدالتی جج مسٹرنظام کی غیرقانونی اور غیراخلاقی گفتگوکو شائع کیا تھا، حالانکہ یہ گفتگو اکانومسٹ لندن بھی شائع کرچکاتھا۔ ۱۴؍اپریل۲۰۱۳ء کو حکومتی مسلح ایجنسیوںنے اسلامی قوتوں کے سب سے بڑے اور قدیم اخبار سنگرام کے دفاترپرحملہ کردیا۔
۵مئی ۲۰۱۳ء کو ’ڈی گنتا ٹیلی وژن‘ (Diganta TV) اور ’اسلامک ٹیلی ویژن‘ پر اس لیے پابندی عائد کردی کہ انھوں نے ’حفاظتِ اسلام‘ تنظیم کے پُرامن احتجاجی دھرنے کو کچلنے کے حکومتی قتلِ عام کی تصاویر دکھائی تھیں۔حفاظت اسلام نامی تنظیم‘ جو علما اور دینیطالب علموں پرمشتمل ہے، کے پُر امن احتجاج ۵مئی ۲۰۱۳ء کو ۱۰ہزار مسلح اہل کاروں کے ذریعے کچل دیاگیا۔ بیسیوں طالب علموں کی لاشوں کا آج تک نشان نہیں ملا۔صحافیوں کو ڈرانے، اخبارات کی اشاعت کو معطل کرنے اور میڈیا کی نشریات کوخراب کرنے کا کھیل پوری قوت سے جاری ہے۔ اس جارحیت پر۱۶قومی اخبارات کے ایڈیٹروں نے ایک مشترکہ بیان میں حکومتی کارروائیوں کی مذمت کی اور مطالبات پیش کیے، جنھیں بھارتی کٹھ پتلی حکومت نے مستردکردیا۔درحقیقت عوامی لیگ حکومت کی جڑ ڈھاکہ میں نہیں، نئی دہلی سے خوراک حاصل کرتی ہے۔
ایک غیرآئینی اور غیر اخلاقی حکومت کی سربراہ حسینہ واجد درحقیقت اپنے والد شیخ مجیب کی جابرانہ انتقامی پالیسیوں کاتسلسل ہے، جس نے فروری۱۹۷۵ء میںپورے بنگلہ دیش میں سیاسی پارٹیوںکوختم کرکے ایک پارٹی کی حکومت قائم کی تھی اور پھر۷جون ۱۹۷۵ء کودستورمیں چوتھی ترمیم کرکے ایک پارٹی اورایک اخبارکا کالاقانون نافذ کیا گیاتھا۔ ان اقدامات کے لیے اسے دہلی سرکارکی سرپرستی حاصل تھی۔ اسی طرح جولائی ۲۰۱۴ء میں مولانا مودودی کی کتب کو مساجد اور تعلیمی اداروں کی ۲۴ہزار لائبریریوں میں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی۔پھر حسینہ واجد نے ۱۷؍اگست ۲۰۱۴ء کو دستور میں ۱۶ویں ترمیم کا مسودہ کابینہ سے منظور کرایاہے، جس کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ ، عملاً اس طرح حکومت کے رحم و کرم پر ہوگی کہ ججوں کا مواخذہ عدالتی کمیشن نہیں کرے گا بلکہ براہِ راست پارلیمنٹ ہی ججوں کی قسمت کا فیصلہ کیا کرے گی۔
بنگلہ دیش کوایک بڑے جیل کی شکل دے کرہزاروں سیاسی بلکہ سماجی کارکنوں تک کو جیلوں میں ٹھونسا جا چکاہے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت ۶۲۹پولیس اسٹیشن ہیں جہاں پر صرف ۲۰۱۲ء میں ۲لاکھ ۲۹ہزار ۵سو ۸۵ افراد کو گرفتارکرکے مختلف اوقات میں تشددکانشانہ بنایاگیا۔ ۲۰۱۳ء میں یہ تعداد دگنا ہوگئی۔ جیلوں میںقیدبزرگوں ، لیڈروں اور کارکنوں کوقانونی ، طبی اور بنیادی سہولتیں تک میسرنہیں۔
جماعت اسلامی اور طالب علموں کی تنظیم اسلامی چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کے ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں بند‘ سیکڑوں کارکنوں کو زخمی اور درجنوں کارکنوں کو گولی مار کر قتل کیاجاچکاہے، جب کہ سیکڑوں کارکن طالب علموں کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کیاجاچکاہے۔
اسلامی چھاتروشبرکے کارکنوں پر تشددکے لیے RAB (ریپڈایکشن بٹالین)، بارڈرگارڈز بنگلہ دیش(BGB)، پولیس اورعوامی لیگ کے غنڈاعناصراورچھاترولیگ کے دہشت گردوںکی مشترکہ ٹیم متحرک ہے۔ شبر کے جن سیکڑوں کارکنوںکوزخمی کیاگیاہے ان میں سے بہت سوں کو زندگی بھرمعذوربنانے کے لیے ‘ ان کی دونوں ٹانگوں پر قریب سے گولیاں مار کر اپاہج کردیاگیاہے، یاپھرکہنیوںمیں گولیاں مارکرہاتھوں سے معذورکردیاگیاہے۔ اس نوعیت کے خوف ناک تشدداورباقاعدہ اندازسے ظلم کی مثالیں عصرِ حاضر میں کہیں نہیں دیکھی گئیں۔ مگرافسوس ہے کہ دنیا میں اس کے خلاف آوازبلندنہیں ہورہی۔
گذشتہ برس ایک طالب علم دلاورحسین کو، جو اسلامی چھاتروشبرسے تعلق رکھتے ہیں، ڈھاکا سے گرفتار کرکے ۳۵۲ مقدمات میں ملوث کیا۔ ۴۵روز تک تشددکے دوران ان کے ہاتھ اور پاؤںکے ناخن جڑسے اکھاڑ لیے گئے اور اتنا تشددکیاکہ دلاور کے جسم کا آدھاحصہ مفلوج ہوگیاہے۔ یہ ایک مثال نہیں بلکہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ جنھیں بیان کرتے ہوئے روح کانپ اُٹھتی ہے۔
۲۰۱۴ء کے جون میں اسلامی چھاتری شنگھستا (اسلامی جمعیت طالبات) کی۳۲کارکنان کو بھی توہین آمیزطریقے سے گرفتارکرکے جیلوںمیں بندکردیاگیا۔
معلومات کے اس برق رفتارزمانے میں یہ سب کچھ ہورہاہے اور کوئی اس ظلم کا ہاتھ روکنے والانہیں۔ یہ سب کچھ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور بے حرمتی ہے اور انسانی حقوق کا تعلق سرحدوں کی قید سے مشروط نہیں۔ اس لیے دنیا کے کونے کونے سے عوامی لیگی کٹھ پتلی حکومت کے اس ظلم کے خلاف آواز بلندہونی چاہیے۔ نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو توڑاجائے۔ گرفتارشدگان کو رہاکیاجائے۔ جعلی انتخاب کی پیداوارحکومت کو برطرف کرکے نئے انتخابات کرائے جائیں اور بھارتی تسلط سے بنگلہ دیش کے عوام کو آزادی دلائی جائے۔