’قرآن پر عمل__ ایک منفرد تجربہ‘ (اگست ۲۰۱۴ء) میں سمیہ رمضان نے طلاق کے مسئلے پر جہاں معاشرتی رویے کی اصلاح کی ہے وہاں آیاتِ قرآنی کی تفہیم د ل چسپ اسلوب میں عمدگی سے کی ہے۔ بجا کہا گیا ہے کہ اس مضمون میں قرآنِ حکیم کی آیات پر عمل اور اس کے حقیقی نفاذ کو جس طرح ممکن بنایا گیا ہے وہ ہزاروں درسِ قرآن بھی سنے جاتے تو آیات کی ایسی تفہیم حاصل نہ ہوسکتی۔
’اسلام کیا ہے؟‘ (اگست ۲۰۱۴ء) پڑھ کر مریم جمیلہ مرحومہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ انھوں نے اسلام کا اختصار اور جامعیت سے بھرپور تعارف پیش کیا ہے۔ تاہم ان کا یہ کہنا کہ اسلام فنونِ لطیفہ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، وضاحت طلب ہے۔ اس پہلو کو اُجاگر کرنے کی ضرورت تھی کہ اسلام فنونِ لطیفہ کی حدود کا تعین کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
’اسلامی نظام: سیاسی ذرائع سے قیام ممکن ہے؟‘ (اپریل ، مئی ۲۰۱۴ء) کے تحت اہم نکات کو زیربحث لایا گیا ہے۔ تاہم سوال یہ رہ جاتا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ (جو مجلس شوریٰ کا مقام رکھتی ہے) میں ایسے افراد کیسے لائے جائیں جو اہل، امانت دار اور دین کا علم رکھنے والے ہوں؟ اس سلسلے میں دستور کی دفعات ۶۲-۶۳ کچھ حدود قائم کرتی ہیں لیکن ان کو بروے عمل لانے کے لیے جو قواعد و ضوابط ہونے چاہییں وہ منظرعام پر نہیں آئے۔ دستور کی ہردفعہ کے تحت تفصیلی ہدایات، قواعد و ضوابط نافذ ہوتے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط کے نفاذ اور عام کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اہلِ علم و دانش اور ارباب اقتدار کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ پاکستان کو واقعتا اسلامی جمہوری ریاست کا عملی نمونہ بنایا جاسکے۔