۱۰؍اگست ۲۰۱۴ء کو ترکی میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں وزیراعظم ترکی رجب طیب اردگان ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ اب تک صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کرتی رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب قوم نے براہِ راست اپنے ووٹ سے صدر کا انتخاب کیا ہے۔ رجب طیب اردگان کو پہلے ہی رائونڈ میں اپنے حریفوں پر فیصلہ کُن برتری حاصل ہوگئی اور دوسرے رائونڈ کی ضرورت پیش نہ آئی۔ ملکی دستور کی دفعہ۴ کے مطابق ملک کے صدارتی انتخابات میں اردگان کو مطلق اکثریت حاصل ہے۔ اردگان کو ۵۲ فی صد، اکم الدین احسان اوغلو کو ۳۸فی صد اور صلاح الدین دمیرطاش کو ۹ فی صد ووٹ حاصل ہوئے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق رجب طیب اردگان اس وقت اپنی سیاسی زندگی کے بلند ترین مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ وہ ۲۰۰۳ء سے ملک کے وزیراعظم تھے۔ وہ ملک کے صدر بن کر صدر جمہوریہ کے اختیارات کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع نے یہ تبصرہ بھی کیا ہے کہ اردگان اپنی زندگی کے جس اہم ترین ہدف تک پہنچنا چاہتے تھے وہاں پہنچ گئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ صدارتی منصب کو اعزازی کے بجاے تنفیذی صورت عطا کی جائے۔
عالمی ذرائع ابلاغ میں بہت اہم خبر رساں اداروں کے تبصروں کے مطابق عراق، شام اور یوکرائن کے بحرانوں میں گھرے ہوئے اور مغرب کے نہایت اہم حلیف اور اتحادی ملک ترکی کا آیندہ صدر انتہائی اہمیت کے حامل کثیر جہتی سیاسی مقام پر کھڑا ہوگا۔ اگر مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ترکی کے صدارتی انتخابات کو تبدیلی کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق اردگان کی یہ نمایاں کامیابی اُس کی طاقت و اقتدار کو مزید مستحکم کرے گی۔ بیش تر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کے پورے عرصے میں اردگان کے لیے یہ مشکل ترین سال تھاجو اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
شخصیت، تجربے اور سیاسی بصیرت و قومی سطح پر حاصل شہرت و پذیرائی کے اعتبار سے تینوں صدارتی اُمیدواروں کی حیثیت میں بہت نمایاں فرق ہے۔ صلاح الدین دمیرطاش ۴۱سال کے ہیں، ملک کی بہت بڑی قبائلی برادری کُردوں کی حمایت انھیں حاصل تھی۔ اندازے سے بہت کم شرح ووٹ ان کے حصے میں آئی، یعنی ۹ فی صد۔ دوسرے صدارتی اُمیدوار او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کے منصب پر رہنے کی وجہ سے عالمی شہرت و تعارف رکھتے تھے اور ملک کی ۱۳سیاسی جماعتوں کے متفقہ اُمیدوار تھے۔ اس تمام تر حمایت کے باوجود انھیں ۳۸فی صد ووٹ ملے۔ اردگان کے مقابلے میں لوگ انھیں ’باباجی‘ خیال کرتے ہیں۔ تنقید و تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ رجب طیب اردگان ۶۰سال کی عمر میں بھی پُرکشش شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ قوتِ کار اور حاضر دماغی کے اعتبارسے بہت اچھا تعارف رکھتے ہیں۔ حکومت میں ۱۲برس گزارنے کے بعد بھی وہ توانا عزم اور تعمیروترقی کے منصوبوں کو مزید آگے بڑھانے کے متمنی ہیں۔ ناقدین کے نزدیک اس کے باوجود وہ منصب ِ صدارت پر متمکن ہوکر ترکی کی سیاست کے نقشے میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکیں گے۔ حامی انھیں ’فرزند اُمت‘ کا نام دیتے ہیں اور حریف انھیں مذاق سے ’سلطان‘ کہتے ہیں۔ بہرحال اردگان اپنے دونوں حریفوں کے مقابلے میں پوری قوم کا اعتماد حاصل کرنے میں واضح طور پر کامیاب رہے اور ۵۲ فی صد سے زائد ووٹ حاصل کر کے ملک کے پہلے جمہوری صدر منتخب ہوگئے۔ بعض ذرائع نے انھیں ترکی کی تاریخ کا مضبوط ترین لیڈر قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بطور صدر وہ متعدد قومی اداروں میں اپنے پسندیدہ افراد کو متعین کرنے کا اختیار حاصل کرلیں گے۔
رجب طیب اردگان کی صدارتی انتخابات میں کامیابی، اُن کی اپنی قائم کردہ جماعت ’انصاف و ترقی پارٹی‘ کی مسلسل ۹ویں کامیابی ہے۔ ۱۹۲۳ء سے لے کر اب تک سیاسی منظرنامے پر کسی بھی جماعت کو ایسی برتری حاصل نہیں ہوسکی۔ انصاف و ترقی پارٹی تین بار عام انتخابات میں، تین بار بلدیاتی انتخابات میں، دو بار ریفرنڈم میں اور اب پہلے براہِ راست قومی صدارتی انتخابات میں کامیابی کی منزلیں طے کرچکی ہے۔
۱۲ سال سے انصاف و ترقی پارٹی سیاسی منظر پر نہ صرف موجود ہے بلکہ برسرِاقتدار ہے۔ پارٹی نے خارجی سطح پر عالمی تبصرہ و تجزیہ نگاروں کے لیے قابلِ توجہ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ترکی نے علاقائی و عالمی مقام حاصل کرلیا ہے۔ اردگان کو عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں جو پذیرائی ملی ہے اس سے قبل کسی سیاسی رہنما کو حاصل نہیں ہوسکی۔ انصاف و ترقی پارٹی کے دورِ حکومت میں ترکی متعدد بار قابلِ ذکر اقتصادی کامیابیوں کی منزلیں طے کرچکا ہے۔ ایسی مملکت جو قرضوں اور بحرانوں کے بوجھ تلے دبی ہو، وہ قرضوں کے جان لیوا بوجھ سے باہر نکل آئے تو یہ عالمی سطح پر بے مثال کامیابی ہے۔ وزیراعظم رجب طیب اردگان نے صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے خطاب میں کہا: ترکی عالمی مالیاتی فنڈ کا ۲۳ملین ڈالر کا مقروض تھا جن کی مکمل ادایگی کے بعد وہ مالیاتی فنڈ کے قرضوں سے نجات پاچکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ترکی یہ عزم رکھتا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کو ۵ملین ڈالر کا قرض دے کر وہ مقروض ملکوں کی صف سے نکل کر قرض دینے والا ملک بن جائے۔ عالمی طاقتوں کی ہدایات کے تابع رہنے کے بجاے عالمی سیاست میں برابر کے شریک کی حیثیت سے کردار ادا کرسکے۔
طیب اردگان ایسی شخصیت ہیں جس نے ترکی کے گلی کوچوں میں خود کو موضوع بحث بنالیا ہے۔ ان کے گرد جمع ترک محبت کرنے والے بھی ہیں اور نفرت کرنے والے بھی۔ ان کے عقیدت مند انھیں اتاترک ثانی سمجھتے ہیں۔ ان کے نقاد کہتے ہیں کہ وہ خطے کو تقسیم کرنے اور اس پر تسلط جمانے کے منصوبے کے آلۂ کار ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ عثمانی سلطنت کے شاہوں جیسا ’شاہ‘ بننا چاہتے ہیں لیکن ان کا یہ خواب اس لیے پورا نہیں ہوسکتا کہ اتاترک نے جو ریاست کا بانی ہے، دستور میں ایسی دفعہ شامل کر رکھی ہے جس کی بنیاد پر ریاست کا سیکولر رہنا ناگزیر ہے۔
اتاترک نے اس دفعہ کے فوراً بعد یہ دفعہ بھی شامل کی ہے کہ سیکولرزم کی اس دفعہ کو کسی بھی وقت اور کسی بھی ذریعے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ اردگان کے پیش نظر خلافت ِ عثمانیہ جیسی ریاست قائم کرنا ہے لہٰذا اس دفعہ کی موجودگی تک یہ نہیں ہوسکتا۔ ترکی دستور میں دینی جماعتوں کی تشکیل ممنوع ہے۔ انصاف و ترقی پارٹی دستاویزی اور کاغذی لحاظ سے سیکولر اور مزاج و طبیعت اور کردار کے اعتبار سے اسلامی ہے۔
پے درپے تین قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے یک جماعتی حکومت کی تشکیل کے باوجود یہ ممکن نہیں تھا کہ معاملہ ان کے ہاتھ میں آجاتا۔ ملک پر فوج کا تسلط قائم تھا اور وہ کسی وقت بھی ان کے خلاف بغاوت کرسکتی تھی۔ لہٰذا اردگان نے پہلے فوج کے اثرات و اختیارات کو محدود کیا، پھر عدلیہ کی اتھارٹی کا خاتمہ کیا جو اسلامی گروپوں کے سر پر لٹکتی تلوار تھی۔ اردگان نے یورپی یونین کے قوانین کے ساتھ انضمام کو غنیمت جانا تاکہ رفتہ رفتہ اُن قوانین کو تبدیل کیا جاسکے جو ان دونوں اداروں سے متعلق تھے۔
انصاف و ترقی پارٹی کے نائب صدر محمد علی شاہین نے دستوری تبدیلیوں کے حوالے سے کہا کہ ایک مدت سے ہماری راے ہے کہ ۱۹۸۲ء کے دستور میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور قوم کو نئے دستور کی ضرورت ہے۔ افسوس ہے کہ دستوری تبدیلیوں کے مسودے پر دوسال کی محنت کے باوجود پارلیمنٹ سے دستوری کمیٹی کا اتفاق نہیں ہوسکا۔ مگر اس کے باوجود ہم اپنی راے پر قائم ہیں اور اپنے مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
۲۰۱۵ء میں منعقد ہونے والے قومی انتخابات میں پیش کیے جانے والے منشور میں ہمارا سب سے اہم وعدہ یہی ہوگا کہ نیا دستور اتفاق راے سے بنے گا۔ ہمارا یقین ہے کہ ملک کو ایسے دستور کی ضرورت ہے جس سے ملکی مشکلات و مسائل کا حل ممکن ہو، جو انسانی حقوق اور آزادیوں کا ضامن ہو اور ترکی کو ایک جدید ریاست بناسکے۔
رجب طیب اردگان نے بذاتِ خود ترکی کے اندر پارٹی قیادت کو یہ ہدف دیا ہے کہ وہ آیندہ پارلیمانی انتخابات میں اتنی غالب اکثریت حاصل کریں جس سے پارٹی کے لیے دستور میں تبدیلی لانے کا عمل ممکن ہوسکے۔ انھوں نے یہ بات بھی واضح کی کہ آیندہ عام انتخابات میں پارٹی کی شرکت کا مقصد دستور میں تبدیلی کی خاطر زیادہ سے زیادہ اکثریت حاصل کرنا ہے۔ گذشتہ انتخابات میں اگرچہ پارٹی کو ۵۵۰ کے ایوان میں ۳۱۳ نشستیں حاصل تھیں لیکن وہ غالب اکثریت رکھنے کے باوجود دستور میں تبدیلی کے لیے مطلوبہ دوتہائی اکثریت نہیں رکھتی تھی۔
اردگان کی صدارتی کامیابی پر مخالفین کا اعتراض ہے کہ وہ ملک کو صدارتی نظام میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ اردگان نے اس راے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی امتیاز کے بغیر ۷۷ملین ترک عوام کا صدر ہونے کا حلف اُٹھائوںگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے تاریخی اصلاحات اس لیے کی ہیں کہ ملک کے تمام شہری آزادیِ راے کا حق کسی خوف و خطر کے بغیر استعمال کرسکیں۔ اس کے برعکس اُن کے حریفوں کا خیال ہے کہ ترکی کو مغربی اقدار و روایات سے بہت دُور لے جارہے ہیں۔ اردگان کو درپیش چیلنجوں میں ایک بہت بڑا مسئلہ معروف دانش ور فتح اللہ گولن کی قابلِ اعتراض سرگرمیاں ہیں۔ ان کے بارے میں اردگان نے کہا کہ میرے منصب ِ صدارت سنبھالنے سے گولن سے کش مکش میں اضافہ ہوجائے گا۔ اُن کا کہنا ہے کہ گولن صرف اردگان اور اس کے خاندان اور ساتھیوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ ترکی اور ترک قوم کی آزادی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
انصاف و ترقی پارٹی کا کہنا ہے کہ سیاسی کش مکش اور چیز ہے اور تخریبی کش مکش دوسری چیز۔ فتح اللہ گولن کی پارٹی پر انصاف پارٹی کا الزام ہے کہ وہ قومی اداروں کے اندر انتشار و انارکی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ترکی ریاست کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ملک کی قومی اور وطنی سلامتی کے اہم رازوں کی جاسوسی کرتے پکڑے گئے ہیں۔ وہ ان معلومات اور سربستہ رازوں کو ترکی کے دشمنوں تک پہنچاتے ہیں۔ ابتدا میں جب وہ حکومت کے سیاسی طور پر مخالف رہے تو اُن سے بالکل تعرض نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ وہ دستوری حقوق حاصل کیے بغیر سیاسی پلیٹ فارم پر اختلافی سیاست کرتے رہے۔ انھوں نے کوئی سیاسی جماعت رجسٹر نہیں کرائی تھی جس کے ذریعے وہ حکومت کی مخالفت کرسکتے۔ ان پر دوسرا الزام یہ ہے کہ انھوں نے ’مرمرہ‘ بحری جہاز کے مسئلے پر اسرائیلی حکومت کی تائید کی اور ترکی حکومت کو اُن ۹ شہدا کی شہادت کا ذمہ دار قرار دیا جنھوں نے غزہ میں فلسطینی قوم کے گرد اسرائیلی محاصرے کو توڑنے کی خاطر جامِ شہادت نوش کیا۔ یہی وہ موقع ہے جب ترکی حکومت نے اُن کا محاسبہ کرنا چاہا۔ تیسرا الزام یہ ہے کہ فتح اللہ گولن کی جماعت کے کارکن خفیہ طور پر قومی حکومتی اداروں میں جاسوسی نظام قائم کر کے عسکری اور سول حکومتی اداروں کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ترکی سلامتی کونسل کے اجلاسوں کی جاسوسی کی اور ان خفیہ معلومات کو عام کیا۔
ترکی داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر کئی مشکلات اور چیلنجوں سے دوچار ہے اور رجب طیب اردگان نے ان تمام مسائل و مشکلات کو نقطۂ نظر صفر پر لانے کا عزم ظاہر کیا تھا مگر ۱۲سال مسلسل اقتدار میں رہنے کے بعد بہت سے اُمور و معاملات سے پردہ اُٹھاتو وہ مشکل تر ہوتے گئے۔ داخلی سطح پر اردگان کو سیکولر قوتوں سے سابقہ ہے جو اپنے مقاصد اور اہداف سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتیں، جب کہ اسلامی روحانیت ترکی کو اس کی تہذیب و ثقافت کی طرف لوٹانا چاہتی ہے۔ ملکی امن و امان کے قیام اور اس پر صرف ہونے والے قومی سرمایے کی شرح کو کم سے کم کرنا بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔ شام، مصر، عراق وغیرہ کے مسائل ترکی حکومت اور معیشت پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر قبائلی تحریکیں بھی ہنگاموں اور فسادات کو ہوا دینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتیں۔ ان تمام اندرونی و بیرونی مسائل کے باوجود، انصاف و ترقی پارٹی کی بلدیاتی انتخابات اور صدارتی انتخابات میں نمایاں اور واضح تر کامیابی سے قومی رجحان اور میلان کا اندازہ ہوتا ہے۔ اُمید ہے کہ قوم دستوری تبدیلیوں کو یقینی بنانے کے لیے انصاف و ترقی پارٹی کو ۲۰۱۵ء کے پارلیمانی انتخابات میں پہلے سے مضبوط تر عوامی مینڈیٹ دے کر پارلیمنٹ میں پہنچائے گی۔ غالب اُمید ہے کہ رجب طیب اردگان بحیثیت صدر ریاست ان تمام اُمور و وسائل سے نبردآزما ہونے میں کامیاب ہوں گے۔ ان کا کامیاب ماضی اس بات کی شہادت فراہم کرتا ہے کہ وہ ایسی شخصیت ہیں جس کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ وہ اپنے ایجنڈے پر پوری یک سوئی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
آیندہ انصاف و ترقی پارٹی اپنے اہداف حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہتی ہے، پارٹی مقبولیت سے تو اس کے امکانات روشن نظر آتے ہیں مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ اردگان کے پارٹی سربراہ نہ رہنے کی وجہ سے اُن کی پارٹی پر گرفت کمزور ہوجائے گی۔ پارٹی کے بدخواہوں نے پارٹی کے اندر عبداللہ گل دھڑے کا وجود بھی دریافت کرلیا ہے۔ یہ اندازے اور افواہیں انصاف و ترقی پارٹی کا سفر کھوٹا کرنے کی سازشیں ہیں۔ اُمیدہے کہ پارٹی کے داخلی نظام میں ہونے والی تبدیلی پارٹی قیادت اور قومی حکومت کے لیے مزید تقویت کا باعث بنے گی۔ غالب امکان ہے کہ ترکی وزیرخارجہ احمد دائود اوغلو جو عالمی اُمور میں اردگان کے دست ِ راست کی حیثیت رکھتے ہیں اور پارٹی کے داخلی نظام میں بھی مضبوط شخصیت ہیں، پارٹی سربراہ بنا دیے جائیں اور وہی ملک کے وزیراعظم بھی ہوں۔ اس کے ساتھ سابق وزیرٹرانسپورٹ بن علی یلدریم بھی اس منصب کے اُمیدوار ہوسکتے ہیں۔