مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں پہلا وہ گھر خدا کا، جس کے گرد ان دنوں عشاقِ بے تاب کا ایک ہجوم بے پناہ دُنیا کے گوشے گوشے سے کھنچ کھنچ کر پروانہ وار جمع ہو رہا ہے، اور ہزاروں برس سے ہوتا چلا آ رہا ہے، ہمارے لیے مرکز زندگی کا مقام رکھتا ہے۔ اس گھر کی غریب و سادہ رنگین داستان کے ورق ورق پر آیات بینات کا ایک اتھاہ خزانہ رقم ہے۔ ان آیات میں دیدہ و دل وا کرنے کے لیے، راہ زندگی روشن کرنے کے لیے، اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے، بیش بہا دولت محفوظ ہے۔ اس گھر میں وہ زم زم ہی رواں نہیں ہے جو چار ہزار سال سے پیاسوں کی پیاس بجھا رہا ہے اور بجھاتا چلا جائے گا، بلکہ اس ہی سے ہدایت و برکت کا وہ زم زم بھی جاری ہوا ہے جس نے سارے جہانوں کی معنوی تشنگی دور کرنے اور ان کے قلوب و ارواح اور فکر و عمل کی سیرابی کا سامان کیا ہے۔ اور کیوں نہ ہو، کہ اس ایک گوشۂ مکان کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ خداے لامکاں کی رحمت کاملہ نے اسیر مکان و زمان کو اپنا تقرب بخشنے کی خاطر اسے اپنا گھر بنا لیا ہے:
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ(اٰل عمرٰن۳:۹۶-۹۷) بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ ہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیاتھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں۔
ان آیات بینات میں سب سے نمایاں، اخلاص و محبت اور اطاعت و وفا کے وہ نقوش ہیں جو اس گھر کے ایک ایک پتھر پر، اور اس کے جوار میں ایک ایک چپے پر، سلسلۂ رشد وہدایت کے امام اولیں حضرت ابراہیم ؑ نے راہِ خدا میں اپنے مقام عالی سے ثبت کیے ہیں۔ اُنھوںنے رب واحد کی بندگی کی خاطر وطن چھوڑنے کے بعد، اپنی یکہ و تنہا بیوی اور شیر خوار بیٹے کو اس گھر کے جوار میں لا بسایا، انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اس گھر کی دیواریں چنیں، انھوں نے اس گھر کی زیارت کے لیے مشرق و مغرب کو پکارا، انھوں نے اس گھر کو طواف، اعتکاف، قیام اور رکوع و سجود کا مرکز بنایا، یہیں انھوں نے بارگاہِ محبوب میں اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی۔ انھوں نے مشیت الٰہی کی طرف سے اس گھر کو سلسلۂ رشد و ہدایت کے امام آخر ؑ، اوراُمت مسلمہ کے ظہور کا مبداو مرکز بنانے کے فیصلے کو، دعا کے رنگ میں، ثبت و ظاہرکر دیا۔
پھر اللہ کا یہ گھر، اور یہ البلد الامین ان تمام تابناک و بے مثال روایات کا حامل بھی بن گیا جو بعثت محمدیؐ، نزول قرآن، دعوت اسلامی، اور ہجرت و جہاد کے ابواب میں محفوظ ہیں۔ اس گھر کا کوئی پتھر ایسا نہیں، اس کے قرب میں کوئی چٹان اور سنگریزہ ایسا نہیں، جس کے دل میں ہدایت و دعوت اور ہجرت و جہاد کا کوئی نہ کوئی نقش محفوظ نہ ہو، اور جویا و پیاسا اسے پا نہ سکتا ہو۔ سوچیے تو یہ بھی وراثت ابراہیم ہی ہے:
مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ ط ہُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج۲۲:۷۸)قائم ہو جائو اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’’مسلم‘‘ رکھاتھا۔
حضرت ابراہیم ؑ نے اس گھر کو، اور اس شہر کو ایسا جاے امن بنایا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا ہے، اس کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں، اور ہمیشہ سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے۔ مگرانھوں نے اس گھر میں ہدایت کا جو مرکز قائم کیا، صرف وہ مرکز ہی ایک ایسا مرکز ہے جہاں انسان داخل ہو تو اس کے قلب و روح، فکر وسوچ، اخلاق و کردار، شخصی زندگی اور حیات اجتماعی، سب محفوظ و مامون ہوجاتے ہیں۔ اگر کہیں انسان خوف و حزن، ظلم و فساد، اور دُنیا و آخرت کے بگاڑ اور تباہی سے امن حاصل کر سکتا ہے تو اس بناء ہدایت میں داخل ہو کر جو عالم معنوی میں خانۂ کعبہ کی مثال ہے:
وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (اٰل عمرٰن۳:۹۷) اور اُس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔
صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے یہ ضروری ہوا کہ جو پہنچ سکتا ہو وہ کم سے کم عمر میں ایک دفعہ، حضرت ابراہیم ؑ کی طرح گھر بار ترک کرکے، طویل مسافت طے کر کے، لباس دُنیا اتار کے، اللہ کے اس گھر تک ضرور پہنچے، اور یہاں فیض کا جو چشمہ بہہ رہا ہے اس میں ضرور غوطہ لگائے۔ اس گھر پر وہ اپنے دل کا لنگر ڈال دے، اس کو نگاہوں میں بسالے کہ اس کو دیکھنا بھی عبادت ہے، اس کے چاروں طرف چکر کاٹے، اس کے دوودیوار سے چمٹے، اس کے جوار میں پہاڑیوں پر چڑھے، وادیوں میں چلے اور رب البیت کے دربار عرفات میں حاضر ہو جائے:
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاط (اٰل عمٰرن ۳:۹۷)لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اِس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔
لیکن نہ ہر شخص پہنچ جانے کی استطاعت رکھ سکتا ہے، نہ عمر میں صرف ایک دفعہ ہو آنا اس چشمۂ ہدایت سے فیض مطلوب حاصل کرنے کے لیے کفایت کرتا ہے۔ جو ہُدًی لِّـلْعَالِمِیْنَ ہے اس کے ساتھ تو زندگی کے ہر لمحہ مربوط رہنا ناگزیز ہے۔ چنانچہ یہ بھی ضروری ہوا کہ دُنیا میں جہاں کہیں بھی ہو، اور جس حالت میں بھی ہو، ہر روز پانچ دفعہ، دُنیا کا ہر شغل اور ہر دل چسپی ترک کرکے (جس طرح حج کے لیے کرتے ہو)، اس برکت وہدایت کے گھر کی طرف رُخ کرو، سامنے اسی گھر کو رکھو، نگاہیں اسی پر جمائو:
وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ ط (البقرۃ۲:۱۴۴) اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔
بیت اللہ کے حج کو جانا، عمر بھر جانے کی آرزو اور شوق میں سلگتے رہنا، گویا کہ اس کو اپنی سعی و طلب کا مقصود بنانا، اور ہر روز پانچ دفعہ اس کی طرف رُخ کرکے اپنے رب کے سامنے جھکنا اور بچھ جانا اور اس سے ہم کلام ہونا، گویا کہ اس کو اپنے دل و نگاہ کا مرکز بنانا، ایسے اعمال ہیں جوہماری زندگیوں کو رُخ، رنگ اور ساخت عطا کرتے ہیں۔ ان دِنوں جب حج کا موسم ہے اور زائرین اس شمع کے گرد ہجوم کر رہے ہیں، ہمیں آگاہ ہونا چاہیے کہ اس گھر میں، اس کی تاریخ میں، اس کی روایات میں، اس میں ثبت کردہ نقوش و آثار میں، برکت و ہدایت اور آیات بینات کے کیسے کیسے بیش بہا خزانے ہیں جو ہماری جستجو کے منتظر ہیں، اور جن سے ہمیں اپنی جھولی بھرنا چاہیے۔
بروبحر میں فساد کا تلاطم ہو، ہمارے گھروں میں ظلم اور فتنہ کی طغیانی ہو، اُمت ذلت و مسکنت کے شکنجے میں کسی ہوئی ہو، اغیار کا غلبہ ہو تسلط ہو، باہمی افتراق و عداوت ہو، خون مسلم کی ارزانی اور عزت مسلم کی پامالی ہو، اُمت مسلمہ کا احیا مقصود ہو، جس طرح بچے کو ماں کے سینے سے چمٹ کر ہی امن و اطمینان نصیب ہوتا ہے، انسانیت اور اُمت مسلمہ کو امن اور فلاح، بیت اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے چمٹ کر ہی نصیب ہو سکتا ہے۔
خداے لامکاں کسی مکان میں سما نہیں سکتا۔ بیت اللہ تو ایک علامت ہے، ایک شعار ہے، اور اس لیے ہے کہ مرکز دل، محبوب نظر، مقصود سعی وجہد، اللہ اور صرف اللہ، بن جائے۔ جو اللہ کو مضبوطی کے ساتھ تھام لے، اسی کے ساتھ جڑ جائے، اس طرح تھام لے اور جڑ جائے جس طرح کہ اللہ کا حق ہے، وہی صراط مستقیم پا لیتا ہے۔
وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِراطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (اٰل عمٰرن۳:۱۰۱)جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہِ راست پا لے گا۔
ہدایت کوئی لیبل چسپاں کر لینے سے حاصل نہیں ہوتی، وہ یہودی کا لیبل ہو نصرانی کا، یا محمدی کا۔ نہ ہدایت خانہ کعبہ کا چکر کاٹ آنے سے ملتی ہے، نہ اس کی طرف منہ کر لینے سے۔ ہدایت تو حضرت ابراہیم ؑ کی طرح اللہ کا حنیف بندہ بن جانے کا نام ہے، جس میں شرک کی گندگی کا شائبہ تک بھی نہ ہو:
بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیْفًا ط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (البقرہ۲:۱۳۵)نہیں، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑمشرکوں میں سے نہ تھا۔
حضرت ابراہیم ؑحنیف تھے، یعنی وہ سب کچھ چھوڑ کر صرف اللہ کے بن گئے تھے، اس کے ہو رہے تھے، اور اللہ کے سوا کسی کے نہ رہ گئے تھے۔
انھوں نے ہر ڈوبنے والی چیز کی، اور ماسوا اللہ ہر چیز ڈوبنے والی اور فنا ہونے والی ہے، محبت ترک کرکے، تمام چمکتے دمکتے چاند، سورج اور ستاروں کا طلسم توڑ کے، اپنا اور اپنی زندگی کا رُخ صرف اللہ کی طرف کر لیا تھا، سب سے بڑھ کر صرف اس کی محبت اپنے دل میں بسالی تھی، صرف اس کو طلب و سعی کا مرکز بنا لیا تھا، صرف اسی پر نگاہیں جمادی تھیں، یا یوں کہیے صرف اسی کو اپنی شخصیت اور زندگی کا قبلہ بنا لیا تھا، اور اس رُخ میں، توجہ میں، وابستگی میں، اللہ کے علاوہ اور کوئی رخ نہ تھا جو شریک ہو۔
انھوں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کے حوالے کر دیا تھا، اور کوئی چیز اس سے بچا کر نہ رکھی تھی … اپنے علاقے اور محبتیں، اپنا گھر اور وطن، اپنی بیوی اور بیٹے، اپنی دُنیا اور اپنی متاع… پرستش بھی اس کی، ہر چیز اس کے اشارے پر حاضر اور قربان بھی، زندگی بھی اسی کی، موت بھی اسی کی۔ اور اس خود سپردگی میں بھی شمہ برابر حصہ اللہ کے علاوہ اور کسی کے لیے نہ لگایا تھا۔
وہ اپنے رب کے ہر حکم کی فرماں برداری کے لیے ہر وقت مستعد اور حاضر تھے۔ آگ میں بے خطر کود پڑنے کا حکم ہو، گھر اور وطن چھوڑ کر نکل جانے کا حکم ہو، باپ کے لیے استغفار تک ترک کر دینے کا حکم ہو، تمام معبودان باطل سے اعلان براء ت و عداوت کا حکم ہو، اہل و عیال کو وادیِ غیرذی زرع میں بسانے کا حکم ہو، پتھروں سے اللہ کے گھر کی دیواریں چننے کا حکم ہو، اکلوتے اور محبوب نور نظر کے گلے پر چھری چلانے کا حکم ہو__ ان کی زبان پر ہر وقت لبیک تھا، وہ ہر وقت حاضر تھے، ان کی ہر چیز حاضر تھی۔
توحید خالص، ریاضی کے فارمولے کی طرح، اللہ کو ایک مان لینا نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح سب کچھ چھوڑ کر صرف اُسی کا بن جانا اور اُسی کا ہوکر رہنا ہے۔ بیت اللہ کی آیات ہدایت میں سب سے نمایاں اور سب سے اہم حضرت ابراہیم ؑ کا یہی اسوۂ زندگی ہے جو ’اسلام‘ اور حنیفیت سے عبارت ہے۔ حج اور استقبال قبلہ کا عمل ہمیں بندگیِ رب کے اس رنگ میں رنگنے ہی کے لیے ہے، جس کی شان حضرت ابراہیم ؑاور آل ابراہیم ؑ نے اپنی توحید خالص، اخلاص و وفاداری، فرماں برداری اور یکسوئی سے قائم کی۔ یہی رنگ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، یہی اُس کو مطلوب ہے، یہی اُس کے ہاں مقبول ہے۔ اس رنگ میں رنگ جانے والوں ہی سے وہ راضی ہوتا ہے۔ اِنھی سے دُنیا میں علو وامامت کا وعدہ ہے، اور آخرت میں جنت کے انعام سے سرفرازی کا۔
ہم حج بھی کریں، عمروں کے لیے بھی جائیں، منہ کعبہ شریف کی طرف کرکے نمازیں بھی پڑھیں، مگر ہم پر وہ رنگ نہ چڑھے جو حضرت ابراہیم ؑ کا رنگ تھا، تو اس سے بڑھ کر ہماری حرماں نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے، اور جو حرماں نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہم سے دُنیا میں جو وعدے ہیں… استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے، غلبۂ دین کا وعدہ ہے، خوف سے نجات اور امن سے ہم کنار کرنے کا وعدہ ہے… وہ سب وعدے اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ ہم اللہ کے ایسے بندے بن جائیں کہ بندگی اور کسی کے لیے نہ ہو:
یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط (النور۲۴:۵۵) بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔
مشرق سے لے کر مغرب تک نظر ڈال لیجیے! کیا اُمت مسلمہ میں حضرت ابراہیم ؑ کا کوئی ایسا رنگ ہے جو غیر مسلموں اور مشرکوں کے رنگ سے الگ ہو۔ اپنے دلوں کو دیکھیے، انھی کی طرح بے شمار ٹکڑوں میں منقسم ہیں او رہر ٹکڑے میں ایک الگ معبود بیٹھا ہوا ہے۔ اغراض و مقاصد پر نظر ڈالیے، انھی کی طرح وہ بھی ان گنت ہیں اور ان سب سے کم مقام ان کا ہے جو اللہ کے نزدیک محبوب ترین ہیں۔ نماز میں بے شک ہمارا منہ قبلہ کے علاوہ کسی اور طرف نہیں ہوتا، لیکن زندگی میں تو انھی کی طرح ہمارے بہت سے قبلے ہیں جو ہماری توجہات اور وابستگیوں کا مرکز ہیں۔ زبان پر بے شک لبیک ہے، لیکن ہم نہ خود اپنے کو، نہ اپنی کسی محبوب چیز کو، اللہ کے لیے حاضر کرنے کو تیار ہیں۔ ہر حکم کی تعمیل میں ہماری اپنی کسی نہ کسی خواہش، پسند و ناپسند، محبوب ومبغوض کی قربانی دامن گیر ہوجاتی ہے، یا ہزاروں اندیشے اور خوف ہمیں چاروں طرف سے گھیر کر ہماری راہ مسدود کر دیتے ہیں۔ حج ہو یا استقبال قبلہ، بے جان مراسم عبادت نہ ہمارے قلوب کو بیدار کرتے ہیں، نہ نگاہوں میں پاکیزگی و یکسوئی پیدا کرتے ہیں، نہ عمل میںصالحیت۔ یہ نہ ہماری سوچ بدلتے ہیں، نہ شخصیت ،نہ زندگی۔
بیت اللہ کی آیات بینات میں سے یہ بھی ہے کہ ہمہ اقتدار و ہمہ اختیار حی و قیوم خدا، جو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں سے ہے سب کا بلاشرکت غیر مالک کل ہے، اور جس کی کرسی، اقتدار سب کو سمیٹے ہوئے ہے، وہ جب چاہے موت کو زندگی سے، زندگی کو موت سے، اندھیروں کو روشنی سے، روشنی کو اندھیروں سے، عزت کو ذلت سے، اور ذلت کو عزت سے، بدل دیتا ہے۔ جو اس کے ساتھ ایمان اور بندگی کا رشتہ قائم کر لے، اسے ہر اندیشے اور خوف سے، ہر حزن و غم سے، ہرحسرت و یاس سے پاک ہونا چاہیے۔
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ جب حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو مکہ میں بسانے کے لیے آئے وہاں نہ انسان کا نام و نشان تھا، نہ پانی کا، نہ زراعت کا، نہ خوردونوش کا کوئی انتظام، ایک تھیلی (جراب) کھجوروں کی، اور ایک مشکیزہ پانی کا، بس یہ کل کائنات تھی جو وہ ان کے پاس چھوڑ کر چلے۔ حضرت ہاجرہؑ نے بار بار پوچھا کہ ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں چلے، جہاں نہ آدم نہ آدم زاد، نہ کوئی اور چیز۔ کوئی جواب نہ پایا تو سوال کیا، کیا اس کا حکم آپ کو اللہ نے دیا ہے؟ فرمایا، ہاں۔ یہ سن کو اطمینان و سکون اور امن کی اس جنت میں داخل ہو گئیں، جس کا باغ ان کے اندر لہلا اُٹھا۔ یہ جنت کیا تھی؟ فرمایا: اِذَنْ لَایُضیِّعُنَا (پھر تو وہ ہم کو ضائع نہ کرے گا)۔ بخاری کی ایک دوسری روایت کے مطابق، حضرت ہاجرہؑ کے پوچھنے پر ہمیں کس پر چھوڑ کر جارہے ہو، حضرت ابراہیم ؑ نے کہا، اللہ پر۔ یہ سن کر وہ پورے سکون واطمینان سے بولیں، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ (میں اللہ پر راضی ہوں)۔
اللہ پر یقین اور اعتماد، اللہ پر بھروسا اور توکل، اللہ کے ہر فیصلے پر خوش، بندگیِ رب کی یہ کیفیت تھی کہ ایک یکہ و تنہا عورت اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ، پتھریلے بیابان میں، بھیانک اور ڈرائونی راتیں، تپتے ہوئے دن، موذی جانور، چور اور ڈاکو، سب کے باوجود، اطمینان اورامن کی کیفیت سے مالا مال تھی۔ معاش کا بندوبست بھی کھجوروں کی ایک تھیلی اور پانی کے مشکیزہ سے زائد کچھ نہ تھا۔ پھر بیت اللہ کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں کوئی وسائل نہ تھے، کوئی اسباب نہ تھے، کوئی سہارا نہ تھا، صرف خطرات ہی خطرات تھے، وہاں خداے حی و قیوم ۴ ہزار سال سے سب کچھ بخش رہا ہے۔ جہاں کوئی انسان نہ تھا، وہاں لاکھوں انسان دُنیا بھر سے چلے آ رہے ہیں۔ جہاں نہ پانی تھا، نہ کھانا، وہاں ہر قسم کا خوردونوش کا سامان پایا جاتا ہے۔
یہ علم ہو جانے کے بعد، پیغمبرؐ کی زبان سے کہ جس کا علم غیر مشتبہ ہے، کہ یہ خدا کا حکم ہے، کچھ مادی وسائل نہ ہونے کے باوجود، دُنیا بھرمیں یکہ و تنہا ہونے کے باوجود، ہر قسم کے سنگین اور مہیب خطرات اور اندیشوں کے سامنے ہوتے ہوئے، اطاعت و فرماں برداری کی راہ چل پڑنا ہی حکمت و دانائی کا راستہ ہے۔ یہی حکمت و دانائی راسخ ہونا چاہیے، اس میں جو چشم سر سے بیت اللہ کو دیکھے، اور پانچ وقت اس کی طرف رخ کرے۔ کیاہم اغیار کے علم و حکمت سے جھولیاں بھرنے کے بعد، اپنی اس سب سے بیش بہا متاع حکمت کو کھو نہیں بیٹھے ہیں؟
حج کے تقریباً سارے ارکان، سعی، جہد اور حرکت پر مشتمل ہیں۔ گھر سے نکلنا، سفر کرنا، بیت اللہ کے گرد طواف کرنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، مکہ سے نکل کر منیٰ میں ڈیرے ڈالنا، اگلے دن وہاں سے کوچ کر دینا اور عرفات میں جمع ہو جانا، مغرب ہوتے ہی عرفات سے چل دینا، رات کی چند گھڑیاں مزدلفہ میں گزار کر صبح ہی صبح منیٰ واپس پہنچ جانا پھر مکہ جا کر طواف اور سعی کرنا۔
بندگیِ رب کا خلاصہ بھی یہی ہے۔ اللہ کے ہر حکم اور پکار پر لبیک کہنا، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے کھڑے ہو جانا، جو کچھ بھی میسر ہو اور جس حالت میں بھی ہو، تعمیل حکم کے لیے نکل پڑنا، اپنی طرف سے کوشش اور جہد میں کوئی کسر نہ چھوڑنا، وسائل زیادہ سے زیادہ جمع کرنا اور ہر ممکن بہتر سے بہتر تدبیر کرنا مگر بھروسا اور نظر صرف تدبیرِ رب پر رکھنا، اور جو کچھ کرنا صرف رب کے لیے کرنا۔
حج میں سارے اعمال،ان صفات کے راسخ کرنے ہی کا کام نہیں کرتے، بلکہ ان اعمال میں حضرت ابراہیم ؑ کا اُسوہ کامل بھی برابر تازہ کرتے ہیں، اور اسے نگاہوں کے سامنے لاتے ہیں۔ پتھر کے ایک معمولی سے گھر کو یہ مقام، قبولیت، محبوبیت اور مرجعیت حاصل ہوئی تو اس میں اس مشن کا بھی دخل تھا جس کے لیے انھوں نے یہ گھر تعمیر کیا اور یہاں اپنی ذریت کو بسایا، اور اخلاص نیت و عمل کو بھی۔ مکان بنوانے والے نے آغاز ہی میں ہدایت کر دی تھی کہ ’’میری بندگی میں کسی کو شریک نہ بنانا‘‘(الحج)۔ اور میرے گھر کو طواف و اعتکاف اور رکوع و سجود کے لیے پاک و آباد رکھنا (البقرہ)۔ انھوں نے اپنے عزائم اور تمنائوں کا اظہار بھی واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ ’’ہماری ذریت بھی تیری فرماں بردار رہے‘‘۔ اس گھر کو بناتے ہوئے جو دُعا لبوں پر جاری تھی وہ صرف رب کے نزدیک قبولیت کی تمنائوں پر مشتمل تھی۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo (البقرہ۲:۱۲۷)، اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
اس کے علاوہ نہ کسی کی خوشنودی مطلوب تھی، نہ کسی کے صلہ و انعام پر نظر تھی۔
اس گھر کی آیات میں ایک روشن پیغام سعی کے اس عمل کے اندر بھی ہے جو صفا اور مروہ کے درمیان کی جاتی ہے۔ یہ یادگار ہے اس بھاگ دوڑ کی جو حضرت اسماعیلؑ کو پیاس سے جاں بلب دیکھ کر حضرت ہاجرہؑ نے صفا اور مروہ کے درمیان کی۔ کبھی صفا پر چڑھتیں، کبھی بھاگ کر جاتیں اور مروہ پر چڑھتیں۔ سعی کا پیغام یہ بھی ہے کہ اللہ کو ہم سے ارادے کے ساتھ ساتھ سعی بھی مطلوب ہے، عمل اور کوشش بھی مطلوب ہے، اور اسی پر وہ نتائج مرتب فرماتا ہے۔ ’’ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے وہ سعی کرے۔‘‘(النجم)، اور ’’جو آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لیے سعی کرے جیسا کہ سعی کرنے کا حق ہے… اس کی کوشش کی پوری پوری قدر دانی کی جائے گی‘‘۔ سعی کا پیغام یہ بھی ہے کہ جب بندہ اپنی بندگی کو اللہ کے لیے خالص کرے، اور حتی المقدور کوشش میں اپنے کو لگا دے، تو اس کا رب اک پتھریلی وادی میں شیر خوار بچے کی ایڑیوں تلے بھی کبھی ختم نہ ہونے والا چشمہ جاری کر دیتا ہے۔
اُمت مسلمہ کی کشتی آج جس قدر بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، کیا وہ اس سے اپنے ہمہ اقتدار و اختیار رب پر ابراہیم ؑو ہاجرہؑ کی طرح کلی بھروسا کیے بغیر، اس کی فرماں برداری کی راہ میں ان کی طرح اپنا سب کچھ حاضر کیے بغیر، اور اس راہ میں جان و مال سے سعی وجہد کیے بغیر، نکلنے کی کوئی راہ پا سکتی ہے؟ کیا جس کی نظر کے سامنے ہر روز پانچ مرتبہ بیت اللہ کی آیات بینات کو سامنے لانے کا اہتمام کیا گیاہو، اس کی نفسیات میں ان سوالوں کی کوئی گنجایش ہو سکتی ہے کہ ایسی خراب قوم کیسے سدھرے گی، ایسے تاریک حالات کیسے بدلیں گے، ایسے بنجر اور سنگلاخ معاشروں میں نیکی کے چشمے کیسے پھوٹیں گے، ایسے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن کیسے اور کہاں سے طلوع ہو گی، جبر واستبداد کی چٹانوں میں سے راستہ کیسے نکلے گا، حقیر کوششیں کیسے رنگ لائیں گی، زبردست طاقتوں کامقابلہ کیسے ہوگا؟ اگر ایک عورت کا یہ یقین کہ اِذَنْ لَا یُضَیِّعُنَا (پھر اللہ ہم کو ضائع نہ کرے گا)، او ریہ اعلان کہ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ (میں اللہ سے راضی ہوں)، اور اس کی صفا اور مروہ کے درمیان سعی و جہد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ پتھروں کے ایک معمولی گھر کو یہ مقام عطا کر سکتا ہے، اور سنگلاخ زمین سے زم زم کا چشمہ رواں کر سکتا ہے، توآج کی دُنیا میں دین کو غلبہ کیوں حاصل نہیں ہوسکتا، اور ظلم وفساد سے بھری ہوئی دُنیا میں نیکی کا چشمہ کیوں نہیں پھوٹ سکتا؟
دینے والا عاجز و درماندہ نہیں، نہ وہ اُونگھ اور نیند کا شکار ہوتا ہے، لینے والے ہی عاجزودرماندہ ہو گئے ہیں، اپنے مقاصد سے اور اپنی قوت و سربلندی کے اصل خزانوں سے غافل ہوکر نیند میںمدہوش ہیں۔ سعی و عمل اور اخلاص و وفا کی جو دُنیا ان سے مطلوب ہے اس کوانھوں نے اپنے ارادہ و اختیار سے باہر سمجھ کر رکھا ہے۔ انسانیت ہدایت کے لیے جاں بلب ہے، فساد کے بیابان میں زیر زمین امن کا چشمہ موجود ہے، مگر یہ دور اپنے ابراہیم ؑکا منتظرہے۔
حج کا دن تکمیل دین اور اتمام نعمت کی بشارت کا دن بھی ہے۔ اس سے اگلے دن ہی ساری دُنیا کے مسلمان عیدالاضحی کا جشن مناتے ہیں، اور اللہ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ کیا ان کے درمیان ربط کا ادراک بہت مشکل ہے۔ نزول قرآن کے آغاز کے دن ، ضبطِ نفس اور تقویٰ، تلاوت قرآن اور قیام اللیل کے ذریعے قربِ الٰہی کے حصول کے لیے، وقف کیے گئے۔ تکمیل دین اور اتمام نعمت کے دن، قربانی اور حب ِالٰہی کے حصول کے لیے مختص کیے گئے۔
تکمیل و اتمام بغیر قربانی کے ممکن نہیں، اور قربانی بغیر محبت کے ممکن نہیں۔ اسی لیے حج کے مناسک تمام تر عشق و محبت پر مشتمل ہیں۔ شاہ عبدالعزیزلکھتے ہیں:
حضرت ابراہیم ؑکو حکم دیا گیا کہ سال میں ایک دفعہ اپنے کو سرگشتہ وشیدابنا کر، دیوانوں کی طرح اور عشق بازوں کا وتیرا اختیار کرکے، محبوب کے گھر کے گرد ننگے پائوں، اُلجھے ہوئے بال، پریشان حال، گرد میں اٹے ہوئے، سرزمین حجاز میں پہنچیں، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر، کبھی زمین پر، محبوب کے گھر کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوں… اس خانۂ تجلیات کے اردگرد چکر لگائیں، اور اس کے گوشوں کو چومیں چاٹیں۔
اسی محبت کی وجہ سے حضرت ابراہیم ؑمیں یہ استعداد پیدا ہوئی کہ وہ ہر محبوب چیز کو اس کے لیے قربان کر دیں جو ایمان لاتے ہی سب سے بڑھ کر محبوب ہو جاتا ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ اور جب محبت کی آخری آزمایش آئی، بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے کہا گیا، تواُنھوں نے بیٹے کے گلے پر بھی چھری رکھ دی۔ جب وہ محبت کی ان ساری آزمایشوں میں پورے اترے (فَاَتَمَّہُنَّ) تو اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ نعمت بھی تمام کر دی جو دین کی نعمت کے اتمام کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہے۔
وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاط (البقرہ۲:۱۲۴) یاد کرو کہ جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اُتر گیا، تو اُس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔
جو ایک مکمل دین کے حامل ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک وہ محبت کے اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ ’’کیا کوئی بھی ایسی چیزایسی ہے جو اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہے؟‘‘ اس وقت تک ان کے سروں پر سے امرالٰہی ٹل نہیں سکتا، اور وہ وعدۂ الٰہی کے مستحق ہونہیںسکتے ؎
صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق