مولانا مودودی کے خلاف آپ جو چاہیں کیجیے، لیکن … یہ حقیقت سمجھ لیجیے کہ مولانا مودودی ہے کون؟
یہ وہ شخص ہے جس نے اِس دورِ الحاد میں خالص عقلی اسلوب سے اسلام کے عقیدوں، اس کے اصولوں، اس کے فلسفے، اس کے قوانین و ضوابط، اس کی اخلاقی قدروں، اس کی تہذیبی روایات اور اس کے آداب و شعائر کو نکھار کر پیش کیا ہے ۔ اس نے اسلام کو جامد مذہب کی سطح سے اُٹھاکر اجتماعی دین اور انقلابی تحریک کی صورت میں اُجاگر کردیا ہے، اس نے متزلزل ایمانوں کو ازسرِنو مستحکم کردیا ہے، اس نے اکھڑے ہوئے دلوں کو دوبارہ جما دیا ہے، اس نے اُلجھے ہوئے دماغوں کی ساری گرہیں کھول دی ہیں۔ اس نے نئی اُمنگیں اور نئے جذبات دیے ہیں۔ اس نے زندگی کے یخ بستہ سمندر میں حرکت پیدا کی ہے۔
ہاں! یہ وہ شخص ہے جس کا پیغام ہزاروں دلوں میں اس طرح اُتر گیا ہے کہ اس نے زندگیوں میں انقلاب پیدا کردیا ہے، لوگوں کے دل و دماغ بدل گئے ہیں، لوگوں کے اخلاق کی کایاپلٹ گئی ہے، لوگوں کی دوستیوں اور دشمنیوں کی سمتیں تبدیل ہوگئی ہیں، گھروں کے گھر ہیں کہ جن کی تہذیب اور جن کا کلچر نئے سانچوں میں ڈھل گیا ہے۔ نوجوان میں جو کل تک خدا اور مذہب کا مذاق اُڑاتے تھے، لیکن آج اسی خدا کے جاں نثار بندے اور اس کے مذہب کے اصولوں کے لیے دن رات جانفشانیاں کرنے والے ہیں.... خواتین ہیں کہ جن کی جنت ِ نظر اگر کل تک مغربی طرز کی زندگی تھی تو آج ان شع ہاے خانہ کی کرنوں سے کتنے ہی خاندانوں میں اسلامی ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ طلبہ ہیں کہ جنھیں آپس کی دھڑے بندیوں اور سیاسی لیڈروں کے اشارے پر ہنگامہ آرائیوں سے فرصت نہ ملتی تھی، آج اپنے آپ کو ایک اسلامی نظام کے کل پُرزے بنانے کے لیے ذہنی و اخلاقی تیاری میں مصروف ہیں۔ ادیب ہیں کہ جو کل تک دولت اور شہرت کی طلب میں اخلاق سوز تفریحی نگارشات کی تخلیق میں دماغی قویٰ کو برباد کر رہے تھے، آج ان کے قلم خدا و رسول ؐ کی امانت بن گئے ہیں۔ تاجر اور وکیل بدلے ہیں، سرمایہ دار اور مزدور بدلے ہیں، زمیندار اور کسان بدلے ہیں، عالم اور اَن پڑھ بدلے ہیں، شہری اور دیہاتی بدلے ہیں__ اور آئے دن اس شخص کی دعوت یہ انقلابی عمل دکھا رہی ہے۔
ہاں! یہ وہ شخص ہے جو ایک کتابی اور خطابتی پیغام دے کر ہی نہیں رہ گیا۔ اُس نے دین کے لیے ایک تحریک بپا کردی ہے۔ (’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۲، عدد۵، ذیقعدہ ۱۳۷۳ھ، اگست ۱۹۵۴ء، ص۱۰-۱۲)