اس وقت جب کہ حماس اسرائیلی شہریوں پر راکٹ فائر کر رہی ہے اور اسرائیل ہوائی حملوں کے بعد غزہ میں زمینی کارروائی کر رہا ہے، اس تازہ ترین جنگ کا فوری سبب نظرانداز کیا جارہا ہے ، یعنی اسرائیل اور عالمی برادری نے، اوائل جون میں فلسطین کی قومی مفاہمتی حکومت کے راستے میں متعدد رکاوٹیں کھڑی کیں۔
اس مفاہمتی حکومت کی تشکیل بڑی حد تک حماس کی مایوسی اور تنہائی کی بنیاد پر تھی۔ شام اور ایران سے ان کا اتحاد بکھر چکا تھا۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں ان کے حامی صدر مرسی کے بجاے ایک کٹر مخالف جنرل عبدالفتاح سیسی کے برسرِاقتدار آنے سے اخوان المسلمون سے ان کا تعلق ایک بوجھ بن گیا۔ جب جنرل سیسی نے غزہ آنے والے سامان کے لیے سرنگیں بند کیں اور ٹیکس کے محاصل جن پر حکومت کا انحصار تھا وہ بند ہوگئے، تو حماس کے خزانے خالی ہوگئے۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ جو حکومت اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کرسکتی اس کے خلاف عوامی احتجاج ہوگا، حماس نے تختہ اُلٹنے کے اندیشے سے بچنے کے لیے غزہ کا سرکاری کنٹرول چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ۲۰۰۶ء کے آخری انتخابات جیتنے کے باوجود حماس نے رام اللہ میں فلسطینی قیادت کو اختیارات منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے سے حماس اور پی ایل او کے درمیان ایک صلح کا معاہدہ ہوا، جس کی تمام تر شرائط پی ایل او اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے طے کی تھیں۔
اس معاہدے سے جو دوسب سے زیاہ ضروری فوائد حماس کو اور غزہ کے شہریوں کو حاصل ہونا تھے وہ یہ تھے:
معاہدے کے فوراً بعد اسرائیل نے ایسے اقدامات کیے کہ حماس اور غزہ کے شہریوں کو یہ فوائد حاصل نہ ہوسکے۔
کئی لحاظ سے یہ حکومت اسرائیلی مفادات کے لیے مفید ہوسکتی تھی۔ اس کے ذریعے حماس کے سیاسی مخالفوں کو غزہ میں پائوں رکھنے کی جگہ مل گئی۔ اس حکومت میں حماس کا ایک بھی ممبر نہیں تھا۔ رام اللہ میں موجود وزیراعظم، نائب وزراے اعظم، وزیرخزانہ اور وزیرخارجہ وہی رہے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس نے ان تین شرائط کو پورا کرنا قبول کیا جو مغربی امداد کے لیے امریکا اور اس کے یورپی حلیف عائد کرتے رہے تھے، یعنی عدم تشدد، سابقہ معاہدوں کی پابندی اور اسرائیل کو تسلیم کرنا۔
اسرائیل نے نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کی شدید مخالفت کی اور بین الاقوامی طور پر اسے تنہا کرنے کی کوشش کی۔ فلسطینی اتحاد کی طرف کسی چھوٹے قدم کو بھی ایک خطرہ سمجھتے ہوئے اسرائیلی سلامتی کے ذمہ دار مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان کسی بھی تعلق پر معترض ہوتے ہیں کہ کہیں حماس مغربی کنارے میں بھی نظر نہ آنے لگے۔ دوسری طرف جو اسرائیلی دو ریاستی حل کے مخالف ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ایک متحدہ فلسطینی قیادت کسی دیرپا امن کی لازمی شرط ہے۔
مفاہمتی حکومت کی مخالفت کے باوجود، اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کے لیے ٹیکس جمع کرتا اور منتقل کرتا رہا اور اس نئی حکومت کے ساتھ سلامتی کے معاملات پر قریب رہ کر کام کیا۔ لیکن دوکلیدی معاملات: غزہ کے سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادایگی اور مصر کے ساتھ سرحد کھولنے کے بحران کو ناسور بننے دیا گیا۔ نئی حکومت کے قابلِ ذکر حمایتی، یعنی امریکا اور یورپ مصر کو آمادہ کرسکتے تھے کہ وہ سرحد پر پابندیاں نرم کرے اور اس طرح غزہ کے شہریوں پر ظاہر ہو کہ ان کی پریشانیوں کی اصل وجہ حماس کی حکومت رہی ہے لیکن انھوں نے یہ نہیں کیا۔ جب حماس نے اختیارات مغرب کی حامی ٹیکنوکریٹ حکومت کے سپرد کیے تو غزہ میں زندگی زیادہ مشکل ہوگئی۔ قطر نے غزہ کے سرکاری ملازمین کو ادایگی کی پیش کش کی، امریکا اور یورپ اس کو ممکن بناسکتے تھے لیکن واشنگٹن نے انتباہ کیا کہ امریکی قانون کے تحت ان میں سے کسی ایک ملازم کو بھی ادایگی کرنا منع ہے، جب کہ ان میں سے ہزاروں حماس کے ممبر نہیں ہیں۔ لیکن امریکی قانون کی نظروں میں ان سب نے ایک دہشت گرد تنظیم سے مادی فائدہ حاصل کیا۔ جب اقوام متحدہ کے نمایندے نے اس بحران کے حل کے لیے پیش کش کی کہ وہ تنخواہیں اقوامِ متحدہ کے ذریعے ادا کروا دے اور سب کسی قانونی ذمہ داری سے بچ جائیں تو اوباما انتظامیہ نے مدد نہیں کی، اور اسرائیل کے وزیرخارجہ کے ساتھ کھڑی رہی جس نے اقوام متحدہ کے نمایندے کو اس بنیاد پر ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا کہ وہ حماس کو رقم پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اب حماس ذمہ داریوں کی پُرامن منتقلی سے جو حاصل نہیں کرسکی اسے تشدد کے ذریعے حاصل کررہی ہے۔ اسرائیل سابقہ حالات کو واپس لا رہا ہے جب غزہ میں بجلی مشکل سے آٹھ گھنٹے آتی تھی، پانی پینے کے قابل نہ ہوتا تھا، سیوریج سمندر میں ڈالا جارہا تھا، ایندھن کی کمی کی وجہ سے کارخانے بند ہوئے اور کوڑاکرکٹ گلیوں میں تیرنے لگا۔ علاج کے ضرورت مندمریض بھی ہسپتال میں نہ پہنچ سکے اور غزہ کے شہریوں نے، جس وقت مصر سرحد کھولتا تھا وہاں سے گزرنے کے لیے ۳ہزار ڈالر رشوت دی۔
اب صرف حماس کے حامیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ غزہ کے شہریوں کے نزدیک بھی اس ناقابلِ قبول صورتِ حال کو بدلنے کے امکان کے لیے بم باری اور زمینی حملوں کا خطرہ مول لیا جاسکتا ہے۔ ایسی جنگ بندی جو تنخواہوں کا بحران حل نہ کرسکے اور مصر کا سرحدی راستہ نہ کھولے، قائم نہیں رہ سکتی۔ غزہ کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ دنیا سے کٹ کر رہے اور اس کے ملازم تنخواہوں کے بغیر کام کریں۔ ایک کھلے دل سے کی جانے والی جنگ بندی اسرائیلی وزیراعظم کے لیے سیاسی طور پر مشکل لیکن زیادہ دیرپا ہوگی۔ غزہ میں کاروائیوں میں موجودہ اضافہ اسرائیل اور مغرب کے فلسطینی مصالحت کے معاہدے کو نافذ ہونے سے روکنے کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ اس بحران سے نکلنے کا راستہ اس پالیسی کا ترک کرنا ہے۔(انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز، ۱۹ جولائی ۲۰۱۴ء، ترجمہ: مسلم سجاد)