مولانا عبدالسلام نیازی (۱۸۶۴ء- ۳۰جون ۱۹۶۶ء) ایک ایسے عالم، فلسفی اور سلوک و طریقت کے رمزشناس تھے کہ درِ تذکار بند کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہ کتاب علم و عرفان کے گوہرشناسوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔
جماعت اسلامی سے وابستگان کے لیے نیازی صاحب کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ سیدابوالاعلیٰ مودودی نے ۱۷برس کی عمر میں ان کی شاگردی سے بھی فیض پایا۔ تاہم، اس حوالے سے ہٹ کر بھی مولانا عبدالسلام نیازی کی شخصیت کی قوسِ قزح اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے اور انھیں جاننے کی پیاس بڑھاتی چلی جاتی ہے، حالانکہ: ’’مولوی [عبدالسلام] صاحب ایک حیرت انگیز مجموعہ اضداد تھے‘‘ (ص ۱۰۶)۔ اس انداز کو اپنانے کا ایک سبب یہ ہوسکتا ہے کہ ’’مولوی صاحب اس نظریے پر عمل پیرا ہوں، اور ایسی حرکات جان بوجھ کر کر گزرتے ہوں تاکہ دیکھنے والے ان کو قابلِ نفرت سمجھنے لگیں۔ لیکن مذلت و رُسوائی کی ان کوششوں کے باوجود ان کی تعظیم و تکریم میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا اور لوگ اُن کی اِن باتوں کو بھی قلندرانہ ادائوں سے تعبیر کرتے رہے‘‘۔(ص ۴۷)
اس کتاب کے تعارف کے لیے داخلی شہادتوں سے گفتگو کو یوں پھیلایا جاسکتا ہے: ’’مولانا نیازی کا وطن میرٹھ تھا، جوانی میں دلی آگئے تھے‘‘ (ص ۲۳)۔ ’’سرآرنلڈ کو عربی پڑھائی اور ان سے انگریزی سیکھی۔ جرمن مستشرق ڈاکٹر ہریمن کو عربی پڑھائی اور ان سے جرمن اور فرانسیسی زبانیں سیکھیں۔ عربی، فارسی، سنسکرت، فرانسیسی، جرمن، لاطینی سمیت ۲۰ زبانوں پر عبور رکھتے تھے‘‘ (ص۳۱، ۳۲)۔اسی طرح ’’ابوطاہر کے بقول: مولانا نیازی سریانی، عبرانی، مکرانی، جمیری وغیرہ زبانوں [پربھی] عبور رکھتے تھے، اور آثارِ قدیمہ اور کتبات کی وضاحت کرسکتے تھے‘‘(ص ۱۸۸)، جب کہ ’’سنسکرت زبان و ادب کے اکتساب کے لیے انھوں نے برسہا برس ایک سادھو کے بھیس میں ہردوار، متھرا، پریاگ اور کاشی میں علماے ہنود کی صحبت میں گزارے‘‘۔ (ص ۳۲، ۸۹)
’’مولانا عبدالسلام نیازی کا پسندیدہ موضوع وحدت الوجود تھا‘‘ (ص ۳۷)۔ ’’وہ بڑے خدارسیدہ اور قلندر منش تھے۔ قوالی سننے کا شوق تھا‘‘(ص ۳۸،۳۹)۔ ’’ان کی صحبت میں بہ یک وقت علم دوست حضرات اور جہلا دونوں موجود ہوا کرتے تھے‘‘(ص ۹۸)۔ ’’علامہ اقبال کے اشعار کو بڑی دل چسپی اور بہت ذوق و شوق کے ساتھ سنا کرتے تھے، اور انھیں علومِ مشرقی و مغربی کی پوٹ کہا کرتے تھے۔ خود علامہ اقبال بھی مولوی صاحب سے بہت عقیدت مندانہ انداز میں ملا کرتے تھے‘‘ (ص ۱۰۳)۔ مولانا نیازی کہا کرتے تھے: ’’آدمی اور انسانیت الگ الگ لفظ ہیں۔ غالب نے جب کہا تھا کہ ’’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘‘تو اسی جانب اشارہ کیا تھا‘‘۔(ص ۱۲۳)
مولانا عبدالسلام نیازی: ’’مشرقی علوم کے حرفِ آخر تھے۔ قرآن، حدیث، منطق، حکمت، تصوف، عروض، معنی و بیان، علم الکلام، تاریخ، تفسیر، لغت، لسانی قواعد، ادب اور شاعری کے امام تھے‘‘(ص ۱۳۸) اور: ’’ان علما کی آخری یادگار تھے، جن پر اسلامی تمدن کبھی ناز کیا کرتا تھا‘‘۔ (ص ۱۱۴)
چونکہ یہ مجموعہ مختلف تحریروں کا گلدستہ ہے، اس لیے کہیں کہیں تکرار ہے اور کچھ روایت کے متحارب اور الحاقی بیانات بھی دَر آئے ہیں۔ مرتب نے فاضل لوازمے کو بلاتبصرہ پیش کردیا ہے کہ قاری اپنے اپنے ذوق کے مطابق اخذ و اکتساب کرے۔ یوں تو تمام تحریریں دل چسپ ہیں، البتہ رزمی جے پوری، مسعود حسن شہاب، مقصود زاہدی ، خلیق انجم ،انورسدید ، مسعود حسن شہاب اور عاصم نعمانی کی تحریریں خصوصی توجہ کی طالب ہیں ۔ اُردو اکیڈمی بہاول پور اور راشد اشرف اس خدمت پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
کیوٹو (Kyoto) یونی ورسٹی، جاپان کی فعال اور بڑی یونی ورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ایریا اسٹڈی منصوبے کے تحت ’جنوبی ایشیا میں مطالعاتِ اسلام‘ کے سلسلے میں بعض تحریکوں اور شخصیتوں کا مطالعہ کیا جاتا رہا ہے۔ اسی ضمن میں یونی ورسٹی کی ایک طالبہ نوریکو ساساوکی (Noriko Sasaoki) کو سیّدابوالاعلیٰ مودودی (بانی جماعت اسلامی) کی تصانیف کی وضاحتی فہرست تیار کرنے کا کام سونپا گیا۔ نوریکو کا ماحصلِ تحقیق جاپانی زبان میں تیار ہوا تھا،اب اسے انگریزی زبان میں منتقل کرکے شائع کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے سلسلے میں نوریکو نے کئی بار پاکستان کا سفر کیا۔ وہ ہفتوں اور مہینوں یہاں مقیم رہیں۔ مولانا کی تمام دستیاب کتابیں خریدکر لے گئیں۔ تصانیفِ مودودی کا ایک بڑا ذخیرہ اوساکا یونی ورسٹی اور وہاں کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سویامانے کے کتب خانے میں موجود ہے۔ سویامانے اُردو کے استاد اور عالم ہیں اور زیرنظر تحقیقی کام انھی کی دل چسپی سے اور انھی کی نگرانی میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ دیباچہ بھی انھی کا تحریر کردہ ہے۔
نوریکو نے اپنے دیباچے میں اختصار کے ساتھ مولانا مودودی کے سوانح، جماعت اسلامی کا تعارف، جماعت کے قیام کا احوال اور پھر اپنے زیرنظر تحقیقی کام کی نوعیت بیان کی ہے۔ انھوں نے راقم کی تیار کردہ فہرست ’’تصانیف مودودی: ایک اشاعتی اور کتابیاتی مطالعہ‘‘ مشمولہ: تذکرہ سیّد مودودی:۳ اور ’’سیّد مودودی: فکری و قلمی آثار‘‘ (مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصورخالد) مشمولہ: ابوالاعلٰی مودودی، علمی و فکری مطالعہ سے بھی مدد لینے کا اعتراف کیا ہے۔
تصانیف مودودی کی یہ وضاحتی فہرست نہایت سلیقے سے اور تصانیف مودودی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے مرتب کی گئی ہے (قرآن اور حدیث سے متعلق کتابیں، مولانا کی مرتبہ اور ان کی نگرانی میں تیار شدہ کتابیں، کتابچے ، خطوں کے مجموعے، مولانا کی ترجمہ کردہ کتابیں دوسروں کی مرتبہ کتابیں)۔ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ مولانا کی فلاں کتاب یا کتابچہ اس فہرست میں شامل ہونے سے رہ گیا۔ دراصل یہ کتاب بھی مولانا مودودی، جماعت اسلامی اور سلسلۂ تحریکاتِ اسلامی کے مطالعات کی ایک کڑی ہے جو گذشتہ صدی کے آخری برسوں سے کئی ممالک خصوصاً جاپان میں شروع کیے گئے ہیں۔ خود سویامانے بھی اس سلسلے پر کچھ لکھ چکے ہیں۔ مولانا مودودی اور ان کے نظریات سے جاپانیوں کی دل چسپی کے بارے میں ڈاکٹر معین الدین عقیل نے بھی کچھ معلومات مہیا کی ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
شیخ محی الدین ابن عربی، نظریۂ وحدت الوجود کے سب سے بڑے مبلّغ اور مفسر سمجھے جاتے ہیں۔ فصوص الحکم ان کی ایک بڑی اور معروف تصنیف ہے۔ ابن عربی مفکر اور عالم ہونے کے ساتھ شاعر بھی تھے۔ عربی، فارسی اور اُردو کی فکریات پر ان کے اثرات ہمہ جہت ہیں۔ فصوص الحکم کے کئی اُردو ترجمے ہوئے اور متعدد شرحیں بھی لکھی گئی ہیں۔ یہ کتاب مدارس کے مختلف نصابات میں بھی شامل رہی ہے۔ مولانا محمد عبدالقدیر صدیقی (استاد، شعبۂ اسلامیات جامعہ عثمانیہ) نے بھی اس کا ایک ترجمہ کیا اور اس کی شرح بھی لکھی، مگر یہ ترجمہ اور شرح زبان و بیان کے اعتبار سے بہت ادَق اور مشکل تھی۔ ان کے ایک نبیرہ محمد عبدالاحد صدیقی نے اس کی زبان اور اسلوب کو موجودہ عہد کی زبان میں ڈھالا تاکہ تفہیم آسان ہو، چنانچہ اب یہ ترجمہ اور شرح بقول ڈاکٹر معین الدین عقیل: ’’ہرشخص کے لیے قابلِ فہم اور قابلِ استفادہ ہوگئی ہے‘‘۔ اُمید ہے فصوص الحکم کے قارئین کے لیے یہ کتاب مفید اور سودمند ثابت ہوگی۔(رفیع الدین ہاشمی)
بیسویں صدی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (م: ۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) داعی تحریک اسلامی تھے، تو ان کے دست ِ راست میاں طفیل محمد (م: ۲۵ جون ۲۰۰۹ء) معمارِ تحریک اسلامی تھے۔ میاں صاحب کی للہیت، خلوص، ایثار اور خدمت ِ دین ضرب المثل ہے۔
ان کے داماد محمد اسلم جمال نے اس عظیم شخصیت کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بہت محبت سے یک جا کردیاہے۔ اگرچہ کتاب کا محور میاں صاحب کی شخصیت ہے، مگر اس تذکرے میں ان کا خاندانی پس منظر اور ان کے اعزّہ و اقربا کا ذکر بھی تفصیلاً آگیا ہے، جب کہ جماعت اسلامی کے مختلف گوشے واقعاتی اور بیانیہ انداز میں سامنے آئے ہیں۔ بلاشبہہ بعض معلومات پہلے سے ریکارڈ پر موجود ہیں، مگر یہاں یک جا آگئی ہیں۔
میاں طفیل محمد مرحوم کے دست ِ راست چودھری رحمت الٰہی صاحب نے بجافرمایا ہے: ’’میاں صاحب شعائر اسلام کے سختی سے پابند تھے، بالخصوص نمازیں پورے خضوع و خشوع سے ادا فرماتے تھے‘‘ (ص ۲۸)۔ اور محترم سید منور حسن کے بقول: ’’فریضہ اقامت ِ دین، ان کی بابرکت زندگی کا نصب العین اور جلی عنوان بنا۔ انھوں نے نماز کو اپنی زندگی کا امام قرار دیا ہوا تھا… میاں صاحب ہمیشہ راضی برضا نظر آئے اور صبروتحمل کا کوہِ گراں دیکھے گئے‘‘۔ (ص ۲۴-۲۶)
ان دو اقتباسات میں جو نکات نمایاں ہیں، ساری کتاب میں انھی کی تفصیل بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔(سلیم منصور خالد)
۲۳ خاکوں کے اس مجموعے کا نام ’اعتراف‘ معنی خیز ہے۔ سرورق پر ’اعتراف‘ کے ساتھ ’شخصی خاکے‘ کی توضیح درج ہے۔ خاکے تو ’شخصی‘ ہی ہوتے ہیں اور اس لیے بعض اوقات انھیں، ’شخصیہ‘ اور خاکہ نگاری کو ’شخصیت نگاری‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے مگر سعید اکرم صاحب نے انھیں ’شخصی خاکوں‘ کا نام اس لیے دیا ہے کہ یہ معروف شخصیتوں، دانش وروں، مشاہیر شعروادب یا اکابر سیاست کے نہیں، بلکہ یہ ان افراد کے خاکے ہیں جن سے خاکہ نگار کو اپنے بچپن، لڑکپن، جوانی اور موجودہ (بڑھاپے) زمانوں میں واسطہ رہا۔ یہ ان کے گائوں اور ان کے شہر کے مختلف کردار ہیں جن میں سے زیادہ تر اساتذہ ہیں (جن کے سامنے انھوں نے زانوے تلمذ تہ کیا یا کچھ ایسے پروفیسر حضرات جو کالجوں میں ان کے رفیقِ کار رہے)۔
سیّد نیاز حسین شاہ (شاہ جی) گائوں کی مسجد کے خطیب تھے مگر روایتی اماموں اور خطیبوں سے قطعی مختلف۔ عربی اور فارسی کے عالم، مطالعے کے رسیا اور خوش خطی کا ذوق رکھنے والے شگفتہ مزاج شخص تھے۔ ایک صاحب ِ حیثیت (میاں بشیر سہگل) نے گائوں میں سکول کھولا تو شاہ جی عربی فارسی کے استاد مقرر ہوگئے۔ اسی طرح حافظ فیروزالدین (حافظ جی) ’قناعت کی زندگی‘ کی ایک مثال تھے۔ نرے حافظ جی نہ تھے، اپنے وقت کے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی موضوعات پر اعتماد کے ساتھ بات کرتے اور دینی مسائل میں لوگوں کو اچھی خاصی رہنمائی فراہم کرتے۔ اسی طرح حافظ محمد صادق، اسی طرح پروفیسر چودھری سلطان بخش (پرنسپل) جو ڈسپلن کے معاملے میں ذرا سی رُو رعایت کے بھی قائل نہ تھے۔ سخت گیر اور سخت مزاج مگر طلبہ کے حق میں بہت شفیق۔ بہت انہماک سے پڑھاتے اور وقت سے پہلے کلاس کبھی نہ چھوڑتے۔کلاس سے باہر بھی طلبہ کی تربیت اور ان کے ذہن کو جِلا دینے کا سامان پیدا کرتے رہتے۔ ’ہماری مائیں‘ گائوں کی ان روایتی مائوں کا خاکہ ہے جو فقط کسی ایک بچے سے نہیں، بلکہ گائوں اور گلی محلے کے سارے بچوں سے اپنے بچے کا سا پیار کرتی ہیں۔ ایسے حقیقی کرداروں میں ماسی ولایتاں، ماں بھاگی، ماں سرداراں اور ماں مکھی وغیرہ شامل ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’تو یہ تھی ہماری مائیں،جنھوں نے ہمیں پالا پوسا، بڑا کیا اور انسان بنایا۔ آج ہمارے اندر انسانیت نام کی کوئی رمق ، احترام اور عزت کے جذبے کا کوئی شائبہ اور محبت کے مادے کا کوئی ذرہ موجود ہے تو یہ صرف ان ہستیوں کی دین ہے‘‘۔ ان خاکوں میں آپ بیتی کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ پرانے وقتوں کی تصاویر بھی شاملِ کتاب ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ملک کے بقول: ’’انھوں نے اپنے محسنوں کی شخصیات کے نہایت ہی اعلیٰ خاکے کھینچ کر اپنی وفا اور اپنے قلم کا حق ادا کردیا ہے‘‘۔ طباعت و اشاعت، جلدبندی مناسب اور کاغذ عمدہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
نقوشِ زندگی (خودنوشت سوانح حیات)، مولانا محمد عبدالمعبود۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ۔ صفحات: ۲۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔
خودنوشت سوانح عمریوں کی روایت قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ معیاری سوانح عمری کے بارے میں متعدد آرا ملتی ہیں۔مغربی ادبیات میں اس کے اصول و قواعد اور معیار کا پیمانہ مشرقی ادبیات سے مختلف ہے۔ تاہم آ پ بیتی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کسی انسان کی زندگی کے تجربات، مشاہدات ، محسوسات، نظریات اور عقائد کی ایک مربوط داستان ہوتی ہے جو خود اس نے بے کم و کاست قلم بند کردی ہو، جسے پڑھ کر اس کی زندگی کے نشیب و فراز معلوم ہوں۔
زیرنظر آپ بیتی مصنف کی زندگی کے حالات کی راست تصویر کشی ہے۔ ان کے موے قلم نے واقعات کے ایسے خوش نما پیکر تیار کیے ہیں کہ گذشتہ ۵۰برس کے ملکی حالات سامنے آجاتے ہیں۔ مصنف ایک عالم دین ہیں، اپنی تعلیمی اور تدریسی زندگی کے کوائف کے علاوہ اپنے اساتذہ، پیرومرشد اور عزیز واقارب سے متعلق اپنے روابط صاف صاف طریقے سے بیان کردیے ہیں۔ جس ماحول میں مصنف کی تعلیمی زندگی گزری، وہاں سیّد مودودیؒ کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں تھا، چنانچہ زیرنظر کتاب کے مطابق مصنف نے دل کھول کر اس محاذ آرائی میں حصہ لیا جو اُس دور کے علما اور مولانا مودودیؒ میں جاری تھی۔ تحریری و تقریری مباحثے اور مناظرے بھی زوروں پر تھے۔
اس آپ بیتی میں مصنف نے ملکی اور غیرملکی استعمار کا ذکر بھی کیا ہے۔ بیرونِ ملک سفرناموں کے سلسلے میں بھارت کا سفر یادگار سفر کہا جاسکتا ہے، جس میں ’شیخ الہند سیمی نار‘ میں ایک مقرر کے پاکستان کے خلاف تبصرے پر مصنف اور ان کے ساتھی اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے باہر چلے گئے (ص ۲۶۰)۔ اسی سفر میں آگرہ قلعے کی سیر کے موقعے پر یہ افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا کہ مصنف کے وفد کے ایک پاکستانی فرد کو قلعے کے دروازے پر اپنی ٹوپی اُتار کر قلعے کے محافظ ہندوئوں کے پائوں پر رکھنی پڑی لیکن وہ پھر بھی راضی نہ ہوئے (ص ۲۶۱)۔ (ظفرحجازی)
مصنف ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں۔ مختلف عنوانات پر کئی کتب کے مصنف ہیں۔ کراچی میں ’نیشنل اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ‘ کے کرتا دھرتا ہیں جہاں سے صہیونیت پر منظم اور سائنٹی فک انداز میں ۱۵قیمتی کتب شائع کی جاچکی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے امریکا کے خلاف عالمی نفرت، اخلاقی بے راہ روی، امریکی شرح پیدایش میں تیزرفتار کمی، معیشت کا زوال، امریکا پر یہودی اثرات، امریکا میں اسلحہ کی بہتات اور اس کے استعمال کے خطرناک اثرات، اور مختلف مفکرین کے خیالات اور آرا پیش کی ہیں۔ امریکا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو قوم اخلاقی زوال کا شکار ہوجائے اور جس کے امن و سلامتی کے تصورات اپنے لیے کچھ اور دوسروں کے لیے کچھ اور ہوں اور جو اپنی سیاسی اور سماجی غلبے کے خبط میں ہراخلاقی اصول کو تاراج کردے، اگر وہ ترقی کی معراج پر ہے تو لازماً تباہی کی طرف گامزن ہوگی اور یہی حال امریکا کا ہے۔ ہم روس کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ وہ افغان مجاہدین کے ساتھ معرکہ میں جس بُری طرح بکھرا اور ٹوٹا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی وجوہات وہی ہیں جو اُوپر بیان ہوئیں۔ اپنے گہرے مشاہدے کی بنیاد پر مولانا مودودیؒ نے ایک صدی قبل روس کے زوال کی پیش گوئی کی تھی اور ساتھ ہی ساتھ امریکی زوال کی پیش گوئی بھی۔ بس اب وقت کا انتظار ہے!(شہزادالحسن چشتی)
مدیر بیدار ڈائجسٹ نے اپنے ماہنامے میں حکایاتِ حکمت و دانش کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ بڑے پیمانے پر اس کی پذیرائی ہوئی۔ چنانچہ قارئین کی بڑی تعداداور پبلشر کے اصرار پر ملک صاب نے زیرنظر کتاب میں کہانیوں اور تحریروں کا ایک انتخاب مختلف عنوانات (علم بارے مختلف حکایات، حکایاتِ شکر، امانت و دیانت، محنت و ہمت، ذہانت و فطانت، دوستی، سخاوت، لالچ اور بخل، وعدوں کی پاس داری اور متفرق حکایات) کے تحت مرتب کردیا ہے۔
کہانیاں اور تحریریں مختصر ہیں۔ ایک صفحہ، دو صفحہ یا زیادہ سے زیادہ تین چار صفحے۔کسی ایک مضمون یا کہانی کے آخر میں اگر جگہ بچ گئی ہے تو اسے کسی حدیث، دعا، اشعار یا دل چسپ واقعے سے پُر کردیا ہے۔ تحریروں کی زبان آسان اور اسلوب سادہ ہے۔ پڑھنا شروع کریں تو چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک ایسے وقت میں، اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں اخلاقی قدروں کی گم شدگی سب سے بڑا مسئلہ ہے، تحفہ دینے کے لیے یہ بہت اچھی کتاب ہے جو چھوٹوں اور بڑوں سب کو گم شد دینی و اخلاقی قدروں کی بحالی کا احساس دلاتی ہے۔ بعض حکایات دوسری کتابوں سے نقل کی گئی ہیں مگر حوالے نامکمل ہیں جیسے ص ۱۸، ۵۷، ۹۵ وغیرہ۔ (رفیع الدین ہاشمی)