ہمارے رب نے اپنے کلام پاک میں بہت سے مناظر کا نقشہ کھینچا ہے ۔اُن میں سے ایک دل کش اور خوب صورت منظر، اہل خانہ کے ساتھ جنت میں داخلے کا ہے۔کیا میں نے اور آپ نے کبھی ، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، جنت میں، وہاں کی حقیقی مسرتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لُطف اندوز ہو نے کے اس خوب صورت منظر کا تصور کر نے کی کوشش کی ہے!
اللہ سُبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’(عقل رکھنے والے لوگ) اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ اُن کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انھیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بُری طرح حساب نہ لیا جائے۔ اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے عَلانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے۔
(اُن کے لیے) دائمی (ہمیشہ ہمیشہ کے لیے) رہایش کے باغات ہوں گے۔وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور اُن کے آباواجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہوں گے وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ: ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر (دین پر استقامت)سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس (جنت)کے مستحق ہوئے ہو___ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر!‘‘ ( الرعد ۱۳: ۲۰- ۲۴)
درجِ بالا آیت کی روشنی میں تصور کریں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں ہمارے نیک اعمال کی وجہ سے یہ اعزاز بخشے کہ ہمیں اور ہمارے تمام اہلِ خانہ کو جنت کے اعلیٰ درجات تک پہنچا دے۔
ہم سوچیں کہ کیاہم نے کبھی ، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، جنت میں، وہاں کی حقیقی مسرّتوں سے ہمیشہ کے لیے لُطف اندوز ہو نے کے اس مقام کو پانے کی تمناکی ہے!
یہ وہ مقام ہے جس کے لیے فرشتے بھی ہمارے لیے دُعا کرتے ہیں۔
سورئہ مومن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعاے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’اے ہمارے رب! تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذابِ دوزخ سے بچا لے اُن لوگوں کو جنھوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اے ہمارے رب اور داخل کر، اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے، اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ پہنچا دے)۔ تو بلاشبہہ قادر ِمطلق اور حکیم ہے ۔ بچا دے اُن کو بُرائیوں سے۔ جس کو تو نے قیامت کے دن بُرائیوں سے بچا دیا اُس پر تو نے بڑا رحم کیا،یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔(۴۰: ۷-۹)
اس آیت کی تشریح میں صاحبِ تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھتے ہیں: یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں (اور قیامت تک حضوؐر اور ان کے صحابہ ؓکے نقشِ قدم پر چلنے والوں)کی تسلّی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفّارِ مکّہ کی زبان درازیوں اور چیرہ دستیوں اور ان کے مقابلے میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ ان گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو، تمھارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرشِ الٰہی کے حامِل فرشتے اور عرش کے گردوپیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمھارے حامی ہیں اور تمھارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجاے عرشِ الٰہی کے حامل اور اس کے گردو پیش حاضر رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت ِ خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار، وہ ملائکۂ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنھیں فرماںرواے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ،تمھارے ساتھ گہری دل چسپی و ہمدردی رکھتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد۴، ص ۳۹۴)
درجِ بالا دونوں آیات میں اہلِ ایما ن کے والدین، بیویوں اور اولاد میں سے اُن کے لیے جنت کا وعدہ اور اور فرشتوں کی دُعا کا ذکر ہے، جو ان میں سے صالح ہوں ۔ لیکن سورۃ الطور میں مزید رعایت دی گئی ہے۔اور فرمایا گیا ہے کہ اگر اُن کی اولاد کسی نہ کسی درجۂِ ایمان میں بھی اپنے آبا کے نقشِ قدم کی پیروی کرتی رہی ہو، تو اپنے عمل کے لحاظ سے خواہ وہ اُس مرتبے کی مستحق نہ ہو جو ان کے آبا کو ان کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا، پھر بھی یہ اولاد اپنے آبا کے ساتھ ملا دی جائے گی۔یقینا یہ اہلِ ایمان کے لیے ایک بہت بڑا اعزا زہے ۔
ارشادِ رب کریم ہے: متقی لوگ وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے، لُطف لے رہے ہوں گے جو اُن کا رب اُنھیں دے گا، اور اُن کا رب اُنھیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا۔ (اُن سے کہا جائے گا)کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اُن اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔ وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اور ہم خوب صورت آنکھوں والی حوریں اُن سے بیاہ دیں گے۔
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں اُن کے نقشِ قدم پر چلی ہے اُن کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔ ہم اُن کو ہر طرح کے پھل اور گوشت، جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا، خوب دیے چلے جائیں گے۔وہ ایک دوسرے سے جامِ شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے جس میں نہ یاوہ گوئی ہوگی نہ بد کرداری۔اور اُن کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو اُنھی (کی خدمت) کے لیے مخصوص ہوں گے، ایسے خوب صورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔
یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے) حالات پوچھیں گے۔ یہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھر والوں میں (اللہ سے)ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔ آخر کار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جُھلسا دینے والی ہوا کے عذاب سے بچا لیا۔ہم پچھلی زندگی میں اُسی سے دعائیں مانگتے تھے، وہ واقعی بڑا ہی مُحسن اور رحیم ہے‘‘۔(الطور ۱۷:۲۸)
کیاہم نے کبھی ،اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، جنت میں، وہاں کی حقیقی مسرّتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لُطف اندوز ہو نے کایہ مقام حاصل کرنے کی کوشش اور اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟
آیت ۱۷میں جنت میں داخلے کے ساتھ دوزخ کے عذاب سے بچائے جانے کا ذکر ہے۔ اس کی تشریح میں صاحب تفہیم القرآن سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا ہے:’’کسی شخص کے داخلِ جنت ہونے کا ذکر کر دینے کے بعد پھر دوزخ سے اس کے بچائے جانے کا ذکر کرنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی۔ مگر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ دونوں باتیں الگ الگ اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جانا بجاے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اور یہ ارشاد کہ ’’اللہ نے ان کو عذابِ دوزخ سے بچا لیا‘‘در اصل اشارہ ہے اِس حقیقت کی طرف کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جانا اللہ کے فضل و کرم ہی سے ممکن ہے، ورنہ بشری کمزوریاں ہر شخص کے عمل میں ایسی ایسی خامیاں پیدا کر دیتی ہیں کہ اگر اللہ اپنی فیاضی سے اُن کو نظر انداز نہ فرمائے، اور سخت محاسبے پر اُتر آئے تو کوئی بھی گرفت سے نہیں چھوٹ سکتا۔ اسی لیے جنت میں داخل ہونا اللہ کی جتنی بڑی نعمت ہے اُس سے کچھ کم نعمت یہ نہیں ہے کہ آدمی دوزخ سے بچا لیا جائے‘‘۔(تفہیم القرآن، جلد۵، ص ۱۶۷)
آیت۱۹میں فرمایا: ’’کھاؤ اور پیو مزے سے‘‘ اس ’مزے‘کی تشریح بھی صاحبِ تفہیم القرآن نے کی ہے:’’یہاں’مزے سے‘کا لفظ اپنے اندر بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ جنت میں انسان کو جو کچھ ملے گا کسی مشقت اور محنت کے بغیر ملے گا۔ اُس کے ختم ہوجانے یا اُس کے اندر کمی واقع ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہ ہو گا۔ اُس کے لیے انسان کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ عین اُس کی خواہش اور اس کے دل کی پسند کے مطابق ہو گا۔ جتنا چاہے گا اور جب چاہے گا حاضر کر دیا جائے گا۔ مہمان کے طور پر وہ وہاں مقیم نہ ہو گا کہ کچھ طلب کرتے ہوئے شرمائے بلکہ سب کچھ اُس کے اپنے گُذشتہ اعمال کا صلہ اور اُس کی اپنی پچھلی کمائی کا ثمر ہو گا۔ اُس کے کھانے اور پینے سے کسی مرض کا خطرہ بھی نہ ہو گا۔ وہ بھوک مٹانے اور زندہ رہنے کے لیے نہیں بلکہ صرف لذّت حاصل کرنے کے لیے ہوگا۔ اور آدمی جتنی لذّت بھی اُس سے اُٹھانا چاہے، اُٹھا سکے گا بغیر اس کے کہ اس سے کوئی سوئِ ہضم لاحق ہو اور وہ غذا کسی قسم کی غلاظت پیدا کرنے والی بھی نہ ہوگی۔ اس لیے دنیا میں ’مزے‘ سے کھانے پینے کا جو مفہوم ہے، جنت میں ’مزے‘سے کھانے پینے کا مفہوم اس سے بدرجہا زیادہ وسیع اور اعلیٰ و ارفع ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، جلد۵، ص ۱۶۸)
یہاں اُس حدیث کا ذکر بے محل نہ ہو گا جو حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے حضوؐرنے بیان فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: میں نے اپنے نیک اور صالح بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کررکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے اُن کا ذکر سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی اُن کا خیال ہی آیا ہے۔ اگر تم چاہو تو قرآن کی آیت پڑھو:’’پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیا چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے‘‘۔ (السجدہ ۳۲: ۱۷)
آئیے !ہم اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ خانہ کو دوزخ کے عذاب سے بچا کر انھیں جنت کے اعلیٰ مقام تک لے جانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں، اور اُس کے لیے کوشش اور جدو جہد شروع کر دیں۔