نائن الیون سے لے کر اب تک زبردست ابلاغی مہم کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ لاقانونیت، فسطائیت، جبروتشدد اور ظلم و زیادتی کے ہر بڑے واقعے کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ ہے۔ اِس طاقت ور مہم کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان نہ صرف اپنی تہذیب و ثقافت، براے نام اقتدار اور شناخت سے محروم ہوجائیں بلکہ دہشت گردی کی عالم گیر جنگ کے دست و بازو بن کر ہر اُس علامت کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکیں جس کا تعلق قرآن، شریعت، اسلامی نظام یا مسلم طرز زندگی سے ظاہر ہوتا ہو۔
ثروت جمال اصمعی نے اس کتاب میں دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا مسلمان سب سے بڑا ظالم نہیں بلکہ سب سے بڑا مظلوم ہے۔ جس عالمی استعمار نے سوپرپاور کے سائے تلے ایران، عراق، لبنان، افغانستان، فلسطین، بوسنیا میں مقتل سجائے ہیں، وہی اصل ظالم و جابر ہے، اور اس کی سازشوں کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر خورشیداحمد نے دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ: مغربی اور امریکی مآخذ سے آنے والی چشم کشا دستاویزات کو بنیاد بناکر ثروت جمال اصمعی نے اس کتاب میں عالمِ اسلام کا موقف اور مقدمہ عالمی راے عامہ کے سامنے پیش کردیا ہے۔ ان کا اسلوب سادہ، منطقی، غیرجذباتی اور ہرانصاف پسند کو اپیل کرنے والا ہے۔
کتاب ۱۵ ابواب پر مشتمل ہے۔ مصنف نے بہ دلائل یہ ثابت کیا ہے کہ مغرب آمروں کا سرپرست ہے۔ نائن الیون یہود امریکی سازش تھی۔ افغانستان پر حملے کا مقصد دراصل کیسپین کے تیل تک رسائی حاصل کرنا تھا۔ عراق کو سُنّی شیعہ اور کُرد علاقوں میں تقسیم کرنے کی سازش برسوں قبل تیار کی گئی تھی۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے سفید جھوٹ جس طرح گھڑے جاتے ہیں ان کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں سعودی عرب اور پاکستان بھی اُن کے اگلے اہداف میں شامل ہیں۔ اسرائیل کی حمایت میں واشنگٹن نے گذشتہ ۶۱ برس میں جو اقدامات کیے ہیں اور جس طرح تل ابیب کو قوت اور عالمِ عرب کو ہزیمت پہنچائی گئی ہے، اس کا مفصل تذکرہ ہے۔ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے تھنک ٹینک، قرض فراہم کرنے والے ادارے، سرکاری ایوان اور غیرسرکاری تنظیمیں جس طرح سے کام کر رہی ہیں، اُس کا بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ آخر میں اس گرداب سے نکلنے کے لیے مسلم حکمرانوں، اسلامی تحریکوں، غیرسرکاری تنظیموں اور اہلِ فکر و دانش کے لیے جو حل تجویز کیا گیا ہے وہ بھی تفصیلی مطالعے کا حق دار ہے۔
نیلسن منڈیلا سے منسوب یہ جملہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ ’مسلمان اپنا مقدمہ مغرب کے حکمرانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، جب کہ ہم نے اپنا مقدمہ مغرب کے عوام کے سامنے پیش کیا‘‘۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کا مقدمہ اور نقطۂ نظر عالمی راے عامہ کے سامنے ناقابلِ تردید حقائق اور شواہد کے ساتھ پیش کیا جائے۔ مغرب میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اہلِ علم اور عوام کی سطح پر مسلمانوں کے موقف کو جاننے کی خواہش کے پیشِ نظر، بقول مصنف: ’’اگر مغربی پالیسی سازوں کے مسلمانوں کے خلاف الزامات اور مہم جوئی کے اصل مقاصد، مغرب کے عام لوگوں کے سامنے سلجھے ہوئے انداز میں واضح کیے جائیں، اور مسلمان مغربی راے عامہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ مستحکم دلائل و شواہد کے ساتھ پیش کریں تو ان کی یہ کوشش بے نتیجہ نہیں رہے گی‘‘۔ (ص ۱۲)
زیرنظر کتاب اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک اہم کاوش ہے۔ حکمرانوں کو شیشے میں اُتارنے، نوجوان نسل کو جدید تعلیم، تعلیمی اداروں اور انٹرنیٹ کے ذریعے ’آزاد کلچر‘ سے روشناس کرانے اور عراق و افغانستان کے بعد لبنان، شام، پاکستان اور سعودی عرب کی اسلامی افواج کو استعمار کے غلام بنانے کے لیے جو سازشیں تیار کی جارہی ہیں، ان کے تفصیلی جائزے کے لیے بھی مصنف کو مذکورہ موضوعات پر قلم اٹھانا چاہیے۔ اسلام، عالم اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل سے دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ (محمد ایوب منیر)
اسلام، پیغمبرؐاسلام اور اسلام کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام کے خلاف جس قدر مضامین، تجزیے، ریسرچ رپورٹیں اور کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں، اُن کو مدنظر رکھا جائے تو مسلم دنیا کا ردعمل محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتا ہے، تاہم موقع بہ موقع ایسی کتابیں منظرعام پر آتی رہتی ہیں جن سے یہ تاثر دُور ہوتا ہے۔
محمد زبیر فاروقی پیشے کے لحاظ سے انجینیرہیں۔ قبل ازیں اُن کی کتاب اسلام اور اُمت مسلمہ کو درپیش جدید چیلنج کے موضوع پرIslam, The Muslim World Community and Challenges of the Modern Age کے نام سے ۱۹۹۷ء میں شائع ہوچکی ہے۔ زیرنظر کتاب اس کا تسلسل ہے۔
پیش لفظ میں ظفر اسحاق انصاری کے اس نقطۂ نظر سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ مغربی ممالک اور مغربی عوام میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں غلط فہمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک میں، اسلامی شریعت کو بھرپور طریقے پر نافذ نہیں کیا گیا ہے، نہ اس کے نفاذ کی عملی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو دہشت گرد، تنگ نظر اور امنِ عالم کا ’دشمن‘ قرار دینے کی دوڑ نہ ہو تو کیا ہو؟
چھوٹے چھوٹے مضامین میں انصاف، توازن، سماجی شعور، ایمان، توحید، شانِ رسالتؐ، نظائر کائنات، تحصیلِ علم، ماحولیاتی امور، دورِصحابہؓ اور جدید چیلنجوں، مثلاً جوہری توانائی، سماجی ارتقا، میڈیا وار اور اسلام کے خلاف جنگ کو قرآن و حدیث اور مؤثر دلائل کے ساتھ موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
اس کتاب میں خاندانی نظام اور اسلام کی اقتصادی برکات اور اسلامی احیا کے موضوعات کو بھی شامل کرلیا جاتا تو اس کی افادیت میں اضافہ ہوجاتا۔ (م - ا- م)
وادیِ بالاکوٹ، جنت نظیر وادی ہونے سے زیادہ سیداحمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید اور ان کی تحریک مجاہدین کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء میں آنے والے زلزلے نے اس وادی کو ایک اور زاویے سے شہرت دی اور یہ علاقہ زلزلے سے بری طرح متاثر ہوا۔
زیرنظر کتاب وادیِ بالاکوٹ کے ایک جامع مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے بڑی عرق ریزی سے وادیِ بالاکوٹ کی تاریخ، جغرافیے، محل وقوع، آبادی، تعلیمی صورت حال، آب و ہوا، تاریخی اہمیت، پہاڑ، جنگلات، فصلوں، جانوروں، شکار، کھیلوں، قوموں، قبیلوں، رسم و رواج، لباس و خوراک غرضیکہ مختلف پہلوؤں پر تحقیق کر کے وادی سے متعلق بنیادی معلومات کو یک جا کردیا ہے۔ فاضل مصنف نے تحریکِ مجاہدین، سیداحمد شہیداور شاہ اسماعیل شہید کے تذکرے کے ساتھ مختصراً کشمیر و افغانستان کے شہدا کے حالاتِ زندگی بھی قلم بند کردیے ہیں۔
اس کتاب کا ایک نمایاں پہلو اکتوبر ۲۰۰۵ء میں آنے والے خوفناک اور ہلاکت خیز زلزلے کے پس منظر اور پیش منظر کا تجزیہ کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں اللہ کی طرف سے قوموں کی آزمایش اور عذاب کا جائزہ لینا ہے۔ وادی کی خوب صورت تصاویر کے علاوہ زلزلے سے وادی کے مختلف علاقوں میں تباہی کی تصاویر بھی شاملِ اشاعت ہیں، نیززلزلے کے پہلے اور زلزلے کے بعد کی احتیاطی تدابیر کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔
ایک اور اہم موضوع امدادی اداروں اور این جی اوز کی سرگرمیوں کا جائزہ اور ان کے پس پردہ مقاصد کا تجزیہ ہے کہ یہ ادارے مسلمانوں میں کام کرتے ہوئے کس طرح مسلمانوں کو دیگر مذاہب کی طرف راغب کرتے ہیں۔ خوب صورت سرورق کے ساتھ وادیِ بالاکوٹ پر یقینا یہ ایک جامع کتاب ہے۔ (پروفیسرمیاں محمد اکرم)
علمی و ادبی مجلہ سیارہ تعمیری اور فلاحی ادب کا نقیب ہے۔ اس کے مؤسس نعیم صدیقی مرحوم تھے جو اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ سیارہ کو ایک معیاری ادبی جریدہ بنانے کے لیے عمربھر کوشاں رہے۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے رفقاے کار آسی ضیائی اور حفیظ الرحمن احسن اس کارِخیر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ شمارہ مختلف شعری و نثری اصناف سے عبارت ہے۔ غزلیات، منظومات، حمدیہ و نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ تحقیقی و تنقیدی مقالات، افسانہ، انشائیہ، مزاح، غرض ہر صنفِ ادب کی نمایندگی موجود ہے۔’داناے راز‘ کے عنوان سے تفہیمِ اقبال سے متعلق گوشے میں ایک مذاکرہ اور دو مضامین شامل ہیں۔ مضامین ڈاکٹر عبدالمغنی اور ڈاکٹر مقبول الٰہی کے ہیں جن میں باترتیب ’طلوعِ اسلام‘اور ’قادیانیت اور اقبال‘ کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ مذاکرہ ڈاکٹرنیرمسعود (لکھنؤ)، شمس الرحمن فاروقی (الٰہ آباد) اورعرفان صدیقی مرحوم (بھارت) کے مابین ہے۔ گوشے ہی کا نہیں پورے رسالے کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ مذاکرہ لکھنؤ ریڈیو سے نشر ہوا تھا۔ اس کی تحریری صورت اس رسالے میںشامل کی گئی ہے۔ موضوع شعرِاقبال کی مختلف جہتیں ہیں۔
مقالات کے حصے میں مختلف موضوعات پر انورسدید، عاصی کرنالی، محمدسلیم ملک، جمیل یوسف، مجاہد سید، ضیغم شمیروی اور ممتاز عمر کے مقالے شامل ہیں۔ ایک گوشہ م-نسیم کی یاد میں قائم کیا گیا ہے۔ م-نسیم ۲۰۰۷ء میں انتقال کرگئے تھے اور برعظیم پاک و ہند کی اُردو ادبی دنیا میں بطور افسانہ نگار معروف تھے۔ اس گوشۂ خاص میں اُن کی خدماتِ عالیہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
’رفتگاں‘ کے تحت شعیب عظیم اور علامہ قمررعینی، حامدحسین اور ضیا محمد ضیا کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ پچھلے ایک سال کے دوران وفات پانے والے اُردو دنیاکی اہم شخصیات کا مختصر ذکر شامل ہے۔
مجلے میں ۲ انشایئے اور ۶ افسانے بھی شامل ہیں۔ بازنوشت کے طور پر قرۃ العین حیدر اور ذوالفقارتابش کی تحریریں شاملِ اشاعت ہیں۔مکاتیب کے گوشے میں خطوطِ فرخ درانی بنام جعفر بلوچ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر مقبول الٰہی سے مکالمہ بھی اس شمارے کا حصہ ہے۔ غیرملکی ادب کی نمایندگی بھی ہے اور ایک فارسی نثریے کا ترجمہ ’فاتح رومی‘ کے نام سے جلیل نقوی نے کیا ہے۔
شاعری (غزلیات اور منظومات) میں شان الحق حقی، نعیم صدیقی، انورسدید، ناصرزیدی، رومی کنجاہی، قاضی حبیب الرحمن، غالب عرفان اور آسی ضیائی کے علاوہ دیگر متعدد شعرا کی غزلیات سیارہ کا حصہ ہیں۔ منظومات میں نعیم صدیقی، علیم ناصری، انورمسعود، جعفر بلوچ، تحسین فراقی اور حفیظ الرحمن احسن کے اسما نمایاں ہیں۔
آخر میںتقریباً ۱۹ کتب پر تبصرے شامل کیے گئے ہیں اور ادارے کے نام مختلف احباب کے خطوط شائع کیے گئے ہیں۔ غرض یہ رسالہ اپنی تعطلِ اشاعت کے باوجود، ادبِ اُردو کی خدمت کی اپنی قابلِ ستایش کوشش کیے جا رہا ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)
ڈاکٹر عبدالخالق مولانا مودودیؒ کے دیرینہ رفیق اور جماعت اسلامی کے بزرگ رکن تھے۔ زیرنظر کتاب ان کی حیات و خدمات کا تذکرہ ہے۔ مرحوم اخلاص، فقرو درویشی اور اعلیٰ اخلاق کے سراپا اور مثالی مبلغ و داعی الی اللہ تھے۔ مولانا مودودی کی ہدایت پر بھائی پھیرو کو دعوتِ دین اور شہادتِ حق کے فریضے کی ادایگی کے لیے تاحیات اپنا مسکن بنایا اور دارالاصلاح کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ ماہر چشم ہونے کے ناطے جہاں جسمانی امراض کا علاج کرتے، وہاں روحانی تزکیے کا بھی سامان کرتے، نیز لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور کوشش کرتے۔
تفہیم القرآن سے ان کو خصوصی شغف تھا۔ اسی کی بنیاد پر درس قرآن دیتے اور تفہیم القرآن کلاس کا باقاعدہ اجرا کراتے۔ کارکنوں کو ہدایت کرتے تھے کہ بلاناغہ اس کا مطالعہ کریں۔ بنیادی طور پر کتاب مصنف کی ڈائری ہے جس سے مرحوم کی شخصیت، جدوجہد اور خدمات کا بخوبی احاطہ ہوجاتا ہے۔ ذکرو اذکار، روحانیت اور شرکاے پروگرام کی تواضع کا خصوصی اہتمام ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ دعوت و تربیت اور کردار سازی کے لیے مفید رہنمائی ہے۔ (امجد عباسی)
مقاصدِحیات کے تفاوت سے قطع نظر ،مشرق و مغرب میں آسودگی، بہتر زندگی گزارنے اور کامیابی کی خواہش اکثر لوگوں میں صدیوں سے نہ صرف موجود ہے بلکہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ترقی یافتہ قوموں نے محنت کی عادت اور وقت کی بہتر تنظیم اور استعمال کے ذریعے زندگی گزارنے کے سلیقے سیکھ لیے اور ان کے ہاں دانش ور، ماہرین نفسیات اور ماہرین سماجیات نت نئے طریقوں سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں کہ منصوبہ بندی اور سوچ بچار سے کس طرح زندگی گزارنے کے لیے ترجیحات کا تعین کیا جائے۔ زیرنظر کتاب میں بھی انھی ترجیحات کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
کتاب ۴ حصوں اور ۱۵ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں ایسے محنتی اور ذہین لوگوں کے تجربات بھی مذکور ہیں جنھوں نے اپنی ذہانت سے مشکلات پر قابو پایا اور زندگی میں ترجیحات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کام کی نوعیت اور اہمیت کو سمجھا جائے اور اہمیت کی شناخت ہی زندگی کے حقیقی رُخ کی سمت نما ٹھیرتی ہے۔ مصنفین کا کہنا ہے کہ اہم کام پہلے ہی حقیقی رُخ ہے۔ کتاب میں وقت کی تنظیم (ٹائم مینجمنٹ) کا نظریہ ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ترجیحات کے تعین کے لیے عملی تدابیر بتائی گئی ہیں، نیز پُرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے عملی رہنمائی دی گئی ہے۔ کتاب ذرا ٹھیرٹھیر کر پڑھنے کا تقاضا کرتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
علامہ اقبال نے ایک موقع پر مسلمانوں کی بے حسی کے پیش نظر انھیں راکھ کا ڈھیر قرار دیا تھا مگر راکھ کے اس ڈھیر کے اندر کہیں کہیں چھپی چنگاریاں بھی موجود ہیں جو جذبۂ عشق رسولؐ کی بدولت شعلۂ جوالہ بن جاتی ہیں۔ عامر عبدالرحمن چیمہ بھی ایسی ہی ایک چنگاری تھا جس نے ناموسِ رسالتؐ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔
زیرنظر کتاب میں اولاً گستاخِ رسولؐ کی سزا اور تاریخ کے ان واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جب سرور کونین ؑکی شان اقدس میں بعض بدبختوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا۔ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق ارشادات بھی دیے گئے ہیں۔ ثانیاً اس کتاب میں عامر عبدالرحمن شہید کی زندگی بچپن، لڑکپن، نوجوانی اور خاندانی حالات کا تذکرہ ہے۔ ثالثاً ان کے گھر کے افراد کے تاثرات اور مولانا اظہرمسعود اور عرفان صدیقی کی نگارشات شامل ہیں جو عامر عبدالرحمن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں۔شہید دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے۔ یہ تفصیلات پہلی بار سامنے آئی ہیں۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ اسے آزمائے، دنیا میں رہے لیکن دنیا ہی کا ہوکر نہ رہ جائے۔ تجارت کے پیشے میں رزق کا ۹۰ فی صد حصہ رکھا گیا ہے۔ بظاہر ایک خالص دنیوی کام لیکن اسی کام کو دینی ہدایات کے مطابق انجام دیا جائے تو یہ جنت میں لے جائے گا، اور اگر جواب دہی سے بے نیاز ہوکر نفس کے کہنے پر عمل کیا جائے تو جہنم میں لے جاسکتا ہے۔
تجارت کے بارے میں اللہ کے رسولؐ کی جو بھی ہدایات ہیں مولانا مفتی محمد ارشاد نے وہ سب اس ۲۰۰ صفحے کی اس کتاب میں جمع کردی ہیں۔ ضروری فقہی مسائل بھی آگئے ہیں۔ سود کے حوالے سے بھی ذکر موجود ہے۔ ۱۸ صفحات کی فہرست پر نظرڈالی جائے تو کتاب کی وسعت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ایک تاجر کا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے؟ اس بارے میں جو کچھ پہلے پڑھا تھا،وہ سب اس کتاب میں موجود ہے۔ مگر یہ کتاب اپنی موجودہ صورت میں ملک کے کتنے تاجروں کے ہاتھ میں جائے گی جو اس سے استفادہ کریں یا عمل کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت کے مقبول ترین بزنس مینجمنٹ کے نصاب میں اس کے ضروری نکات آجائیں۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ اس میں سے عملی باتیں اخذ کر کے مختصر معیاری اور خوبصورت شائع کی جائے اور بازاروں میں گھوم کر ہر تجارت کرنے والے کے ہاتھ میں پہنچائی جائے۔ ناجائز حرام کمائی پر وعید سے آغاز کے بجاے اختتام اس پر ہوتا تو بہتر ہوتا۔(مسلم سجاد)
یہ کتاب ۱۶ مذہبی، سماجی اور ادبی، معروف اور غیرمعروف شخصیات کے خاکوں اور تعارفات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے چند ایک معروف ہیں، مثلاً ڈاکٹر بشیرسیفی، زہیرکنجاہی، حکیم یوسف حسن وغیرہ مگر زیادہ تر افراد غیرمعروف ہیں۔ لیکن شہرت اور نام وری سے قطع نظر ڈاکٹر وسیم انجم کے ممدوح غیرمعروف لوگ بھی اپنے کردار اور عمل کے لحاظ سے نادر روزگار حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی وضع داری، نیک نفسی اور بلندکردار کی وجہ سے ان میں ایک کشش محسوس ہوتی ہے۔ ان میں کچھ شہدا ہیں اور کچھ بزرگانِ دین۔ کہیں کہیں عبارت بوجھل محسوس ہوتی ہے اور کہیں جملوں کی طوالت کے سبب تحریر کا حسن ماند پڑ جاتا ہے۔ مصنف نے خاکے لکھتے ہوئے غیر جانب داری سے کام لیا ہے، تاہم ان کے ہاں ہمدردی کا پہلو موجود ہے جو خاکہ نگاری کا ایک بنیادی وصف مانا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ ممدوح حضرات کے متعلق مصنف کا مشاہدہ کچھ زیادہ گہرا نہیں ہے۔ کتاب میں ماضی کے چند دل چسپ واقعات کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مجموعی حیثیت سے وسیم انجم کی یہ کاوش قابلِ ستایش ہے۔ (رضوان احمد مجاہد)