دنیا میں ہر طریقِکار مقصد کی مناسبت سے طے کیا جاتا ہے۔ جب مقصد متعین ہوجاتا ہے تو پھر تمام وسائل حصولِ مقصد کے لیے لگا دیے جاتے ہیں اور آدمی جو بھی محنت اور مشقت کرتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس مقصد کو اس کے قریب تر کر دے۔ اسی طرح ہمارا بھی ایک مقصد ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ایک طریقِکار ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی تمام صلاحیتوں، محنتوں اور وسائل کو اس میں صرف کردیں۔
ہمارا مقصد کیا ہے؟ جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ ہمارا مقصد اقامتِ دین ہے، یعنی پورے کے پورے دین کو عملاً نافذ کرنا۔ اور یہ نفاذ صرف اپنے ہی ملک تک مقصود نہیں ہے بلکہ تمنّا یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں نافذ ہو اور پورا کرۂ ارضی حلقہ بگوشِ اسلام ہو جائے۔ لیکن اس کی ترتیب یہ ہے کہ یہ پہلے پاکستان میں نافذ ہو۔ اس کے بعد اس کے وسائل کو دین کی عالمی تبلیغ کے لیے استعمال کیا جائے۔
تبلیغ کامفہوم اسلام کی تعلیمات کو فقط پہنچا دینا ہے، یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اخلاق، اعمال اور معاملات میں کیا کیا ہدایات دی ہیں، بندگانِ خدا کو ان چیزوں سے آگاہ کر دینے کا نام تبلیغ ہے۔ یہ سب امور واضح کر دینے کے بعد مبلغ کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی۔ لیکن اقامتِ دین کے کام کا آغاز اس نکتے سے ہوتا ہے، جہاں تبلیغ کا کام ختم ہوتا ہے۔ تبلیغ اقامتِ دین کی تمہید ضرور ہے، لیکن یہ ختم ہو جاتی ہے، جب تعلیماتِ دین پہنچ جائیں۔ ہمارا مقصد صرف تبلیغ نہیںبلکہ اقامتِ دین ہے اور یہ ذمہ داری ہم نے از خود نہیں لی، بلکہ ہم پر ڈالی گئی ہے، جیسا کہ قرآن میں آتا ہے: اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ (الشورٰی ۴۲:۱۳) کہ اس دین کو قائم کرو۔ چونکہ ہم انبیا کے وارث ہیں اس لیے یہ مقصد از خود ہمارا مقصد بن جاتا ہے۔
اگر ہم اپنے ذمے صرف تبلیغِ دین ہی کا فرض رکھتے تو ہمارا کا م بہت ہلکا تھا۔ تبلیغ کی ذمہ داریاں زیادہ گراں نہیں ہیں۔ ایک شخص نماز کی تبلیغ کرتا ہے، وہ لوگوں کو ارکانِ نماز اور طریقۂ نماز سے متعارف کراتا ہے اور مسجد کی ضرورت سے آگاہ کرتا ہے۔ مبلغ کی حیثیت سے اس کا کام یہاں ختم ہو گیا، کیونکہ تبلیغ کی حدود تلقین سے آگے نہیں بڑھتیں۔ لیکن جس شخص نے اپنے ذمے صرف تبلیغِ صلوٰۃ نہ لے رکھی ہو، بلکہ اقامتِ صلوٰۃ بھی ہو، اس کے کام کی حدود اس سے بہت آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے ذمے یہ بات بھی ہوتی ہے کہ وہ مسجد بنائے بھی اور اس کا انتظام و انصرام بھی کرے اور اس کی تعمیر کے لیے اینٹ چونا سیمنٹ بھی فراہم کرے۔ یہ سارے کام جب وہ کر رہا ہوتا ہے تو دور سے دیکھنے والا اسے شاید کسی دُنیوی شغل میںمنہمک سمجھتا ہو اور یہ جان سکتا ہو کہ یہ شخص عمارت کے لیے جو عمارتی سامان فراہم کر رہا ہے، وہ اقامتِ صلوٰۃ کا ضروری حصہ ہے اور اقامتِ صلوٰۃ اس وقت تک ہو نہیں سکتی، جب تک مسجد نہ بنے اور مسجد کی تعمیر کے لیے لازم ہے کہ اینٹ، پتھر اور چونا بہم پہنچایا جائے۔ جب مسجد تعمیر ہوگئی اور اس کی شکل و صورت ہر نگاہ کو دکھائی دینے لگی، تب معلوم ہوگا کہ یہ اقامتِ صلوٰۃ کا کام ہے۔ کچھ لوگ شاید عمارت کا قبلہ رخ ہونا دیکھ کر اندازہ کرلیں کہ یہ اقامتِ صلوٰۃ کا کام ہو رہا ہے لیکن عام لوگ اس کی نوعیت سے اسی وقت آگاہ ہوتے ہیں جب کام پورا ہو چکتا ہے۔
ایسا ہی معاملہ اقامتِ دین کا ہے۔ لوگ اقامتِ دین کے بنیادی تقاضوں کو جب نہیں سمجھتے تو وہ متعجب ہوتے ہیں کہ یہ اقامتِ دین کاکیسا کام ہو رہا ہے۔ درآں حالیکہ یہ ساری ضروریات فریضہ اقامتِ دین کی ہیں جو پوری ہوں گی تو اقامتِ دین کاکام ہوگا۔ لوگ عام طور پر تبلیغ کوتو سمجھتے ہیں لیکن اقامتِ دین کی اصطلاح اُن کے لیے اجنبی ہوتی ہے اور وہ اس کے مفہوم اور تقاضوں کو کماحقہ نہیں سمجھ پاتے۔
اقامتِ دین، جماعت ِاسلامی کا صرف اجتماعی مقصد نہیں بلکہ اس کے ایک ایک رکن کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ تبلیغ انفرادی طور پر بھی ہو سکتی ہے مگر اقامت کے لیے جدوجہد اجتماعی اور منظم ہونی چاہیے۔ جو لوگ اقامتِ دین کے تقاضوں کا شعور رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا عملی کام ہے، جس کے لیے اجتماعیت کی ضرورت ہے۔ یہ کام منظم محنت کامحتاج ہے اور منتشر اور غیر منظم افراداسے ہرگز انجام نہیں دے سکتے۔
دنیا میں بعض ایسے اجتماعی ادارے بھی ہیں، جہاں ایک فرد اپنا ذاتی مقصد الگ رکھتے ہوئے بھی ان کے محدود مقاصد کی تکمیل میں شریک ہو سکتا ہے، مثلاً کوئی کلب ہے جو بالکل محدود مقاصد کے لیے وجود پذیر ہوا ہے، لوگ اس کے رکن بنتے ہیں اور کلب کے مقصد کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن کلب کا مقصد ان کی اپنی شخصی زندگیوںکا مقصد نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اس جماعت کا ہر رکن جس کو اپنا اجتماعی یا جماعتی مقصد جانتا ہے وہ اس کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص دین کو اپنا مقصدِ زندگی بنالے، اپنی انفرادی زندگی میںبھی اور اجتماعی زندگی میںبھی، وہ اپنی ہر سعی اور اپنی محنت کی ہر رمق اس میںکیوں نہ لگائے، وہ ضرور لگائے گا۔
جماعت اسلامی کے کارکنوں کو اچھی طرح سے یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے، یہ دین ان کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ اگر ایک شخص نے اپنا کوئی مقصد زندگی مقرر کر لیا ہے تو پھر اس کے لیے فطری اور ضروری ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے اپنے تمام ذرائع، وسائل اور اپنا تمام وقت اور اپنی محنت و قابلیت اس میں لگا دے، کیونکہ وہ مقصد اس کا مقصدِ زندگی ہے اور وہ اسی کے لیے جیتاہے۔ اور اگر کوئی شخص اقامتِ دین کو اپنا مقصد زندگی قرار دے کر کام نہیں کرتا تو کہنا پڑے گا کہ وہ اس کا مقصد زندگی ہی نہیں۔ اگر اقامتِ دین اس کا مقصد زندگی ہوتا اور وہ اس کا شعور بھی رکھتا تو حضرت صدیق اکبرؓ کے طرز عمل کی یاد اسے ضرور بے چین کیے رکھتی ۔
توسیعِ دعوت کے ساتھ ساتھ اتنا ہی ضروری یہ بھی ہے کہ آپ لوگوں کے اخلاق درست کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اسلامی نظام یہاں قائم ہو بھی جاتا ہے توکیا ایسے بداخلاق لوگ اس کی غیر معاون رعایا ثابت نہ ہوں گے؟ معاشرے میں جتنی اخلاقی خرابیاں رونما ہوں گی، دین کی اقامت میں اتنی مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس لیے آپ دعوت بھی پھیلائیں اور اخلاق کو بگڑنے سے بھی روکیں۔
اب اگر دوسری حالت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، تو کیا یہ سیاست ہے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن نافذ ہونے کے لیے آیا ہے، صرف تلاوت کے لیے نہیں۔ تعزیرات پاکستان پڑھنے کے لیے نہیں چلن کے لیے ہے۔ اگر کوئی شخص دوسری حالت کو مطلوب جانتا ہے، تو کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ حالت خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ اگر یہ حالت خود بخود پیدا ہونے والی ہوتی تو حضوؐر کو معرکہ ہاے بدروحنین در پیش نہ آتے۔ کوئی نہر کبھی دعائوں سے نہیںکھودی جاتی، اس کے لیے ہاتھ پائوں ہلانے پڑتے ہیں۔ دعائوں سے علم دین حاصل ہو سکتا تو دینی مدرسے قائم نہ ہوتے۔ سعی کے بغیر کوئی کام نہیں ہو گا۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے: لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ، انسان کو بہرحال سعی کرنی پڑتی ہے۔ آج تک کسی کو یہ پھل انعام میں نہیں ملا۔
پاکستان بظاہر اس جماعت کو منتقل ہوا تھا جس نے مطالبہ پاکستان پیش کیا تھا، لیکن بہ باطن یہ افسر شاہی [بیوروکریسی] کے ہاتھوں میںپہنچ گیا، اور بعد میں یہ بات بالکل کھل گئی کہ سب کچھ اتفاق سے نہیں ہوگیا بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کے تحت یہ ساری کارروائی کی گئی تھی۔ مصر میںلارڈ کرومر نے ایک مرتبہ کہا تھا: ’’ہم مسلمانوں کو آزادی تو دے دیں گے، لیکن اگر وہ اسلام کی طرف پلٹنا چاہیں گے، تو اسے ہم ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ انگریزوں نے اسی پالیسی کے تحت جب اس امر کا پورا اطمینان کر لیا کہ وہ جن کو اقتدار دے رہے ہیں کیا وہ ان کے رنگ میں پورے رنگے جا چکے ہیں، تو اسی اطمینان کی بنا پر انھوں نے اقتدار کو اس بیوروکریسی کی طرف منتقل کیا تھا جو ان کے رنگ میںپوری طرح رنگی ہوئی تھی۔
یہ لوگ درپردہ مملکت کو لادینی بنانے کے لیے زور لگاتے رہے اور ملی بھگت میں بعض سیاست دان بھی ان کے ہم نوا تھے۔ ہم نے جب اسلامی دستور کا مطالبہ کیا تو ان لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے اور انھوں نے اس مطالبے کے اندر اپنی خواہشات کے خلاف ایک زبردست خطرہ پایا۔ لیکن وہ ابھی اس پوزیشن میںنہ تھے کہ اپنے آپ کو پوری طرح نمایاں کرکے میدان میں اتر آتے۔ سیاست دانوں میں بیش تر ایسے شریف النفس بھی تھے جنھوں نے اسلامی دستور کی پوری پوری حمایت کی۔ یہ کش مکش ۱۹۵۳ء تک اسی طرح جاری رہی۔ اس کے بعد اقتدار سیاست دانوں کے ہاتھ سے چھن کر سول سروس کے ہاتھ میں پہنچ گیا۔ ۱۹۵۴ء میں دستوریہ توڑ دی گئی۔ پھر۱۹۵۶ء میں دستور بنا، تو اس حلقے میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ جب مسلسل ٹال مٹول کے بعد عام انتخابات کی تاریخ مقرر ہوئی تو [اکتوبر ۱۹۵۸ء میں جنرل ایوب خان صاحب کا] فوجی انقلاب آگیا۔ یہ فوجی انقلاب اسلامی دستور کا راستہ روکنے کے لیے آیا تھا۔ اگر یہاں سیکولرزم ہوتا تو غالباً یہ انقلاب نہ آتا۔
اس کے بعد آمریت آئی، پریس اور پلیٹ فارم پر پہرے بٹھا دیے گئے اور ادارہ تحقیقات اسلامی جیسے ادارے وجود میں لائے گئے۔ ان سب چیزوں کو ایک ترتیب کے ساتھ اپنے سامنے رکھ کر دیکھیے تو آپ کو صاف معلوم ہوگا کہ یہ سب کچھ اسلام کا راستہ روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اسلام اگر اب آسکتا ہے تو صرف جمہوریت کے راستے سے آسکتا ہے۔ اقتدار عوام کے نمایندوں کو ملے گا تو اسلام آئے گا۔ لیکن آمریت ہرگز پسند نہیں کرتی کہ یہاں اسلام آئے۔ یہ اس راہ میں ایک سدِّگراں ہے۔ جب تک یہ نہ ہٹے گی، نفاذِ اسلام کے تمام مواقع بند رہیں گے۔(رحیم یار خان میں اجتماعِ کارکنان سے خطاب، ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء، بہ شکریہ ایشیا ۱۹مئی ۱۹۶۸ء، ص ۷-۹)