سوال: فرض کیجیے کہ ایک شخص نہایت نیک اور پرہیزگار ہے اور وہ اپنی ساری عمر خدا کی بندگی اور اطاعت میں گزارتا ہے مگر موت کے قریب وہ ایک سخت جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے اور تکلیف کی شدت اس قدر بڑھ جاتی ہے (آخر ہر انسان کی برداشت کی ایک حد ہے) کہ وہ نعوذ باللہ کفریہ کلمات کہنے لگتا ہے اور اسی پر اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جس کی ساری عمر گناہوں میں گزری اور جس نے کبھی بھولے سے بھی کوئی نیک کام نہیں کیا۔ اُس کی موت کے بالکل قریب اُسے کسی ذریعے سے ہدایت مل جاتی ہے اور اُس پر اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ مذہبی عقیدے کے مطابق پہلا شخص جہنمی، جب کہ دوسرا جنتی ہے۔ کیا یہ ناانصافی نہیں ہے کہ ساری عمر کی غلامی کو محض ایک نافرمانی پر نظرانداز کردیا جائے اور دوسری طرف ساری عمر کی نافرمانی کو محض چند لمحات کی اطاعت کی وجہ سے معاف کردیا جائے؟
میرے ذہن میں جبروقدر کے مسئلے کے حوالے سے چند اُلجھنیں ہیں۔ اس ضمن میں چند سوالات درج ذیل ہیں:
۱- قرآن و حدیث کے مطابق انسان کو اِس دنیا میں عمل کی آزادی عطا کی گئی ہے جس کا حساب اُسے آخرت میں دینا پڑے گا۔ انسان کو ارادے کی آزادی ہے اور اُس کی جواب دہی آخرت میں ہوگی تو مختلف اقوام کو سزا اسی دنیا میں کیوں دی گئی؟
۲- ایک شخص آسودہ حال ہے اور وہ نیک اور پرہیزگار ہے۔ دوسری طرف ایک شخص کو زندگی بھر مصائب و آلام کا سامنا ہے اور قدم قدم پر وہ سخت آزمایش سے دوچار ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایمان لانا،ارکانِ دین پر عمل کرنا اور نیک زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ اگر وہ کسی نہ کسی طرح اس میں کامیاب ہوجاتا ہے تو آخرت میں اُسے بھی اُس جنت کا انعام دیا جائے گا جو پہلی قسم کے شخص کودیا گیا۔ کیا یہ صریح ناانصافی نہیں ہے؟
۳- ایک سوال جو بظاہر سب سے سادہ لیکن درحقیقت سب سے پیچیدہ ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے ہمیں اِس دنیا میں کیوں بھیجا ہے؟ ہماری تخلیق کیوں کی گئی ہے؟ کیا محض اس لیے کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ کون اُس کی اطاعت کرتا ہے اور کون نہیں اور پھر پہلی قسم کے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے خوشیوں اور رحمتوں بھری جنت اور دوسری قسم کے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بھیانک آگ میں جلا سکے؟
جواب: تقدیر کے مسئلے میں آپ کو جو الجھن پیش آئی ہے ، اس کی تین وجوہ ہیں:
ایک یہ کہ آپ نے صرف جزا و سزا کے پہلو پر نظر ڈالی ہے۔ یہ نہیں سوچا کہ انسان کو جو نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی ہیں، اتنی قیمتی ہیں کہ دنیا کے تمام انسان، تمام حکومتیں، تمام ڈاکٹر، تمام اطبا اور تمام دولت مند جمع ہوکر اپنی ساری قوتیں، صلاحیتیں اور اموال بھی صرف کریں تووہ سب مل کر انسان کو دل و دماغ اور دوسری جسمانی قوتیں نہیں دے سکتے اور نہ زندگی کی نعمت سے سرفراز کرسکتے ہیں۔ تب ایک انسان پر اللہ تعالیٰ کی کتنی مدت کی عبادت اور اطاعت لازم آتی ہے اور کیا کوئی بھی انسان اس کی عطاکردہ زندگی کا حق ادا کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر انسان ساری زندگی اللہ کی عبادت میں گزار دے، تب بھی وہ سابقہ نعمتوں کا حق ادا نہیں کرسکتا چہ جائیکہ وہ اس پر جنت کا حق دار ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ کو بھی نہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ہاں، میں بھی جنت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے داخل ہوںگا۔ اس لیے اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ جنت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ تب وہ آدمی جو ساری عمر اسلام پر قائم رہا آخر میں اللہ کی طرف سے سخت تکلیف آئی تو وہ زندگی بھر کی نعمتوں کو بھول کر تھوڑے عرصے کی تکلیف سے، جو آخرت کی دائمی راحتوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، دین سے بیزار ہوگیا تووہ جنت کا کیسے مستحق ہوسکتا ہے؟
رہی یہ بات کہ جب ارادے کی آزادی حاصل ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں سزا کیوں دیتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ارادے کی آزادی بے شک اللہ تعالیٰ نے دی ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اگر آدمی اپنے ارادے کو غلط استعمال کرتا رہے تو اس کو دنیا میں کھلی آزادی دے دی جائے کہ وہ لوگوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا رہے، لوگوں کوقتل کرتا رہے اور اہلِ ایمان اور انبیا کو اذیتیں پہنچاتا رہے۔ اگر اس طرح سے آزادی دے دی جائے تو پھر دنیا ظلم سے بھر جائے۔ ایمان و اسلام والے دنیا میں زندہ نہ رہ سکیں۔ دنیا نمرودوں، فرعونوں، قارونوں اور ہامانوں سے بھرجائے۔ آج جو ظلم کفار اور ان کے اتحادیوں نے برپا کیا ہے، وہ برپا رہے اور ایمان والے ذلیل و خوار ہوجائیں۔اس کا علاج یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت ِ عمل کے بعد پکڑے تاکہ اہلِ ایمان خوش ہوجائیں اور انھیں سکون ملے۔ یہ بات معقول ہے۔ قرآن پاک بیان کرتا ہے کہ ’’ان قصوں میں دانش مندوں کے لیے عبرت ہے‘‘۔
دوسری چیز جو آپ نے نظرانداز کی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ دوزخ میں وہی جائے گا جو خود دوزخ میں جانا چاہتا ہے۔
تیسری چیز جسے آپ نے نظرانداز کیا ہے وہ یہ کہ ہمارا علم ناقص ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم، علمِ محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کی بندگی کریں، اپنے ارادے اور اختیار سے وہ اللہ پر ایمان لائیں اور جنت میں جائیں۔ اگر کفر کریں تو دوزخ میں جائیں۔ اللہ تعالیٰ کو جو انسان کا خالق و مالک ہے، حق ہے کہ انسانوں کو آزمائے، جنت اور دوزخ میں داخل کرے جب کہ وہ نبیوں، رسولوں اور کتابوں کے ذریعے انسان پر اتمامِ حجت کرچکا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام بھیجے۔ انھوں نے انسانوں کو دوزخ سے بچانے کے لیے دوڑ دھوپ کی، تکلیفیں اٹھائیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی ضد اور عناد کی وجہ سے ایمان نہ لائے بلکہ کفر پر قائم رہے، اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے پر تلا رہے تو پھر اس کی جگہ دوزخ ہی ہونی چاہیے۔
آخری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ قیامت کے روز حساب و کتاب ہوگا۔ اعمال نامے ہرانسان کے سامنے ہوں گے۔ ان کو میزان میں تولا جائے گا اور انسان بول اُٹھے گا کہ اللہ تعالیٰ نے عدل کیا ہے، جب کہ ظالم اپنے ظلم کا اعتراف کرکے دوزخ میں داخل ہوں گے۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اپنے خالق و مالک کے سپرد کردے، اور وسوسوں کا جواب اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم پڑھ کر دے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے، آمین!(مولانا عبدالمالک)
س: ۱- ایک عورت نے جس کی عمر ۵۲ سال ہے، اب شادی کی ہے۔ اس کے پاس نقد رقم نہیں ہے۔ ضرورت سے زائد کپڑے اور زیورات ہیں۔ خاوند نے اسے زکوٰۃ کے لیے کہا ہے۔ کیا وہ صرف ایک سال موجودہ کی زکوٰۃ دے یا سابقہ سب برسوں کی؟
۲- زیور بیچ کر حج کے لیے رقم بن جاتی ہے۔ کیا محرم کا انتظار کرے یا خاوند کو ’حجِ بدل‘ کے لیے بھیج دے؟ اس کے خاوند نے پہلے تین حج کیے ہوئے ہیں لیکن چوتھی بار یا بطور محرم کے جانے کے لیے استطاعت نہیں ہے۔
۳- حجِ بدل کی صورت میں میاں بیوی کو برابر کا ثواب ملے گا یا بیوی کے ثواب میں کمی واقع ہوگی؟ بیوی کی صحت حج کی اجازت نہیں دیتی۔
۴- کیا بنک میں زیور شرعاً جمع ہوسکتے ہیں، جب کہ استعمال بھی نہیں کرنے ہیں؟
۵- ایک ۶۶ سالہ مرد ایک بچیوں کے مدرسے کا مہتمم ہے، معلمات سب خواتین ہیں۔ ضرورت پر مہتمم بچیوں کے چہرے کی طرف دیکھ سکتا ہے یا حجاب کرے؟
۶- عشر، زکوٰۃ، نمازوں کا کفارہ اور قربانی کی کھالیں، گلیوں کی تعمیر پر خرچ ہوسکتی ہیں یا نہیں؟ مقامی بچوں کی قرآن خوانی کی تعلیم پر مذکورہ بالا آمدن خرچ ہوسکتی ہے؟ کیا رہایشی بچوں کا مدرسہ (غیرمقامی) مدرسہ کی تعریف میں آئے گا۔
۷- شادی کے بعد عورت کے جہیز میں مرد کا حصہ بھی ہے یا عورت تنہا مالکہ ہے؟ اٹے وٹے (ادلے بدلے) کی شادی ہوئی۔ ایک سال بعد ایک عورت زچگی کے وقت فوت ہوگئی ہے جب کہ دوسری اپنے گھر آباد ہے۔ کیا فوت ہوجانے والی عورت کے جہیز کا خاوند مالک ہے یا والدین واپس لے سکتے ہیں؟
ج: آپ کے سوالات کے جواب درج ذیل ہیں:
۱- زیورات ضرورت سے زائد مال ہے۔ اس لیے اس کی زکوٰۃ اتنے برسوں کی دینا ہوگی جتنے برسوں کی زکوٰۃ باقی ہے۔
۲- حج عورت پر اس وقت فرض ہوتا ہے، جب اس کے پاس اپنے لیے اور محرم کے لیے زادِ راہ ہو یا محرم اپنے طور پر خرچ کرسکتا ہو اور وہ بھی حج پر جا رہا ہو۔ لہٰذا ایسی عورت پر جس کے پاس محرم یا شوہر کے لیے خرچ کی استطاعت نہ ہو اور اپنے خرچ پر جانے والا شوہر یا محرم نہ ہو تو اس پر حج فرض نہیں ہوتا۔
۳- حجِ بدل فرض میں ہوتا ہے، نفلی حج میں حجِ بدل نہیں ہوتا۔ چونکہ آپ نے جس خاتون کے بارے میں سوال کیا ہے اس پر حج فرض نہیں، اس لیے حجِ بدل بھی نہیں۔
۴- بنک میں زیور جمع ہوں تو اس کا عوض نہیں لے سکتے، اس لیے اپنے پاس رکھیں یا بنک میں جمع کرا دیں، اس پر کوئی معاوضہ نہ لیں۔
۵- مہتمم ۶۶ سالہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ طالبات اس سے پردہ کریں، خصوصاً آج کل کے دورِ پُرفتن میں بہت زیادہ ضروری ہے۔
۶- عشر، زکوٰۃ، نمازوں کا کفارہ، قربانی کی کھالوں کا مصرف، فقرا، مساکین اور زکوٰۃ کی مدات ہیں۔ گلیوںکی تعمیر میں یہ رقوم نہیں لگ سکتیں۔ مقامی بچوں کے مدرسے کو عطیات سے چلایا جائے۔ زکوٰۃ صرف ایسے مدارس کو دی جائے جہاں رہایشی طلبہ ہوں اور وہ فقرا اور مساکین ہوں، اپنا خرچ خود نہ اُٹھا سکتے ہوں۔
۷- جہیز عرف میں عورت کی مِلک میں ہوتا ہے، سوائے اس سامان کے جو مرد کے استعمال کے لیے خاص ہو۔ لہٰذا عورت کی وفات کے بعد حصصِ وراثت کے مطابق تقسیم ہوگا۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )