۲۶نومبر سے ۲۹ نومبر تک ممبئی کے پانچ مقامات پر جو قتل عام ہوا، اس نے پوری دنیا کی توجہ ایک بار پھر دہشت گردی کے مسئلے پر مرتکز کردی ۔ بھارتی میڈیا نے اس موقعے کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں تقریباً ۲۰۰بے گناہ لوگ قتل ہوئے ،جن میں صوبہ مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسکواڈ (ATS)کے سربراہ ہیمنت کراکرے بھی شامل ہیں۔ اس واقعے سے ایک ہفتہ قبل خود بھارت کے تحقیقاتی اداروں نے یہ انکشافِ (حقیقت) کر دیا تھا کہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے سنگین واقعات میں بھارت کی انتہاپسند ہندو تنظیمیں اور بھارتی فوج کے سینئر افسر ملوث ہیں۔
فی الحقیقت بھارت میں دہشت گردی کے متعدد واقعات (بشمول سمجھوتا ایکسپریس کے دھماکے اور مالیگائوں کے دھماکوں) کے پیچھے بھارتی انتہا پسند ہندوتنظیم بجرنگ دل کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ مگر ان تنظیموں کے بے پناہ اثر ورسوخ کی وجہ سے ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی ناممکن ہے اور جب بھی ان کی نشان دہی کی جاتی ہے تو ان کو بچانے کے لیے خفیہ ہاتھ سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔
ممبئی میں کارروائی کرنے والے آٹھ دس نوجوان انتہائی پختہ کار کمانڈو تھے ۔ ان کے بارے میں خود بھارت کے ماہرین کی رائے ہے کہ ان کی کارروائی جرأت و دلیری، پیشہ وارانہ مہارت اور اہداف کے حصول کے لحاظ سے بے مثال تھی۔ جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا وہاں عموماً امریکا ،اسرائیل، برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کے اہم ترین افراد ٹھیرتے ہیں۔ اس کارروائی کے ذریعے یورپ، امریکا اور اسرائیل کو بھارت کی پشت پر کھڑا کردیاگیاہے۔ یہ کارروائی ایک ایسے موقعے پر کی گئی کہ بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتہاپسند ہندوتنظیمیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابات جیتنے کے لیے عین اس موقعے پر اس طرح کی کارروائیاں کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ صوبہ گجرات میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات کروانے کے بعد جو انتخابات ہوئے، ان میں مذکورہ پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی ۔ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کو منہدم کرنے کے بعد بھی جنتا پارٹی پورے ملک میں انتخابات جیت گئی تھی، تب سے اس پارٹی کو انتخابات میں کامیابی کی کلید مل گئی اور وہ یہ ہے کہ انتخابات کے موقعے پر مسلم دشمن اور پاکستان دشمن فضا پیدا کردی جائے ۔ اس طرح ووٹروں کی اکثریت کو اپنے حق میں ہموار کیا جاسکتا ہے۔
حکومت پاکستان کی طرف سے ممبئی کے واقعے پر افسوس کااظہار کرنے اور اس کی مذمت کرنے اور بھارتی حکمرانوں کے دھمکی آمیزلہجے کے جواب میں خوشامدانہ طرز عمل اختیار کرنے کے باوجود، بھارتی حکومت نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھیرایا اور کچھ پاکستانی تنظیموں اور چند پاکستانی شہریوں کو نامزد بھی کردیا۔ ساتھ ہی پاکستان کے خلاف جنگ کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے عوام اور حکومت کو جنگ کا حقیقی خدشہ محسوس ہوا اور وزیراعظم نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری قومی قیادت کو ایک مجلس مشاورت میں شرکت کی دعوت دی۔ سب ہی جماعتوں نے وزیراعظم ہائوس میں منعقدہ اس مشاورت میں شامل ہوکر قومی یک جہتی اور اتحاد کا بھرپور ثبوت دیا۔ اس مجلس میں شرکا کی اکثریت نے حکومت کو مشورہ دیا کہ سنگین خطرات کامقابلہ کرنے کے لیے حکومتی پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
پاک افغان سرحد قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہماری ایک محفوظ سرحد رہی ہے جس پر ہمیں کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرناپڑا۔ یہاں تک کہ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں میں افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت کی طرف سے بھی، جو عموماً پختونستان کا ڈھنڈورا پیٹنے کی عادی تھی حکومت پاکستان کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ اپنی مغربی سرحد سے بے فکر رہیں۔ اس کی بڑی وجہ خود قبائلی عوام اور افغان عوام کی اسلام دوستی تھی اور وہ پا ک بھارت جنگوں کے دوران پاکستان کے لیے کوئی مشکل پیدا کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ لیکن جب سے نیٹو کی افواج نے افغانستان پر قبضہ جمایا ہے انھوںنے بھارت کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ پاک افغان سرحد پر قونصل خانوں کے نام سے اپنے جاسوسی اور تخریب کاری کے مراکز قائم کرکے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ریشہ دوانیوں کا جال پھیلا دے۔ پاکستان میں ہونے والے دھماکوں میں یہ بھارتی ایجنٹ ملوث ہوتے ہیں اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان دہشت گردی کو عدالتوں سے سزا ملنے کے باوجود حکومتِ پاکستان ان کی رہائی کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ کشمیرسنگھ پرویز مشرف دور میںرہا کیا گیا۔ اب سربجیت سنگھ کے لیے فضا ہموار کی جارہی ہے۔
پرویز مشرف کی یہ پالیسی کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے صف اول کے حلیف ہیںاور امریکا کواپنے اڈے استعمال کرنے ، اپنی فضا کو ان کے ہوائی جہازوں اور ان کے میزائلوں کے لیے کھولنے، انھیں رسد پہنچانے اوران کو اپنے خفیہ اور جاسوسی اداروں کی معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، ملک و قوم کے مفاد کی بجاے امریکا کے مفاد میں تھی۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے ۔ اس پالیسی کے نتیجے میں حکومت نہ صرف افغانستان اور قبائلی علاقوں میں بلکہ اپنے ملک کے ہر حصے اور ہر طبقے میں میں عوام کی تائید سے محروم ہوگئی ہے۔
پاکستان جو روسی تسلط کے خلاف افغان عوام اور مجاہدین کا حلیف تھا طویل عرصے تک لاکھوں افغانوں کی پاکستان کی سرزمین پر موجودگی کے باوجود، داخلی طور پر بدامنی سے محفوظ رہا کیونکہ روس کے خلاف مجاہدین کی مدد کرنے میں پاکستان کے عوام حکومت کی تائید کررہے تھے ۔ لیکن جب روس کے بجاے امریکا اور نیٹو افغانستان پر قابض ہوگئے تو پاکستانی حکومت نے یوٹرن لیا اور مجاہدین اور افغان عوام کے خلاف امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ پالیسی افغان، پاکستانی اور قبائلی عوام کی دینی امنگوں کے خلاف ہے۔ افغان مجاہدین روس کے خلاف جو ایک طویل صبر آزماجنگ لڑرہے تھے اور پاکستانی عوام میں جو عناصر ان کے پشتیبان تھے، وہ افغانستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے تھے اور اس تاریخی آزاداسلامی خطے کو کمیونزم کے چنگل میں جانے سے بچا کر اس کو ایک مکمل اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ان کے لیے امریکی تسلط اسی طرح نامنظور ہے جس طرح روسی تسلط نامقبول تھا۔ لیکن پاکستانی حکومتوں نے کبھی عوامی اُمنگوں کا احترام نہیں کیا۔ اس لیے روسیوں کے نکلنے کے بعد یہ امریکا کے آلۂ کار بن گئے۔ یوں دشمن کو خود پاکستان کے اندر بدامنی پھیلانے کا موقع مل گیا ۔ اگر ہمارے حکمران امریکا کی مخالفت کی سکت نہیں رکھتے تو کم ازکم انھیں امریکا سے معذرت کرلینی چاہیے کہ افغانستان میں امریکی قبضہ برقرار رکھنے میں مدد دینے سے ہم قاصر ہیں کیونکہ یہ پالیسی ہمارے عوام کے لیے قابل قبول نہیںہے اور ہم اگر امریکا سے لڑنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں تو اپنے ملک کے عوام سے لڑنے اور انھیںزیر کرنے کے بھی قابل نہیںہیں۔ پچھلے مہینے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرار داد میں بھی حکومت کو مشورہ دیاگیاتھا کہ قبائلی عوام کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال بند کردیا جائے اور گفت و شنیداور ترقیاتی کاموں کے ذریعے قبائل کا دل جیتنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت سوات ، باجوڑ ،مہمند ایجنسی ،درہ آدم خیل ،کرم ایجنسی اور وزیرستان کے لاکھوں عوام اپنے ملک کے اندر بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان کے خلاف امریکا کی ایماء پر آپریشن جاری ہے ۔ یہ قبائل ہمیشہ پاکستان کے وفادار رہے ہیں اور یہ پاکستان کی فوج کے لیے ایک ریزروفورس اور بازوئے شمشیر زن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خطرے کے اس موقع پر انھیں اعتماد میں لینا ناگزیر ہے۔ دینی جماعتوں کی طرف سے حکومت پاکستان کو یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ اگر قبائل کے خلاف فوجی کارروائی روک دی جائے تو قبائل کو جو محب ِ وطن ہیں، قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کی کسی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
قومی جماعتوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ بھارت کے دبائو میں آکر اپنے شہریوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا خود بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس کے بجاے انھیں بھارت اور بین الاقوامی برادری کے سامنے شواہد پیش کرنے چاہییں کہ کس طرح بھارت ہماری مغربی سرحد پر قونصل خانے قائم کرکے انتشار اور بد امنی پھیلانے کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔
حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا گیاہے کہ ہندستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل کروانے میں مدد کرنے پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں۔ دونوں ایٹمی طاقتوں میں جنگ انسانیت کی تباہی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں کوئی بھی ایسا احمق نہیں ہوگا جوکروڑوں انسانوں کی تباہی اور دونوں ممالک کو بھسم کرنے کے لیے آمادہ ہو۔ اس خطرے کے پیش نظردونوں ممالک مکمل جنگ سے توپرہیز کریں گے لیکن بھارت اپنی عددی اور مادی برتری کے سہارے دوسرے طریقوں سے پاکستان کو مرعوب کرنے کی کوشش کرے گا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے بہانے عالمی جنگ میں بھارت ،امریکا اور اسرائیل کا حلیف ہے ، بھارت ایک ارب کی آبادی کا ملک ہونے کی وجہ سے تجارتی لحاظ سے بھی بڑی منڈی ہے اور اس مادی دنیا میں اصولوں کی بجاے مادی منفعت ہی کو اہمیت حاصل ہے اس لیے عالمی طاقتیں عموماً ان کی موید ہیں لیکن اگر ہم امریکا اور بھارت کی دھمکیوں میں آکر شکست اور پسپائی اختیار کریں گے تو ہمیں اپنے آزادانہ وجود کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے اپنی قوم کو ساتھ لے کر چلنا اور متحد کرنا ضروری ہے ۔وزیراعظم ہائوس میں قومی اتحاد کا مظاہرہ باتوں کی حد تک تو بہت کامیاب رہا لیکن عمل کے میدان میں حکومت نے اب تک کوئی ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھایا جس سے قوم کے اندر کوئی حوصلہ پیدا ہویا جس سے بین الاقوامی برادری کے سامنے ہمارا حقیقی موقف واضح ہوسکے ۔
اس کے برعکس سلامتی کونسل کی ایک کمیٹی نے پاکستان کی دینی جماعت اور خدمت خلق کے ایک بڑے ادارے ’جماعۃ الدعوۃ‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب حسین ہارون کا کہناہے کہ اس سلسلے میں ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں ملا۔ تعجب ہے کہ جب پاکستانی حکومت کو سلامتی کونسل میں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا تو واضح طور پر سلامتی کونسل کی کمیٹی کے یک طرفہ اور ایک نہایت غیرمنصفانہ فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں کیوں اتنی بے تابی دکھائی گئی۔ جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسرحافظ محمد سعید اور ان کے چوٹی کے دس ذمہ داران کو فوراً ہی نظربند کرنے کے احکامات کیوں جاری کیے گئے اور جماعۃ الدعوۃ کے تمام دفاتر کو سربمہر کر کے اس کے اثاثوں کو کیوں منجمد کردیا گیا ہے ۔ یہ اس کے باوجود کیا گیا کہ حکومت کا کہناہے کہ انھیں بھارت کی حکومت کی طرف سے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے، جن سے جماعۃ الدعوۃ یا لشکر طیبہ کے ممبئی کے واقعات میںملوث ہونے کا ثبوت مل سکتاہو۔ حکومت امریکا کا ایک نمایندہ نیگروپونٹے اسلام آباد میں بیٹھ کر سلامتی کونسل کی نامزد کردہ تنظیموں اور ان کے افراد کے خلاف کارروائی کی نگرانی کررہا تھا۔ ساتھ ہی برطانیہ کاوزیرخارجہ بھی اس مقصد کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔ برطانوی وزیر خارجہ کی رعونت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اس نے مطالبہ کردیا کہ عسکریت پسندوں سے پوچھ گچھ کرنے کا اختیار برطانوی پولیس کو دیا جائے۔اس دوران بھارتی ائیرفورس نے نہایت دیدہ دلیری سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے حکومت کومرعوب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جو حکومت مغربی سرحد پر امریکا کے میزائل حملوں اور ان کے ڈرون طیاروں کے بلاروک ٹوک حملوں پر زبانی احتجاج کرنے سے بھی قاصر ہے اس سے کوئی کیوں گلہ کرے کہ انھوںنے بھارت کے فوجی طیاروں کی پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کو ’تکنیکی غلطی‘ قرار دے کر بھارت کو اس جارحانہ کارروائی سے بری کردیا ہے۔
موجودہ عالمی اور علاقائی تناظر اور سلسلہ وار وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے، اور اس کے کافی شواہد موجود ہیں کہ بین الاقوامی طاقتوں نے امریکا کی سرکردگی میں پاکستان کے بارے میںیہ فیصلہ کرلیا ہے کہ یہ ملک اپنے اسلامی نظریے اور ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ناقابلِ قبول ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ دستور اور موجودہ شکل میں پاکستان کا قائم رہنا امریکا اور اسلام دشمن طاقتوں کے مفاد میں نہیں ہے، لہٰذا:
(i) اس کے حصے بخرے کیے جائیں۔
(ii) اسے اسلامی ریاست کی بجاے سیکولر سٹیٹ بنا دیا جائے ۔
(iii) اس کی ایٹمی طاقت کو نیست و نابود کردیا جائے یا کم از کم اپنے کنٹرول میں لے لیا جائے۔
ملک کے موقر اخبارات میں ایسے مضامین اور رپورٹیں شائع ہو رہی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ بین الاقوامی سازشی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر ایسی قوتیں موجود ہیں جو مشرقی پاکستان کے سانحے کو دہرانا چاہتی ہیں اور سالمیتِ پاکستان کے خلاف سازش میں شریک ہیں۔ پاکستانی قوم اس امریکی ایجنڈے کامقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے لیکن پاکستان کی موجودہ انتظامیہ اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے اندر اتنی صلاحیت ہے نہ جرأت و ہمت کہ امریکا کے مذموم عزائم سے نمٹنے کے لیے مناسب حکمت عملی طے کرے اور قوم کو آنے والے اس خطرے سے خبردار کرے بلکہ موجودہ صاحبانِ اقتدار توتذبذب اور بے یقینی کا شکار ہیں ۔ یہ تذبذب، بے یقینی، بزدلی اور ایمان کی کمزوری ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے ۔ تباہی سے بچنے کے لیے اللہ کی مدد اور قومی بیداری کی ضرورت ہے۔
اِن تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ o (محمد۴۷:۷) اگر مدد کرو گے تم اللہ کی تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور جما دے گا مضبوطی سے تمھارے قدم ۔
اللہ کی مد د کے لیے لازم ہے کہ ہم ابھی سے وہ کلمہ پڑھ کر اپنی قوم کو پکاریں جو عین جنگ کے وقت ایوب خان کو یاد آگیا تو پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی ۔ اس وقت کا انتظار کرنے کی بجاے سب لوگ سچے دل سے لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کا ورد کرتے ہوئے میدان میں نکلیں تو شکست خوردگی کی فضا اچانک یقین اور اعتماد کی فضامیں بدل جائے گی ، اللہ کی مدد آئے گی ، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی فوج کو یاد دلائیں کہ وہ اپنے شعار (motto) ’ایمان ،تقویٰ اورجہاد فی سبیل اللہ‘ کو صرف لکھا ہوا کافی نہ سمجھے، بلکہ اس پر عمل پیرا ہو اور پھر ہم فوج کو اپنی قوم کے خلاف امریکی جنگ لڑنے سے واپس بلالیں۔
فوج کو قبائل سے لڑا کر، جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر چڑھائی اور وہاں مسلمان بچیوں کے قتلِ عام کے ذریعے دینی جماعتوں کی تائید سے محروم کرکے اور اب کشمیر ی تحریک مزاحمت میں سرگرم جہاد کے جذبے اور شہادت کے شوق سے سرشار مجاہدین کی حمایت سے دستبردار ہونے پر مجبور کرکے یکہ و تنہا کردیاگیا ہے۔ اس موجودہ حالت میں ہماری فوج ملک کے اندر سیکورٹی بحال کرنے پر قادر نہیں ہے۔ ملک کی حفاظت کے لیے فوج اور قوم کی یک جہتی لازم ہے ۔ سیکولر اور لادین عناصر کو پاکستان کی بقا سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ وہ ایک سیکولر ہندستان میں رہتے ہوئے زیادہ آرام محسوس کریں گے اور امریکا اور بھارت کے زیر سایہ رہنے میں بھی انھیں کوئی عار نہیں ہوگا۔ اس ملک کا استحکام اور اس کی بقا انھی لوگوں کو عزیز ہے جو اسے اسلام کا قلعہ اور مسلم امت کے اتحاد کی علامت سمجھتے ہیں۔ انھی کے نزدیک اس ملک کے لیے جان و مال کی قربانی دینا سعادت دارین ہے۔ ان شاء اللہ یہ ملک قائم رہے گا اور اسلام کا مضبوط قلعہ بنے گا۔ مایوسیوں کے اندھیروں میں امیدوں کے چراغ روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ دین سے وابستگی اور اللہ و رسولؐ سے وفاداری ہی سے زندگی کی حقیقی حرارت ملتی ہے۔ مفکرِپاکستان علامہ محمد اقبال نے اس نکتے کی یوں تشریح کی ہے:
ایں نکتہ کشایندہ اسرار نہان است
ملک است تن خاکی و دیں روح روان است
تن زندہ و جاں زندہ ز ربط تن و جان است
باخرقہ و سجادہ و شمشیر و سناں خیز
ازخواب گراں خواب گراں خواب گراں خیز
از خواب گران خیز!
(یہ نکتہ پوشیدہ رازوں کو کھولنے والا ہے کہ تن خاکی ملک ہے اور دین اس کی روح ہے۔ جسم و جان ایک دوسرے کے ربط کے نتیجے میں زندہ رہتے ہیں۔اس ربط کو قائم رکھنے کے لیے سجادہ اور خرقہ (اسلامی تہذیب کی علامتیں)اور شمشیر و سنان (سامانِ جہاد) لے کر اٹھ کھڑے ہوں اور گہری نیند سے بیدار ہوجائیں۔)
ایسے خطرات اور چیلنج جب کسی زندہ قوم کو پیش آتے ہیں تو وہ ان کی خوابیدہ طاقتوں کو بیدار کرنے، انھیں جھنجھوڑنے اور انھیں قربانیوں پر آمادہ کرنے کے لیے مہمیز کاکام دیتی ہیں۔ اس لیے فارسی کی ایک ضرب المثل ہے کہ ع
عدو شرے برانگیزد کہ خیر ما دراں باشد
(خدا کرے کہ دشمن ایک ایسا شر برپا کردے کہ اس میں ہماری خیر ہو)۔
اس وقت جو خطرات ہمیں درپیش ہیں، وہ ہمیں اپنے طرز عمل کو یکسر تبدیل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم نے اپنی قوم کے نصف حصے کو غربت اور جہالت کے غار میں پھینک رکھاہے۔ ہمارے امرا اورسرمایہ دار اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے اپنی قوم کو محروم کررہے ہیں۔ ہماری فوج کے اعلیٰ افسر آسایشوں کی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں اور وہ عام لوگوں سے الگ تھلگ ایک دوسری دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمارے قومی وسائل پر ایک مراعات یافتہ طبقے کا مکمل قبضہ ہے۔ ہم اپنی قومی زبان سے محروم ہیں۔
ملک و قوم کے دگرگوں حالات اور ملک میں موجود بادشاہ گروں کے خود غرض طبقے کا تجزیہ کرنے کے بعد انگریزی معاصر ڈان میں ایک تجزیہ نگار اس کا حل پیش کرتے ہوئے گوہرافشانی کرتی ہیں :
اس وقت ریاست کا ڈھانچا موجود ہ سسٹم کے وزن کے نیچے دب کر بیٹھ رہاہے۔ ریاست کے انہدام کا یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک موجودہ سیاسی نقشے اور اقتدار کے سرچشموں کی نئی صورت گری نہیں کی جاتی۔ ریاست کو بھی نئی شکل میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کو مکمل ناکامی سے بچانے کی یہ واحد صورت ہے ۔ نکتہ آغاز کے طور پر یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ وفاق مزید نہیں چل سکتا۔ (روزنامہ ڈان، ۲۸نومبر ۲۰۰۸ء)
یہ سوچ ایک تجزیہ نگار کی آزادانہ سوچ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کے سیکولر طبقے کی بارے میں امریکی دانش وروں کی سوچ کی عکاس ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف رجوع کریں ۔ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک، اپنے رب اور اپنے پالنہارسے دُور ہو گئے ہیں۔ قرآن ہمیں پکارتا ہے :
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ o (الحدید ۵۷:۱۶) کیا مومنین کے لیے وہ وقت نہیں آپہنچا ہے کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے نرم ہوجائیں۔
امریکی دانش وروں کے زیر اثر سیکولر تجزیہ نگار ہمیں بتاتے ہیں کہ فیڈریشن مزید نہیں چل سکتی۔ نئے سرے سے ریاست کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظریے کی بجاے سیکولرزم کے نظریے کے تحت پاکستان کو مختلف ریاستوں کے کنفیڈریشن میں تبدیل کیا جائے جنھیں الگ ہونے کا حق حاصل ہو۔ جس طرح یہ طبقہ، (سرخ و سفید سامراجیوں کی خواہشات کے مطابق) اسلامی ممالک کو لسانی بنیادوں پر ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے نام سے مزید تقسیم کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم کردینے کا متمنی ہے۔ اس کامقابلہ کرنے کے لیے اُمت ِ واحدہ اور ع
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
کے تصور کو ایک عملی حقیقت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ امت مسلمہ ایک حقیقت ہے۔ اسلام ایک عالمگیر قوت ہے جو مشرق و مغرب میں اپنی حقانیت کے بل بوتے پر تیزی سے پھیل رہاہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو بڑی سے بڑی قربانی پر آمادہ کرنے کی قوت رکھتاہے۔ اس کے ماننے والے کروڑوں انسان جو دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں، اپنے آپ کو ایک قوم سمجھتے ہیں جو ’وحدت آدم‘ کے قرآنی نظریے پر ایمان رکھتے ہیں اور جو توحید کے عقیدے سے سرشار ہیں۔ جنھیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات دنیا کی ہردوسری شے سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ امت موجودہ عالمی فساد کو واقعتا ایک عالمی نظام میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس امت کے اسی تعمیری جذبے کو ابھارنے اور عالم انسانیت کو اس سے متعارف کرانا اس دور اور اس عہد کی ضرورت ہے:
فریادِ افرنگ و دل آویزیِ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ
معمارِ حرم! باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
از خوابِ گراں ، خوابِ گراں ، خوابِ گراں خیز!
از خوابِ گراں خیز!
(افرنگ اور اس کی دلآویزی سے فریاد! افرنگ کی دلربائی اور حیلہ گری سے فریاد! ساری دنیا افرنگ کی چنگیزی سے ویران ہوچکی ہے، معمارِ حرم! جہان کی ازسرِنو تعمیر کے لیے اُٹھ۔ اس خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں سے بیدار ہو، خوابِ گراں سے بیدار ہو۔)