جنوری ۲۰۰۹

فہرست مضامین

اسلامی فکروثقافت کی قرآنی بنیادیں: علم و تفقّہ

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | جنوری ۲۰۰۹ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

اسلامی فکروثقافت کی سب سے نمایاں پہچان اور خصوصیت اس کی روایت ِ علم ہے جس کا اوّلین اعلان پہلی وحی میں یوںکیا گیا: ’’پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیداکیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی، پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا‘‘ (العلق ۹۶: ۱-۵)۔ ان پانچ انقلابی آیات میں قرآنِ کریم کے بھیجنے والے خالقِ کائنات نے اسلام اور دیگر مذاہب کے بنیادی فرق کو سمجھاتے ہوئے یہ اعلان فرما دیا کہ انسان کے بنیادی وظائف اور فرائض میں علم، پڑھنا اور تلاوت کرنا اولین حیثیت     رکھتا ہے، جب کہ مذہب کو بالعموم مشرق و مغرب میں اندھی تقلید، مافوق الفطرت کرشماتی امور اور رسوم و رواج اور مخصوص مراسمِ عبودیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آج بھی علمی ذہن کو مذہبی ذہن کی  ضد سمجھا جاتا ہے اور اگر کسی کے بارے میں کہا جائے کہ وہ مذہبی انسان ہے تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اندھی پیروی کرنے والا اور سائنسی اور علمی معاملات سے غیرآگاہ شخص ہے۔

اس ثقافت ِ علم میں وحی الٰہی کو بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کی اشاعت اور توسیع کے لیے قلم کو ذریعہ قرار دیا گیا تاکہ قبلِ اسلام عرب میں جس قولی روایت (oral tradition) کا چرچا تھا،   اس سے آگے نکل کر اب کتاب اور قلم کے ذریعے علم کی ترویج و اشاعت کی روایت کو متعارف  کرایا جائے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ قرآنِ کریم نے عربوں کے اُس غرور و ناز کو بھی  دعوتِ مبارزت دی جو انھیں اپنی لسانی مہارت پر تھا اور انھی کی زبان میں ایک ایسی تقریر و تحریر پیش کر دی جس کے مقابل تمام شعرا اور ادیب مل کر بھی دس آیات بلکہ ایک آیت حتیٰ کہ ایک آیت جیسی ایک بات بنانے سے بھی قاصر رہے اور اس علمی اعجاز کو تاریخ کی قید سے آزاد کر کے قرآنِ کریم نے نہ صرف نازاں عربوں کو بلکہ بعد کے آنے والے تمام لسانی ماہرین کو یہ دعوتِ عام دے دی کہ وہ اس جیسا کلام اور پیغام اگر بنا سکتے ہوں تو بناکر دکھائیں۔ یہ علمی چیلنج ہر دور میں بہ شمول دورِحاضر قرآنِ کریم کے وحی من اللہ ہونے کی ایک بولتی ہوئی دلیل کے ساتھ ساتھ قرآنِ کریم پر غور کرنے اور تدبروتفکر کے ذریعے اس کے پیغام کو سمجھنے کی ایک عالمی دعوت بھی ہے۔

اس روایت ِ علم کی طرف البقرہ میں بھی اشارہ کیا گیا تھا جب فرشتوں سے تبادلۂ خیالات کے دوران ان سے کہا گیا کہ ذرا ان چیزوں کے نام تو بتائو، جو انسان کو پہلے سے تعلیم کردیے گئے تھے، فرشتوں کا جواب یہی تھا کہ وہ اپنے محدود علم سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ چنانچہ ان سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کے احترام میں صاحب ِ علم انسان کو سجدہ کریں (البقرہ ۲:۳۴)۔ یہ علم نہ تو تجربی تھا نہ قلبی واردات کا نتیجہ، اور نہ ظن و گمان پر مبنی بلکہ وہ معروضی علم تھا جسے وحی کا نام دیا گیا اور جو اوامر و نواہی کو جاننے کا مطلق ذریعہ قرار پایا۔

قرآنِ کریم میں سوا آٹھ سو سے زائد مقامات پر علم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ ان مختلف مقامات کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو پہلی بات یہ نظر آتی ہے کہ حقیقی اور مطلق علم کا مصدر و منبع وحی ہے۔ چنانچہ سورۃ الرحمن میں فرمایا گیا: ’’انتہائی مہربان اسی نے قرآن کی تعلیم دی ہے‘‘ (۵۵:۱-۲) اس علم وتعلّم کو جگہ جگہ حکمت کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے۔ گویا تعلیم و حکمت انسانیت کی دو اہم بنیادی ضرورتیں ہیں۔ انبیاے کرام ؑ کی بعثت کا مقصد بھی علم و حکمت کی روایت کو فروغ دینا بیان کیا گیا: ’’درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے، اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴)

ذریعۂ علم کو وحی سے وابستہ کردینے کے نتیجے میں قرآنِ کریم نے علم کے ان دیگر ذرائع کی محدودیت کو بربناے دلیل کھول کر رکھ دیا جن کی بنیاد پر قبلِ اسلام اور بعد کی غیرالہامی ثقافتیں وجود میں آئیں۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ دورِ جدید کی تہذیب اپنا ماخذ مادیت، ٹکنالوجی اور تجربی علم کو بتاتی ہے چنانچہ ہر وہ شے جو تجربے اور مادی پیمانے پر پوری نہ اُترتی ہو سیکولر تہذیب کی  نگاہ میں شک و شبہے کی تہذیب بن جاتی ہے۔

قرآنِ کریم نے وحی کو اس کی معروضیت (objectivity) اور خود خالقِ کائنات کا کلام ہونے کی بنا پر علم کے اعلیٰ ترین مقام پر رکھا ہے اور علم کی تمام دیگر اقسام کو وحی کا تابع قرار دیا ہے۔ یہاں یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس بنا پر آیات کون اور آیاتِ قرآنی میں کوئی تضاد ہوسکتا ہے کیونکہ کائنات کی ہرشے بجاے خود برضا و رغبت یا بغیر رضامندی اللہ وحدہٗ لاشریک کو اپنا رب      مانتے ہوئے اپنے مسلم ہونے کا اعلان کرتی ہے: ’’اب کیا یہ لوگ اللہ کا دین چھوڑ کر کوئی اور  طریقِاطاعت چاہتے ہیں حالانکہ آسمان اور زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۸۳)

قرآن وضاحت کے ساتھ یہ بات بیان کرتا ہے کہ رب کریم نے ہردور کے لحاظ سے اپنے منتخب کردہ انبیاء و رسل کو علم و حکمت سے نوازا، کسی کو پرندوں اور حشرات الارض کی زبانیں سمجھنے کا علم دیا اور کسی کو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اللہ کے حکم سے صحت یاب کرنے کی صلاحیت دی (المائدہ ۵:۱۱۰) خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خصوصاً خطۂ عرب میں ادبی روایت اپنے عروج پر تھی اور ادیب، قصہ گو اور شعرا معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ اس دور کا ایک عالمی چیلنج ادبی کمال تھا لیکن قرآنِ کریم نے اس ادبی چیلنج سے آگے جاکر نہ صرف حکایت ِبلیغ بلکہ ایسی ہدایت انسانوں کے سامنے کھول کر رکھ دی جو اپنی عالم گیریت، ہمہ گیریت اور جامعیت کے لحاظ سے تاحیات اپنی نظیر آپ رہے۔

اس روایت ِعلم کے اثرات براہِ راست انسانی شخصیت اور طرزِعمل میں ظاہر ہوئے۔ چنانچہ قرآن اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے خشیت کرتے ہیں‘‘ (فاطر۳۵:۲۸)۔ علم کی درجہ بندی اور مراحل کا تعین آسان کام نہیں ہے لیکن قرآن روایت ِعلم کو مستحکم کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھاتا ہے کہ انسان جتنا چاہے علم میں اضافہ کرتا چلا جائے لیکن علم کے تمام مدارج و منازل سے گزرنے کے باوجود انسان خالقِ علم سے زیادہ علیم نہیں ہوسکتا۔ سورئہ یوسف (۱۲:۷۶) میں کہا گیا: ’’ہم جس کے درجے چاہتے ہیں، بلند کردیتے ہیں۔ اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحبِ علم سے بالاتر ہے‘‘۔

گویا علم کی ہر نوع اور قسم میں درجہ کمال تک پہنچ جانے کے بعد بھی انسان اُس صاحب ِ علم ہستی کے قریب نہیں پہنچ سکتا، جسے پہاڑ کی تہوں میں پوشیدہ کیڑے کی ضروریات اور انسان کی خوابیدہ خواہشوں تک کا مکمل علم ہے۔

یہ روایت ِعلم کسی ایک نقطۂ عروج پر پہنچ کر سانس نہیں لیتی بلکہ مسلسل ترقی کی طرف مائل رہتی ہے۔ اہلِ ایمان اپنے رب سے ہرلمحہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ ’’اور دعا کرو کہ اے رب مجھے مزید علم عطا کر‘‘(طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)۔ قرآنِ کریم جس علمی روایت کو قائم کرنا چاہتا ہے اس کی بنیاد الہامی ہدایت ہے۔ یہ ہدایت ایک جانب انسان کے لیے ایک منطقی اور علمی ضرورت ہے تو دوسری جانب یہ عقل کی پہنچ اور حدود کا بھی تعین کرتی ہے۔ چنانچہ انسانی عقل وحی کی ضرورت، اہمیت اور کردار کو تسلیم کرتی ہے اور اپنی داخلی کیفیت کی بنا پر وحی کو وصول تو کرسکتی ہے، تخلیق نہیں کرسکتی۔ نتیجتاً رسوخ علمِ وحی کی صداقت کا شعور پیدا کرتا ہے مگر ’’ان میں جو راسخون فی العلم (پختہ علم رکھنے والے) ہیں اور ایمان دار ہیں وہ سب اُس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو اے نبیؐ! تمھاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی‘‘ (النساء ۴:۱۶۲)۔ فکر، ذکر، علم اور شعور کے بار بار بیان کرنے کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ قرآن انسان کو توہمات، ظن وگمان اور آبائی رسوم و رواج سے آزاد کر کے عقل و عدل کی بنیاد پر اپنے معاملات پر غور کرنے اور نتائج اخذ کرنے پر اُبھارنا چاہتا ہے، چنانچہ قرآنِ کریم آیاتِ کائنات کا تذکرہ ہو یا انسان کے لیے مقرر کردہ حدود وقوانین کا بیان گفتگو کا خاتمہ بالعموم اس نکتے پر کرتا ہے کہ یہ جو باتیں تمھیں سمجھائی جارہی ہیں، یہ اس لیے ہیں کہ تم عقلی رویہ اختیار کرسکو۔ بیوہ اور مطلقہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ اس کی وضاحت کرنے کے بعد فرمایا گیا: ’’اس طرح اللہ اپنے احکام تمھیں صاف صاف بتاتا ہے، امید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام  کرو گے (لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ) (البقرہ ۲:۲۴۲) ’’گویا سمجھ بوجھ کا رویہ، تعقل کا طریقہ اختیار کرنا  مطلوب و مرغوب ہے اور ایسا نہ کرنا، غیرعقلی رویہ اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کوناپسند ہے۔ یہی وجہ ہے جب تک اُمت مسلمہ کا قلبی اور فکری تعلق قرآنِ کریم کے ساتھ قریبی رہا، وہ نہ صرف قرآنِ کریم کے مفہوم و مدعا کو سمجھنے میں کامیاب ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ کائنات اور ماحول میں پائی جانے والی اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیوں کا اِدراک کرنے اور اعلیٰ سائنسی ایجادات کرنے میں دوسروں سے آگے نکل سکی۔ ’’جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اور زمین، زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریائوں اور سمندروں میں رواں رہتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے مُردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور زمین میں ہرقسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہوائوں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بناکر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۶۴)

اسی بات کو ذرا مختلف پیرایے میں یوں کہا گیا: ’’وہی زندگی بخشتا ہے، وہی موت دیتا ہے، گردشِ لیل ونہار اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ کیا تمھاری سمجھ میں بات نہیں آتی (اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ) (المومنون ۲۳:۸۰)۔ اسی بات کو سورئہ نور (۲۴:۶۱)، سورئہ مائدہ (۵:۵۸) اور سورئہ نحل (۱۶:۶۷) میں سیاق و سباق کے کچھ فرق کے ساتھ بیان کیا گیا۔ مجموعی طور پر ان آیات پر غور کیا جائے تو واضح طور پر قرآن کا مدّعا یہی نظر آتا ہے کہ وہ انسان کو سوچ سمجھ اور عقل کے مناسب استعمال کی طرف پکار پکار کر بلا رہا ہے۔ سورئہ نحل میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابِ ہدایت کو   بطور ایک نشانی کے بیان کرتے ہوئے آسمان اور زمین میں موجود نشانیوں، حیوانات کے ذریعے انسان کو ملنے والے فوائد کے تذکرے میں لقومٍ یومنون ، لقومٍ یسمعون، لقومٍ یعقلون اور لقومٍ یتفکرون کے الفاظ کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر قابلِ مشاہدہ نعمت پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عقل، سماعت اور فکر کا استعمال کرتے ہوئے دعوتِ فکر دی جارہی ہے۔ فکر، قلب اور عقل کا یوں بار بار دہرایا جانا ایک جانب ان کے درمیان بنائی ہوئی نظری دیواروں کو شعور سے خارج کرتا ہے اور دوسری جانب ان تمام وسائل و ذرائع کا استعمال انسان کو متحرک، productive اور pro-active بننے کی دعوت دیتا ہے۔ عقل وفکر کا یہ استعمال حیاتِ انسانی میں تقلید اور میکانکی طرزِعمل کے دخل کو کم سے کم تر کرتے ہوئے شعوری، عقلی اور علمی رویّے کو رواج دیتا ہے۔ یہ طرزِعمل مذہب کے روایتی تصور یعنی بربناے عقیدہ کسی چیز کو مان لینے کی ضد ہے۔ دینِ اسلام کا ایک امتیاز اس کی علمی روایت میں عقل، شعور، تجربے کا سرگرمی کے ساتھ استعمال کرنا اور علمی کاوشوں کے نتائج کے ذریعے انسانیت کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ اس سلسلے میں صحت، تعلیم، ثقافت، دفاع، معیشت، سیاست غرض ہرہرشعبۂ حیات میں علمِ وحی اور عقل و شعور کے ساتھ اجتہاد کے ذریعے نئے اورقابلِ عمل حل تلاش کرنا، اسلامی علمی روایت کا ایک اہم کارنامہ ہے۔

اسلامی ثقافت و تہذیب کے نشوونما میں ذکروفکر کے بعد علم اور عقل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان تمام عناصر میں ایک قریبی اندرونی ربط وتسلسل پایا جاتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کی توثیق و تصدیق اور تکمیل کرتے ہیں اور ایک کلیت پسند (holistic) ثقافت کو وجود میں لاتے ہیں۔ قرآنِ کریم ان تمام عناصر کو تفقّہ کی اصطلاح میں یک جا کردیتا ہے۔ چنانچہ تفقّہ یا گہرے فکری تجزیاتی تحقیقی عمل میں علم و فکر، ذکر و شعور اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور نتیجتاً نئی فکر اور علم وجود میں آتے ہیں۔

تفقّہ میں عموماً سمجھنے اور رمزآشنائی کا مفہوم پایا جاتاہے۔ چنانچہ سورئہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور پاکی کے تذکرے جو سات آسمانوں میں پائے جاتے ہیں۔ بیان کرنے کے بعد، فرمایا گیا: ’’کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۴۴)۔ فاسقین اور منافقین کے غیرعقلی طرزِعمل پر تنقید کرتے ہوئے قرآنِ کریم فرماتا ہے: ’’اگر انھیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں: اے نبیؐ! یہ آپؐ کی طرف سے ہے۔ کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی‘‘ (النساء ۴: ۷۸)۔ سیاق و سباق کے اختلاف کے ساتھ یہی مفہوم سورئہ انعام کی آیت ۶۵ میں نظر آتاہے۔ چنانچہ یعلمون اور یفقھون کا مفہوم کسی شے کی حقیقت تک پہنچنے اور کسی معاملے کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرنے کا نظر آتا ہے۔

قرآن میں دین میں گہری تحقیق، سوچ اور فکر کے عمل کو کسی خاص طبقے یا جماعت سے مخصوص نہیں کیا گیا ہے، جب کہ اسلام سے قبل ہندوازم میں اسے نسلی اور طبقاتی طور پر برہمن کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا۔ یہودیت نے گو اسے نسلی استحقاق قرار نہیں دیا، لیکن ربی کو معاشرے میں عملاً وہ مقامِ تقدس حاصل ہوگیا جس میں وہ صرف تورات سمجھنے اور سمجھانے والا قرار پائے۔ اسلامی ثقافت و تہذیب میں تفقّہ یعنی انسان کے معاشی، سیاسی،معاشرتی مسائل بشمول عبادات و فرائض پر غور کرنے کے بعد ان کے مقصد، حکمت اور زمانے کے لحاظ سے مناسب انداز میں سرانجام دینے کے عمل کو تفقّہ قرار دیا گیا۔ قرآنِ کریم لقومٍ یفقھون کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو اس سے کوئی نسلی، طبقاتی گروہ مراد نہیں لیتا بلکہ اُمت ِمسلمہ کے ہرفرد کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ دین کی گہری فکر اور سمجھ پیداکرنے کے لیے قرآن و حدیث اور دیگر علوم و مسائل پر غور کر کے نتائجِ فکر اخذ کرسکے۔ چنانچہ سورئہ انعام میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نعمتوں، ستاروں کے ذریعے سمندر اور صحرائوں کی تاریکی میں راستے معلوم کرنے، انسان کو ایک جان سے پیدا کرنے اور اعلیٰ ترین ساخت کے ساتھ بنانے کا تذکرہ کرنے کے بعد اسے لقومٍ یفقھون ’’سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں‘‘ کے لیے نشانیاں قرار دیتا ہے (الانعام ۶:۹۸)۔ قرآنِ کریم میں تفقّہ اور غوروفکر کی یہ دعوت فکری جمود اور تقلید کا رد اور تنقیدی ذہن پیدا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

جو لوگ ماخذ دین پر غوروفکر نہیں کرتے اور اندھی پیروی میں لگے رہتے ہیں ان پر سخت تنقید کرتے ہوئے قرآنِ کریم خبردار کرتا ہے کہ: ’’انسانوں اور  ِجنوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے سینوں میں دل ہیں، مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے اس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانور ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کھوئے ہوئے ہیں‘‘۔ (الاعراف ۷:۱۷۹)

یہاں قرآنِ کریم نے انسان کے ذرائع علم و فکر میں بصارت، سماعت اور فواد کے تذکرہ کے ذریعے تفقّہ کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے غوروفکر کے مراحل کو بتانے کے بعد یہ بات سمجھائی کہ اگر بصارت، سماعت اور قلب یا دماغ کا صحیح استعمال نہ کیا جائے تو انسان اور حیوان میں کوئی وصفی فرق باقی نہیں رہتا بلکہ انسان حیوان کی سطح سے بھی گر جاتا ہے کیونکہ بہت سے حیوان ایسے ہیں جو محض بصارت کی بنیاد پر خطرات سے بچ جاتے ہیں اور بعض سماعت کی بنیاد پر خطرات کا شکار نہیں ہوتے جب کہ عقل و شعور اور فکر سے عاری انسان اللہ کی طرف سے دی گئی سماعت و بصارت اور تجزیاتی و عقلی صلاحیت کو استعمال نہ کرنے کے نتیجے میں خود کو حیوانات کی سطح سے بھی نیچے لے جاکر آنکھ دیکھی مکھی کھانے سے بھی نہیں شرماتا اور فواحش و منکرات کی من مانی تاویلات کر کے وہ طریقے اختیار کرتا ہے جن سے حیوانات بھی احتراز کرتے ہیں۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جو تعذیب کے طریقے انسان انسانوں کے لیے اختیار کرتا ہے، جنسی لذت کے وہ انداز جو نہ صرف غیرفطری ہوں بلکہ ہرتہذیب میں ناپسند کیے جاتے ہوں دھڑلے سے استعمال کرتا ہے، مسکرات اور مخدرات کا استعمال کبھی شیشے کے نام سے کبھی کسی اور نام سے ایجاد کر کے کھلے عام فخر کے ساتھ کرتا ہے، یہ وہ سب انداز ہیں جنھیں قرآن کی ثقافت و تہذیب، اخلاقی بنیاد پر رّد کرتی ہے اور انسان کو تفقّہ، غوروفکر، تنقیدی ذہن کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کی دعوت دیتی ہے۔

قرآنی ثقافت و تہذیب تفقّہ، منظم غوروفکر کرنے کے عمل کو نہ ایک ذہنی تفریح یا ذہنی شطرنج سمجھتی ہے اور نہ اسے کسی خاص طبقے تک محدود کرتی ہے۔ گویا اس ثقافت کا مزاج ہی تحقیق و جستجو کے ذریعے تلاشِ حق ہے۔ یہ ذہنوں کو روایت پرستی سے آزاد کرتی اور منظم طور پر ذکروفکر کے ذریعے ایسی تربیت فراہم کرتی ہے جس کے بعد مسائل کا منہ دیکھتے رہنے کے بجاے مسائل کے مناسب اخلاقی اور عملی حل خود چلتے ہوئے سامنے آجائیں۔

سورئہ توبہ میں اہلِ ایمان کو دعوتِ جہاد دینے کے بعد یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ گو جہاد افضل ترین عبادت ہے، لیکن جس مقصد کے لیے جہاد کیا جا رہا ہے یعنی قیامِ عدل، طاغوت اور ظلم و شرک کو مٹاکر خالقِ کائنات کی دنیا میں اس کے قانون کا نفاذ، اُس کو سمجھنے اور اس کے نفاذ کے لیے کارکن تیار کرنے کی غرض سے اہلِ ایمان کی ایک جماعت شہر میں دین کا شعور، مسائل سے آگاہی اور مشکلات کو دُور کرنے کے لیے الہامی ہدایت کو سمجھنے کی غرض سے تفقّہ، تحقیق،تذکیر و تفکیر میں مصروفِ عمل ہو اور جب مجاہدین جہاد سے واپس لوٹیں تو ان کی تعلیم و تربیت کے ذریعے انھیں نظامِ اسلامی کے نفاذ کے لیے تیار کریں۔ گویا یہاں معاملہ اہلِ سیف اور اہلِ قلم میں انتخاب کا نہیں ہے  بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری کے طور پر ان اہلِ سیف کو رموزِ قلم سے آگاہ کرنا ہے جو علمِ حقیقی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی قیادت کی ذمہ داری کے حقوق ادا کرسکیں اور اللہ کی زمین پر اُس کی مرضی کے مطابق نظام رائج کرسکیں۔ قرآنی تہذیب و ثقافت کا یہ پہلو منفرد ہے کہ وہ زندگی کے ہرہرعمل میں غوروفکر کے بعد لائحہ عمل اختیار کرنے پر زور دیتی ہے اور اس غرض کے لیے ادارتی مدد اور ایسی تنصیبات (institutions) قائم کرنا چاہتی ہے جو اس عمل کو تواتر کے ساتھ جاری رکھ سکیں، چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اور کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہرحصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ (تفقّہ فی الدین) پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔ (التوبہ ۹:۱۲۲)

قرآنِ کریم مسلسل یہ اصرار کرتا ہے کہ اہلِ ایمان فکر کریں، علم حاصل بھی کریں اور اس پر عمل بھی کریں۔ تحقیق و تنقید اور تجسسِعلمی کو اختیار کریں۔ شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس پر یہ نہ کہا گیا ہو کہ تم ایسی قوم کیوں بن رہے ہو جو عقل کا استعمال نہیں کرتی، علم کی طرف راغب نہیں ہوتی، شعوروآگہی سے کام نہیں لیتی اور اس پر متواتر زور نہ دیا گیا ہو۔ اس حقیقت ِ واقعہ سے یہ بات بلاخوف تردید ثابت ہوتی ہے کہ اگر قرآن و حدیث کے احکامات، تعلیمات اور ترغیبات کواختیار کیا جائے یعنی ان کی لفظی اور معنوی اطاعت کی جائے تو مسلم ذہن میں نہ تو غلو پیدا ہوگا نہ اندھی تقلید، نہ تحقیق و جستجو سے بھاگ کر ماضی میں پناہ لینے کی خواہش۔ بلکہ ہر وہ فرد جو مسلم ہو یا غیرمسلم قرآنی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجے میں ایک علم کا شیدائی، تحقیق کا مردِ میدان اور غوروفکر کرنے والا حسّاس، باشعور، اللہ کا بندہ بنے گا۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ کی قرآن و سنت سے دُوری اور قرآن وسنت کے اس pro-active پہلو کو نگاہ سے اوجھل کردینے کی بنا پر وہ فکری زوال رونما ہوا جس سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کی رفتار سُست ہوکر ترقی ٔ معکوس میں تبدیل ہوگئی۔ قرآنی ثقافت و تہذیب اپنے اس حرکی اور جوہری پہلو کی بنا پر دنیا کی وہ واحد تہذیب ہے جو روایت علم و تحقیق کو بربناے وحی  اپنے ہر ماننے والے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک فریضہ قرار دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تفقّہ فی الدین فرضِ کفایہ کی حیثیت سے ایک متفق علیہ کے طور پر ۱۵ سو سال سے اُمت مسلمہ کے شعور کا حصہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے شعور کا استعمال نہ کرے اور جان بوجھ کر روایت پرستی کا لبادہ اوڑھ کر اپنی مسلکی شخصیت پر فخر کرتے ہوئے اپنے مسلک کے خول میں بند رہنے اور صرف اپنے مسلک کو ’الحق‘ سمجھنے کے خواب میں مگن رہے۔ اسلامی ثقافت و تہذیب کی بنیاد جن الہامی اصولوں پر ہے، اگر انھیں نظرانداز کیا جائے گا تو اُمت ِمسلمہ لازمی طور پر اندھی تقلید کا شکار ہوگی۔

قرآنی ثقافت و تہذیب کے فکری اور علمی پہلوئوں پر غور کیا جائے تواس ثقافت کی معروضی بنیاد زیادہ روشن ہوتی جاتی ہے۔ بالعموم دنیا کی تہذیبوں اور ثقافتوں کو ان کے مخصوص خطوں، تاریخی ادوار یا اقوام سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں یہ رومیوں کی تہذیب ہے، یہ ماوراء النہر کی تہذیب ہے، یہ چین کی ثقافت ہے، یہ ہندو دیومالائیں ہیں، یہ Judia میں پروان چڑھنے والی ثقافت ہے، یہ بازنطینی تہذیب ہے وغیرہ۔ لیکن قرآنی ثقافت وہ واحد تہذیب ہے جس کی جڑیں زمین میں نہیں، کہیں اور ہیں اور اتنی پایدار اور مضبوط ہیں کہ ہردم شجرطیبہ کے بڑھنے، تناور ہونے اور رحمت بننے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ وحی الٰہی کایہ کردار قرآنی تہذیب، ثقافت کو ایک منفرد مقام سے نوازتا ہے جس پر مزید غوروفکر کی ضرورت ہے۔ (جاری)