شریعت ِ اسلامی کی یہ ایک مستقل اسپرٹ ہے کہ وہ زندگی میں اپنا پورا غلبہ بلاشرکت غیرے چاہتی ہے اور اگر غیراللہ کا کوئی اقتدار انسانوں پر اپنا دامن پھیلانا چاہتا ہے تو وہ اپنے متبعین کو اس کا باغی دیکھنا چاہتی ہے، نہ کہ مطیع و وفاشعار۔ جس نظامِ حق کو گائے کی قربانی جیسے معمولی مسئلے میں غیراللہ کی مداخلت گوارا نہیں ہے، وہ آخر اسے کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ سیاست اور معیشت اور معاشرت کے اہم مسائل میں خدا سے سرکشی کرنے والی کوئی قوت اپنی مرضی کو اللہ کے بندوں پر نافذ کرے۔
شریعت ِ اسلامی کی یہی اسپرٹ ہمیشہ نظام کفروجاہلیت کے خلاف اربابِ حق کو صف آرا کرتی رہی ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی پوری ہوتی رہی ہے کہ میری اُمت میں جہاد قیامت تک جاری رہے گا، اور نہ کسی عادل کا عدل اسے ختم کرسکے گا نہ کسی ظالم کا ظلم۔ یہی اسپرٹ ہمیشہ تجدیدِ اسلام کی تحریکوں کی محرک رہی ہے اور اسی نے صالحین کو ماحول کی خوفناکیوں کے آگے جھک جانے سے روکا ہے۔
مگر جہاں یہ اسپرٹ مسلمانوں میں کمزور ہوگئی ہے وہاںانھوں نے اپنی اسلامیت میں کتربیونت کرکے ہر قسم کے نظام ہاے طاغوت کو نہ صرف یہ کہ گوارا کرلیا ہے، بلکہ حد یہ کہ اسے چلانے اور مستحکم رکھنے اور اس کا تحفظ کرنے کی خدمات تک سرانجام دینے کے لیے تاویلیں کرلی ہیں۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ گائوکشی اگر طاغوت کی روک سے مباح کے بجاے واجب ہوجاتی ہے تو پھر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نظام کا قائم کرنا جو پہلے ہی فرض اور بہت بڑا فرض ہے، باطل کی طرف سے کسی مزاحمت کے پیدا ہوجانے پر دین کے ہرفرض سے بڑا فرض ہوجاتا ہے اور اس سے چشم پوشی کرکے اگر مسلمان ہزار نفلی عبادتیں بھی کرے تو وہ بے معنی ہیں۔
درحقیقت کسی غیرالٰہی طاقت کی مداخلت فی الدین چاہے کتنے ہی چھوٹے معاملے میں ہو، مسلمان کے عقیدۂ توحید پر براہِ راست ضرب لگاتی ہے ... ظاہر ہے کہ اس اعلان پر مسلمان کا امن و سکون سے بیٹھے رہنا تک اس کے ایمان کو مشتبہ کردیتا ہے، کجا یہ حال کہ اس اعلان کے اعلانچی خود مسلمان ہوں بلکہ دوسروں سے بالجبر اسے منوانے کے لیے اپنی قوتیں باطل کے ہاتھ فروخت کریں۔ پس اصلی مسئلہ قربانیِ گائو کا نہیں ہے، بلکہ عقیدۂ توحید کی حفاظت کا سوال ہے، اور اس کی حفاظت میں کوتاہی کر کے ہم کس اخروی بہبود کی امیدیںقائم کرسکتے ہیں! (’رسائل و مسائل‘، مولانا مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۲۹، عدد ۵، ذی القعدہ ۱۳۶۵ھ، اکتوبر ۱۹۴۶ء، ص۵۹-۶۰)