جنوری ۲۰۰۹

فہرست مضامین

افواج میں خواتین کی بھرتی امریکی تجربے کا ایک مطالعہ

ہیلن بینڈکٹ | جنوری ۲۰۰۹ | مغربی معاشرہ

Responsive image Responsive image

ترجمہ وتبصرہ: سلیم منصور خالد

دنیا کے سامنے اپنی قابلِ قبول تصویر (soft image) پیش کرنے کے شوق اور اپنے کو ’روشن خیال‘ ثابت کرنے کے لیے پاکستان کے مقتدر طبقے نے جو اقدامات کیے ہیں، ان میں سے ایک افواجِ پاکستان میں صرف تعلیم اور میڈیکل کے شعبوں میں نہیں، بلکہ خاص لڑاکا (combatant) شعبوں میں خواتین کی بھرتی ہے۔ اس کی حکمت یا مصلحت تو حکمران ہی جانیں، ہمیں تو یہ خیال آتا ہے کہ کیا ملک میں صحت مند مردوں کی کمی پڑگئی ہے، یا وہ سب ختم ہوگئے ہیں کہ محاذ پر عورتوں کو بھیجنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔

عصرِحاضر کے ’روشن خیال‘ مرد کی مجبوری ہے کہ اسے گھر سے باہر نفس کی تسکین کا سامان چاہیے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے پورا فلسفۂ مساوات مرد و زن گھڑا گیا، عورت بچاری کو یہ پٹی پڑھا دی گئی کہ ہرشعبے میں برابری کے بغیر اس کا کوئی مقام نہیں۔ چنانچہ اسے ہر شعبے اور ہرمیدان میں شمعِ محفل بنا دینا ہی ’ترقی پسندی‘ اور ’روشن خیالی‘ کا مطمحِ نظر قرار پایا ہے۔محفل تو ایک طرف، ٹریفک وارڈن بھرتی کر کے اسے چوراہوں پر کھڑا کردیا گیا ہے، جہاں وہ آٹھ آٹھ گھنٹے کھڑے ہوکر ڈیوٹی دیتی اور ٹریفک کو اشاروں سے کنٹرول کرتی نظر آتی ہے۔

ایک میدان کھیل کا بھی ہے۔ عورتوں کی ہاکی، کرکٹ کے بعد اب فٹ بال کے مقابلے بھی ہو رہے ہیں۔ منتخب لڑکیوں کے باقاعدہ ٹریننگ کیمپ لگائے جاتے ہیں، لطف یہ کہ (پاکستان اور افغانستان کو) اس ’کارخیر‘ میں امریکی محکمہ خارجہ خصوصی بلکہ فراخ دلانہ مالی مدد دیتا ہے اور تقریبات میں ان کا قونصل جنرل مہمانِ خصوصی بنایا جارہا ہے۔

اس تحریر کا موضوع افواج میں خواتین کی موجودگی سے پیدا ہونے والے مسائل و معاملات پر نظر ڈالنا اور ان کا جائزہ لینا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں حقیقی موضوعات پر ریسرچ کی روایت بہت کمزور ہے۔ ہمارے ہاں کسی یونی ورسٹی کے متعلقہ شعبے نے اب تک خواتین کی شرکت کے اس غیرمعمولی مسئلے کے تمام پہلوؤں کا کسی تحقیق میں کوئی احاطہ نہیں کیا، تاہم جن کی برابری کی دوڑ میں ہم یہ سب کچھ کر رہے ہیں کہ اپنی روایات اور عقائد و نظریات بھی پسِ پشت ڈال دیے ہیں، وہاں کا ایک جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔  اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان معاشروں میں، تحقیق کی ایک مضبوط روایت موجود ہے (ترقی کا ایک سبب یہ بھی ہے) اور حقائق کو منظر ِعام پر لانے میں کوئی لحاظ آڑے نہیں آتا۔ اسی لیے، ہمارے ہاں جن امور پر پردہ پڑا رہتا ہے، وہاں اُن پر کھلے عام مباحثہ کیا جاسکتا ہے۔

زیرترجمہ مضمون Why Soldiers Rape? ایک خاتون اسکالر ڈاکٹر ہیلن بینڈکٹ (Helen Bendict) نے اپنی اُس کتاب سے لے کر ۱۳ اگست ۲۰۰۸ء کو انٹرنیٹ پر پیش کیا ہے، جو اپریل ۲۰۰۹ء میں بیکن پریس، امریکا سے شائع ہونے والی ہے۔ مضمون کے مطالعے میں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ اہلِ مغرب یا مغرب زدہ اہلِ مشرق کے ہاں باہمی رضامندی سے بدکاری نہ کوئی جرم ہے اور نہ کسی قسم کا نوٹس لینے کی چیز ہے۔ البتہ زنا بالجبر (rape) ان کے ہاں بھی قابلِ مذمت جرم ہے۔ اس مضمون میں بالجبر ہی کا تذکرہ ہے، بالرضا کا نہیں۔ (مترجم)


امریکی فوج کی کیپٹن جینفر ماچمر (Jennifer Machmer) نے کانگریس کمیٹی کے سامنے حلفیہ بیان دیا ہے کہ: ’’۲۰۰۳ء کے دوران میں، جب وہ امریکی افواج کے ساتھ کویت میں متعین تھی، تب اس پر جنسی حملے کیے گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ دورانِ جنگ یا حالتِ امن، دونوں صورتوں میں مسلح کمانڈروں کے ماتحت ملازمت کرنے والی فوجی خواتین کی جنسی بے حرمتی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورت حال کی نقاب کشائی کے لیے تحقیق کاروں اور ذرائع ابلاغ نے دیانت داری سے کھوج لگایا ہے۔

اس جرم میں زیادہ توجہ کا مرکز فوجی عورتیں ہی رہتی ہیں کہ جن پر ان کے مرد ساتھی، اپنے پیشہ ورانہ تعلقات اورروابط کے دوران میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال ان عورتوں کی ذہنی صحت اور ملازمت کی زندگی دونوں کو سخت صدمہ پہنچاتی ہے، حالانکہ اس شعبے میں خدمات کے  پیشِ نظر بہترین مواقع اور مناسب و معقول حوصلہ افزانی ملنی چاہیے۔یہ موضوع  سنجیدہ بحث کا تقاضا کرتا ہے، مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اس بحث کے اہم اور بنیادی نکات کو سرے سے نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

مسلح افواج میں خواتین پر جنسی حملوں کے اسباب پر غوروفکر کرتے وقت یہ سوچنا ازبس ضروری ہے کہ ان کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ اس تناظر میں ہمارا بنیادی سوال یہی ہے کہ: ’’فوجی مرد اپنی ساتھی فوجی عورتوں پر جنسی حملہ کیوں کرتے ہیں؟‘‘

ہماری عام شہری زندگی میں بھی زنا بالجبر(rape) کا جرم ناپسندیدہ حد تک پایا جاتا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف جسٹس کی رپورٹ کے مطابق ہر چھے میں سے ایک عورت زندگی میں ایک بار اس جرم کا نشانہ بنتی ہے، لیکن اصل حقائق تو اور بھی زیادہ خراب صورت پیش کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ [مغربی] معاشرہ ایک وبائی مرض کی طرح اس فعلِ بد میں  مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔

[امریکی] فوج میں معاملہ اس سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ شہری زندگی کے مقابلے میں، فوجی زندگی میں یہ جرم دو گنا زیادہ ہوتا ہے اوروہ بھی خاص طور پر جنگ کے دنوں میں۔ حالانکہ تربیت کے دوران فوجیوں کو یہی پڑھایا، سکھایا اور بار بار ذہن نشیں کرایا جاتا ہے کہ: ’’یہاں پر انھیں ایک دوسرے کا احترام بالکل اس انداز سے کرنا ہے کہ جیسے وہ ایک خاندان کے افراد ہوں‘‘۔ اس لیے فوج میں زنابالجبر کو عام شہری تصور کے برعکس، ایسے خونی اور محترم رشتے کے ساتھ زنا گردانا جاتا ہے کہ جہاں شادی نہیں ہوسکتی، مگر اس اہتمام کے باوجود صورت حال میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی   نظر نہیں آتی۔ جو مرد عموماً اس گھنائونے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ اپنی شکار کردہ عورتوں سے  بڑی عمر کے ہوتے ہیں اور فوج کے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ گویا کہ انھوں نے اپنے  منصب کی دھونس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ جرم کیا، حالانکہ ان خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ان کی   منصبی ذمہ داری تھی۔

[امریکی] محکمہ دفاع کی رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ زنا بالجبر کی ۹۰ فی صد متاثرہ عورتیں کم تر درجات (جونیئر رینکس) پر ڈیوٹی دے رہی ہوتی ہیں، اور ان کی اوسط عمر ۲۱ برس کے لگ بھگ ہوتی ہے، جب کہ حملہ آور (assailants) مردوں میں کمیشنڈ [بااختیار] اور نان کمیشنڈ افسروں کے علاوہ عام فوجی جوان، جن کی اوسط عمر ۲۸سال ہے، شامل پائے گئے ہیں۔

فوجی زندگی اور فوجی نظم و ضبط میں اس جرم [ریپ] کو روکنے کے لیے سخت گیر قوانین کی موجودگی کے باوجود یہ مرض بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں [امریکی مسلح افواج کے مرکز] پینٹاگون نے اس جرم کی اطلاع دینے کے حوالے سے طریق کار اور دستورالعمل میں مزید اصلاحات کیں، مگر بدقسمتی سے اس سوال پر کہ: ’’آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘ فہمیدہ اور تجربہ کار ماہرینِ سماجیات و نفسیات سے تبادلۂ خیال کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ البتہ اس کا سادہ سا جواب یہ دیا ہے کہ: ’’فوجی کلچر، جنگ کی نوعیت اور حملہ آور مردوں کی نفسیات ہی اس جرم کے محرکات ہیں‘‘۔ مگر یہ ایک ادھورا جواب ہے۔

’’فوجی کلچر اور اس کلچر کا عورتوں کے بارے میں رویہ‘‘ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر منطق اور دانش پر مبنی ۲ رپورٹیں ہمارے سامنے ہیں: پہلی رپورٹ لکھنے والی ڈیوک یونی ورسٹی، امریکا میں قانون کی پروفیسر میڈلین مورس (Madeline Morris) ہیں، جنھوں نے ۱۹۹۶ء میں ایک تحقیقی مقالہ سپردِ قلم کیا: By Force of Arms: Rape, War and Military Culture [اسلحے کے زور پر: زنابالجبر، جنگ اور فوجی کلچر]۔ یہ مقالہ Duke Law Journal [ڈیوک لا جرنل، جلد۴۵، ص۶۵۱، ۱۹۹۶ء] میں شائع ہوا، جب کہ دوسری کتاب ۲۰۰۴ء میں یونی ورسٹی آف کیلے فورنیا میں لوک ورثے (folklore) کی پروفیسر کارل برکی (Carol Burke) نے لکھی، اس کتاب کا نام ہے: Gender, Folklore and Changing Military Culture [جنس ، لوک ورثہ اور بدلتا فوجی کلچر] اور اسے بیکن پریس نے شائع کیا۔

ان دونوں تحقیقات میں، محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:’’ فوجی کلچر اپنی فطرت کے اعتبار سے، اس کلچر کے ناقدین کی تنقید، مشاہدے اور تنقیدی حدِادراک سے بھی زیادہ عورتوں کے لیے توہین انگیز مزاج رکھتا ہے۔ جب یہ فوجی حضرات آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو بعض اوقات ان کے مابین خواتین کی توہین کے اس عمل کے بارے میں مقابلے بازی تک کی نوبت بھی آجاتی ہے کہ کون کس قدر اور کتنے تسلسل سے یہ رویہ اختیار کیے رکھتا ہے‘‘۔ مگر اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ: ’’فوجی کیوں اپنی ساتھی عورتوں سے زنابالجبر کا ارتکاب کرتے ہیں؟‘‘

[۲۰۰۳ء میں مسلط کردہ امریکی] عراق جنگ کے بارے میں ایک جہاں دیدہ جنگی ماہر نے توہینِ نسواں اور زن بے زاری کے اس رویے کو اپنی کتاب Warrior Writers(جنگ جُو قلم کار) میں قلم بند کیا ہے، اور یہ کتاب ۲۰۰۸ء میں شائع ہوئی ہے جس میں امریکی میرین فوجیوں کے بارے میں درج ہے: ’’مشق کرانے والا استاد (ڈرل انسٹرکٹر) اپنے ملنے والے ہم پیشہ فوجیوں کو ایک ڈھیٹ اور بے شرم فرد کی طرح ہر رات عورتوں کی توہین و تذلیل کا سبق دیتا، اور اس طرح نئے زیرتربیت فوجیوں کو میرین فوجی بناتا نظر آتا ہے‘‘۔

پروفیسر میڈلین مورس اور پروفیسر کارل برکی، دونوں ہی اس فوجی زبان کے رموز کو  کھول کر بیان کرتی ہیں جس کا محور، ہر وقت عورتوں کی تذلیل ہے: ’’[امریکی] افواج میں اس وقت ۱۴فی صد عورتیں ملازمت کر رہی ہیں۔ یہاں ڈرل کرانے والے استاد محکمانہ طور پر اس امر کے پابند ہیں کہ وہ زیرتربیت فوجیوں کو نہ نسلی تعصب پر مبنی جملوں سے مخاطب کریں گے، نہ ان کے نام بگاڑیں گے، نہ لعنت، ملامت اور گالی بکیں گے۔ مگر یہی ڈرل استاد، زیر تربیت عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے حسب ِ معمول ذلیل کرتے رہتے ہیں، اور پھر اپنے غصے کے اظہار کے لیے پکارتے اور ڈانٹتے ہوئے جو القاب انھیں دیتے ہیں، وہ کچھ اس طرح ہیں: اوفاحشہ(bitch)، ہم جنس زدہ لڑکی، گندی نالی، لونڈیا وغیرہ بلکہ بعض اوقات وہ کسی زیرتربیت لڑکی کو شرم گاہ کے لیے استعمال ہونے والے بازاری لفظ سے موسوم کر کے بھی پکارنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اگر ہم ان فوجی مردوں کی روزمرہ زبان کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ طرزِ تکلم اپنی فطرت میں عورتوں کی جنسی توہین کی آلودگی سے مملو ہونے کے سوا کچھ اور نہیں ہے‘‘۔

یہ فوجی بڑی آسانی سے ہیجان انگیز اور فحش چیزیں (پورنوگرافی) اپنے مطالعے میں لاتے اور ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان فحش چیزوں کی ترسیل اور انھیں اپنے پاس رکھنا امریکی مسلح افواج میں قانونی طور پر ممنوع ہے۔ لیکن یہ چیزیں فوجیوں کو آسانی سے، ڈاک کے ذریعے یا شہری اربابِ تعلق کے ذریعے مل جاتی ہیں۔ ڈیوک یونی ورسٹی کے اسکالر پروفیسر میڈلین مورس کے مطابق: ’’ہوش مندی سے دیکھا جائے تو فوج میں فحش اشیا کی ترسیل، گردش اور زنا بالجبر میں اضافے کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ ان فوجیوں کو عشروں سے عورت کی جنسی تذلیل کے نغمے کھلے عام گنگناتے دیکھا جاسکتا ہے‘‘۔

فوج کی ایک سپاہی میکیلا مونٹویا (Mickiela Montoya) جو ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۶ء کے دوران میں ۱۱ماہ تک عراق میں امریکی افواج کے ساتھ خدمات انجام دیتی رہی، وہ اس منظرنامے کو ایک دوسرے انداز سے بیان کرتی ہے: ’’اگر تم ایک عورت ہو تو پھر ایک فوجی مرد کی نگاہ میں تمھاری تین ہی حیثیتیں ہیں: ایک جنسِ آوارہ ، ایک نمایشی چیز یا پانی بہانے کی جگہ۔ ایک ہم منصب فوجی نے مجھے یہ بتایا: میں یہ سوچتا ہوں کہ مسلح افواج میں عورتوں کا وجود مردوں کو سمجھ دار بنانے کے لیے ایک فرحت انگیز شیرینی سے زیادہ کچھ نہیں‘‘۔ اسی جوان نے مجھے یہ بھی بتایا کہ: ’’ویت نام کی جنگ کے دوران امریکی فوجیوں کے لیے بدن فروش طوائفیں موجود تھیں، مگر عراق کی جنگ میں ہمیں    یہ سہولت دستیاب نہیں، اسی لیے فطری طور پر ہمارا رخ اپنی فوجی عورتوں کی طرف ہی ہوتا ہے‘‘۔

گوشت خور درندوں کے ہاتھوں شکار کا نشانہ بننے والے جان داروں کی طرح ہی، فوجی کلچر میں عورت کی حیثیت کا مشاہدہ کرنے کی متعدد مثالیں سامنے آتی ہیں۔ انسانی تاریخ کی جنگوں میں عورتیں ایک جنسی مالِ غنیمت کی طرح فاتح فوجیوں کے ہاتھ لگتی تھیں۔ اس لیے خود اپنی افواج میں اپنی ہی فوجی عورتوں کو جب اذیت ناک جنسی تجربے سے گزرنا پڑتا ہے تو انھیں حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ عشروں اور زمانوں سے وہ اِسی فعل کا نشانہ بنتی چلی آرہی ہیں۔

  •   ویت نام کی جنگ اور اس کے بعد لڑی جانے والی [امریکی] جنگوں میں عسکری خدمات انجام دینے والے سابق فوجیوں کی ایک نفسیاتی معالج ڈاکٹر ماورین مردوخ (Maureen Murdoch) کا مطالعہ ۲۰۰۴ء میں تحقیقی مجلے ملٹری میڈیسن (Military Medicine) میں شائع ہوا ہے۔ اس مقالے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ: ’’مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی ۷۱ فی صد عورتوں نے بتایا ہے کہ ملازمت کے دوران ان کو زنا بالجبر کا شکار کیا گیا یا پھر جنسی طور پر نشانہ بنایا گیا‘‘۔
  •  ۲۰۰۳ء میں ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر اینے سیڈلر (Anne Sadler) اور اس کی معاون ساتھیوں کے ویت نام جنگ سے لے کر عراق جنگ میں حصہ لینے والی امریکی فوجی عورتوں کے مشاہدات کے مطابق: ۳۰ فی صد عورتوں نے برملا اعتراف کیا کہ دورانِ ملازمت ہم زنا بالجبر کے صدمے سے دوچار ہوئیں۔ یہ مطالعہ امریکن جرنل آف انڈسٹریل میڈیسن (AJIM) میں شائع ہوا۔
  •  ۱۹۹۵ء میں ڈاکٹر ماورین مردوخ نے ایک تحقیقی مطالعہ کیا۔ اس کے مطابق عراق پر حملے، اور اس سے قبل کی جنگوں میں شریک [امریکی] فوجی عورتوں کے تجربات کے مطابق: ’’۹۰ فی صد کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا‘‘۔
  •   ۲۰۰۷ء میں سابق فوجیوں کے ادارے ’ڈیپارٹمنٹ آف ویٹرن افیرز‘ (DVA)نے ایک سروے کرایا جس میں معلوم ہوا کہ عراق اور افغانستان کی جنگ سے واپس لوٹنے والی سابق فوجی عورتوں میں سے ۴۰ فی صد عورتوں نے کہا کہ دورانِ ملازمت ہماری آبروریزی کی گئی۔

امریکی محکمہ عدل (ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس) کے ۲۰۰۵ء میں تحقیقی مطالعے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اس فضا کے سبب صرف ۶۰ فی صد عورتیں مقدمے درج کراتی ہیں اور ۴۰ فی صد عورتیں خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتی ہیں۔ فوجی زندگی کا معاملہ اس سے زیادہ بدتر جبر اور مخصوص گھٹن کی فضا سامنے لاتا ہے۔ایسی فضا میں رپورٹ کرنے والی خواتین کو پست، کمزور اور ڈرپوک (cowardly) نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا؟

ان وجوہ کے باعث [امریکی] افواج میں عورتیں آبروریزی کے ۸۰ فی صد واقعات کی کبھی رپورٹ درج نہیں کراتیں، اور پینٹاگون نے جس چیز کو اپنی رپورٹ ۲۰۰۷ء میں پیش کیا ہے، وہ ایک بڑے سمندری پہاڑ کا سطح آب پر نظر آنے والا محض چھوٹا سا حصہ ہے۔

گذشتہ دو برسوں کے دوران میں نے ۴۰ یا اس کے لگ بھگ سابقہ فوجی عورتوں کے انٹرویو کیے ہیں۔ ان میں سے دو عورتوں نے بتایاکہ: ’’عراق اور افغانستان میں تعیناتی کے دوران ہمارے ساتھی مردوں (کامریڈز) نے بڑے تسلسل کے ساتھ ہمیں جنسی طور پر ہراساں کیا‘‘۔ ایئرفورس کی سارجنٹ مارٹی ربیرو (Marti Ribeiro) نے ذاتی تجربہ بیان کیا: ’’ملازمت کے آٹھ برسوں میں تربیت، اور ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۶ء تک تعیناتی کے دوران مجھے بے دردی سے مسلسل جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا رہا ہے‘‘۔

اسی طرح ایک سابق فوجی خاتون نے بتایا: ’’آخر تھک ہار کے مجھے اپنی ہی طرح کے لباس میں، اپنی ہی فوج میں موجود دشمن (enemy)سے جنگ ختم کرنا پڑی۔ جہاں میں تعینات تھی، وہاں ایک نان کمیشنڈ سینیر افسر مجھے مسلسل ہراساں کرتا رہا۔ وہ بڑے تسلسل کے ساتھ، موقع پاتے ہی مجھ سے میری جنسی زندگی کے بارے میں سوال داغ دیتا۔ اپنی بیرک میں وقت بے وقت اور بالکل نامناسب اوقات میں مجھے طلب کرکے ایسے سوال کرتا، جن کو پوچھنے کا وہ کوئی حق نہیں رکھتا تھا۔ پھر میرے ایک کرنل صاحب نے کچھ اس انداز سے مجھے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی کہ میں بیان بھی نہیں کرسکتی۔

۲۰۰۷ء میں پینٹاگون نے افواج میں جنسی حملوں کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ: ’’۲۰۰۷ء میں آبروریزی کے ۴۷ فی صد مقدمات، تفتیش کے دوران معقول حوالے نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کردیے گئے، اور صرف ۸فی صد مقدمات فوجی عدالت میں فیصلے کے لیے بھیجے گئے‘‘۔ یہ ادھوری تصویر اس کرب ناک صورت حال کو بخوبی واضح کردیتی ہے جسے جنسی تشدد کی شکار فوجی عورتیں  اپنے کانوں سے سنتی اور آنکھوں سے دیکھتی ہیں۔ عورتوں کے شکاری ان مردوں کو پینٹاگون،  سرزنش کرتے ہوئے عدالتی عمل سے بالا بالا، کچھ انتظامی تادیب کرکے بس فارغ کردیتا ہے۔ اس کے برعکس عام شہری زندگی میں جنسی تشدد کے ۴۰ فی صد مجرموں کو بہرحال سزا مل جاتی ہے۔

اس سنگین صورت حال میں بہتری لانے کے لیے حسب ذیل اصلاحات کو رواج دیا جائے:

  •    خواتین فوجیوں کو احترام دیا جائے اور انھیں ترقیاں دی جائیں۔ ہائی کمان کی طرف سے زیادہ احترام ملنے کے نتیجے میں وہ اپنے نچلے درجات کے مرد ساتھیوں کی زیادتی کا کم شکار ہوں گی۔
  •    فوجی افسروں اور ماتحت فوجیوں کو ذہن نشین کرایا جائے کہ زنابالجبر محض ایک تشدد نہیں، بلکہ جنگی جرم بھی ہے۔
  •    جو مرد اپنی ساتھی عورتوں پر جنسی حملہ کریں انھیں فوج سے برطرف کردیا جائے۔
  •    فوج کے اندر فواحش (پورنوگرافی) کی ترسیل کو سختی سے روک دیا جائے۔
  •     فوجی تربیت اور مشق کے دوران، جنس سے آلودہ زبان اور الفاظ کے استعمال کو ممنوع قرار دیا جائے۔
  •   افسروں کو تربیت دی جائے کہ وہ عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احترام سے پیش آئیں۔
  •   ایسے فوجی صلاح کاروں کو تربیت دی جائے کہ جو فوجی عورتوں اور مردوں کو صرف حالت ِ جنگ ہی میں سہارا نہ دیں، بلکہ اس کے ساتھ ان میں جنسی حملوں کے رجحان کے خاتمے اور بچپن میں پیش آنے والے ناروا رویوں کا نفسیاتی علاج بھی کریں۔
  •   آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ عراق میں جنگ کو ختم کریں۔

تبصرہ از مترجم: اس مضمون کا تحقیقی معیار قابلِ قدر ہے، البتہ فاضل مصنفہ نے آخر میں جو حل تجویز کیا ہے،وہ ادھورا اور تضاد پر مبنی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مقالہ نگار اس الٰہی ہدایت سے آگاہ نہیں کہ جس میں خالقِ کائنات نے عورت اور مرد کو پیدا کرکے، انھیں ان کی فطرت کے مطابق فرائض سونپے ہیں۔

جس تہذیب نے انسان اور کائنات کو محض ایک حادثہ قرار دے کر نسلوں کی نسلیں پروان چڑھائی ہیں، اور انسان کو محض ایک جانور کی ترقی یافتہ شکل گردانا ہے، اور انسانی زندگی کو صرف لطف، سرور اور مادی کشاکش کا ڈراما قرار دیا ہے، وہاں بھلا کیسے اخلاقی معیار اور معاشرتی توازن قائم ہوسکتا ہے۔ اس توازنِ اخلاق و معاشرت کا نقاش تو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے کہ جو کسی مادی فائدے کی طلب و حسرت سے بے نیاز اور اپنی مخلوق کے دلوں میں چھپے رازوں سے باخبر اور انھیں رہنمائی دینے والا ہے۔ یہ رہنمائی اس نے الہامی کتابوں اور پیغمبروں کے ذریعے عطا کی ہے۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کوئی معمولی درجے کا مضمون نہیں ہے، بلکہ حسرتوں، عبرتوں اور نوحوں کی ایک دردناک داستان ہے۔ یہ مضمون تفریح طبع کا سامان مہیا نہیں کرتا، بلکہ قائدانہ مقام کی حامل تہذیب کے رِستے ہوئے ناسور پر نشتر زنی کرتا ہے۔

آخر میں سوال یہ ہے کہ پاکستان کے فعال جنگی اداروں میں عورتوں کی تعیناتی ہمارے کس تہذیبی پیمانے سے مناسبت رکھتی ہے؟ کیا اس دیوانگی کے نتیجے میں ’مزید کرو‘ (do more) کی رسیا وہ مغربی دنیا واقعی ہم پر مہربان ہوجائے گی، جسے اصل چڑ اس بات سے نہیں ہے کہ  ہمارے آئینی یا فوجی اداروں میں عورتوں کو بھرتی کیوں نہیں کیا جا رہا ہے، بلکہ ان کے لیے اصل مسئلہ خود ’مسلمان اور اسلام‘ ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بے چارے مغرب زدہ مسلمان اور خود مغرب میں مسلمان ملک بوسنیا اور کوسووا کے مسلمانوں کو عہدِحاضر کی بدترین قتل و غارت گری کا نشانہ نہ بننا پڑتا۔

اسی طرح یہ حیلے بازی بھی کسی واقعاتی یا فکری دیانت سے مناسبت نہیں رکھتی کہ ایسے تمام فیصلے اکیلے جنرل مشرف نے کیے تھے۔ نہیں، یہ فیصلے لازماً ہماری مسلح افواج کے اداروں ہی نے ’مشرف‘ کی صدارت میں کیے تھے۔ اب ان کے لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ وہ مے خانۂ مغرب کے احوال سے اور اپنے زمان و مکان کے فساد سے عبرت حاصل کریں۔ عورتوں کو پائلٹ بناکر  فضائوں میں اڑانے، اور مسلح افواج میں کمیشن دے کر یونٹوں میں خوار کرنے، اور رینجرز میں بھرتی کرکے سرحدوں کی چوکیداری کرانے یا سڑکوں، چوراہوں اور شاہراہوں پر دوڑانے کے جاہلانہ فیصلوں کو واپس لیں۔ قوم کی بچیوں کو عزت، تحفظ اور آسودگی کے ساتھ خدمات انجام دینے کے متبادل مواقع مہیا کیے جاسکتے ہیں، لیکن انھیں ’نمایشی گڑیا‘ بناکر مغربی فرعونوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی ’روشن خیالی‘ پر مبنی عیاشی کی یہ قوم، یہ ملّت، یہ تہذیب اور یہ دین اجازت نہیں دیتے۔