اسلام اور اہلِ اسلام تقریباً ۷۰ برس تک(۱۹۱۷ء میں روس میں بالشویک انقلاب سے ۱۹۸۸ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی شکست تک) کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف برسرِپیکار رہے۔ان نظریات کے ساتھ اہلِ اسلام نے اپنی جنگ، ذہن کی دُنیا سے نکل کر ذرائع ابلاغ، معیشت، معاشرت، سیاست یہاں تک کہ جنگی میدانوں میں بھی لڑی۔اس جنگ میں کمیونزم اور سوشلزم کو شکست اس لیے ہوئی کہ ان کا غیر فطری اور انسان کے جسمانی اور روحانی مفادات کے خلاف ہونا اہلِ اسلام نے بہت پُر زور دلائل کے ساتھ دُنیا کے تمام اہلِ علم و دانش اور عوام الناس پر ثابت کیا تھا(امریکی اور یورپی ممالک کی مخالفت سیاسی اور معاشی مفادات کے تحت تھی ۔چونکہ ان ممالک میں برسرِ اقتدار طبقات خود بھی لادین اور سرمایہ پرست ہیں، لہٰذا کمیونزم اور سوشلزم کا لادین ہونا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا)۔مذکورہ دونوں نظریات اپنی نوع کے اعتبار سے اصل نظریات نہیں ہیں بلکہ لبرلزم اور سیکولرزم کے محض فروع ہیں۔
کمیونزم اور سوشلزم کا خالق کارل مارکس: ’’ایک غیر مذہبی شخص تھا جس کا باپ ہنرچ خاندانی طور پر ایک یہودی، ایک جرمن شہری اور پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اورفکری طور پر یورپ میں برپا (خدا بے زاری پر مبنی) تحریکِ احیاے علوم کے سرخیل فلسفیوں والٹئیراور کانٹ سے متاثر تھا۔کارل مارکس کے باپ نے یہودی ربیوں کے سلسلۂ نسب سے منسلک ہونے کے باوجود غالباً اپنی پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت ایوینجلیکل عیسائیت میں بپتسمہ لیا اور چھے برس کی عمر میں کارل مارکس کو بھی بپتسمہ دے دیا مگر اپنی عملی زندگی میں وہ ایک سیکولر، یعنی لادین شخص تھا۔ کارل مارکس کے کمیونزم کی شکل میں طبقاتی کش مکش کا علَم بردار ہونے کا پس منظر( یورپ میں ظالمانہ جاگیرداری نظام کی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ۔مضمون نگار) شاید یہ تھا کہ اس کی قوم یہود کے ساتھ یورپ کے تنگ نظر عیسائی مذہبی لوگوں نے ازمنۂ وسطیٰ کے دوران بہت برا سلوک کیا تھا۔عیسائی اہلِ مذہب کے امتیازی سلوک نے اسے نفسِ مذہب ہی سے بے زار کردیا اور وہ بہت جلد مشہور خدا فراموش جرمن فلسفی فریڈرک ہیگل کا خوشہ چین بن گیا‘‘۔ (انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا)
اسلام چونکہ ایک دین(بمعنی مکمّل نظامِ زندگی) ہونے اور انسانوں کے تمام دُنیاوی اُمور میں خدا کی حاکمیت کا قائل اور علَم بردار ہے ،اور لبرلزم اور سیکولرزم کی تو بنا ہی خدا اور حیات بعد الموت سے انکار پر رکھی گئی ہے، اس لیے اسلام کے اصل دُشمن لبرلزم اور سیکولرزم ہیں ۔ مغربی ممالک چونکہ رسمی طور پر عیسائی اور خدا کے قائل ہیں، اس لیے ان ممالک میں حکومت ، معاشرت اور معیشت کی سطح پر لبرلزم اور سیکولرزم کے غلبے کو اہلِ اسلام نے عام طور پر کمیونزم اور سوشلزم کی طرح کا فوری خطرہ نہیں سمجھا۔ مغربی ممالک کا سیکولرزم ، کمیونزم اور سوشلزم کے زوال کے بعد اب خم ٹھونک کر اسلام کے مدمقابل آ گیا ہے۔مغرب کاسیکولر دانش ور طبقہ اور وہاں کے ذرائع ابلاغ حکومتی قوت کی پشت پناہی کے ساتھ دینِ اسلام کے خلاف فکری لڑائی میں مشغول ہیں اور وہاں کی حکومتیں پوری فوجی قوت کے ساتھ اہلِ اسلام پر حملہ آور ہیں۔
اس جنگ میں مسلمان ممالک کے سیکولر حکمران بیش ترسیاست دان اپنے مفادات کی خاطر مغربی طاقتوں کے ہمنوا بلکہ آلۂ کاربنے ہوئے ہیںاور مسلمانوں کی اکثریت لبرلزم اور سیکولرزم کو نہ سمجھنے کے باعث اس لڑائی کو ایک گومگو کی حالت میں دیکھ رہی ہے ۔لبرلزم اور سیکولرزم کے وہ علَم بردار جو مسلمان ممالک کے شہری ہیں عوام الناس کو ایک دھوکے میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔یہ لوگ خدا، رسولؐ، قرآن اور اسلام کا نام لیتے ہیں مگر عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے بدکتے ہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور سیکولر یا لبرل ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ سیاسی ، ادبی، صحافتی اور ثقافتی حلقوں میں اثر و نفوذ رکھتے ہیں اور ذرائع ابلاغ اور حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے نہایت آہستگی اور خاموشی کے ساتھ معاشرے کے تمام شعبوں سے خدا اور اسلام کو بے دخل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔سیکولرزم کی ساخت کے عین مطابق یہ سیکولر حکمران یا دانش ور مسلمانوں کے عقائد ،مراسمِ عبودیت اور رسوم و رواج کی نہ صرف یہ کہ مخالفت نہیں کرتے بلکہ خود بھی ان کو اختیار کر کے عوام کو اپنے متعلق پکّے مسلمان ہونے کا تأثّر دیتے ہیں اور مسلمان عوام اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔آئیے دیکھیں کہ سیکولر اور لبرل ہونے کے دعوے دار مغربی دا نش وروں کے نزدیک سیکولرزم اور لبرلزم کا مفہوم کیا ہے کیونکہ ان اصطلاحات کا وہی مفہوم معتبر ہوسکتا ہے جو ان اصطلاحات کے خالق اور قائل بیان کریں۔
لفظ ’لبرل‘، قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ ’لائیبر‘ ، (liber ) اور پھر ’لائبرالس‘ (liberalis)سے ماخوذ ہے ، جس کا مطلب ہے ’’آزاد، جو غلام نہ ہو‘‘۔آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کا معنی ایک آزاد آدمی ہی تھا۔بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔اٹھارھویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اس کے معنوں میں خدا یا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات سے آزادی بھی شامل کر لی گئی، یعنی اب لبرل سے مرادایسا شخص لیا جانے لگا جو خدا اور پیغمبروں کی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہو، اور لبرلزم سے مُراد اسی آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ اور نظامِ اخلاق و سیاست ہوا جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کرے۔
یہ تبدیلی اٹلی سے چودھویں صدی عیسوی میں شروع ہونے والی تحریکِ احیاے علوم (Renaissance یعنی re-birth)کے اثرات یورپ میں پھیلنے سے آئی۔برطانوی فلسفی جان لاک (۱۶۲۰ء -۱۷۰۴ئ) پہلا شخص ہے جس نے لبرلزم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرزِ فکر کی شکل دی۔یہ شخص عیسائیت کے مروّجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ بنی نوعِ انسان کو آدم کے اس گناہ کی سزا ایک منصف خدا کیوںکر دے سکتا ہے جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔عیسائیت کے ایسے عقائد سے اس کی آزادی اس کی ساری فکر پر غالب آگئی اور خدا اور مذہب پیچھے رہ گئے۔ انقلابِ فرانس کے فکری رہنما والٹئیر (۱۶۹۴ئ-۱۷۷۸ئ) اور روسو (۱۷۱۲ ئ- ۱۷۷۸ئ) اگرچہ رسمی طور پر عیسائی تھے مگر فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے۔ انھی لوگوں کی فکر کی روشنی میں انقلابِ فرانس کے بعدفرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفّظ دیا گیا اور اسے ریاستی اُمور کی صورت گری کے لیے بنیاد بنا دیا گیا۔امریکا کے اعلانِ آزادی (American Declaration of Independence) میں بھی شخصی آزادی کی ضمانت جان لاک کی فکر سے متاثر ہو کر دی گئی ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا، وکی پیڈیا اور اوکسفرڈ ڈکشنری)
یہ لفظ قدیم لاطینی لفظ ’سیکولارس‘ (saecularis) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ’وقت کے اندر محدود‘۔ عیسائی عقیدے کے مطابق خدا کی ذات وقت کی قید اور حدود سے آزاد اور ما ورا ہے۔تحریک احیاے علوم کے دوران یورپ میں جب عیسائیت کی تعلیمات سے بے زاری پیدا ہوئی اور خدا کے انسانی زندگی میں دخل(جو کہ اصل میں عیسائی پادریوں اور مذہبی رہنمائوں کی خدا کی طرف سے انسانی زندگی میں مداخلت کی غیر ضروری ، غیر منطقی، من مانی اور متشدّدانہ توجیہ تھی ورنہ اگر عیسائیت کی تعلیمات وہی ہوتیں، جو عیسیٰ ؑ نے دی تھیں تو خدا کے خلاف بغاوت پیدا نہ ہوتی ) کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی تو کہا جانے لگا کہ چونکہ خدا وقت کی حدود سے ماورا ہے اور انسان وقت کی حدود سے مقیّد ہے لہٰذا انسانی زندگی کو سیکولر، یعنی خدا سے جدا (محدود)ہونا چاہیے۔ ’’اس لفظ کو باقاعدہ اصطلاح کی شکل میں ۱۸۴۶ء میںمتعارف کروانے والا پہلا شخص برطانوی مصنّف جارج جیکب ہولیوک (۱۸۱۷ئ-۱۹۰۶ئ)تھا۔اس شخص نے ایک بار ایک لیکچر کے دوران کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے عیسائی مذہب اور اس سے متعلق تعلیمات کا توہین آمیز انداز میں مذاق اڑایا جس کی پاداش میں اسے چھے ماہ کی سزا بھگتنا پڑی ۔جیل سے رہا ہونے کے بعد اس نے مذہب سے متعلق اظہارِ خیال کے لیے اپنا انداز تبدیل کر لیا اور جارحانہ انداز کے بجاے نسبتاً نرم لفظ ’سیکولرزم‘ کا پرچار شروع کر دیا‘‘۔(انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا اور وکی پیڈیا)
اس اصطلاح کے عام ہوجانے کے بعد پہلے برطانیہ اور پھر تمام یورپ اور دُنیا بھر میں سیکولرزم کے معنی یہ ہوئے کہ ’’انسانی زندگی کے دنیا سے متعلق اُمور کا تعلق خدا یا مذہب سے نہیں ہوتا‘‘اور مزید یہ کہ ’’حکومتی معاملات کا خدا اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔اس اصطلاح کے یہی معنی اب دنیا بھر میں انگریزی زبان کی ہر لغت اور انسائیکلوپیڈیا میں پائے جاتے ہیں اور اسی پر سیکولرکہلانے والے تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔’لبرلزم‘ کے مقابلے میں ’سیکولرزم‘ نسبتاً نرم اصطلاح ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق: یورپ کے ازمنۂ وسطیٰ میں مذہبی لوگوں میں یہ رجحان جڑ پکڑ گیا تھا کہ وہ انسانوںکی فلاح و بہبود سے متعلق دُنیاوی اُمور کو نظر انداز کرتے تھے اور لوگوں کو خدا سے تعلق جوڑنے کی اور ترکِ دُنیا کی تعلیم دیتے تھے۔اس رجحان کے خلاف رَدعمل پیدا ہوا اور یورپ کی تحریکِ احیاے علوم کے دوران میں سیکولرزم نمایاں ہوا اور لوگوں نے تمدّنی ترقی میں زیادہ دل چسپی لینی شروع کی۔ اوکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق اول یہ کہ’’سیکولرزم سے مُراد یہ عقیدہ ہے کہ مذہب اور مذہبی خیالات و تصوّرات کو ارادتاً دُنیاوی اُمور سے حذف کر دیا جائے۔اس کی یورپی فلسفیانہ توجیح یہ ہے کہ یہ ایک ایسا نظامِ عقائد ہے جس میں اخلاقی نظام کی بنیاد کلّی طور پر بنی نوعِ انسان کی دُنیا میں فلاح و بہبود اور خدا اور حیات بعد الموت پر ایمان سے انکار (یعنی ان کے عقائد سے اخراج) پر رکھی گئی ہے‘‘۔دوم یہ کہ ’’اس بارے میں ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ تعلیم خصوصاً وہ تعلیم جو عوامی سرمایے سے دی جا رہی ہو ، مذہبی عقائد اور مذہبی تعلیم کو آگے نہ بڑھائے‘‘۔ ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق سیکولرزم کے معنی ہیں: دُنیاوی اُمور سے مذہب اور مذہبی تصوّرات کا اخراج یا بے دخلی۔
مندرجہ بالا دو اصطلاحات کو مکمل طور پر جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اُس ماحول اور اُن حالات کا جائزہ لیا جائے جن کے باعث یہ اصطلاحات تشکیل پائیں۔ حضرت عیسٰیؑ کی پیدایش کے وقت مغربی اور مشرقی یورپ پربُت پرست(مشرک) رومن بادشاہوں کی حکمرانی تھی۔ حضرت عیسٰی ؑ آسمان کی طرف اُٹھائے جانے سے قبل دنیا میں ۳۰ یا ۳۳ برس رہے۔وہ بنیادی طور پر بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے رسول تھے تاکہ ان کو تورات کی گمشدہ تعلیمات سے از سرِنو آشنا کریں۔ان کی اصل تعلیمات اِس وقت تقریباً ناپید ہیں۔موجودہ عیسائیت اور اس کے عقائدسینٹ پال کی دین ہیں۔سینٹ پال یاپولوس کا اصل نام سائول تھا جو ۱۰ عیسوی میں پیدا ہوا اور تقریباً ۶۷ء میں فوت ہوا۔یہ شخص بنیادی طور پر کٹر یہودی تھا۔یہ کبھی حضرت عیسٰیؑ سے نہیں ملا اور ان کی زندگی میںان کا اور ان کی تعلیمات کا سخت مخالف تھا اور ا ن کو یہودیت کے لیے سخت مضر سمجھتا تھا۔عیسیٰ ؑ کے دنیا سے اٹھا لیے جانے کے بعد یہ شخص عیسائی ہو گیا۔یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں کے درمیان (اپنے خوابوں اور مکاشفات کے ذریعے) اس عقیدے کو عام کیا کہ’’ یسوع مسیح خدا کے ہاں اس کے نائب کی حیثیت سے موجود ہیں اور قیامت کے روز لوگوں کے درمیان فیصلے وہی کریں گے، اور یہ کہ اب نجات اس شخص کو ملے گی جو یسوع مسیحؑ کی خوشنودی حاصل کرے گا۔ اس کے لیے اب موسوی شریعت کی عملاً پابندی ضروری نہیں بلکہ محض یسوع مسیح ؑکے خدا کے بیٹے اور چہیتے ہونے کا عقیدہ ہی نجات کے لیے کافی ہو گا‘‘۔یہی وہ شخص ہے جس نے پہلی بار یہ تعلیم بنی اسرائیل کے علاوہ دوسری اقوام کو دینے کی بھی نصیحت کی۔بنیادی طور پر یہ وہ شخص ہے جسے جدید اصطلاح کی زبان میں ہم سیکولر کہہ سکتے ہیں۔عیسائی مبلغّین کی پہلی کانفرنس ۵۰ء میں منعقد ہوئی(جس میں سینٹ پال نے بھی شرکت کی) جس میں تورات کے کئی احکامات کی پابندی سے غیر اسرائیلیوں کو مستثنیٰ کردیا گیا، البتہ انھیں زنا،بت پرستی اور خون آمیز گوشت کھانے سے منع کیا گیا۔ اس وقت تک حضرت عیسیٰ ؑ کے خدا ہونے کا عقیدہ پیدا نہیں ہو اتھا۔
عیسائیت کے عقائد کی تعلیم اور اشاعت رومن دور میں ممنوع تھی اور مبلغین پر بہت تشدد کیا جاتا تھا۔ تشدّد کا یہ سلسلہ اس وقت رکا جب رومن شہنشاہ کانسٹنٹائن نے تقریباً ۳۱۲ء میں عیسائیت قبول کر لی۔لیکن یہ محض عقیدے کی قبولیت تھی ورنہ کاروبارِ مملکت پرانے رومن طریقے ہی پر چلتا رہا اور اس معاملے میں کسی عیسائی عالم کا کوئی اعتراض ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔عیسائیت کے سرکاری مذہب بن جانے کے باوجود مملکت کے سیکولر ہونے کی یہ پہلی مثال تھی۔اس حکومتی سیکولر زم کی وجہ یہ تھی کہ سینٹ پال کی تعلیم کے مطابق عیسائی عقیدہ اختیار کرنے کے بعد دنیاوی معاملات سے خدا کا تعلق ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ ۳۲۵ء میں نیقیہ کے مقام(موجودہ ترکی میںازنک) پر تقریباً ۳۰۰عیسائی بشپ اکٹھے ہوئے جنھوں نے بحث مباحثے کے بعد اس عقیدے کا اعلان کیا کہ حضرت عیسٰیؑ خدا کے بیٹے اور اس کی ذات کا حصہ ہیں(اس طرح حضرت عیسٰیؑ کے خدا ہونے کا عقیدہ پیدا کیا گیا)۔
تقریباً ۴۷۶ء میں جرمن گاتھ حکمرانوںکے ہاتھوں مغربی یورپ میں رومن سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ گاتھ چونکہ قبائلی طرزِ زندگی کے عادی تھے اس لیے انھوں نے کوئی مرکزی حکومت قائم نہیں کی جس کے نتیجے میں مغربی یورپ میں ہر طرف طوائف الملوکی پھیل گئی۔ہر جگہ چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں اور جاگیرداریوں نے جنم لیا اور باہم جنگ و جِدال شروع ہو گئی۔یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اس عرصے کو یورپ کا تاریک دور یا ازمنۂ وسطیٰ کہا جاتا ہے ۔ اسی دور میں عیسائیت میں پوپ کے منصب کا آغاز ہوا اور اسے مذہبی معاملات میں مکمل دسترس حاصل ہوگئی ، اس کا کہا خدا کا کہا سمجھا جانے لگا۔یہی دور تھا جب مصر کے صحرا میں رہنے والے کچھ عیسائی مبلغّین نے رہبانیت اختیار کی۔ ۵۰۰ء میں سینٹ بینیڈکٹ، روم میں لوگوں کی اخلاقی بے راہ روی سے اس قدر تنگ آ یا کہ اس نے اپنی تعلیم کو خیر باد کہا اور ایک غار میں رہایش اختیار کی تاکہ اپنے نفس کو پاک رکھ سکے۔اس مقصد کے لیے اس نے اور لوگوں کو بھی دعوت دی۔جب ایک اچھی خاصی تعداد شاگردوں کی میسّر آگئی تو ۵۲۹ء میں اس نے باقاعدہ ایک راہب خانے کی بنیاد رکھی اور راہبوں کے لیے ضابطے تحریر کیے جو آج بھی راہب خانوں میں نافذ العمل ہیں۔ان ضوابط میں راہبوں کے لیے شادی کی ممانعت،مہمانوں سے آزادانہ ملنے پر پابندی، مخصوص لباس پہننے کی پابندی،سونے جاگنے،سفر کرنے اور ملنے ملانے، کھانے پینے کے آداب اور طریقے شامل تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ رہبانیت اختیار کرنے والوں نے پاکیِ نفس کے لیے غلو اور اس سے بڑھ کر انسانی جسم و جان پر بے جا پابندیاں اور تشدّد شروع کیا جو کہ انسانی فطرت کے خلاف تھا۔اسی کی تعلیم یہ لوگ عوام کو دیا کرتے تھے۔
رفتہ رفتہ یہ راہب لوگوں اور خدا کے درمیان واسطہ بن گئے اور مذہبی معاملات میں انھیں ایک ناقابلِ چیلنج اختیار حاصل ہو گیا۔ایک طرف ان راہبوں کے دُنیاوی اُمور سے الگ ہو جانے اور خود کو راہب خانوں تک محدود کرنے کے باعث حکومتوں کے لیے سیکولر ہونے کو ایک طرح کا کھلا میدان اور جواز فراہم ہوا، تو دوسری طرف راہبوں ، بشپوں اور پوپ کی اس مطلق العنانی نے اختیار کے غلط استعمال کو جنم دیا اور شہنشاہ کانسٹنٹائن کے عہد میں منعقدہ کونسل آف نیقیہ میں طے کردہ عیسائی عقیدے سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف سخت متشدّدانہ رویّہ اختیار کیا گیا۔ عیسائی دنیا میں سیکڑوں برس تک اس صورتِ حال کے جاری رہنے سے انسانی فطرت میں اس کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی۔پوپ چونکہ اٹلی کے شہر روم میں موجود تھا ، اس لیے تحریک احیاے علوم کا آغاز بھی(چودھویں صدی عیسوی میں) روم ہی سے ہوا۔اس تحریک کے اثرات سے لوگوں نے راہبوں اور پادریوں کی سوچ و فکر سے آزاد ہو کر سوچنا شروع کر دیا۔اس زمانے کے فلسفیوں اور دانش وروں نے دلائل کے ذریعے عیسائیت کے مذہبی عقائد کا غیر عقلی اور غیر فطری و غیر منطقی ہونا لوگوں کے سامنے ثابت کرنا شروع کیا۔سولھویں صدی عیسوی میں بائبل میں دی گئی کائنات اور زندگی سے متعلق بعض معلومات کے سائنسی طور پر غلط ثابت ہونے سے مذہبی عقیدے کی لوگوں پر گرفت بالکل کمزور پڑ گئی۔ یہ بغاوت عیسائیت کے ایسے قوانین اور ضوابط کے خلاف نہیں تھی جو حکومتی معاملات، طرزِ معاشرت، معیشت، وغیرہ سے متعلق ہوتے کہ ایسے قوانین تو عیسائیت میں تھے ہی نہیں بلکہ عیسائیت تو محض ایک عقیدے کا نام تھی جسے نیقیہ کی کونسل نے حضرت عیسٰیؑ کی تعلیم اور توریت کے احکامات کو نظر انداز کر کے سینٹ پال کے خوابوں اور روحانی مکاشفات کے نتیجے میں اختیار کیا تھااور انسان کی نجات کے لیے لازمی قرار دیا تھا۔یہ عقیدہ چونکہ یونانی دیومالا اور یونانی فلسفے کے زیرِ اثر پروان چڑھا تھا، اس لیے جدید سائنسی انکشافات و اکتشافات کی ذرا سی ٹھوکر بھی نہ سہہ سکا۔
یورپ کے عوام چونکہ راہبوں کے غیر فطری مذہبی رجحانات سے تنگ آ چکے تھے اور سارا یورپ عیسائی علما کے صدیوں تک جاری رہنے والے فقہی اور مذہبی جھگڑوں اور لڑائیوں کے نتائج کو بھی بھگت چکا تھا، اس لیے مذہبی عقیدے سے بغاوت یورپ کے اجتماعی ضمیر میں جلد جذب ہوگئی۔ Renaissance ،یعنی تحریک احیاے علوم کا زمانۂ عروج سترھویں تا انیسویں صدی عیسوی ہے۔ اس دور میں مذہب بے زار فلسفیوں، دانش وروں اور فلسفی سائنس دانوں نے بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور یونی ورسٹیاں قائم کیں جن کے ذریعے اپنے خیالات کو عام کیا۔اسی دور میں یورپ نے سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی کی، جب کہ باقی دنیا خصوصاً اسلامی دنیا اپنے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کی آسان کوشی اور علما کی غفلت کے سبب علمی اور سائنسی طور پر پس ماندہ ہوچکی تھی۔یورپ میں مذہب بے زاری خدا کے انکا ر اور انسان کو بندر کی اولادسمجھنے تک جا پہنچی۔اب یورپ میں زندگی کی معراج یہ ٹھیری کہ: انسان اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ساری جدوجہد کرے۔ تمام انسان بھی عام حیوانوں کی طرح حیوان ہی ہیں، لہٰذا اس دنیا میں بقا محض طاقت ور کو نصیب ہوگی۔ (چارلس ڈارون اور ہربرٹ سپنسر اس فکر کے علَم بردار تھے)۔
اس فلسفے کے عام ہو جانے اور سائنس اور ٹکنالوجی کا ہتھیا ر ہاتھ آجانے کے بعد یورپی اقوام کمزوراقوام پر ٹوٹ پڑیں۔مفتوحہ ممالک پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے یورپی اقوام نے وہاں اپنی جدید سیکولر اور لبرل فکر کی ترویج کے لیے کالج اور یونی ورسٹیاں تعمیر کیں۔ مفتوحہ اقوام کے تعلیمی ادارے،اُن کی زبانوں میں تعلیم اور عدالتوں کا نظام موقوف کیا اور معاشرت اور معیشت میں اپنی تہذیب اور اپنے تمدّن کو رائج کیا جسے مفتوح اور مرعوب و شکست خوردہ لوگوں نے قبول کیا۔فاتح اقوام نے رزق کے ذرائع اپنے قائم کردہ جدید سیکولر تعلیمی اداروں کی اسناد کے ساتھ منسلک کر دیے۔ مفتوحہ اقوام کے نوجوان یورپ میں بھی تعلیم حاصل کرنے لگے(طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یورپی اقوام نے اپنے مفتوحہ ممالک میں سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کا اہتمام نہیں کیابلکہ ان تمام ممالک کو آزادی حاصل ہونے کے بعد خود اس کے لیے جدوجہد کرنی پڑی)۔اس طرح یورپ کی خدا اورمذہب سے بغاوت پر مبنی فکر ،ادب، عمرانیات ،فلسفہ، آرٹ اور انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کی تعلیم کے ذریعے تمام دنیا میں پھیل گئی۔ البتہ لوگوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد اب تک دینِ اسلام سے وابستہ ہے اور یورپ کی اس فکر کے خلاف ہے۔مسلمانوں کے ممالک میں اس مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم نے ہرطرف انتشار اور فساد پیدا کردیا ہے۔
افراد، طبقات اور اقوم باہم دست و گریباں ہیں۔ سیکولر نظامِ تعلیم کے نتیجے میں خدا، رسولؐ اور احتساب بعد الموت پر اعتقاد کے کمزور پڑنے سے مادہ پرستی، لذت کوشی، حرص ،ظلم، عریانی و فحاشی، کاروباری ذہنیت ، دھوکا دہی ،قتل و غارت گری اور بد امنی ہر طرف پھیل چکی ہے۔
عیسائیت کے برعکس اسلام محض عقیدے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو مذہب کے بجاے ایک دین بمعنی مکمّل نظامِ زندگی ہے جس کے اجزا قرآن و سُنّت میں پھیلے ہوئے ہیں۔یہ نظام لگ بھگ بارہ سو برس تک دُنیا کے ایک بڑے حصّے پر غالب ،حاکم اور مقتدر رہا۔ بادشاہ یا حکمران اگرچہ مطلق العنان اور سرکش بھی رہے مگر مسلمان معاشروں میںعدالتیں اسی نظام کے مطابق فیصلے کرتی رہیں، بازار میں(غیر سودی) تجارت اس کے قوانین کے مطابق ہوتی تھی، تعلیمی درس گاہوں میں اسی کی تعلیم دی جاتی تھی،معاشرت کا پورا نظام اسی کی ہدایات کے مطابق تشکیل شدہ تھا اور حکمران اِن اُمور کو اسلام کا جزو لاینفک سمجھتے تھے۔دینِ اسلام کی اصل تعلیمات گُم ہوئی ہیںنہ مسلمان علما نے کبھی پوپ کی طرح کسی فرد کو دینی معاملات میں(خدا اور رسولؐکے بجاے)کُلّی اختیارات کا حامل بنایا یا سمجھا، اور نہ مسلم علما نے ترکِ دنیا کے لیے ہی کبھی ایسا پُرتشدد رویّہ اختیار کیا جس سے دینِ اسلام اور علماے اسلام کے خلاف کوئی ہمہ گیر بغاوت پیدا ہوتی۔سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق علوم میں کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن کے خلاف ہو۔عقلِ سلیم (جس کے یہ سیکولر حضرات بہت قائل ہیں) کا تقاضا ہے کہ جو شخص خدا کو کائنات کی اجتماعی ہیئت کا آقا مانتا ہو(ظاہر ہے مسلمان کہلانے کے لیے کلمۂ شہادت پڑھنے والا ایک سیکولر شخص اتنا تو تسلیم کرتا ہی ہے) اسے اسی خدا کے احکام کو انسانی زندگی کی اجتماعی ہیئت میں بھی قابلِ اتّباع ماننا چاہیے کیونکہ انسان خود بھی تو اس کائنات کی اجتماعی ہیئت کا حصہ ہے۔یہ کوئی معقول بات نہیں کہ ایک شخص اسلام سے تو نہ پوچھے کہ اس کے پاس اجتماعی زندگی کے مسائل کا حل ہے یا نہیں لیکن مغرب کی تقلید میں یا مرعوبیت کے سبب، اسلام پسندی کی ’تہمت‘ سے بچنے کے لیے یا دین پسند ہونے کی صورت میں ’انتہا پسند‘ کہلائے جانے کے خوف سے پورے کے پورے دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کر دے۔
اسلامی ممالک میںخدا، حیات بعد الموت اور دینِ اسلام کی دُنیاوی اُمور سے متعلق تعلیمات کے بارے میں آج جوبے اطمینانی پائی جاتی ہے، اس کا سرچشمہ یہی یورپ کی خدا اور اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے برگشتہ فکر ہے جس کی ذرا سخت قسم لبرلزم اور کچھ نرم قسم سیکولرزم کہلاتی ہے۔پاکستان میںسیکولرزم کا نام لیے بغیر بھی بہت سے لوگ ذرائع ابلاغ کو اس کی وکالت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔یہ سیکولر لوگ ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کو کی جانے والی بانیِ پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناح کی محض ایک تقریر کو بنیاد بنا کر اور اس کی غلط اور سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی من مانی تشریح کر کے ان کو ایک آزاد منش(liberal)،غیر دینی(secular)اور محض ایک قومی رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں، تاکہ عوام الناس کو زندگی کے ہر گوشے (خصوصاً حکومت، سیاست، معاشرت اور معیشت )سے متعلق موجود ا سلامی تعلیمات (جنھیں مِن و عَن قبول کرنے میں ان کا اپنا نفس مانع ہے)، اور حق پرست علما کو اسلام سے برگشتہ کر سکیں اور پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی مملکت بننے سے روک سکیں۔
دراصل لبرلزم اور سیکولرزم بھی کوئی بنیادی عقائد نہیںہیں بلکہ محض عیسائی راہبوں کے مذہبی تشدّد کے خلاف رَدعمل کا نام ہیں جو دُنیا کے اباحیت پسند نفس پرستوںکو بہت بھاتے ہیں ۔ وہ جدید تعلیم یافتہ مخلص مسلمان جو کچھ مذہبی افراد کی تنگ نظری یا کوتاہ نگاہی کے شاکی ہیں انھیں سیکولرزم یا لبرلزم کا شکار ہو کرخدا کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنے کے بجاے اسلام کی تعلیمات کا ان کے اصل ماخذ قرآن و حدیث سے مطالعہ کرکے، اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بہرہ ور علماے حق کے ساتھ بیٹھ کراجتماعی زندگی کے ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے جن کا حل ان کے خیال میں کچھ تنگ نظر اور کوتاہ فکر مذہبی لوگوںکے بس کی بات نہیں۔ آج کے دگرگوں حالات میں بقا ، نجات، آزادی، عزت اور سربلندی کا ایک ہی راستہ ہے کہ اہلِ اسلام خود قرآن و سُنّت کے شفاف چشمے کی طرف رجوع کریں اور لبرلزم اور سیکولرزم کے خلاف اسلام کے دفاع کی جنگ ہر محاذ پر لڑیں،اورپھر دُنیا کے عام انسانوں کو اپنی قولی اور عملی شہادت کے ذریعے بتائیں کہ اسلام واقعی خدا کا دیا ہوا حیات بخش نظامِ زندگی ہے جس کے مقابلے میں لبرلزم اور سیکولرزم دُنیا کے انسانوں کو محبت، سکون،امن ، خوش حالی،قناعت،ہمدردی، اطمینانِ قلب، خدا سے تعلق اور روحانی لگائو عطا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔