جنوری ۲۰۱۰

فہرست مضامین

سری لنکا: سنہالی ہندوئوں اور مسلمانوں میں کش مکش

میربابر مشتاق | جنوری ۲۰۱۰ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

ناشپاتی شکل کا جزیرہ سری لنکا، بھارت کے جنوب مشرقی ساحل سے ۳۱ کلومیٹر دُور واقع ہے۔ رقبہ ۶۵ ہزار ایک سو ۶۰ مربع کلومیٹر، جب کہ آبادی ۲ کروڑ سے زائد ہے۔ ۴۵ فی صد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ ملک میں شرح خواندگی ۹۱ فی صد سے زیادہ ہے۔ کولمبو دارالحکومت ہے۔ ملک میں ۶۵ فی صد بدھ، ۱۵ فی صد ہندو، ۹ فی صد مسلمان اور ۸ فی صد عیسائی ہیں۔ نسلی اعتبار سے سنہالی ۷۴ فی صد، تامل ۱۷ فی صد اور عربی النسل مسلمان ۷ فی صد ہیں۔

سری لنکا کے مسلمانوں کے بارے میں مسلم دنیا کا عام طور پر یہ تاثر ہے کہ وہ وہاں امن و سکون سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کو چین، برما، بھارت، تھائی لینڈ جیسے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ بلاشبہہ حکومتی پالیسی میں مذہباً اور نسلاً کوئی تعصب نہیں پایا جاتا مگر سنہالی بدھ اور ہندوئوں نے عملاً مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد مسلمان گھروں سے بے گھر ہوکر  گذشتہ کئی برس سے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔

سری لنکا سے مسلمانوں کا تعلق پہلی صدی ہجری ہی میں قائم ہوگیا تھا اور مسلمان عربوں نے یہاں ساحل پر بستیاں قائم کیں۔ سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے کی وجہ سری لنکا کے مسلمان ہی بنے تھے جن کے جہاز کو سندھ کے ساحل پر راجا داہر کے ڈاکوئوں نے لوٹ لیا تھا۔

سری لنکا کی ایک اور وجۂ شہرت حضرت آدم علیہ السلام سے منسوب پائوں کا ایک نشان بھی ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں اسلام سری لنکا میں تیزی سے پھیلنے لگا۔ شروع میں وہ عورتیں مسلمان ہوئیں جنھوں نے عرب تاجروں سے شادی کی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانوی اور ولندیزی حملہ آوروں کے ذریعے ملایا اور انڈونیشیا سے بھی مسلمان یہاں لائے گئے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہندستان سے بھی مسلمان یہاں پر آئے۔

نسلی طور پر عرب مسلمان سری لنکا میں کُل مسلم آبادی کا ۹۵ فی صد ہیں اور ان کا تعلق شافعی مسلک سے ہے۔ سری لنکا کے مشرقی علاقے میں آباد یہ مسلمان تامل زبان بولتے ہیں، جب کہ مغربی ساحل پر آباد مسلمان، سنہالی اور انگریزی بولتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر تجارت اور زراعت سے وابستہ ہیں۔ مشرقی ساحل پر آباد مسلمان ماہی گیر اور تاجر ہیں۔ ملائی مسلمانوں کی تعداد ۵۰ہزار سے زیادہ ہے جو زیادہ تر ملایا سے ولندیزی فوج میں بھرتی ہوکر آئے اور یہیں آباد ہوگئے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں یہ کُل مسلم آبادی کا ۵ فی صد تھے۔

سری لنکا میں آئینی طور پر مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے اور اہم مذہبی تہواروں پر سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے مذہبی قانون کے مطابق شریعت کورٹس میں تنازعات کے فیصلے کرانے کا حق بھی حاصل ہے۔ حکومت نے اسکولوں میں اسلامی تعلیم کی تدریس کا بھی اہتمام کیا ہے۔ مسلمانوں کی اپنی سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور وہ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی شامل ہیں۔

مسلمانوں، تامل ہندوئوں اور سنہالی بدھوں میں صدیوں تک کسی قسم کے نسلی اور مذہبی تنائو کا ذکر نہیں ملتا۔مذہبی و نسلی تعصب کا بیج یورپی حملہ آوروں نے بویا اور سب سے پہلا مسلم کش فساد جون ۱۹۱۵ء میں ہوا اور یہ مرکزی صوبوں سے مغربی اور شمال مشرقی صوبوں تک پھیل گیا۔ اس فساد کے دوران ۱۴۶ مسلمانوں کو شہید، اور ۴۰۰ سے زائد مسلمانوں کو زخمی کر دیا گیا، کئی سو خواتین کی عصمت دری ہوئی۔

۴ فروری ۱۹۴۸ء کو آزادی کے بعد سنہالی، بدھ حکومت نے جو پالیسی بنائی اس سے تامل مطمئن نہ تھے مگر مسلمانوں نے کسی بھی تنازع سے دُور رہنے کی پالیسی اپنائی۔ اور یہی پالیسی ان کے لیے آنے والے دنوں میں وبالِ جان بن گئی۔

سنہالی حکومت میں تنازع کی ابتدا اس وقت شروع ہوگئی جب تامل زبان کو نظرانداز کرکے سنہالی کو قومی اور سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ سنہالی تعصب کا مزید مظاہرہ اُس وقت ہوا جب جزیرے کا نام سیلون کی جگہ سنہالی زبان میں سری لنکا رکھ دیاگیا۔ تاملوں نے آزادی کی تحریک شروع کر دی اور بھارت نے اس کی پشت پناہی کی کیونکہ بھارت میں ۶۳ ملین تامل ہیں۔

حکومت نے ایک خاص پالیسی کے تحت سنہالیوں کو مسلمان علاقوں میں آباد کرنا شروع کردیا۔ اس اقدام کو مسلمانوں نے اپنے لیے خطرہ سمجھا اور انھوں نے بھی تامل علیحدگی پسندوں کی حمایت کردی۔ ۱۹۷۶ء میں تامل یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ بنا۔ اس کے بعد لبریشن ٹائیگرز آف تامل وجود میں آگئی جس نے بلاامتیاز تمام مذاہب کی نمایندہ تنظیم ہونے کا دعویٰ کیا۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اِن میں شامل ہوگئی۔ مسٹر گاندھی کی کانگریس کی طرح لبرشن ٹائیگرز کا یہ دعویٰ بھی   غلط نکلا اور تامل مسلمان مایوس ہوگئے۔

کولمبو حکومت نے بھی تامل ہندوئوں اور تامل مسلمانوں میں خلیج بڑھانے کی حکمت عملی اپنائی۔ اس طرح تامل ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات شروع ہوگئے۔ مسلمان بستیوں پر حملے، قتل، اغوا اور لوٹ مار شروع ہوگئی۔

۱۹۸۰ء کی دہائی میں حکومت نے مسلمانوں کا تحفظ کرنے کے بجاے مسلمانوں سے کہا کہ تاملوں کے حملوں کے خلاف خود اپنی حفاظت کریں۔ اس سلسلے میں حکومت نے مسلمانوں کو ہتھیار بھی فراہم کیے۔ ان ہتھیاروں کی فراہمی کا ایک مقصد تامل ہندوئوں میں خلیج کو بڑھانا تھا۔ تامل ہندوئوں اور سنہالی بدھوں نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک اور بعض مسلمان تنظیمیں مسلمانوں کی عسکری تربیت کے لیے اسلحہ اور رقوم فراہم کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اپنی حفاظت کے نقطۂ نظر سے عسکری گروپوں نے جنم لیا جس سے مسلمانوں تامل ہندوئوں اور سنہالی بدھوں کے درمیان فسادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مسلمانوں کو اقلیت میں ہونے کی وجہ سے بھی مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ پُرامن رہنے والے مسلمانوں کو ایک اندھی جنگ میں جھونک دیا گیا اور اب مسلمانوں کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ عسکریت پسند مسلمانوں کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ ان حالات میں جہاں سری لنکا کے مسلمانوں کو صبر اور حکمت سے معاملات کو لے کر چلنے کی ضرورت ہے وہاں اپنے مسائل کے حل کے لیے اسلامی دنیا کی بھی توجہ چاہتے ہیں۔