سوال: ملکی معاملات میں حکومت کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اگر حکومت ملک کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے کردار ادا نہ کر رہی ہو اور مخلص اور دیانت دار قیادت بھی میسر نہ ہو، جب کہ سوسائٹی میں ایسے رویوں کا سامنا بھی ہو جو دین سے لاتعلق ہوں، تو ایک عام آدمی اصلاحِ معاشرہ اور حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: آپ نے اپنے سوال میں جس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ اکثر مسلم ممالک میں حکومت ایسے افراد کے قبضے میں ہے جو اسے اپنی میراث سمجھتے ہیں اور عموماً آمریت اور سیکولر طرزِ حکومت کے دل دادہ ہیں۔ ظاہر ہے ایسی حکومتوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا خیرمقدم کریں گی یا تحریکاتِ اسلامی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گی، ایک غیرحقیقت پسندانہ بات ہوگی۔ ان حکومتوں کی کوشش تو یہی رہتی ہے کہ نظامِ تعلیم ہو یا نظامِ معیشت و معاشرت، ہر ہر شعبۂ حیات میں وہ مغرب کی اندھی نقالی کریں تاکہ انھیں ’روشن خیال‘ اور ’اعتدال پسند‘ سمجھا جائے۔ ان حکومتوں کی پالیسیوں کا مقصد مغرب کی غلامی کو مستحکم کرنا اور اسلامی فکر رکھنے والی جماعتوں کے کام میں مشکلات پیدا کرنا ہی رہا ہے۔
ایسے حالات میں آپ کا یہ سوال کہ ایک عام شخص اصلاحِ معاشرہ اور حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کیا کرسکتاہے، ایک بہت عملی سوال ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ غور طلب ہے کہ اگر معاشرے میں حکمران طبقے اور بااثر افراد میں انحراف نفوذ کر گیا ہو تو کیا انفرادی کوشش حقیقتاً مطلوبہ نتائج اور تبدیلی پیدا کرسکتی ہے، یا ایسے نامساعد حالات میں زمانے کی فضا سے اختلاف رکھنے والے افراد اپنے گھروں میں معاشرے سے کٹ کر تنہائی میں اپنے رب کا ذکر اور طاغوتی قوتوں کی بربادی کے لیے دعا کرتے رہیں اور معاشرے کو لادینی عناصر کی تخت و تاراج کے لیے خالی چھوڑ دیا جائے۔
حق و باطل کی یہ کش مکش ہمارے اس دور ہی میں نہیں تاریخ کے ہر دور میں رہی ہے اور اسلامی قوتوں نے بظاہر قلتِ تعداد کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اپنے خلوص اور استقامت کی بنا پر آگے بڑھ کر باطل قوتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ اپنے مخلص بندوں کے حوالے سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ راہِ حق میں نکلنے والوں کی قلتِ تعداد کے باوجود انھیں اپنے سے کئی گنا زیادہ حزبِ مخالف پر برتری عطا فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو اگر تم میں سے ۲۰ آدمی صابر ہوں تووہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے… (الانفال ۸:۶۵)۔ گویا جب بھی نظامِ حق کے قیام کے لیے منظم جدوجہد کی جائے گی اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید غیبی سے اہلِ حق کی کم تعداد دشمنِ دین کے بظاہر زیادہ قوی، سازوسامان سے لیس لشکر پر غالب ہوگی۔ البتہ اولین شرط ان کا مومن اور صابر ہونا ہے۔
ایک مسلم اور مومن ایسے حالات میں بھی جب ابلاغِ عامہ عریانیت اور اخلاق دشمن فضا پیدا کرنے میں مصروف ہو اور حکمران مغرب کی ذہنی اور مالی غلامی پر فخر کرتے ہوں اور اس غلامی کو اپنے لیے وجۂ نجات تصور کرتے ہوں، نہ تو مایوس ہوسکتا ہے اور نہ جھنجھلاہٹ میں عقل و ہوش کا دامن چھوڑ سکتا ہے۔ اسے قرآن اور خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریق کار پر عمل کرنا ہوگا۔
اس طریق کار میں اولین چیز اپنے دل و دماغ کو اس بات پر حتمی طور پر مطمئن کرنا شامل ہے کہ وہ قرآن وسنت ہی کو اپنا مآخذ اور ذریعۂ قوت سمجھتا ہے اور باطل کی بظاہر کثرت اور یلغار سے نہ خائف ہے اور نہ اس کے آگے ہتھیار ڈالنے یا کسی گوشے میں جاکر اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ استقامت اور صبر کے ساتھ، یعنی مسلسل جدوجہد کرنے ہی کو اسوۂ انبیا سمجھتا ہے، اس لیے ۶۰، ۷۰ سال جدوجہد کرنے کے باوجود نہ مایوس ہے، نہ دل برداشتہ۔ اس طریق کار میں جو حکمت و برکت ہے، وہ کسی وقتی جذباتی فیصلے سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ تیسری بات یہ کہ وہ جس حال میں اور جہاں کہیں بھی ہے اسے اپنے جہاد کو جاری رکھنا ہے اور نظام باطل کی کمزوریوں کو واضح کرنے کے ساتھ وہ انسانی اثاثہ تیار کرنا ہے جو آخرکار مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے شرطِ اول کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسلامی ریاست کا قیام نہ تو کسی یک شبینہ انقلاب سے ہوسکتا ہے اور نہ کسی جلوس کے مطالبے سے بلکہ اس کے لیے افرادِ کار کی وہ جماعت درکار ہے جو رات کو عبادت گزار ہو اور دن میں باطل معاشی نظام، باطل رسوم و رواج، باطل فکر اور باطل اقتدار کے خلاف عملاً تبدیلی لانے کی جدوجہد میں شامل ہو۔
اسلامی ریاست کی پہلی اینٹ ایک مسلمان گھرانے میں شوہر اور بیوی کا اپنے معاملات میں اسلام کو نافذ کرنا ہے۔ اس کی دوسری اینٹ ان والدین کا اپنی اولاد کو اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل پر آمادہ کرنا ہے۔ اس کی تیسری اینٹ اس مسلمان گھرانے کا اپنے طرزِعمل، اخلاق اور تعاونوا علی البر والتقویٰ اور امربالمعروف کے مثبت اصولوں کی مدد سے اپنے محلے کے افراد کے مسائل کے حل کرنے میں ان کا ہاتھ بٹانا ہے۔ اس کی چوتھی اینٹ نہ صرف محلہ بلکہ ملک میں ہونے والی نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد میں جس سطح پر بھی ممکن ہو، قلم سے، مال سے، جسم و جان سے اپنا حصہ ادا کرنا ہے۔
گویا مثالی اسلامی ریاست اچانک کسی غیبی اعلان سے نافذ نہیں ہوگی بلکہ افراد کار کو اور خصوصاً ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو تحریک کا ہم خیال سمجھتے ہیں، آگے بڑھ کر بتدریج لیکن مستقل مزاجی یا صبر کے ساتھ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ قرآن کریم نے اس بات کو سورئہ رعد میں بطور ایک اصول کے واضح طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط (الرعد ۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
لہٰذا اگر صاحب ِ اقتدار ٹولہ چور ہو، ملک کا بدخواہ ہو، بیرونی طاقتوں کا غلام ہو، مفاد پرست ہو تو محض اس بات کا اظہار کرکے دل کی بھڑاس نکالنا کافی نہیں ہوسکتا۔ قوم کو اللہ کی بندگی کے راستے پر اس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے، دبائو اور لالچ کے باوجود کسی مفاہمت اور وقتی طور پر باطل کا ساتھ دیے بغیر اپنے موقف کو دلیری اور اعتماد کے ساتھ صرف اور صرف قرآن و سنت کے مطابق اختیار کرنا ہوگا۔ جب قوم اپنے اوصاف کو تبدیل کرے گی تو قلتِ تعداد کے باوجود فتح یاب ہوگی اور باطل لرز کر اور خائف ہوکر یا تو میدان چھوڑے گا یا مقابلے پر آنے کے بعد شکست کھائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے ابدی اور آفاقی اصول ہر دور میں ہر مقام پر یکساں ہیں۔ ہمارے لیے کوئی الگ شریعت نہیں آئے گی۔
ہمیں مثالی اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کے لیے اپنے گھر میں چھوٹے پیمانے پر اُس ریاست کو، اپنے محلے میں چھوٹے پیمانے پر اس ماحول کو، اور آخرکار اپنے ملک میں وسیع تر پیمانے پر ان اصولوں کو بتدریج نافذ کرنا ہوگا۔ یہ طریق کار وہی ہے جو خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور مدینہ میں اولین جماعت ِ مجاہدین میں عملاً نافذ فرمایا۔
یہی وہ طریق کار ہے جو تحریکاتِ اسلامی نے اختیار کرنا چاہا ہے اور اسی کو اختیار کرنے کے بعد ہم پاکستان میں ان شاء اللہ ایک مثالی ریاست قائم کریں گے۔ اس اعتماد کے ساتھ رب کریم سے استعانت مانگنے کے ساتھ اصل کرنے کا کام ایسے افرادِ کار کی تیاری ہے جو ایمان، صبرواستقامت، حکمت دینی اور تفقہ فی الدین سے آراستہ ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلیِ اقتدار میں ایک عام شہری کلیدی کردار ادا کرتا ہے لیکن اس کردار کے ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عام شہری کو حالات کا صحیح شعور وآگہی ہو، اور ہمارے اہلِ علم اور دانش ور ملک کے معاملات کا تجزیہ ایک عام شہری کے لیے قابلِ فہم زبان میں پیش کریں اور بجاے نااُمیدی کے ان میں اعتماد، اُمید اور مستقبل کے روشن ہونے کے احساس کے ساتھ افراد اور نظام کی تبدیلی کے لیے ایک لائحہ عمل بھی پیش کریں۔
پریشان کن حالات میں تحریکِ اسلامی کی قیادت اور اس کے ہر کارکن پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ نعروں، بیانات اور قراردادوں سے آگے نکل کر ملک گیر پیمانے پر عوامی مسائل کے حل کے لیے بستی بستی جاکر اپنے منشور اور اپنے track record کو عام شہری کے علم میں لائیں تاکہ افسردگی، نااُمیدی، غصہ اور نفرت کی جگہ مستقبل کے بارے میں پُرامید رویہ اور عوامی مہم کے ذریعے نااہلوں کی جگہ اللہ کا خوف رکھنے والے افراد کو قیادت پر لایا جاسکے۔ ایک عام شہری اپنے گھروالوں، محلے والوں اور شہروالوں کو نہ صرف حالات سے آگاہ کرسکتا ہے بلکہ انھیں منظم، پُرامن اور اجتماعی جدوجہد پر بھی آمادہ کرسکتا ہے۔
آج جو حالات پاکستان میں پائے جاتے ہیں ان میں ہرباشعور شہری متفکر اور پریشان ہے۔ اگر اس فکروپریشانی کا کوئی مثبت حل پیش نہ کیا گیا تو یہ مایوسی میں تبدیل ہوگی اور مایوسی عموماً شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کا فرض منصبی یہی ہے کہ وہ پُرامن جدوجہد اور فکری، عملی اور اجتماعی اصلاح کے ذریعے تبدیلیِ قیادت و امامت کو اپنے اہداف میں شامل کریں، اور حقائق پر مبنی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی افرادی قوت کو ان بے شمار شہریوں سے تبادلۂ خیالات کرنے کے بعد انھیں ساتھ لے کر ملک گیر پیمانے پر اصلاح کی تحریک کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کی راہ کو ہموار کریں۔(ڈاکٹر انیس احمد)