جنوری ۲۰۱۰

فہرست مضامین

کتاب نما

| جنوری ۲۰۱۰ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

نشانات ارضِ نبویؐ، شاہ مصباح الدین شکیل۔ ناشر: فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، فضلی بک، سپرمارکیٹ، ۳/۵۰۷، ٹمپل روڈ، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۶۲۹۷۲۴-۰۲۱۔ صفحات: ۳۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے متعلقات، جناب شاہ مصباح الدین شکیل کا خاص موضوع ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے ۱۹۸۶ء میں سیرت احمدؐ مجتبیٰ پیش کی جس پر صدارتی اوارڈ ملا۔ ۱۹۹۲ء میں سیرت النبیؐ البم شائع کیا، ۲۰۰۵ء میں یہی البم زیادہ بہتر صورت میں نشاناتِ ارض قرآن کے نام سے منظرعام پر آیا۔ اب اسی کتاب کو نئے نام نشاناتِ ارضِ نبویؐ سے مزید بہتر، جامع اور کہیں زیادہ خوب صورت اور دیدہ زیب طباعت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ایک اعتبار سے یہ ان کا حاصلِ حیات (life work) ہے۔

ابتدا حیات طیبہ کے مختصر بیان سے ہوتی ہیں جسے ماہ و سال کے آئینے میں پیش کیا گیا ہے۔ پھر جزیرہ نما عرب کی تاریخ، جغرافیہ، بعدازاں حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کے مختصر سوانح، تاریخ تعمیرکعبہ، بیت اللہ، رسولؐ اللہ کے آباواجداد، مولد النبی وغیرہ اور سیرت پاکؐ کے اہم تر واقعات کا ذکر ہے۔ اس کی مناسبت سے دسیوں عنوانات قائم کیے گئے اور بعض اوقات کسی ایک عنوان کے تحت ضمنی عنوانات دے کر تفصیل دی گئی ہے، جیسے مسجد نبویؐ کے تحت اسطوانے، محراب، منبر، مقصورہ، گنبد، ابواب اور مینار وغیرہ۔ بتایا گیا ہے کہ ان کی موجودہ صورت کیا ہے؟ کہاں،  کس جگہ حدیث اور قرآن کے حوالے نماز و نوافل کا ثواب کتنا ہے؟ سب مقامات کی مختلف زاویوں سے لی گئی تصویریں، اس پر مستزاد۔ محراب (مصلّٰی) کے تحت ریاض الجنۃ میں محرابِ نبویؐ اور  محرابِ عثمانی کے تذکرے میں مسجدقبا، مسجد سلیمانی (ترکی)، مسجد بیجنگ (چین) اور مسجدقرطبہ (اسپین) کی محرابوں کی تصویریں بھی شامل کر دی گئی ہیں۔

زیرنظر مرقعے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں ارضِ قرآن اور ارضِ نشانات نبویؐ (نجد و حجاز) اور فلسطین بلکہ عالمِ اسلام سے متعلق بیسیوں ایسے آثار کی تصویریں شامل ہیں جن کا وجود اب   مِٹ چکا ہے۔

شکیل صاحب نے جملہ موضوعات اور عنوانات سے متعلق تاریخی حقائق اور واقعات اور ضروری تفصیلات بھی مہیا کی ہیں۔ یوں یہ کتاب قدیم و جدید دور کی ایک بیش بہا تاریخی اور تصویری دستاویز بن گئی ہے۔ ہرصفحے کے نیچے موضوع کی مناسبت سے کوئی نعت یا شعر دیا گیا ہے۔

یہ مرقع مصنف کے برسوں کے مطالعے اور تحقیق کا ماحصل ہے۔ ۲۰۰۱ء میں انھوں نے تحقیقِ مزید کے لیے سعودی عرب، لندن، امریکا اور کینیڈا کا مطالعاتی دورہ بھی کیا تھا۔ ابتدا میں مختلف اصحاب کی تقاریظ شامل ہیں لیکن ’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘ کے مصداق یہ مرقع دوسروں کی تعریف سے مستغنی، خود آپ اپنا تعارف ہے۔ چھوٹوں، بڑوں کے لیے معلومات کا ایسا خزانہ ہے جس سے بقدرِ ظرف و توفیق تازگی ایمان اور حصولِ برکت ممکن ہے۔ اگر عازمینِ حج و عمرہ اس کا مطالعہ کریں تو مکہ اور مدینہ پہنچ کر وہاں کے دَر و دیوار، ماحول اور فضائوں میں زیادہ اپنائیت اور موانست محسوس کریں گے۔

دبیز آرٹ پیپر پر کئی رنگوں کی طباعت، ہرصفحہ آرٹ ورک سے مزین، بڑی تقطیع اور پروف خوانی میں دقتِ نظر کے اہتمام پر ناشر اور طابع کی کاوش بھی قابلِ داد ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


روشن قندیلیں، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶۔ صفحات: ۲۷۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

ہدایت سے سرفراز کوئی مرد ہو یا عورت، یہ اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ پھر اس ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لینے کی توفیق پا لینا اس انعام سے بھی بڑا اعزاز واکرام ہے۔ بلاشبہہ رسول اکرمؐ پر ایمان لے آنے والے مرد و خواتین کو یہ بلند مقام نصیب ہوا بلکہ وہ اس ہدایت کو  قبول کرنے کی پاداش میں تعذیب و تشدد کی آزمایشوں سے استقامت کے ساتھ گزرے تو اُن  کے نصیب کی رفعت و عظمت میں اور اضافہ ہوگیا۔ ان اصحابِ کرام کی زندگیوں کے تذکرے   اہلِ ایمان کے لیے باعثِ ہدایت ہیں۔

صحابۂ و صحابیات رضی اللہ عنہم کی سیرت کو اس زاویۂ نظر سے پڑھنا کہ اُس سے ہمارے ایمان کو تازگی اور حرارت ملے، ہر مسلمان کی خواہش اور کوشش ہونی چاہیے، جس طرح صحابہ کرامؓ نے مسلمان ہونے کا حق ادا کیا، اسی طرح صحابیاتؓ نے بھی اس حق کو ادا کرنے میں کوئی کسر     نہ چھوڑی۔ سیرتِ صحابیاتؓ کی اس تاریخ کو ایک جھلک روشن قندیلیں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ۵۲صحابیات کے تذکروں پر مشتمل اس کتاب کا اسلوب روایتی سوانح سے قدرے مختلف اور ایک حد تک منفرد ہے۔ اُمہات المومنینؓ (ازواج النبیؐ)، بنات مطہرات (رسول اکرمؐ کی بیٹیوں) اور دیگر اہلِ عزیمت و عظمت صحابیاتِ رسولؐ کے حالات کو تاریخی واقعات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ ہر صحابیہؓ کے تذکرے کے آخر میں چند سطور میں تحریر کا ماحصل دے دیا گیا ہے۔ ہر صحابیہؓ کے امتیازی وصف کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اُن کے اعزازات کا بیان بھی ہے۔ اُن کے ذاتی کارناموں کے اعتبار سے بھی اُن کی عظمت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس پہلو کو بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کسی صحابیہؓ کے بھائی، شوہر یا لختِ جگر کے عظیم کردار سے خود اس صحابیہؓ کی عظمت بھی نمایاں ہوتی ہے۔

صحابیات کی یہ سیرت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ قلم بند کی گئی ہے۔ تحریر کی روانی اور اسلوب کی یکسانیت آغاز سے لے کر کتاب کے آخر تک ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے اس کا مقصدِ تحریر بخوبی پورا ہوتا ہے۔ ’’ان عظیم بناتِ اسلام کے مجرد واقعات بھی ایمان کی بالیدگی کا ذریعہ ہیں اور ہرواقعہ پڑھ کر انسان جھوم اُٹھتاہے مگر محض واقعات اور سوانح بیان کرنے کے بجاے یہ تمام سوانح آج کے دور میں حاصل ہونے والے دروسِ عبرت کی روشنی میں مرتب کیے گئے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ ایک تذکیر کی کتاب ہے۔ اسے اسی نقطۂ نظر سے پڑھنا چاہیے‘‘ (ص ۲۰)۔ (ارشاد الرحمٰن)


اقبال، روح دین کا شناسا، سید علی گیلانی، ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۲۴۵ روپے۔

سیدعلی گیلانی خطۂ کشمیر میں تحریکِ اسلامی کے سرخیل اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کے روحِ رواں ہیں۔ وہ تقریباً ۲۵ سال سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے آرہے ہیں۔ بڑھاپے کے ساتھ عارضۂ قلب اور سرطان جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہیں لیکن اس عالم میں بھی ان کے حوصلے اور جذبے تندرست و توانا اور مستحکم ہیں جس کی ایک دلیل زیرنظر کتاب ہے۔

علامہ اقبال کو عام طور پر اُردو شاعری کے حوالے سے جانا جاتا ہے لیکن اقبال کی فارسی شاعری بھی اپنے اندر ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو رکھتی ہے۔ علی گیلانی نے اقبال کے فارسی کلام سے ان کی شخصیت کے اس منفرد پہلو کو اُجاگر کرکے فی الواقع ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ یہاں ہمیں اقبال ایک فلسفی اور شاعر سے بڑھ کر احیاے اُمت کے داعی اور نبی کریمؐ کے مشن کے علَم بردار نظر آتے ہیں۔ وہ مسلمان سے کہتے ہیں کہ اے لاالٰہ کے وارث! تو اپنی حقیقت کو پہچان اور دینِ حق کو لے کر اُٹھ، یہی تمھارے تمام مسائل کا حل اور علاج ہے۔

علامہ اقبال کے افکارِ عالیہ کا سرچشمہ قرآن و حدیث ہے۔ زیرنظر کتاب میں ۱۶موضوعات کے تحت افکار اقبال کی توضیحات شامل ہیں۔ سید علی گیلانی نے زمانۂ طالب علمی کا کچھ عرصہ لاہور میں گزارا اور یہیں ’پرندے کی فریاد‘ اقبال سے ان کے اوّلین تعارف کا سبب بنی۔ وہ لاہور کا ذکر انتہائی محبت سے کرتے ہیں۔ انھوں نے فکرِاقبال کے ترکیبی عناصر اور اس کے بتدریج ارتقا پر سیرحاصل گفتگو کی ہے اور یہ گفتگو زیادہ تر ان کے شعری شاہ کار جاوید نامہ کے حوالے سے کی گئی ہے۔

جاوید نامہ دراصل ایک تمثیل ہے۔ اس میں اقبال اور رومی مختلف افلاک کا سفر کرتے ہوئے عالمِ بالا میں مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ’قلزمِ خونیں سے ایک غدار کی فریاد‘ کے زیرعنوان گیلانی صاحب نے موجودہ تناظر میں ملک و ملّت کے غداروں کو ان کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مشرقی اقوام بالخصوص اہلِ ہندستان بظاہر آزاد ہوچکے ہیں مگر مسلم مشرق اب بھی استعماری قوتوں کے پنجۂ استبداد میں ہے۔ اس دگرگوں صورتِ حال سے چھٹکارے کے لیے ہم افکارِ اقبال کی روشنی میں اپنا لائحۂ عمل مرتب کرسکتے ہیں۔

سید علی گیلانی کا خیال ہے کہ تحریکِ آزادی اور تبلیغ دین کے کام میں ہمیں کلامِ اقبال سے استفادہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ اقبال روحِ دین کے شناسا ہیں۔ گیلانی صاحب کہیں کہیں اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے ہیں اور شعرِاقبال سے تائید حاصل کرتے ہیں۔ انھوں نے اسبابِ زوالِ اُمت کی نشان دہی کرتے ہوئے فکرِاقبال کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا ہے۔ ان کے خیال میں فکرِاقبال ہی دردِ ملّت کا درماں ہے۔

یہ کتاب علم و حکمت کا خزینہ ہے اور اپنے اندر عام قارئین کے لیے بھی دل چسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ علی گیلانی کی تحریر خوب صورت اسلوبِ نگارش کا مرقع ہے۔ طباعت و پیش کش عمدہ اور معیاری ہے اور قیمت مناسب۔ (قاسم محمود احمد)


اُردو سرکاری زبان از چودھری احمد خاں (علیگ) ۔ ملنے کا پتا: مکتبہ تعمیرافکار، عقب بقائی ہسپتال، ناظم آباد، کراچی۔ فون: ۳۳۵۴۶۲۵-۰۳۳۳۔صفحات:۴۶۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

پاکستان کی بنیاد اسلامی تہذیب و تمدن ہے، اور برعظیم ہند میں اسلامی تہذیب و تمدن کا اہم ستون اُردو زبان ہے۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا مطالعہ کریںتو قدم قدم پر اُردو کا مسئلہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس زبان کی اہمیت کو جانتے ہوئے آں جہانی گاندھی نے اُردو کو قرآن کے حروف میں لکھی جانے والی زبان قرار دے کر ہی اس کی مخالفت کی تھی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانگرس‘ نے ۱۸۸۶ء سے ۱۹۳۸ء کے دوران اپنے ۳۸سالانہ اجلاسوں میں اُردو زبان کی ترقی و ترویج اور اسے سرکاری زبان بنانے کے لیے قراردادیں منظور کیں (ص۲۳)، اور پھر آل انڈیا مسلم لیگ نے تحریکِ پاکستان میں اسے اپنے ایجنڈے کا ایک مرکزی نکتہ قرار دیا۔ ۱۹۳۷ء میں صوبائی حکومت کے قیام کے دوران میں کانگرس نے منظم، مؤثر اور مسلسل کوشش کے ذریعے اُردو زبان کو کھرچ پھینکنے کے لیے جارحانہ پالیسی اپنائی۔ دراصل اُردو مسلمانوں کے تہذیب و تمدن کا سب سے جان دار پہلو تھا، اسی لیے متحدہ قومیت کی علَم بردار کانگرس اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھی (افسوس کہ یہی کام پاکستانی مقتدرہ نے پاکستان میں کر دکھایا)۔

قیامِ پاکستان کے بعد، پاکستانی قوم کی ایک سرکاری زبان اُردو پر اتفاق تھا۔ ہندو لابی کے زیراثر ڈھاکا میں اسے چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی تو قائداعظم نے اُردو زبان کے مسئلے پر کسی سمجھوتے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں پاکستان کے تینوں دساتیر نے اس کی مرکزیت کو تسلیم کیا، اور ۱۹۷۳ء کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور نے تو ۱۵ برس، یعنی ۱۹۸۸ء تک اسے ہر جگہ سرکاری طور پر رائج کرنے کا متفقہ فیصلہ بھی کررکھا ہے، مگر حکمران طبقوں نے دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔

آج صورت یہ ہے کہ بے جا طور پر انگریزی زبان کی لازمی تعلیم و تدریس اور انگریزی ذریعۂ تعلیم نے ہمارے تہذیبی اور قومی نظامِ حیات کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔ سرکاری اداروں کی تمام تر خط کتابت اور جملہ کارروائیوں پر انگریزی کے بھوت کو مسلط کر کے، عملاً عوام کو   کاروبارِ ریاست سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ گویا انگریزی کی پرستش کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ  عمومی سطح پر ہمیں احساسِ کمتری کے ناگ نے ڈس لیا ہے۔ اس عمل نے ہماری تاریخ، تہذیب، اخلاقیات اور روایات کو حقارت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ کیا پڑھا لکھا اور کیا اَن پڑھ، انگریزی کے چند الفاظ کی جگالی کو علم،وقار اور شائستگی کا معیار سمجھ بیٹھا ہے۔

زیرنظر کتاب نے اسی قومی المیے کو ترتیب، جامعیت اور اختصار کے ساتھ ایک مقدمے کی صورت میں یک جا پیش کرکے قابلِ تحسین کاوش کی ہے۔ فاضل مؤلف نے گذشتہ ڈیڑھ سو سال کے سرکاری اور غیر سرکاری ریکارڈ سے مؤثر تفصیلات کو غیرجذباتی انداز سے پرو کر رکھ دیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ ہماری بے عملی پر تازیانہ برساتا اور فداکارانہ عمل پر اُبھارتا ہے۔ (سلیم منصور خالد)


ہندوستان کا اصل چہرہ (The Real Face of India)، ریاض احمد چودھری۔ ناشر: ریاض پبلشرز، فوکسی بلڈنگ، فرسٹ فلور، ۴۳- کمرشل ایریا، کیولری گرائونڈ، لاہور کینٹ، لاہور۔ فون: ۳-۳۶۶۱۰۵۰۱-۰۴۲۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

قیامِ پاکستان کو ۶۲ سال گزرچکے ہیں۔ تین نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں اور نئی نسل ان اسباب و حالات سے پوری طرح آگہی نہیں رکھتی جو تقسیم ہند کا سبب بنے تھے۔ وطنِ عزیز کے حکمرانوںنے امریکا کے زیراثر خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایک عشرے سے زائد عرصے میں بھارت سے دوستی بڑھانے کی جہاں بے شمار کوششیں کی ہیں، وہیں دانش وروں اور میڈیا کے اثرات کے تحت بڑے بڑے ذمہ داران کبھی تقسیمِ ہندکو تاریخ کی سب سے بڑی غلطی، ہر پاکستان کے دل میںایک ہندوستان ساہو نے، پاکستان اور ہندستان کی کنفیڈریشن تو کبھی ملکی سرحد کو ظلم کی دیوار قرار دینے پر تلے رہتے ہیں۔

زیرنظر کتاب میں انگریزی صحافت سے وابستہ صحافی ریاض احمد چودھری ہندستان کے اصل چہرے سے نقاب اٹھاتے ہیں اور اختصار و جامعیت کے ساتھ موضوع کا احاطہ ہی نہیں کرتے بلکہ ناقابلِ تردید اعداد و شمار بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ کتاب جہاں ایک طرف ہندو ذہنیت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے، وہاں چھے عشروں میں بھارت میں مسلم، عیسائیوں، سکھوں اور اچھوتوں کے ساتھ جو ظلم کیا جا رہا ہے اس کی مکمل تصویر بھی پیش کرتی ہے۔ ہندستان کے مسلمانوں کی حالتِ زار کی جو تصویر کھینچی گئی ہے وہ قاری کے دل میں پاکستان کی اہمیت کو اُجاگر بھی کرتی ہے اور اس پس منظر میں سیاست دانوں کے بیانات کا جائزہ لینے، نیز امریکا، بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کی صورت میں قائم ہونے والی تکون کی سازشوں کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ (معراج الھدیٰ صدیقی)


سانجھ پئی چو دیس، سلمیٰ یاسمین نجمی۔ ناشر: شاہکار فائونڈیشن، ۳۵- اقبال ایونیو، گرین ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۹۴۵۴۲۹-۰۴۲۔ صفحات: ۷۲۳۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

پوٹھواری تہذیب و معاشرت کا عکاس، اُردو میں یہ پہلا ناول ہے۔ سلمیٰ یاسمین نجمی ایک معروف اور پختہ فکر قلم کار ہیں۔ ان کا شمار افسانوی ادب لکھنے والی ان معدودے چند خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے قلمی جہاد کے ذریعے اصلاحِ معاشرت کو زندگی کا نصب العین قرار دیا ہے۔  اس ناول کو پڑھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دور میں یہ انھیں شہرتِ دوام دے گا۔

ٹیکسلا، حسن ابدال اور اس کے گردونواح کا پوٹھوار علاقہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ پنجاب اور صوبہ سرحد کے سنگم پر واقع یہ علاقہ زمانۂ قبل مسیح سے متعدد تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ ایک مخصوص تہذیب اور معاشرت رکھتا ہے۔ مصنفہ نے اسی تہذیب کی عکاسی کرتے ہوئے ان عناصر کو اُبھارا ہے جو کئی تہذیبوں کے ملاپ سے وجود میں آئے ہیں۔ ناول ایک ایسی عورت کی آپ بیتی ہے جو بظاہر نرم رو اور نرم خو ہے لیکن اندر سے چٹان کی طرح مضبوط اور حوصلہ مند ہے۔ جہالت کی ماری اور خودساختہ رسوم وقیود کی پابند تقدیر پرست عورت پوری تہذیب کی نمایندہ ہے اور مصنفہ نوکِ قلم سے اس معاشرت کی اصلاح کی خواہاں ہے۔ ناول کے چار درجن سے زائد کردار اجتماعی زندگی کے کئی پہلوئوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے، قتل، انتقام، منشیات کا عام استعمال اور جاگیرداروں کا مخصوص طرزِ زندگی وغیرہ۔

اس ناول کے دو اور پہلو قابلِ ذکر ہیں: ایک یہ کہ مصنفہ نے محض اپنے تخیل پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کہانی کے تار و پود اور لوازمے کے حصول کے لیے براہِ راست مشاہدے کا راستہ اختیار کیا۔ ’’میں نے لکھنے کا ارادہ کیا۔ اپنی ملازمہ رسیلا کے ساتھ گائوں گائوں گھومی.... بے شمار عورتوں سے ملی.... شادی بیاہ میں شرکت کی، واقعات جمع کیے، لُغت تیار کیا اور خدا جانے کیا کیا....میرؔ کی طرح سو غم جمع کیے تو دیوان ہوا‘‘ ___ اس طرح ان کے مشاہدات نے انھیں حقائق اور ان کے پس منظر سے آگاہی بخشی۔

ناول کی ایک اور انفرادیت اس کی خاص طرح کی زبان ہے۔ مصنفہ نے دیہی کرداروں کے مکالمے پوٹھواری زبان ہی میں تحریر کیے ہیں اور اس کی وضاحت کر دی ہے۔ راقم (مبصر) کو پوٹھواری ماحول و معاشرت میں ربع صدی تک رہنے کا اتفاق ہوا۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے افسانوی ادب میں اس تہذیب اور کلچر کی اس سے بہتر عکاسی کسی نے نہیں کی۔ اُردو ادب کے قارئین کے لیے عموماً اور علاقہ پوٹھوار کے باسیوں کے لیے ایک خوب صورت ادب پارہ ہے۔ ناول کا عنوان امیرخسرو کے شعر سے ماخوذ ہے۔ ناول کا اشاعتی معیار، ناشر کے اُونچے ذوق کی دلیل ہے۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


تفہیم ترجمۂ قرآن، پروفیسر ریاض احمد طور۔ ملنے کاپتا: B-I ، ایجوکیشن ٹائون، وحدت روڈ، لاہور۔ صفحات:۲۹۴۔قیمت: درج نہیں۔

قرآن فہمی کا شعور عام کرنے کے لیے روایتی درسِ قرآن کے حلقوں کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر قرآن کلاسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں ایک کوشش اُردو اور عربی میں تطابق پیدا کر کے قرآن پاک کو سمجھنے اور عربی متن کا اُردو ترجمہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا بھی ہے۔ یہ جدید طریقۂ تدریس ہے۔ اس طریقے میں عربی گرامر کی مشکل اور پیچیدہ اصطلاحات کو استعمال کیے بغیر عام فہم انداز میں قواعد سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حسنِ اتفاق سے قرآنی عربی کے اکثر الفاظ اُردو میں مستعمل ہیں۔ اس سے قرآن فہمی میں مزید سہولت پیدا ہوگئی ہے۔ زیرنظر کتاب اسی طریقۂ تدریس کے مطابق قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے  اور پڑھانے کے لیے مرتب کی گئی ہے اور ۴۰ روزہ ترجمۂ قرآن کورس کے لیے سورئہ فرقان اور  سورئہ حجرات کے منتخب نصاب پر مبنی ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ ۴۰ روزہ کلاس میں اس نصاب کی تدریس کے نتیجے میں ایک درمیانی ذہانت کا آدمی بھی ۵۰ سے ۷۰ فی صد قرآن کا ترجمہ سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس ابتدائی کورس کے بعد مزید مہارت اور فہم دین کے لیے دیگر کورس بھی کروائے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ حقیقت مزید آشکار ہوکر سامنے آتی ہے کہ ’’ہم نے اس قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان بنا دیا ہے، تو ہے کوئی سوچنے سمجھنے والا‘‘۔ (طارق محمود زبیری)