تھڑدلے مایوسین کا دوسرا طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو مشکلات کو دیکھ کر ہول کھا جاتے ہیں۔ یہ لوگ بھی صدقِ دل سے حق کے حامی ہیں، لیکن ان کا حال یہ ہے کہ جب تحریکِ حق کا قدم آگے بڑھتا ہے تو ان کے حوصلوں میں کچھ کچھ جان آنے لگتی ہے اور چاہتے ہیں کہ کاروانِ اسلام میں بڑھ کے جا شامل ہوں۔ ابھی یہ آگے بڑھنے کے لیے پَر تول ہی رہے ہوتے ہیں کہ تحریکِ حق کی کوئی نہ کوئی مشکل ان کے سامنے آجاتی ہے، بس مشکل سامنے آئی اور ان کے حوصلوں پر اَوس پڑ گئی۔ یہی لوگ ہیں جن سے یہ فقرے سننے میں آتے ہیں کہ:
’’حق تو یہی ہے، مگرلوگ اسے مانتے نہیں‘‘۔
’’تحریک ٹھیک ہے، لیکن اسے کوئی چلنے کب دیتا ہے‘‘۔
’’اسلامی نظام، ہمہ تن سعادت ہے، مگر اس کے مخالفین سخت رکاوٹیں ڈال رہے ہیں!‘‘
___وغیرہ! اور اِن فقرات کے پیچھے دنیا کی تاریک ترین نااُمیدی جھلک رہی ہوتی ہے۔ ان حضرات کو اس وادی کے نشیب و فراز سے آگاہی ہے نہیں، جس میں سے ہو کے اقامت دین کی شاہراہ نکلتی ہے۔ یہ منزل گاہِ حق کی طرف تیزرفتاری سے دوڑنے پر تیار ہیں، بشرطیکہ ان کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ سارے راستے میں قالین بچھے ہوئے ہیں، کارواں سرائیں بنی ہوئی ہیں، اور سبیلیں لگی ہوئی ہیں۔ بخلاف اس کے اگر ان کو یہ خبر ہوجائے کہ راستے میں کاٹنے بھی آتے ہیں، جھاڑیاں بھی ہیں، چٹانیں اور کھائیاں بھی ہیں، بلندیاں اور پستیاں بھی ہیں، پیچ اور خم بھی ہیں تو پھر یہ ایک لمبی سانس لے کے بیٹھ جاتے ہیں اوراپنے نماز، روزہ اور ذکر وتسبیح میں یا کاروبار اور بیوی بچوں سے دل چسپی لینے میں لگ جاتے ہیں۔
کوئی تحریکِ اصلاح و انقلاب ایسی نہیں ایجاد ہوسکی ___ چاہے وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی، جو آزمایش کی وادیوں سے باہر باہر ہی سے اپنا راستہ نکال کر کامیابی کی منزل پر پہنچ جائے۔ خاص طور پر تحریکِ حق کو تو بہت ہی خطرناک گھاٹیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور جب کہیں ’اسلامی نظام‘ کے دروازے پر دستک دینے کی نوبت آتی ہے۔ (’ہمارا معاشرہ‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۳، عدد ۱-۳، محرم، صفر، ربیع الاول ۱۳۶۹ھ، دسمبر ۱۹۴۹ئ- جنوری ۱۹۵۰ئ، ص ۷۲-۷۳)