’’آپ نے مجھے یاد فرمایا تھا یا رسولؐ اللہ؟‘‘ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی۔ جلیل القدر صحابی کو اسلام قبول کیے ابھی چار ہی ماہ گزرے تھے۔ ’’اپنے کپڑے اور ہتھیار لے آئیں اور مجھے دوبارہ ملیں‘‘ :جواب ملا۔ آپؓ گھر جاکر سفر کے لیے تیار ہوئے، واپس آئے تو آپؐ وضو کررہے تھے۔ آپؐ نے چند لمحے غور سے اپنے صحابی کا چہرہ تکا، پھر سر جھکا کر فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ایک لشکر کا سربراہ بناکر بھیجوں‘‘۔ ساتھ ہی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا: ’’اس معرکے میں آپ فتح یاب رہیں گے، مالِ غنیمت بھی حاصل ہوگا‘‘ ۔ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ نے فوراً سرتسلیم خم کرتے ہوئے عرض کی: ’’یا رسول اللہ! میں نے مال کے لیے تو اسلام قبول نہیں کیا، میں نے تو اسلام ہی کی خاطر اسلام قبول کیا ہے۔ میں نے تو اس لیے اسلام قبول کیا ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو‘‘ ۔آپؐ نے فرمایا :’’مالِ صالح اگر نیک بندے کے پاس ہو تو وہی سب سے بہترین مال ہے‘‘۔
۳۰۰ جان نثار صحابہ کا لشکر تیار ہوا، حضرت عَمر.ْ و بن العاص رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں جانے والا یہ لشکر جس معرکے کو روانہ ہوا، اسے’ذاتُ السَّلاسِل‘ کہا جاتا ہے۔ اس لشکرکی روانگی غزوۂ مُوتہ سے اسلامی افواج کی واپسی کے چند ہی روز بعد ہورہی تھی۔ غزوۂ مُوتہ میں اہل اسلام کی ۳ہزار نفوس پر مشتمل فوج نے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا تھا۔ حضرت زید بن ثابت، حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر قائدین ،ایک ایک کرکے شہید ہوگئے تھے۔ پھر حضرت خالدؓ بن ولید نے قیادت سنبھالی اور جان توڑ کوشش کے بعد، باقی لشکر کو بخیر و خوبی نکال لائے تھے۔ اس لشکر کی واپسی کے چند روز بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ بنو قضاعہ، جنھو ں نے مُوتہ میں رومیوں کا ساتھ دیا تھا، اس صور ت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، مدینہ منورہ پر چڑھائی کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ اس خطرے کی سرکوبی کے لیے آپؐ نے حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کی قیادت میں سابق الذکر لشکر روانہ کیا۔
حضرت عَمرْو نے حضرت خالد بن الولید کے ساتھ صفر ۸ ہجری میں اسلام قبول کیا تھا اور تمام عرب میں اپنی دانائی، حاضر دماغی اور ذہانت و فطانت کے حوالے سے خصوصی مقام رکھتے تھے۔ قبول اسلام کے چار ماہ بعد، یعنی جمادی الثانی ۸ہجری میں لشکر روانہ ہوا، ابھی راستے ہی میں تھا کہ معلوم ہوا، دشمن کی تعداد زیادہ ہے۔ سپہ سالار نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید کمک ارسال کرنے کا پیغام بھیجا۔ آپؐ نے حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کی قیادت میں مزید ۲۰۰ مجاہدین کا لشکر، اعانت کے لیے روانہ فرمایا۔ اس نئی فوج میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما جیسے انتہائی جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے۔ کمک پہنچی تو سوال اٹھا کہ اب مسلمان فوج کا قائد کون ہوگا؟ ایک راے یہ سامنے آئی کہ دونوں لشکر اپنے اپنے امیر کی امارت ہی میں رہیں، اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کی ذمہ داری میرے سپرد کی ہے، آپ لوگ ہماری نصرت کے لیے آئے ہیں، آپ کو بھی اصل فوج میں شامل ہوجانا چاہیے۔ قریب تھا کہ پورا لشکر دو فریقوں میں تقسیم ہوجاتا، حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح (جنھیں امینِ امت کا لقب عطا ہوا) آگے بڑھے اور فرمایا جناب عَمرْو! آپ کو معلوم ہے رخصت کرتے ہوئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آخری بات کیا فرمائی تھی؟ انھوں نے فرمایا تھا: ’’جب تم اپنے ساتھی سے جا ملو، تو دونوں ایک دوسرے کی بات تسلیم کرنا‘‘۔ اب اگر آپ کو میری راے سے اختلاف ہے تو میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں آپ کی اطاعت کروں گا۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے قیادت حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کے سپرد کردی۔
اب ۵۰۰ سرفروشوں کا یہ لشکر دن رات کی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھا۔ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کی کوشش تھی کہ دشمن کو ان کے آنے کی خبر کانوں کان نہ پہنچ پائے۔آپ اکثر سفر رات کے وقت کرتے اور دن کا بیش تر حصہ کسی جگہ خاموشی سے پڑاؤ ڈال دیتے۔ شمال کی طرف سفر کرتے ہوئے رات کے وقت سردی میں شدید اضافہ ہوجاتا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے تجویز دی کہ سردی کے علاج کے لیے، آگ تاپنے کی اجازت دی جائے۔ امیر نے آگ جلانے سے منع کردیا۔ سردی مزید بڑھی تو صحابہ نے حضرت عمر بن الخطابؓ سے بات کی۔ انھوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کہا کہ آپ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ سے جاکر آگ جلانے کی اجازت لے لیں۔ وہ گئے اور امیر لشکر سے بات کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ساتھی اس بارے میں شاید پہلے بھی باربار کہہ چکے ہوںگے۔ اس مرتبہ انھوں نے دوٹوک انداز سے منع کردیا اور کہا :’’ان میں سے جس نے بھی آگ روشن کی اسے اسی میں پھینک دوں گا‘‘ (لا یُوقِدُ أَحَدٌ مِنْھُمْ نَارًا اَلاَ قَذَفْتُہٗ فِیْھَا) حضرت عمرؓ بن الخطاب نے یہ جواب سنا تو ناراض ہوگئے، لیکن حضرت ابو بکر صدیقؓ نے تحمل سے فرمایا: عمر! آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات مانیں، اختلافات پیدا نہ ہونے دیں۔ عمر! ہوسکتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے انھیں ہمارا امیر بنایا ہو کہ وہ جنگ اور اس کے فنون کے زیادہ ماہر ہیں‘‘، رضی اللہ عنہم اجمعین۔
قافلہ آگے بڑھتا رہا، جہاں جاتے خبر ملتی، بنوقضاعہ کے لوگ یہاں تھے، مدینہ منورہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کی آمد کا سن کر یہاں سے بھاگ گئے۔ کافی دور جاکر بنوقضاعہ کا باقی ماندہ لشکر ملا۔ آمنا سامنا ہوا لیکن عزم صمیم، وحدتِ صف، سمع و طاعت، شوقِ شہادت اور ریاستِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے جذبے سے سرشار مسلم فوج کے سامنے، جلد ہی پسپا ہوگیا۔ کچھ صحابہ کی راے تھی کہ دشمن کا پیچھا کیا جائے، لیکن امیر نے پھر دوٹوک انداز میں منع کردیا۔ لشکر اسلام نے چند روز وہیں قیام کیا۔ مخالفین پر ریاست مدینہ کی دھاک بیٹھ گئی۔ اطراف شام تک اسلامی ریاست کی سرحدیں محفوظ ہوگئیں اور لشکر کامیاب و کامران واپس آیا۔ مسلمانوں میں ہرجانب خوشی ا و راطمینان کی لہر دوڑ گئی۔
کسی مناسب موقع پر بعض صحابہ کرامؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے امیر حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کا ذکر کرتے ہوئے چار نکات پیش کیے:
___ انتہائی سرد راتوں میں بھی انھوں نے ہمیں آگ جلانے کی اجازت نہیں دی۔
___ حضرت ابوعبیدہؓ کا لشکر جانے کے بعد بھی انھوں نے، امیر رہنے پر اصرار کیا۔
___ دشمن کی ہزیمت کے بعد،انھوں نے اس کا پیچھا کرنے کی اجازت نہیں دی۔
___ انھوںنے ایک صبح پانی ہونے کی باوجود تیمم کرکے امامت کروائی، حالانکہ انھیں غسل کی ضرورت تھی۔
آپؐ نے انھیں بلا کر چاروں سوال کیے تو انھوں نے فرمایا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن تعداد میں زیادہ تھا۔ہم نے دشمن کی نگاہوں اور جاسوسوں سے بچ کر سفر طے کیا۔ مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں نے آگ جلانے کی اجازت دے دی تو دشمن کو ہماری اصل تعداد معلوم ہوجائے گی۔ دوسرے سوال کا جواب وہی دیا جو دوران سفر دے چکے تھے کہ یارسولؐ اللہ !آپؐ نے مجھے امیر متعین کرکے بھیجا تھا، یہ ساتھی کمک کے لیے آئے تھے۔ تیسری بات کا جواب یہ ہے کہ میں نے انھیں دشمن کا پیچھا کرنے سے اس لیے روکا کہ مجھے خدشہ تھا کہ دشمن کہیں گھات لگا کر نہ بیٹھا ہو اور اچانک حملہ کر کے پانسا نہ پلٹ دے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کی نگاہوں سے محفوظ رہنے، مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و نظم برقرار رکھنے اور اپنے ساتھیوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے ان اقدامات کو درست قرار دیا۔ چوتھی بات کے بارے میں آپؐ نے دریافت کیا: یاعَمْرو أَصَلَّیْتَ بِأَصْحَابِکَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟’’ عمرو کیا جنابت کی حالت میں ساتھیوں کونماز پڑھائی؟‘‘ جواب ملا :یارسول اللہ !پانی شدید ٹھنڈا تھا میں نے اللہ تعالیٰ کا فرمان دیکھا: وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا (النسائ۴:۲۹)’’اپنے آپ کو قتل نہ کرو، اللہ تم پر بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ آپؐ ہنس دیے اور کوئی تبصرہ نہ فرمایا۔
یہ تمام واقعات احادیث و سیرت کی مختلف کتب میں تفصیل سے ملتے ہیں۔ مختلف روایات کی اسناد و صحت بھی مختلف ہے۔ ان کی بنیاد پر مختلف فقہی ابحاث و مناقشت بھی چھیڑی جاسکتی ہے۔ بعض جملوں کی صحت اور سند کے بارے میں سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے کہ ہماری اصل ذمہ داری ان سے حاصل ہونے والے دروس و اسباق پر غور کرنا اور ان پر عمل کرنا ہے۔ آئیے اب اسی نیت سے کچھ پہلوؤں کا دوبارہ مطالعہ کرتے ہیں۔
۱- ذمہ داریوں کا تعین ہمیشہ مرتبے، یا تحریک میں گزارے جانے والی مدت و اسبقیت پر نہیں ہوتا۔حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ صرف چار ماہ قبل نعمت ِاسلام سے فیض یاب ہوئے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی جنگی صلاحیت، اس علاقے سے واقفیت اور فہم و فراست کے پیش نظر ۲۰،۲۰سال سے تحریک کے سرخیل کی حیثیت سے موجود صحابہء کبار کو آپ کی قیادت میں بھیج دیا۔ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ اور حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہما جب اسلام قبول کرنے کے لیے تشریف لارہے تھے تو آپؐ نے انھیں دیکھ کر فرمایا: رَمَتْکُمْ مَکّہ بِفَلَذَاتِ کَبِدِھَا ’’مکہ نے آج اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمھاری طرف اچھال دیا ہے‘‘۔ انھی دونوں ہستیوں کی وجہ سے اسلامی تحریک کو کئی صدمے جھیلنا پڑے تھے، آج جب وہ نور رسالت کے اسیر ہوکر مدینہ کھنچے چلے آئے تو آغوش نبوت نے وفور محبت سے انھیں اپنے دامن شفقت میں سمیٹ لیا۔ ان کی تکریم کرتے ہوئے ابوبکر و عمر اور امین امت رضی اللہ عنہم جمیعا کو ان کی سرداری میں دے دیا۔ اسلامی تحریک اگر نئے آنے والوں کو خوش آمدید نہ کہتی، ان کی تالیف و تکریم کا اہتمام نہ کرتی تو شاید کبھی اس قدر مضبوط، منظم اور کامیاب نہ ہوتی۔ قبول اسلام کے چند ہی ماہ اور ذات السلاسل کے دوماہ بعد یعنی رمضان ۸ ہجری میں فتح مکہ کا تاریخی واقعہ روپذیر ہورہا تھا اور حضرت خالد بن الولید چار مختلف اطراف سے مکہ میں داخل ہونے والے لشکروں میں سے ایک کی سربراہی کررہے تھے، یعنی اپنے قبول اسلام کے تقریباً چھے ماہ بعد۔ اس سے قبل غزوۂ مُوتہ میں تین قائدین کی شہادت کے بعد لشکر اسلام کی قیادت کرتے ہوئے، صحابہ کرام کو موت کے منہ سے نکال کر، قبولِ اسلام کے تقریباً تین ماہ بعد ’سیف اللہ‘ اللہ کی تلوار کا لقب حاصل کرچکے تھے۔
۲- نئے آنے والے ساتھی کو اپنا امیر بنا دیے جانے پر ان عظیم شخصیات میں سے کسی کی طرف سے ادنیٰ تردد، تحفظات یا ناراضی و ناپسندیدگی کا اشارہ تک نہ ملا۔ یہی صورت ہمیں آں حضوؐر کی جانب سے متعین کردہ آخری لشکر، لشکر اسامہ بن زید کے بارے میں دکھائی دیتی ہے۔
۳- جیسے ہی آپؐ کے پاس کمک کی درخواست پہنچی آپؐ نے فوراً عظیم شخصیات کو مدد کے لیے ارسال کردیا، اپنے ساتھیوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا۔
۴- جب دو میں سے ایک کی قیادت کے انتخاب کا مرحلہ آیا اور حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ نے اپنی دلیل پیش کی تو حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح نے فوراً خود آگے بڑھ کر دست برداری کا اعلان کیا۔ حالانکہ آپ کو دربار رسالت سے ’امینِ اُمت‘ کا خطاب حاصل ہوچکا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں اور نئے آنے والوں ہی کو عملی قیادت کے تجربات و تربیت سے نہیں گزارا خود بزرگ صحابہ کرام کو بھی ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا کہ ان کے نظم و ضبط اور سمع و طاعت کی روح سے نئے ساتھی بھی فیض یاب ہوں۔
۵- ایک دوسرے کی نفسیات تک کا خیال رکھنے کی عملی مثال بھی سامنے آگئی۔ عمر فاروقؓ کو حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کا دوٹوک انداز معلوم تھا اور اپنے مزاج کا اس سے بھی زیادہ علم تھا۔ آپ نے آگ جلانے کی تجویز دینے کے لیے نرم خو اور بزرگ شخصیت کے حامل صدیق اکبرؓ کو ارسال کیا، مبادا کہ ماحول میں کوئی تلخی آجائے۔
۶- جب امام تیمم سے تھا اور پانچ سو باوضو بزرگ صحابہ مقتدی تھے۔ یہ سوال بھی موجود تھا کہ کیا غسل کے بجاے تیمم ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اور یہ سوال بھی ہوسکتا تھا کہ سب باوضو ہیں، امام نے غسل کی جگہ تیمم کیا ہوا ہے تو کیا پیچھے والوں کی نماز ہوگی بھی یا نہیں۔ لیکن کسی نے اس فقہی مسئلے کو نزاع کا باعث نہ بنایا۔ کسی نے نہ کہا کہ نماز دہرا لیتے ہیں۔۔ الگ جماعت کروالیتے ہیں۔ سب نے باجماعت اور کامل یکسوئی سے نماز ادا کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسئلہ پیش ہوا تو آپؐ نے بھی مسکراہٹ اور خاموشی پر اکتفا کیا۔ علماے فقہ نے اس واقعے سے دونوں نتائج اخذ کیے۔ ایک گروہ نے مسکرانے اور خاموشی کو جواز و تاکید قرار دیا۔ آپؐ کا تبسم بھی مسائل شریعت کا فیصلہ کرتا ہے۔ آپؐ نے کسی کو اس کی نماز نہ ہونے یا نماز دہرانے کی تلقین نہیں فرمائی، جب کہ ایک گروہ نے آپؐ کے اس لفظ کو: ’’کیا جنبی تھے اور ساتھیوں کی امامت کروالی‘‘ سے یہ اخذ کیا کہ آپؐ نے خود فرمادیا کہ ’’جنبی تھے‘‘ یعنی تیمم سے طہارت نہ ہوئی۔ لیکن فریق اول کا کہنا ہے کہ آپ نے تو بس صحابہؓ کا سوال دہرادیا، خود تو صرف تبسم و خاموشی سے موقف کی تائید کردی۔ اس حوالے سے بھی سب سے بنیادی امر یہی ہے کہ اس طرح کے فقہی اختلافات و آرا کو نہ تو صحابہؓ نے اختلاف و علیحدگی کا سبب بنایا اور نہ آپؐ نے اسے بحث و تمحیص کی بنیاد بننا دیا۔
۹- اگرچہ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بشارت دے چکے تھے کہ ’’فتح یاب ہوکر آؤ گے‘‘ لیکن قائد نے صرف خوش خبری کو بنیاد بناکر عمل اور جدوجہد ترک نہیں کردی۔ ہر وہ حکمت اختیار کی اور ہر وہ کوشش کی، جو معرکے میں کامیابی کے لیے ضروری تھی۔ قیادت اور نظم و ضبط میں کسی کو کوئی شک نہ رہنے دیا۔ پورا ایک لشکر ایک ہی اِمام، ایک ہی سربراہ کی زیرقیادت یک جا و متحد کیا۔ دشمن کی نظروں سے بچنے کے لیے رات کا سفر، آگ کا نہ جلانا اور دشمن کی کمین گاہ سے محتاط رہتے ہوئے اس کی شکست کے باوجود پیچھا نہ کرنا، سب عمل و جدوجہد ہی کے مظاہر ہیں۔ اگر نری بشارتوں ہی پر تکیہ کرنے والی قیادت ہوتی، تو شاید پھر یہ بشارت ہی حاصل نہ ہوتی۔
۱۰- رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے ہی دشمن کے ارادوں اور ریاست اسلامی کو درپیش خطرات کا علم ہوا، تو آپ نے معرکے کو دشمن کی سرزمین میں منتقل کر دیا۔ خود آگے بڑھ کر فتنے کی سرکوبی کر دی۔ کبھی یہ نہیں ہوا کہ دوسروں کی جنگ کو آپؐ اپنی سرزمین پر کھینچ لائے ہوں اور جنگ کی آگ بھڑکاکر تمام دشمنوں کو اس پر مزید تیل چھڑکنے کا موقع فراہم کر دیا ہو۔
۱۱- اس سفر اور بزرگ صحابۂ کبار کی قیادت کرلینے سے حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان کا مقام مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے۔ خود روایت کرتے ہیں کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ذاتُ السلاسل میں جانے والے لشکر کا سربراہ بناکر بھیجا۔ اس میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ آپؐ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا امیر بلاوجہ نہیں بنادیا، آپؐ کے دل میں میری قدرومنزلت ان سے بھی بڑھ کر ہوگی تو ایسا کیا ہے‘‘ میں نے حاضر ہوکر دریافت کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ آپؐ نے (بے ساختہ اور دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے فرمایا) عائشہؓ سے۔ میں نے عرض کی: نہیں یارسولؐ اللہ! میں آپؐ کے اہل خانہ کے بارے میں نہیں پوچھ رہا۔ آپؐ نے فرمایا: عائشہ کے والد سے۔ میں نے کہا: ان کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: عمرؓ سے۔ میں نے کہا: ان کے بعد۔ اس طرح آپؐ نے ایک ایک کرکے کئی صحابہ کے نام گنوادیے۔ میں نے پھر یہ سوچ کر مزید پوچھنا بند کردیا کہ کہیں میرا نام سب سے آخر میں نہ آجائے‘‘۔
یہ واقعہ بھی اسلامی تحریک کے ہر کارکن کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کی ذمہ داریاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس کی قدرومنزلت کا تعین نہیں کرتیں۔ مدرسۂ نبوت نے نئے آنے والے طالب علم کی دل جوئی کی خاطر، نئے آنے والے کی دوٹوک، محتاط اور حکیمانہ طبیعت کے پیش نظر، اس ذمہ داری کے لیے موزوں جانا اور وہ اس اعتماد پر پورے اُترے، لیکن مقام و مرتبے کا تعین اور آپؐ سے قربت کا حصول ذمہ داریوں کے تعین سے نہیں ہوتا۔
نئے طالب علم نے بھی اس خلافِ توقع جواب پر برا نہیں منایا، نہ دورِ جہالت ہی کا کوئی تعصب قریب آنے دیا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ خود بھی قدرومنزلت کی انھی بلندیوں تک پہنچ گئے۔ تب جیسے خود ہی اپنی پہلی راے کی سادگی کا خیال آیا ہو، بیان کیا کہ دیکھو بھلا میں بھی کیا سوچ بیٹھا تھا۔
۱۲- رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگی، جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ ابھی مُوتہ کو دو ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ ذات السلاسل کے لیے لشکر ارسال کر دیا۔ اس معرکے کو دو ماہ نہ گزرے تھے کہ فتحِ مکہ کے عظیم معرکے کا آغاز ہوگیا۔ رمضان میں مکہ فتح ہوا اور تقریباً تین ہفتے بعد۵شوال ۸ ہجری کو غزوئہ حنین کے لیے لشکرِرسولؐ روانہ ہو رہا تھا۔ کسی طرف سے آواز نہیں آئی: ابھی ایک معرکے سے اور مہم سے سانس نہ لیا تھا کہ دوسرے میں جھونک دیا۔ سب نے بیک آواز لبیک کہا اور سرخ رو ہوگئے ؎
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
رب ذو الجلال ہمیں اپنے دین کا صحیح فہم عطا فرما اور ہمارے لیے اس پر عمل کو آسان بنادے، آمین!