جنوری ۲۰۱۰

فہرست مضامین

سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۱۰ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور ___صدر زرداری کا طبلِ جنگ

جمہوریت میں عوام کے ووٹ اور انتخابی عمل کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے لیکن جمہوریت پر اس سے بڑے ظلم کا تصور مشکل ہے کہ اسے محض انتخابی عمل تک محدود کردیا جائے۔ قیادت کا انتخاب بلاشبہہ عوام کی آزاد مرضی سے ہونا چاہیے اور عوام کے سامنے قیادت کی بار بار جواب دہی انتخابی عمل کا اہم ترین حصہ ہے۔ تاہم جمہوریت کا اصل جوہر قانون کی حکمرانی اور  دستور کے تحت تمام اداروں کی کارفرمائی ہے، اور ان حدود کی پاس داری ہے جو کاروبارِ ریاست کی   انجام دہی کے ضمن میں ہرادارے کے لیے دستور نے قومی اتفاق راے سے مقرر کی ہیں۔ جمہوری نظام کی کامیابی کے لیے بنیادی حقوق کا تحفظ، عدلیہ کی آزادی، راے کے اظہار کی ضمانت، صحافت کی آزادی اور قیادت کا پارلیمنٹ، قانون اور عوام کے سامنے جواب دہ ہونا ضروری ہے۔

جمہوری ریاست اور معاشرے میں تمام ادارے دستور اورقانون کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے درمیان مکمل تعاون اور توازن ہی جمہوری نظام کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں۔ جو بھی قانون سے بالاتر ہونے یا دستوری تحدیدات اور مواقع سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ دراصل جمہوریت پر تیشہ چلانے کا مجرم ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ یہاں جمہوری عمل کو خطرہ باہر کی قوتوں سے کہیں زیادہ، اندر کے طالع آزمائوں اور ذاتی مفاد کے اسیروں سے رہا ہے۔ اگر قوم اور ملک کی سیاسی قیادت موجودہ حالات میں دستوری نظام اور جمہوری عمل کے آداب و روایات کی مکمل پاس داری کے باب میں کسی طرح کی کوتاہی دکھاتے ہیں تو یہ ملک اور اس کے مستقبل کے لیے نہایت خطرناک ہوگا۔ فوجی آمر سے نجات، عدلیہ کی بحالی اور صحافت کی آزادی سے جمہوری عمل کے فروغ اور استحکام کے جو مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہ ذرا سی غلطی سے خطرے میں پڑسکتے ہیں۔

قومی مصالحتی آرڈی ننس (این آر او) کے بارے میں ۱۶ دسمبر ۲۰۰۹ء کے سپریم کورٹ کے ۱۷ رکنی فل بنچ کے متفقہ فیصلے سے ملک میں قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے اور اسے کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست سے بچانے کے جو روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں، وہ زرداری گیلانی حکومت کے جارحانہ اور گاہے بچگانہ رویے سے معرضِ خطر میں پڑ سکتے ہیں۔ ۲۷ دسمبر کو بے نظیر بھٹو صاحبہ کی دوسری برسی پر صدر آصف علی زرداری صاحب نے جو تقریر کی ہے اور جس لب و لہجے میں کی ہے، وہ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک فالِ بد اور قومی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ زرداری صاحب اور ان کے حواریوں کی طرف سے پہلے بوکھلاہٹ اور پھرتصادم کی سیاست کے اشارے تو ۱۷دسمبر ہی سے ملنے لگے تھے، لیکن طبلِ جنگ اب ۲۷ دسمبر کو بجایا گیا ہے۔

نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کو جس طرح پاکستان کی جنگ بنا دیا گیا ہے، اس نے ایک طرف ملک کی آزادی اور خودمختاری پر کاری ضرب لگائی ہے، دوسری طرف ملک کو لاقانونیت، تشدد، خانہ جنگی، اور معاشی تباہی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جس قومی یک جہتی اور سیاسی بالغ نظری کی ضرورت ہے، موجودہ برسرِاقتدار قیادت کادامن اس دانش سے خالی نظر آرہا ہے، اورجس راستے پر یہ قیادت آگے بڑھنے لگی ہے   وہ تصادم اور تباہی کا راستہ ہے۔ امریکا کی جنگ سے خلاصی، معاشی مسائل کے حل اور ملک      اور جمہوریت کی اصل دشمن قوتوں سے نبردآزما ہونے کے بجاے، وہ عدلیہ، فوج، میڈیا اور    حزبِ اختلاف کو نشانہ بنانے کی خطرناک حکمت عملی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان کا یہ عمل خود ان  کے لیے اور پھر وطن عزیز کے لیے ایک خودکش حملے سے کم نہیں۔ یہ وقت تصادم کا نہیں، قومی سلامتی اور پاکستانی قوم اور معاشرے کی حقیقی ترجیحات کی روشنی میں حقیقی قومی مفاہمت پیدا کرنے، اور دستور کی مکمل پاس داری کے ذریعے درپیش سنگین مسائل کا حل تلاش کرنے کا ہے۔

عوام نے پیپلزپارٹی کو جو اختیارِ حکمرانی فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے ذریعے دیاتھا، بدقسمتی سے اسے موجودہ حکمرانوں نے یکسر نظرانداز کر دیا ہے، اور اس کی ساری تگ و دو ذاتی مفادات کے حصول پر مرکوز نظر آرہی ہے۔ بدانتظامی اور بدعنوانی کے سیلاب نے پورے ملکی نظام کی چولیں ہلادی ہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے اور اصل مسائل کے حل کے لیے مل جل کر حکمت عملی اور نقشۂ کار بنانے اور اس پر سختی سے کاربند ہونے کا راستہ اختیار کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے ۳۱جولائی اور ۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے فیصلوں کے ذریعے جو شمع روشن کی ہے، اس سے تاریکیوں کا سینہ چیرکر ملک کو ایک روشن مستقبل کی طرف لے جایا جاسکتا ہے۔ اس کا راستہ باہم مشاورت، دستور کا احترام، قانون کی پاسداری، مفاد کی سیاست سے اجتناب اور ملک کی آزادی، سلامتی اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے ساتھ عوام کی مشکلات اور مصائب کو حل کرنے کی بھرپور کوشش ہے۔ پاکستان نہ کل ایک ناکام ریاست تھا اور نہ آج ایسا ہے۔ ناکامی اگر ہے تو وہ قیادت کی ہے اور ابھی وقت ہے کہ حالات کو تباہی کے راستے پر جانے سے بچانے کے لیے    قومی یک جہتی کے حصول اور صحیح حکمت عملی کی ترتیب و تنفیذ کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نام نہاد قومی مصالحتی آرڈی ننس کی اصل حقیقت اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے مضمرات اور تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے۔ این آر او زدہ قیادت نے حالات کو جو زاویۂ نظر دینے کی کوشش کی ہے، اس کا پردہ چاک کر کے اصلاح اور نجات کی راہ کو واضح کیا جائے۔ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری، دستور، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے تاکہ بدعنوانی کی سیاست سے نجات اور عوام کے حقوق کی حفاظت اور مسائل کے حل کی عوامی جدوجہد میں سرگرم حصہ ادا کیا جاسکے۔

ملکی تاریخ کا شرمناک باب

وہ آرڈی ننس جو جنرل پرویز مشرف نے فوجی وردی میں اپنے ناجائز صدارتی انتخاب (۶؍اکتوبر ۲۰۰۷ئ) سے صرف ۲۴گھنٹے پہلے ’قومی مصالحت‘ کے نام پر جاری کیا تھا، وہ پاکستان کی تاریخ کا نہایت شرمناک فرمان تھا۔ یہ فرمان دنیا کی تاریخ میں اس پہلو سے منفرد تھا کہ بدعنوانی تو انسانی زندگی پر ایک بدنما اور قابلِ مذمت داغ کی حیثیت سے ہمیشہ سے رہی ہے، لیکن اس داغ کو ’مفاہمت‘ کے نام پر دستور، قانون، اخلاق اور سیاسی اصول و آداب کا خون کرکے بے حمیتی کے ساتھ دو سیاسی قوتوں کا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسے قانون قرار دینا، اور اس سیاہ کاری کو ’تمغاے بحالی جمہوریت‘ کا نام دینا نہ ماضی میں کہیں دیکھنے میں آیا اور نہ مستقبل میں کسی مہذب معاشرے میں یہ ممکن ہوگا لیکن یہ سیاہی جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے نہ صرف اپنے چہرے پر مَلی بلکہ پاکستان کے چہرے کو بھی داغ دار کیا۔ اب کہ جب سپریم کورٹ نے سیاسی قیادت کو اصلاحِ احوال کا ہر موقع فراہم کرنے کے بعد اس نام نہاد ’قانون‘ کو کالعدم قرار دیا ہے تو اپنی غلطی کے اعتراف کے بجاے جمہوریت کے خلاف سازشوں کا افسانہ تراشا جا رہا ہے اور ملک کو ایک نئے تصادم اور انتشار کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔

ریکارڈ کی درستی کے لیے ضروری ہے کہ قوم کے سامنے تمام حقائق بے کم و کاست پیش کیے جائیں۔ حق وانصاف اور پاکستان اور جمہوریت کے مفاد میں وہ راستہ اختیار کیا جائے، جو   اصلاحِ احوال کا ذریعہ بنے، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت کسی کو ادا کرنی پڑے۔ ہم ان تمام حقائق کو جن کو سمجھے بغیر قوم اصل صورتِ حال کا ادراک اور خرابیوں کی تلافی کا اہتمام نہیں کرسکتی، پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

میثاقِ جمہوریت جس پر لندن میں ۱۴ مئی ۲۰۰۶ء کو دیگر چھوٹی پارٹیوں کے علاوہ پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے دستخط کیے اور جس کی تیاری میں تقریباً دو سال لگے، اس معاہدے کو سب ہی نے پاکستان میں جمہوریت اور دستور کی بالادستی کی طرف ایک سنگِ میل قرار دیا۔ اس میں مِن جملہ اور عہدوپیمان کے، یہ باتیں طے کی گئی تھیں:

ا- بدعنوانی اور سیاسی انتقام سے نجات اور اربابِ اختیار کی حقیقی اور مبنی بر انصاف   جواب دہی کے لیے ایک ’سچائی اور مفاہمت کا کمیشن‘(Truth and Reconciliation Commission)قائم کیا جائے گا ،جو ۱۹۹۶ء سے تمام حالات کا جائزہ لے کر ملک کے مجرموں کی گرفت کرے، اور سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والوں کی پاک دامنی کے اظہار کی راہ ہموار کرے۔

ب- عوام کے مینڈیٹ کے مکمل احترام کے ساتھ اس میں یہ بھی عہدوپیمان کیا گیا تھا کہ:

ہم کسی فوجی حکومت، یا فوج کی حمایت یافتہ حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ کوئی پارٹی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے، یا اقتدار میں آنے کے لیے فوج کی حمایت حاصل نہیں کرے گی۔

لیکن جس وقت اس میثاق کی نوک پلک درست کی جارہی تھی اور اس پر دستخط ثبت کیے جارہے تھے، اسی وقت پیپلزپارٹی کی قیادت، دوسری سیاسی پارٹی (مسلم لیگ ن) اور قوم کو تاریکی میں رکھ کر جنرل پرویز مشرف اور اس کے باوردی نمایندوں سے سیاست کے نئے نقشے کے خدوخال طے کر رہی تھی جس کا حاصل نام نہاد ’قومی مصالحت کا آرڈی ننس‘ ہے۔اس کا اعلان پرویز مشرف نے ۵؍اکتوبر ۲۰۰۷ء کو کیا اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے اسمبلیوں سے استعفا دینے کے بجاے پرویز مشرف کے بے معنی صدارتی انتخاب کے بعد، اس کے ساتھ سیاسی اشتراک کا معاملہ طے کیا۔ اس طرح ملک پر وہ قانون مسلط کیا جس کے ذریعے قومی دولت لوٹنے، اختیارات کے غلط استعمال کرنے اور حتیٰ کہ فوجداری جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو دستور، قانون اور اخلاق کے تمام تقاضوں کو بالاے طاق رکھ کر ’پاک دامنی‘ کا سرٹیفیکیٹ دیا جاسکے، تاکہ وہ اس ناپاک غسل کے ذریعے ایک بار پھر قوم کی قسمت سے کھیلنے کے لیے اقتدار پر براجمان ہوسکیں۔

جنرل پرویز مشرف سے اس زمانے میں سارے معاملات طے کرنے کی داستان خود  بے نظیرصاحبہ نے اپنی کتاب Reconciliation (مفاہمت)میں بیان کی ہے، جس سے چند اقتباس صرف اس لیے پیش کیے جا رہے ہیں کہ اس دوغلی سیاست کا اصل چہرہ خود ان کے الفاظ میں دیکھا جاسکے: ’’مشرف کے دور کے آغاز سے ہی اس کی حکومت اور پیپلزپارٹی کے درمیان مسلسل مکالمہ جاری رہا‘‘۔ (ص ۲۲۳)

اس کا ایک نمونہ موصوفہ کے الفاظ میں وہ رابطہ بھی ہے جو ۲۰۰۲ء میں آئی ایس آئی کے  اعلیٰ باوردی ذمہ داروں کی آصف زرداری صاحب سے ملاقات کی صورت میں سامنے آیا جس کے دوران میں خود ان سے، جب وہ کیلی فورنیا، امریکا میں تھیں مشورہ کیا گیا اور معاملہ طے کرنے   کے لیے شرائط پیش کی گئیں۔ پھر ۲۰۰۴ء میں آصف زرداری صاحب کی رہائی عمل میں آئی۔    اس کے بعد جنرل مشرف سے بے نظیر صاحبہ کی ملاقات کا انتظام شروع ہوا اور بقول بے نظیر بھٹو، جنرل صاحب کے نمایندوں سے بات چیت کرنے کے لیے میری اس شرط پر عمل ہوا کہ      جنرل مشرف نے خود مجھ سے ٹیلی فون کر کے اپنے نمایندوں کے مینڈیٹ کا اعتراف کیا۔        ادھر مئی ۲۰۰۶ء کے ’میثاقِ جمہوریت‘ پر دستخط ہو رہے تھے اور ساتھ ہی مشرف سے سلسلہ جنبانی   اپنے عروج پر تھا اور بالآخر اگست ۲۰۰۶ء میں جنرل مشرف سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا اور بطور    اعتماد سازی اقدام اس قانون کو اسمبلی سے منظور کرایا گیا، جس میں حدود قوانین میں ترمیم کی گئی تھی۔

جنرل مشرف اور اس کی ٹیم سے جو معاملات طے ہو رہے تھے، ان میں لندن اور واشنگٹن کے حکمران بھی شریک تھے اور فوجی قیادت میں اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ بھی۔ اس سیاسی جوڑتوڑ اور معاملہ طے کرانے میں، یہ سبھی کردار گویا ’ضمانت کار‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر جنوری ۲۰۰۷ء اور جولائی ۲۰۰۷ء میں بے نظیر صاحبہ اور جنرل مشرف کی ملاقاتیں ابوظبی میں     شیخ زاید کے محل میں ہوئیں اور اس طرح ہر دو اطراف کے نمایندوں کی شب و روز کی محنت سے اکتوبر ۲۰۰۷ء میں این آر او کی ولادت واقع ہوئی (ملاحظہ ہو، ص ۲۲۷-۲۳۰)۔ امریکا، انگلستان، بے نظیر صاحبہ اور جنرل مشرف میں جرائم کی سیاہی کو پاک دامنی کا چوغا پہنانے کا جو معاہدہ ہوا،  اس کا اصل مقصد انھی کے الفاظ میں یہ تھا کہ موڈریٹ یعنی ’روشن خیال‘ قیادت کو برسرِاقتدار لایا جائے اور جنرل مشرف اور پیپلزپارٹی مل کر آگے کے مراحل کو طے کریں:

جنرل مشرف اور ان کے نمایندے مجھے برابر یقین دلاتے رہے کہ اسٹرے ٹیجک فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں، اعتدال پسند فورم بناکر مل جل کر کام کیا جائے۔

اس سلسلے میں دستاویزات کا باقاعدہ تبادلہ ہوتا رہا ،اور بے نظیر صاحبہکے الفاظ میں:  ’’این آر او کے تبادلے میں ہماری طرف سے یہ کیا گیا کہ ہم نے اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیے،  گو کہ اس کو ووٹ بھی نہیں دیا‘‘۔ (ص ۲۲۹)

اس کہانی سے صاف ظاہر ہے کہ این آر او کا قانون اپنی اصل کے اعتبار سے دستور، قانون، سیاست اور اخلاق، ہر پہلو سے غلط اور گندا قانون تھا، بلکہ انگریزی محاورے میں:    it was conceived in sin and fraud [اس کی تشکیل میں دھوکا دہی اور گناہ دونوں شامل تھے]۔

اب یہ جناب نواز شریف ہی کی ’وسعت قلبی‘ ہے کہ اس پوری داستان سے واقفیت کے باوجود وہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں شریک ہوئے، پھر وعدہ خلافیوں کے نام پر باہر نکلے اور اب تک ’فرینڈلی اپوزیشن‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

قانون اور انصاف کا خون

آیئے اب دیکھیں کہ یہ قانون تھا کیا اور اس کے ذریعے کس طرح دستور، قانون، انصاف، سیاست اور اخلاق کو قتل کیا گیا۔

۱- اس کے ذریعے ۱۸۹۸ کے ضابطہ قانون فوجداری (Code of Criminal Procedure) کی دفعہ ۴۹۴ میں یہ ترمیم کی گئی کہ وہ تمام فوجداری مقدمات جو یکم جنوری ۱۹۸۶ء سے لے کر ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء تک قائم کیے گئے ہیں، ان کو مقدمے کی تکمیل کے بغیر ایک نظرثانی بورڈ کے ذریعے مرکز اور صوبوں میں ختم کیا جاسکتا ہے۔

۲-  عوامی نمایندگی کے قانون ۱۹۷۶ء میں یہ ترمیم کی گئی کہ ریٹرننگ افسر الیکشن کے نتائج کی ایک نقل امیدوار اور اس کے نمایندوں کو دے گا۔

۳- ’قومی احتساب آرڈی ننس ۱۹۹۹ئ‘ میں یہ ترمیم کی گئی کہ کسی رکن پارلیمنٹ اور  صوبائی اسمبلی کو، کسی پارلیمانی اخلاقی کمیٹی کی سفارش کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکے گا۔

۴- اسی ’قومی احتساب آرڈی ننس‘ میں یہ ترمیم کہ، نیب کے وہ تمام مقدمات جو ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل ملک کے اندر یا ملک سے باہر چلائے گئے ہیں، فوراً واپس لے لیے جائیں گے۔

اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ فوجداری اور بدعنوانی کے وہ تمام مقدمات جو ۱۹۸۶ء اور ۱۹۹۹ء کے درمیان قائم کیے گئے ہیں، قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر محض سیاسی مفادپرستی اور نام نہاد ’روشن خیال‘ قوتوں کو شریکِ اقتدار کرنے کے لیے ختم کردیے جائیں گے اور اس طرح دیوانی اور فوجداری دونوں نوعیت کے ملزموں کو ’مفاہمت‘ کے نام پر غسلِ بے گناہی دے کر فارغ کر دیا جائے گا۔

بلالحاظ اس امر کے کہ اس آرڈی ننس کا فائدہ کس کو پہنچا ہے اور کس کس قسم کے جرائم کی اس کے ذریعے ’تطہیر اور صفائی‘ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے، ہم پہلے چند اصولی باتیں    عرض کریں گے جن کی تائید عدالتِ عظمیٰ کے مختصر فیصلے سے بھی ہوتی ہے:

ا- قانون کو سیاسی مقاصد اور مفادات کے لیے بالاے طاق رکھا جا رہا ہے اور ملزموں کو ان کے دفاع کا پورا موقع دے کر جرم کے ارتکاب کے تعین یا بے گناہی کے تعین کو یکسر نظرانداز کرکے، حتیٰ کہ سچائی اور اعترافِ گناہ کے قانون اور اخلاقی عمل تک سے بے نیاز ہوکر، محض سیاسی بنیادوں پر اور جوڑ توڑ کے ذریعے ملزموں کو قانون اور عدالت کی گرفت سے نکالا جا رہا ہے۔ یہ عمل انصاف اور قانون کی حکمرانی کے مسلّمہ اصولوں کی کھلم کھلا اور شرمناک خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ ریاست، مجرموں کو معاشرے کے نمایندے کے طور پر انصاف کے کٹہرے میں لاتی ہے۔ اصولِ قانون کا یہ مسلّمہ کلیہ و قاعدہ ہے کہ جو چیز معاشرے کے خلاف جرم ہے، اس کے مرتکب کو قانونی ضابطے کے عمل سے گزارے بغیر جرم کے الزام سے بری نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کا یہ اختیار ہے ہی نہیں کہ جب ایک مقدمہ عدالت کے سامنے آگیا تو وہ اسے واپس لے سکے۔ جرم کا اثبات یا انکار اب عدالت کا کام ہے، سیاسی قیادت یا حکومت کی اجارہ داری نہیں ہے۔ حکومت کا دائرہ کار وہاں ختم ہوجاتا ہے، جب استغاثہ کسی مقدمے کو عدالت کے سامنے   لے آتا ہے۔ اس لیے یہ قانون اپنے پہلے ہی دن سے اصولِ قانون کے مسلّمات کے خلاف تھا اور قانون کی نگاہ میں ایک ’گھنائونا قانون‘ تھا، جس کا نفاذ ہی ایک جرم تھا، جس کی سزا اس قانون کے بنانے والوں کو ملنی چاہیے نہ کہ اس کے سہارے ملزموں کو غسلِ صفائی دیا جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کے جرائم کو داخل دفتر کردیا جائے۔ معاشرہ اور ان جرائم کا نشانہ بننے والے مظلوم انسانوں کو بے سہارا چھوڑ دیا جائے اور ملک اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو غاصبوں کی ہوسِ زر پوری کرنے کے لیے چاندی کی پلیٹ پر سجا کر دے دیا جائے۔

ب- دستور نے جن بنیادی حقوق کی ضمانت تمام انسانوں کو دی ہے، ان میں قانون کی نگاہ میں برابری اور مساوات ایک بنیادی حق ہے (دفعہ ۲۵)۔ اس نام نہاد صدارتی فرمان کی شکل میں دستور کی اس شق اور انصاف کے بنیادی اصول کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے کہ یکم جولائی ۱۹۸۶ء اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کے درمیان کیے جانے والے جرائم، بدعنوانی اور لوٹ مار کو کھلی چھوٹ مل جائے۔ البتہ ان تاریخوں سے پہلے یا ان کے بعد کیے جانے والے جرائم تو جرائم رہیں اور مجرموں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے۔ نیز ان تاریخوں کے درمیان بھی فوجداری اور جواب دہی کے قانون کی گرفت میں آنے والے سب ملزموں کو خلاصی کی یہ سہولت حاصل نہیں ہوگی، بلکہ صرف [اُن خصوصی] ملزموں یا مجرموں کو رعایت حاصل کو ہوگی، جن کے مقدمات کو سرکار واپس لے۔ اس عمل کو قانون کی زبان میں discrimination[امتیازی یا جانب دارانہ سلوک] کہا جاتا ہے جو دستور، قانون اور اخلاق کے خلاف ہے۔ اس طرح ’قانونی برابری‘ کے اصول کا خون کیا گیا ہے اور ایسا قانون ایک لمحے کے لیے بھی قانونی درجہ نہیں پاسکتا۔

قرآن و سنت اور دستور کی صریح خلاف ورزی

یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ دستور نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کو محکم بنیادوں پر قائم کرنے کے ساتھ پارلیمنٹ پر دو پابندیاں لگائی ہیں۔ ان پابندیوں کی خلاف ورزی پارلیمنٹ اپنے قانون سازی کے اختیار کے استعمال کے باب میں نہیں کرسکتی ،اور نہ ان کے برعکس کوئی آرڈی ننس ہی انتظامیہ لاسکتی ہے۔ یہ پابندیاں دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۸ اور دفعہ۲۲۷ میں درج ہیں، یعنی بنیادی حقوق کے خلاف اور قرآن و سنت کے احکام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی اور یہ قانون ان دونوں دفعات کی رُو سے دستور پاکستان کے خلاف ہے۔

دستور کی دفعہ ۸ صاف الفاظ میں کہتی ہے:

آرٹیکل ۸- بنیادی حقوق کے نقیض یا منافی قوانین کالعدم ہوں گے:

۱- کوئی قانون یا رسم یا رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو، تناقض کی اس حد تک کالعدم ہوگا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو۔

۲- مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا    کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے، اس   خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہوگا۔

دستور کی دفعہ ۲۷۷ کہتی ہے:

تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے، اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔

قرآن و سنت کے احکام اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ (النساء ۴:۵۸) مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں    اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

مسلمانوں کی صفت قرآن کے الفاظ میں یہ ہے کہ: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ o (المومنون ۲۳:۸) ’’اور جو امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۸) اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔

خیانت کی ہر شکل کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الانفال ۸:۲۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو جانتے بوجھتے اللہ اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو۔ اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ بنو حالانکہ تم جانتے ہو۔

وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۱) اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہوجائے گا اور ہر نفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔

اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزِ قیامت جب حساب کتاب کے لیے بارگاہِ الٰہی میں پیشی ہوگی اور آدمی کے پائوں اپنی جگہ سے سرک نہ سکیں گے جب تک    مِن جملہ اور باتوں کے، اس سے یہ پوچھ گچھ نہ کرلی جائے گی: وَعَنْ مَالِہِ مِنْ أیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَا أَنْفَقَہٗ، یعنی مال کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں سے اسے حاصل کیا اور کن کاموں پر اور کن راہوں میں اس کو صرف کیا۔

ارشادِ نبیؐ برحق ہے کہ جس شخص نے کسی دوسرے کی کچھ بھی زمین ناحق لے لی تو قیامت کے دن وہ اس زمین کی وجہ سے (اور اس کی سزا میں) زمین کے ساتوں طبق تک دھنسا دیا جائے گا۔

وَمَنْ اَخَذَ مِنَ الْاَرْضِ شَیْئًا بِغَیْرِ حَقّہِ خُسِفَ بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِلٰی سَبْعِ أَرْضِیْن (بخاری)

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَنْ اِنْتَھَبَ نَھْبَۃً فَلَیْسَ مِنَّا (ترمذی) ’’جس نے کسی کی کوئی چیززبردستی چھین لی اور لوٹ لی تو وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ اللہ کے رسولؐ نے جہاں مسلمانوں کے درمیان ہدیوں کے تبادلے کو محبت میں اضافے کا ذریعہ قرار دیا ہے وہیں  حاکمِ وقت اور فرماں روا کے لیے ہدیوں کے لینے کی مخالفت کی ہے اور انھیں خیانت اور ایک طرح کی رشوت قرار دیا ہے: ھَدَایَا الْاِمَامِ غُلُوْل (امام وقت کے ہدیے غلول، یعنی ایک طرح کی رشوت اور خیانت اور ناجائز استحصال کی قبیل سے ہیں)

راشی اور رشوت دینے والے دونوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے: الرَّاشِیِ وَالْمُرْتَشِیِ کِلَاھُمَا فِی النَّار، اور حضوؐر کا ارشاد ہے:

لاَ یَکْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ یَتَصَدَّقُ مِنْہٗ فَیُقْبَلَ مِنْہُ ، وَلَا یُنْفِقُ مِنْہُ فَیُبَارَکَ لَہٗ فِیْہِ ، وَلاَ یَتْرُکُہُ خَلَفَ ظَھْرِہِ اِلَّا کَانَ زَادُہُ اِلَی النَّارِ (مسند احمد) ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ کسی ناجائز طریقے سے حرام مال کمائے اور اس میں سے پہلے صدقہ کرے، تو اس کا صدقہ قبول ہو اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میںبرکت ہو، اور جو شخص حرام مال (مرنے کے بعد) پیچھے چھوڑ جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہی ہوگا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قانون کے نفاذ میں انسانوںکے درمیان تفریق نہ کرو اور وہ قومیں جو کمزور لوگوں کو تو قانون کے مطابق سزا دیتی ہیں، مگر صاحب ِ اختیار اور طاقت ور اور بالائی طبقے کے لوگوں کو سزا سے بچا لیتی ہیں وہ تباہی کا راستہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر     فاطمہؓ بنت محمدؐ نے بھی چوری کی ہوتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے۔

یہ ہیں اللہ، اللہ کے رسولؐ اور خود ہمارے دستور کے واضح احکامات۔ این آر او ان سب کی کھلی کھلی خلاف ورزی تھا اور اپنے اعلان کے پہلے دن ہی سے ایک ناجائز حکم نامہ تھا۔ اچھا ہوا سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے ختم کر دیا، خس کم جہاں پاک۔

اس قانون سے فائدہ اُٹہانے والے

یہ تو اس قانون کے بارے میںاصولی پوزیشن تھی لیکن ذرا یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اس قانون سے فائدہ اٹھانے والوں پر کیا کیا الزامات تھے اور ان میں کیسے کیسے نام وَر شامل تھے    ؎

نہ من تنہا دریں میخانہ مستم

جنید وشبلی و عطار ہم مست

اس بدنامِ زمانہ قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کی کُل تعداد ۸۰۴۱ بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے ۷۷۹۳ کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ ۳۰۰ اہم سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے اپنے مقدمات ختم کرائے ہیں، جس کے نتیجے میں صرف ان ۳۰۰ افراد نے این آر او کے تحت۱۶۵ ارب روپے کی بدعنوانیوں، اختیارات کے غلط استعمال اور غبن کے مقدمات معاف کروا کر اپنے کو ’پاک‘ کرا لیا۔ دی نیوز اخبار کی ۲۰ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں یہ اطلاع قابلِ اعتبار ذرائع سے دی گئی ہے: ۱۶۵ ارب روپے کا اندازہ اصل رقم سے بہت کم ہے، جب کہ صحیح رقم ایک ہزار ارب روپے بنتی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے اور اغلب یہی ہے کہ اصل رقم ایک ہزار ارب ہے تو صرف اتنی بات پیش نظر  رکھی جائے کہ صرف یہ رقم جو ۱۲؍ارب ڈالر بن جاتی ہے پانچ سال میں امریکا سے ملنی والی مدد (۵ئ۷ بلین ڈالر) سے کہیں زیادہ ہے اور ملک کے لیے بیرونی امداد کی بھیک مانگنے والی تمام رقوم سے زیادہ ہے۔ حکومتِ پنجاب نے جو ۷۷ افراد کی فہرست عدالتِ عظمیٰ کو بھجوائی ہے اس میں صرف ایک سابقہ رکن قومی اسمبلی نے ۱۷۰ ملین ڈالر کا فائدہ اٹھایا ہے۔

پیپلزپارٹی کے مرکزی حکومت کے وزیرمملکت براے قانون افضل سندھو نے جو فہرست عدالت کو دی ہے (اور اب وہ اس وزارت سے فارغ کردیے گئے ہیں اور ان کی جگہ ایک ایسے سینیٹر کو وزارتِ قانون و انصاف کا قلم دان سونپ دیا گیا ہے جن پر حارث اسٹیل مل کے مقدمے میں ساڑھے تین کروڑ روپے ججوں کو خریدنے کرنے کے لیے دیے جانے کا الزام ہے اور بحیثیت وزیرقانون ’قومی احتساب بیورو‘ (NAB) کا محکمہ خود ان کے ماتحت ہوگا) اس فہرست کی رُو سے اس قانون سے عظیم ترین ’فائدہ‘ اٹھانے والوں میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن اور موجودہ صدرمملکت جناب آصف زرداری ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکنوں کی بڑی تعداد یعنی ۳ہزار ۷ سو ۷۵ افراد بھی اس سے مستفید ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے لیڈر جناب الطاف حسین کے  خلاف ۷۱ مقدمات تھے، جن میں سے ۳۱ کا تعلق قتل اور ۱۱ کا اقدامِ قتل سے تھا۔ واضح رہے کہ روزنامہ دی نیشن کی اطلاع کے مطابق (۱۹ نومبر ۲۰۰۹ئ) اس قانون کے آنے کے بعد ان آٹھ ہزار سے زائد مقدمات کی واپسی کے علاوہ نیب سے ۳۰۰ مزید ان مقدمات کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، جو ابھی زیرتفتیش تھے۔ اس کے علاوہ ساڑھے پانچ ہزار کے قریب مزید مقدمات ہیں جن کی ’قومی احتساب بیورو‘ اب وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پیروی میں مشکل محسوس کر رہا ہے۔

قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں لیکن پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے تحت صدرمملکت اور گورنر صاحبان کو ان کے دورِ اقتدار میں ہرقسم کی فوجداری جواب دہی سے مستثنیٰ قرار دیا گیاہے، جو اسلامی احکام و روایات اور خود جمہوری ممالک کے تعامل سے متصادم ہے۔ کیا امریکا کے دو سابق صدور رچرڈ نکسن اور کلنٹن صاحبان پر عدالت کے ذریعے فوجداری تفتیش و جواب دہی کا معاملہ  نہیں ہوا، کہ جس کے نتیجے میں ۱۹۷۴ء میں صدرنکسن کو استعفا دینا پڑا۔ کیا اٹلی کے موجودہ وزیراعظم سلوایو بریاسکونی کو ایسی رعایت ختم کر کے وہاں کی عدالتِ عظمیٰ نے، ان کے خلاف مقدمات کا دروازہ نہیں کھولا۔ حتیٰ کہ اسرائیل میں اس کے ایک صدر اور ایک وزیراعظم پر دورِاقتدار میں کیا فوجداری اور کرپشن کے مقدمات قائم نہیں ہوئے؟ کیا اس مشق سے وہاں کا سیاسی نظام اور جمہوریت کسی خطرے کا شکار ہوئے؟ زرداری صاحب نے این آر او سے جس فیاضی سے فائدہ اٹھایا ہے، اس کی تفصیل سینیر قانون دان جناب محمد اکرم شیخ نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ دی نیوز (۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ئ) میں دی ہے، جو اہلِ نظر کے لیے چشم کشا ہے۔

l ۱۵ فروری ۲۰۰۸ء کو زرداری صاحب نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنے تمام زیرسماعت مقدمات سے این آر او کے تحت گلوخلاصی کی درخواست دی، اور ۲۸ فروری کو اس وقت پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے عدالت کو ہدایت دی کہ عدالت ان کے مقدمات کو تیزی سے نمٹا دے، نتیجہ یہ کہ ۲۴گھنٹے میں سندھ ہائی کورٹ نے معاملہ ختم کر دیا۔

  • مارچ ۲۰۰۸ء کو زرداری صاحب نے محمدنوازشریف صاحب کے ساتھ ’معاہدۂ مری‘ کیا۔ اس کے چار دن بعد ۱۲مارچ کو سوئٹزرلینڈ کے ایس جی ایس کوٹیکنا مقدمے سے زرداری صاحب کو بری کر دیا گیا۔ ۱۴مارچ ۲۰۰۸ء کو ’بی ایم ڈبلیو مقدمہ‘ ختم ہوا۔ ۲۴ مارچ ۲۰۰۸ء کو جسٹس نظام اور ان کے صاحبزادے کے قتل کے مقدمے سے زرداری صاحب کو بری قرار دیا گیا۔ ۸؍اپریل ۲۰۰۸ء مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے مقدمے سے نجات مل گئی۔ ۱۶؍اپریل ۲۰۰۸ء عالم بلوچ کے قتل کے مقدمے سے موصوف کو فارغ کر دیا گیا۔ ۱۳ مئی ۲۰۰۸ء کو موصوف اور ان کے دوسرے شریکِ جرم واجد شمس الحسن (برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر اور سوئس مقدمے کی دستاویزات کے ۱۲ڈبوں کو بنفسِ نفیس سوئس عدالت سے لانے کی شہرت کے مالک) کے ساتھ اسمگلنگ کے مقدمے سے نجات مل گئی۔ اسی طرح ۱۹ مئی ۲۰۰۸ء کو لاہور سے اسمگلنگ ہی کے ایک مقدمہ کاتیا پانچا کردیاگیا۔ یوں جناب چیئرپرسن مکمل ’غسل‘ کرنے کے بعد مملکت خداداد پاکستان کی صدارت کی کرسی پر رونق افروز ہوگئے۔

بلاشبہہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے سب افراد اب آزمایش کی کسوٹی پر ہیں۔ انھیں اپنے اُوپر عائد شدہ الزامات کا کھلے انداز میں مقابلہ کرنا چاہیے اور ایک غیر جانب دار عدالتی انتظام کے سامنے اپنی بے گناہی کو ثابت کرنا چاہیے، یا پھر اپنے کیے کی سزا بھگتنا چاہیے۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ اب اس دلدل سے نکلنے کا نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری خود جناب آصف علی زرداری کی ہے۔

سب سے پہلے یہ پاکستان کے مجبور و مقہور عوام کا حق ہے کہ ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والوں کا احتساب ہو اور حقیقی مجرموں کی قرارواقعی سزا ملے۔ قوم کی دولت ان سے واپس لی جائے، نیز جو لوگ بے جا طور پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنے ہیں، ان کی پاک دامنی قابلِ بھروسا اور شفاف عدالتی عمل کے ذریعے ثابت ہو، اور پاکستان کے عوام ان کے بارے میں مطمئن ہوسکیں۔ اس کے ساتھ پاکستان کی ساکھ کو ساری دنیا میں جو شدید نقصان پہنچا ہے، اس کی تلافی بھی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اب بڑے اور چھوٹے سب کو عدالت کے سامنے لایا جائے ،اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ ۱۶ دسمبر ۲۰۰۹ء کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ملک ہی میں نہیں پوری عالمی برادری میں آصف زرداری صاحب کے معاملے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ محض سیاسی شعبدہ بازی سے اب اس مسئلے کو قالین کے نیچے نہیں چھپایا جاسکتا۔ ۱۷؍دسمبر کے اخبارات نے جو کچھ لکھا، وہ ایک آئینہ ہے۔ اس آئینے میں موجودہ برسرِاقتدار قیادت اپنا اصل چہرہ اور پاکستان کو درپیش اصل چیلنج کے صحیح خدوخال دیکھ سکتی ہے۔ ریکارڈ کی خاطر چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں:

لندن کے اخبار دی ٹائمز کی رپورٹ ملاحظہ ہو:

پاکستان کے سیاسی لیڈروں میں بدعنوانی بہت پھیلی ہوئی ہے لیکن زرداری کی سرگرمیاں مبینہ طور پر جس بڑے پیمانے پر جاری ہیں اس نے تجربہ کار مبصرین کو بھی صدمے سے دوچار کر دیا۔ صدر پر الزام ہے کہ انھوں نے غیرقانونی ذرائع سے دنیا بھر میں ۵ئ۱ارب ڈالر جمع کیے ہیں۔ نیب نے عدالت کو جو رپورٹ دی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ زرداری کی دولت ذرائع آمدن سے بہت زیادہ ہے۔ بیورو کے عہدے دار نے بتایا کہ کمیشن اور رشوت سے جمع رقم میں سے ۶۰ ملین ڈالر سوئس بنک میں زرداری اور بے نظیر بھٹو کے اکائونٹ میں ہیں۔ ایک سوئس عدالت نے زرداری اور بے نظیربھٹو کو مجرم قرار دیا اور چھے ماہ کی سزاے قید دی جسے اپیل پر معطل کردیا گیا۔ جناب زرداری عدالت میں کبھی پیش نہیں ہوئے۔

نیویارک ٹائمز اس طرح اس مسئلے کو بیان کرتا ہے:

کسی دہشت گرد کے حملے کا نشانے بننے سے خوف زدہ مسٹر زرداری ایوانِ صدر سے شاذ ہی باہر آتے ہیں۔ گذشتہ ۱۰ دنوں میں جب سپریم کورٹ ان کے اختیارات پر بحث کر رہی تھی وہ بیش تر وقت ایوانِ صدر میں رہے۔ گذشتہ ہفتے جب این آر او پر سماعت شروع ہوئی توپاکستان کے ایک معروف اخبار نے ایک دفعہ پھر انھیں ایسے آدمی کی حیثیت سے پیش کیا جسے عام طور پر بدعنوان سمجھا جاتا ہے۔

خلیج ٹائمز بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے: ’’بدھ کو آنے والے فیصلہ مایوس کن حد تک غیرمقبول زرداری پر ایک بڑا حملہ تھا جو اس کے زوال کا نقطۂ آغاز ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔

حقائق کا سامنا کرنے کی ضرورت

بات صرف پاکستانی دانش وروں، سیاسی کارکنوں، صحافیوں ہی کی نہیں، پوری دنیا زرداری صاحب کے معاملے کو ایک ’ٹیسٹ کیس‘  سمجھتی ہے، اور اب اس سے فرار کی کوئی راہ نہیں بچی۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ: ’’الزامات عدالت میں ثابت نہیں ہوسکے اور ہم نے اتنی قید کاٹ لی ہے، اس لیے اب ہم قانون کی گرفت سے آزاد ہیں یا یہ کہ سب کچھ سیاسی انتقام کا شاخسانہ تھا‘‘۔

ہر کوئی جانتا ہے اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے اور مشہور قانون دان ایس ایم ظفر صاحب نے، کہ جو حقائق سے واقف ہیں، صاف لفظوں میں کہا ہے کہ بدعنوانی کے مقدمات کے فیصلے    نہ ہونے میں بڑا دخل اس حکمت عملی کا تھا کہ ملزموں نے عدالتی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے، باربار اور مسلسل تاخیری حربے استعمال کیے۔ اس کا ثبوت وہ حلفیہ بیانات بھی ہیں جو ملزموں کے یا ان کے وکیلوں نے عدالت کے سامنے پیش کیے اور پیشی پر پیشی لیتے چلے گئے۔ سوئٹزرلینڈ کی عدالت کے سامنے زرداری صاحب کے وکیلوں نے ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ تک دیے کہ وہ ایسی بیماری (Dementia) میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے حافظہ متاثر ہوتا ہے اور مریض بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کھلی عدالت میںشفاف طریقے سے جب تک کوئی الزام ثابت نہ ہو، وہ الزام ہی رہتا ہے۔ لیکن عدالتی عمل کی طوالت کا بہانہ بناکر جرم سے فرار کا کوئی جواز نہیں ہے۔ زرداری صاحب کے معاملے میں تو بین الاقوامی اداروں اور آزاد اخبارات کی اپنی تحقیق، کئی مغربی ممالک بشمول سوئٹزرلینڈ، اسپین، فرانس اور انگلستان میں عدالتوں کی تحقیق اور کارروائیاں بھی موجود ہیں جن کا انکار ممکن نہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی ۹جنوری ۱۹۹۸ء کی اشاعت میں اپنے نمایندے جان ایف بورس (John F. Burus) کی مفصل رپورٹ جو House of Graft: Tracing the Bhutto Millions ___ A Special Reportکے عنوان سے شائع کی ہے، جس میں اخبار نے اپنے ذرائع سے تحقیق کا بھی حوالہ دیا ہے، جوقابلِ توجہ ہے:

بھٹو خاندان کے بارے میں پاکستانی تفتیش کاروں کی جانب سے دستاویزات سامنے آنے کے بعد مسٹر بھٹو اور مسٹر زرداری کے بارے میں کچھ تفصیل گذشتہ برس یورپی اور امریکی اخباروں میں آنا شروع ہوئی۔ لیکن زیادہ واضح تصویر اس وقت اُبھر کر سامنے آئی جب اکتوبر میں نیویارک ٹائمز کو دستاویزات کی کئی جلدیں فراہم کی گئیں۔ ٹائمز نے پاکستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا میں تین ماہ تک خود تحقیقات کی اور ان مرکزی شخصیات سے انٹرویو بھی کیے جن کا ذکر پاکستانی تفیش کاروں نے کیا تھا۔ پاکستان میں تحقیقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت تک جن ۱۰۰ ملین ڈالر کا پتا چلا ہے۔ وہ بدعنوانیوں کی کل یافت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ۱۹۹۶ء میں بے نظیر بھٹو کی برطرفی کے بعد جو تحقیقات شروع کی گئی تھیں ان سے معلوم ہوا تھا کہ ان کے خاندان اور ساتھیوں نے سرکاری کاموں کے تقریباً ہر دائرے میں___ چاولوں کے سودے، سرکاری زمین کی فروخت اور سرکاری ویلفیئر اسکیموں سے حصہ___ غیرقانونی منافع اور رشوت کی شکل میں ۵ئ۱ارب ڈالر تک جمع کیے۔

اس سلسلے کی سب سے ہوش ربا شہادت امریکا کے ادارے ’نیشنل سیکورٹی ایجنسی‘ (NSA) کی وہ ٹیلی فون ریکارڈنگ ہے ،جو نومبر ۲۰۰۷ء میں خود محترمہ نے اپنے صاحبزادے بلاول زرداری سے دوبئی سے کی تھی، اور جس میں اپنے بنک اکائونٹس کی تفصیل اور ضروری ہدایات دی گئی تھیں۔ یہ پوری تفصیل رون سسکند (Ron Suskind) نے اپنی کتاب The Way of The World (مطبوعہ ۲۰۰۸ئ) میں دی ہے۔

یہ سب باتیں ساری دنیا میں زبان زدِخاص و عام ہیں اور ان کا سامنا کیے بغیر ان الزامات سے گلوخلاصی ممکن نہیں۔ ہم اب بھی یہی کہتے ہیں کہ الزامات میں بڑا وزن ہے اور واقعاتی شہادت زوردار ہے، تاہم مسئلے کا حل وہی ہے جو عدالت ِعظمیٰ نے تجویز کیا ہے، یعنی مقدمات اور الزامات کا کھلی عدالت میں مقابلہ۔ سب کو اپنے دفاع کا پورا حق اور موقع ملنا چاہیے مگر محض سیاسی انتقام کا واویلا حقائق سے فرار اور الزامات کو ختم نہیں کرتے بلکہ شبہات کو بڑھا دیتے ہیں۔

سرے محل اور سوئس بنک کے ۶۰ ملین ڈالر تو زرداری صاحب کے اپنے تحریری اعتراف کے مطابق ان کی ملکیت ہیں۔ لیکن جو دستاویزات موجود ہیں ان کے مطابق تو دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کے پاس یہاں پاکستان میں ۲۲ کروڑ اور ملک سے باہر ۵ئ۱ بلین ڈالر کے اثاثہ جات ہیں۔ اگر یہ ہوائی بات ہے تو سچائی کو ثابت کرنا چاہیے اور اگر یہ رقوم اور اثاثہ جات ہیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کیسے حاصل کی گئیں۔ اس لیے کہ زرداری صاحب نے ۱۹۹۰ء میں پارلیمنٹ کے سامنے اپنے اثاثہ جات میں اپنی جس دولت اور آمدنی کا ذکر کیا ہے، اس سے تو آج کی دولت کے عشرعشیر کی بھی توجیہہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی محاذآرائی مسئلے کا حل نہیں۔ حقائق کا سامنا کرنے کے سواکوئی چارۂ کار نہیں ہے۔

ہم یہ سب حقائق بڑے دکھ بلکہ شرمندگی کے احساس کے ساتھ نذرِ قارئین کر رہے ہیں لیکن یہی ہے وہ داستان جس نے پوری دنیا میں پاکستان کی عزت کو خاک میں ملا دیا ہے۔ پورے عالمی میڈیا میں ہماری سیاسی قیادت اور کارفرما عناصر کی جو تصویر پیش کی جارہی ہے، وہ ہرپاکستانی کے لیے شرم اور خفت کا باعث ہے۔ ملک کو بدعنوانی کا جو ناسور کھائے جا رہا ہے، اس نے ملک کو اخلاقی بگاڑ، معاشی تباہی اور سیاسی خلفشار کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔

ہماری اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے کہ کھلی کھلی بدعنوانی و بددیانتی کے مرتکب افراد اپنے گھنائونے کرتوتوں پر نادم ہونے کے بجاے چوری اور سینہ زوری کی راہ پر گامزن ہیں۔ قتل اور اغوا کے ملزم سرعام کہہ رہے ہیں کہ ہم پر کرپشن کا تو کوئی الزام نہیں ہے۔ گویا مال لوٹنے والوں کے مقابلے میں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنا، بوریوں میں لاشوں کے ’تحفے‘ بھیجنا اور زندہ انسانوں کو تعذیب اور ان کی ہڈیوں کو برموں سے چھیدنا (drilling) کوئی جرم نہیں، اجتماعی خدمت تھی۔ جو قوم اپنے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لاسکے، وہ اجتماعی بگاڑ اور تباہی سے بچ نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ پوری قوم نے عدالتِ عظمیٰ کے ۱۶دسمبر کے فیصلہ پر سُکھ کا سانس لیا ہے اور عدلیہ کے اس اقدام سے مظلوم انسانوں کی آنکھوں کو اُمید کی ایک کرن نظر آنے لگی ہے۔ لیکن جہاں اس ملک کے عوام اور تمام مظلوم طبقات نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور چین کا سانس لیا ہے، وہیں اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ مفاد پرست عناصر اور ان کے نام نہاد لبرل دانش ور میدان میں کود پڑے ہیں اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں اور اداروں کی کش مکش کا واویلا کر رہے ہیں۔

عدلیہ کے فیصلے پر اعتراضات

یہ بھی ایک عجب تماشا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پیپلزپارٹی کے ترجمانوں اور اس کے ہم نوا دانش وروں اور صحافیوں نے کھل کر تنقید کی ہے۔ بلاشبہہ ہر فیصلے کا قانون اور مسلّمہ اصولِ انصاف کی روشنی میں جائزہ لیا جاناچاہیے، تاہم جو اعتراضات کیے جارہے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم  کیا جاسکتا ہے: ایک سیاسی اعتراضات جن میں کہا گیا ہے عدالت نے مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا ہے اور فیصلے میں ایک سیاسی پیغام بھردیا ہے۔ کچھ نے اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے کہ جج انتقام    لے رہے ہیں۔ کچھ تو یہاں تک چلے گئے ہیں کہ اسے ججوں اور فوجی مقتدرہ کی طرف سے ’جوابی حملہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

ہماری نگاہ میں یہ تمام اعتراضات نہ صرف یہ کہ حقائق سے کوئی نسبت نہیں رکھتے، بلکہ  بیمار ذہنوں اور مجرم ضمیروں کی عکاسی کرتے ہیں۔ زرداری صاحب کی ۲۷دسمبر ۲۰۰۹ء کی نوڈیرو کی تقریر بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی پوزیشن کو مزید کمزور کرنے کا باعث ہوئی ہے۔  ہمارا مشورہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت فرار اور تصادم کایہ راستہ اختیار نہ کرے۔ اس میں اس کا اور ملک کا خسارہ ہے۔ حقائق کا سامنا کرے اور دستور اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا دفاع کرے۔ اس کے بغیر اسے نہ سندِجواز حاصل ہوسکتی ہے اور نہ اعتبار ہی بحال ہوسکتا ہے۔

رہے دوسرے اعتراضات، تو ان کا دلیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم مختصراً ان کا جائزہ لیتے ہیں:

  • اختیارات سے تجاوز: پہلا اعتراض یہ ہے کہ سپریم کورٹ عدالتی فعالیت (judicial activism) کا راستہ اختیار کر رہی ہے اور یہ اس کا اپنے دائرۂ کار سے باہر جانے اور انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے دائرۂ کار میں مداخلت کے مترادف ہے‘‘___ ہماری نگاہ میں عدالتی فعالیت اور عدالتی نظم و ضبط دونوں کے حق میں مضبوط دلائل موجود ہیں اور دنیا کے مہذب اور جمہوری ممالک میں دونوں ہی کی مثالیں ملتی ہیں۔

ہماری دیانت دارانہ راے ہے کہ مارچ ۲۰۰۹ء میں عدلیہ کی بحالی کے بعد سے عدلیہ نے پھونک پھونک کر قدم رکھا ہے اور دستور کے تحت دیے گئے اختیارات سے کہیں تجاوز نہیں کیا۔ دستور کی دفعہ (۳) ۱۸۴ بڑی واضح ہے کہ عدالت کو بنیادی حقوق کی حفاظت کے باب میں عوامی اہمیت کے مسائل پر ازخود کارروائی کا اختیار ہے۔ عدالت نے اس اختیار کو عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے پوری احتیاط سے استعمال کیا ہے۔ لیکن چونکہ اس کی زد حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں پر پڑتی ہے، اس لیے وہ اس پر چیں بہ جبیں ہیں۔ اس نوعیت کی عدالتی فعالت کی مثالیں امریکا، یورپی ممالک اور خود بھارت میں بے شمار موجود ہیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے تو دہلی میں بسوں سے خارج ہونے والے دھوئیں تک کا نوٹس لیا اور حکومت نے عدالت کے احکام کی پاس داری کی۔

ہماری نگاہ میں اداروں کے تصادم کی جو بات کی جارہی ہے وہ حقائق کے منافی تو ہے ہی لیکن اس کے اندر ملک میں فساد، خرابی اور بگاڑ کی کیفیت پیدا کرنے کا خطرہ ہے اور یہ سب کے لیے بہت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے ملک کی سیاسی قیادت، خصوصیت سے حزبِ اختلاف اور میڈیا کو اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور برائی کو آغاز پر ہی مٹانے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

  • فرد یا جماعت کو ھدف بنانا: دوسرا بڑا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ: ’’اس فیصلے کے نتیجے میں خاص طور پر ایک فرد یا جماعت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میڈیا کے کچھ عناصر اس سلسلے میں بہت منفی کردار ادا کررہے ہیں‘‘۔ ہماری نگاہ میں یہ الزام بھی کُلی طور پر بدنیتی پر مبنی ہے۔ عدالت کے مذکورہ فیصلے میں کسی فرد کا ذکر نہیں ہے۔ تمام بات اصولی اور عمومی حوالہ لیے ہوئے ہے۔ اب اگر اس کی زد چند خاص افراد یا جماعتوں پر پڑتی ہے تو یہ ان کو سمجھناچاہیے کہ اس کی وجہ ان کے اپنے رویے اور طور طریقے ہیں، جن کی اصلاح کے لیے انھیں فکر کرنی چاہیے نہ کہ آئینے میں چہرے کے داغ دیکھ کر وہ آئینے کو چکناچور کرنے کی سعی بلیغ فرمائیں۔

اس باب میں یہ بات بھی بڑی پریشان کن اور نقصان دہ ہے کہ میڈیا کی آزادی اور خصوصیت سے چند لائقِ احترام صحافیوں اور اینکرپرسنز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صدر سے لے کر وزیروں اور پارٹی لیڈروں تک نے ان پر رکیک حملے کیے ہیں۔ یہ آمرانہ ذہن اور مجرم ضمیر کی علامت ہے۔ قوم کو ایسی جارحیت کا دلیل کے ساتھ اور جم کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ عدلیہ اور میڈیا کی آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ ان پر اقتدار کا یہ حملہ ہرگز قابلِ برداشت نہیں۔ صحافیوں کو نشانہ بنانے کی بات تو اب اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ وزرا کے بچے تک ان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگر اس روش کا فوری طور پر اور سختی سے سدباب نہ کیا گیا تو یہ شاخسانہ ملک کی آزادی اور اس کے اداروں کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

  • مھلت کیوں دی؟ ایک تیسرا اعتراض یہ ہے:’’اگر عدالت کو اس آرڈی ننس کو اس کے یومِ پیدایش سے  باطل قرار دینا تھا تو اس کو چار مہینے کی نئی زندگی عطا کرکے پارلیمنٹ کو کیوں بھیجا؟‘‘ بلاشبہہ ہماری نگاہ میں اس کی ضرورت نہیں تھی اور عدالت اپنے ۳۱ جولائی کے فیصلے میں بھی اسے باطل قرار دے سکتی تھی، لیکن غالباً اس نزاکت کی بنا پر ایسا نہ کیا گیا، چونکہ اس کو بظاہر سیاسی مصالحت کے لیے استعمال کیا گیا ہے اس لیے یہ موقع پارلیمنٹ اور سیاسی عمل کو دیا جائے کہ وہ خود اس کی اصلاح کرلیں۔ پارلیمنٹ کا کام محض اس آرڈی ننس کی تائید اور منظوری نہیں بلکہ اس کی تبدیلی بھی ہوسکتا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے پہلے تو اس کو اندھادھند طریقے سے منظور کرانے کی کوشش کی اور کمیٹی میں اپنے اتحادیوں کے ذریعے اسے تقریباً منظور کرا لیا، لیکن پھر پارلیمنٹ اور عوام کا ردعمل دیکھ کر اسے واپس لیا۔ یہ ساری کارستانی حکومت کی بدنیتی کا بین ثبوت ہے۔ حالانکہ حکومت کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ سیاسی جماعتوں اور پارلیمانی پارٹیوں کو شریکِ مشورہ کرکے اس کو یکسر بدل ڈالتی اور بدعنوانی کی ’دھلائی‘ کے بجاے اسے حقیقی بدعنوانی پر گرفت کا قانون بنا دیتی۔ چونکہ پارلیمنٹ اس امتحان میں ناکام رہی اور عدالت نے بجاطور پر ایک غلط قانون کو غلط قرار  دے کر اپنی ذمہ داری ادا کی ہے، اس پر اس کی تحسین ہونی چاہیے، نہ کہ نکتہ چینی!
  • دستور کی اسلامی دفعات پر اعتراض: چوتھا اعتراض سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے اوراس ملک کے نام نہاد لبرل طبقے کے ذہن کا ترجمان ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسی حقوقِ انسانی کی علَم بردار خاتون بھی اس فیصلے پر تلملا اُٹھی ہیں کہ عدالت نے دستور کی دفعہ ۲ الف، ۶۲، ۶۳ اور ۲۲۷ کا حوالہ کیوں دے دیا۔ یہ اس طبقے کے اسلام سے گریزپا (الرجک) ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔ ان کو یہ بھی اعتراض ہے کہ دستور میں یہ ترامیم جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوئیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ پارلیمنٹ نے ان کی توثیق کی ہے، تمام جماعتوں نے ان کو قبول کیا ہے   اور میثاقِ جمہوریت میں دستور کے ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی کا جو عہدوپیمان کیا گیا ہے  اس میں یہ سب دفعات من و عن شامل ہیں۔ ایوب خان کے مسلط کردہ مسلم فیملی لاز پر توکبھی     یہ تشویش اس طبقے کونہیں ہوئی کہ ایک آمرمطلق نے اسے مسلط کیا تھا اور دستور میں بھی اسے تحفظ ایک آمر ہی نے دیاتھا، لیکن پاکستان کے اسلامی تشخص اور کردار کو دستور میں واضح کرنے والی جو ترمیم بھی ہوئی وہ ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔

اسی سلسلے میں یہ بے ہودہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے کہ: ’’امانت، دیانت اور صادق و امین ہونے کا تعین کون اور کیسے کرے گا؟‘‘ حالانکہ دنیا کے تمام قانونی اور اخلاقی ضابطوں میں یہ   باتیں معروف ہیں۔ برطانوی دستور و قانون کے بہترین شارح سر آئیور جیننگز نے اپنی کتاب Cabinet Government(وزارتی حکومت) میں کھل کر یہ بحث کی ہے کہ جمہوریت میں اربابِ اختیار و اقتدار کے لیے سب سے ضروری وصف دیانت اور امانت ہے۔ اگر اہلیت کی کمی ہو تو وہ مشیروں اور اہل ترین افراد کی مشاورت سے دُور کی جاسکتی ہے، لیکن اگر دیانت نہ ہو تو پھر ایسے فرد کا حکمرانی کا حق ختم ہوجانا چاہیے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے بددیانت اور بدعنوان افراد کبھی بھی عوام یا قانون کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکے۔

ان اعتراضات کے علاوہ ایک سلسلہ اس بدزبانی اور یاوہ گوئی کا ہے، جس کا سہرا   زرداری صاحب کے خاص حواریوں کے سر ہے۔ زرداری صاحب خود اداروں کے تصادم اور مخالفین کی آنکھ پھوڑنے کی باتیں کر رہے ہیں اور من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ می سراید کے مترادف جو گُل کھلا رہے ہیں ان پر ماتم تو کیا ہی جائے گا، لیکن وہ خطرے کی گھنٹی کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سینیر راہنما اور اسمبلی میں چیف وہپ خورشید شاہ صاحب ذرا محتاط انداز میں  ’سندھ کارڈ‘ ان الفاظ میں استعمال کرتے ہیں کہ:’’سندھ نے وفاق کے لیے دو وزراے اعظم کی قربانی دی ہے، اب مزید کوئی قربانی نہیں دیںگے‘‘، جب کہ سندھ کے صوبائی وزیر اور قومی اسمبلی کی اسپیکرصاحبہ کے شوہر نامدار ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پاکستان کو توڑنے اور بموں سے جہاز اڑانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ پنجاب کے صوبائی صدر رانا آفتاب صاحب، سینیرصوبائی وزیر راجا ریاض مزاحمت کی سیاست کی وارننگ دیتے ہیں، لاشوں کو گرانے کی بات کرتے ہیں۔

یہ سارے بیانات بڑے تشویش ناک اور خطرناک رجحانات اور عزائم کی خبر دیتے ہیں۔ جمہوریت کو خطرہ عدلیہ یا صحافت سے نہیں، بدعنوانی کے مرتکب افراد اور تصادم کی سیاست کے   ان دعوے داروں سے ہے۔ اس روش کو برداشت کرنا ملک و قوم کے لیے زہر قاتل کی مانند ہے۔ تمام دینی اور سیاسی قوتوں کا فرض ہے کہ سیاست کے اس رُخ پر سختی سے احتساب کریں اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہ اُترنے دیں۔

احتساب کے مؤثر نظام کی ضرورت

آخر میں ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں حکومت کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ عدالتِ عظمیٰ کے اس  اور دوسرے تمام فیصلوں پر دیانت سے ان کے الفاظ اور اس کی روح کے مطابق عمل کرے اور اس دوغلی سیاست کو ترک کردے کہ زبان سے کہے کہ ہم عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، لیکن عملاً اس فیصلے کے ہر تقاضے کو نہ صرف نظرانداز کرے بلکہ اس کے برعکس اقدام کرے۔

ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت کے فیصلے پر عمل کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر قومی احتساب کا مؤثر اور قابلِ اعتماد نظام قائم کیا جائے۔ نیب کا ادارہ اپنی افادیت کھو چکا ہے اور  یہ وزارتِ قانون کی گرفت میں ہے جس سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ آزادانہ قانونی کارروائی اور  ایسی قابلِ بھروسا عدالتی اتھارٹی جو سب کو شفاف انصاف دے سکے وقت کی اولین ضرورت ہے۔ میثاقِ جمہوریت میں دونوں بڑی جماعتوں نے اس کا وعدہ بھی کیا ہے۔ کرپشن کے عفریت کو قابو میں کرنے کے لیے تفتیش اور تحکیم کے آزاد اور قابلِ اعتماد ادارے کا وجود ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں جو مسودہ قانون حکومت لائی ہے، وہ غیرتسلی بخش اور ناقابلِ قبول ہے۔ وہ بدعنوانی کے تحفظ کا ذریعہ تو بن سکتا ہے، اس کے خاتمے کا منبع نہیں بن سکتا۔ اس لیے اولین اہمیت احتساب اور تفتیش کے مناسب ادارے اور انتظام کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی اور بے لاگ طور پر اس ادارے کا قیام ہے ورنہ ملک بدعنوانی کی لعنت سے نجات نہیں پاسکے گا اور قومی دولت، قوم کی بہبود کے لیے استعمال ہونے کے بجاے چند مفاد پرستوں کی عیاشیوں کا سامان فراہم کرتی رہے گی۔ اس طرح ملک کو بالآخر تصادم اور انارکی کی طرف جانے سے روکنا مشکل ہوگا۔

تفتیش کا آزاد نظام، احتساب کا قابلِ اعتماد ادارہ اور آزاد میڈیا ملک کو اس دلدل سے نکالنے میں سب سے مؤثر کردار اداکرسکتے ہیں، نیز قانون کے ساتھ اخلاق کی قوت کا استعمال بھی وقت کی ضرورت ہے۔ کسی قوم کی قوت کا آخری منبع افراد اور قوم کا اخلاق ہے۔ خود قانون بھی اخلاق کے بغیر اپنا اصل کردار ادا نہیں کرسکتا۔ اخلاق محض وعظ و نصیحت کا نام نہیں ہے، بلکہ ہرسطح پر کردارسازی اور قیادت کا بہتر نمونہ اس کا اصل سرمایہ ہے۔ مقصد کا شعور، خوداعتمادی، نظم و ضبط اور اتحاد اور یگانگت کے اصول ہی قوموں کو ترقی کی راہ پر لے جاتے ہیں۔ خود غرضی، ظلم اور حقوق کی پامالی، نفسانفسی اور تصادم زوال کا باعث ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے وقت ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو دستور ساز اسمبلی سے جو خطاب کیا تھا، اس میں ایک بڑا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ کرپشن اور بدعنوانی کے ساتھ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ لا اینڈ آرڈر کے قیام اور جان و مال کے تحفظ کے بعد جس چیز کو قائداعظم نے سب سے اہم قرار دیا وہ رشوت اور کرپشن سے نجات ہے۔ قائداعظم کا ارشاد تھا:

(رشوت اور بدعنوانی) دراصل یہ ایک زہر ہے۔ ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کردینا چاہیے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلے میں مناسب اقدامات کریں گے، جتنی جلد اس اسمبلی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ص ۳۵۸)

۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد قائداعظم کے اس ارشاد پر فوری عمل  کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کیا یہ قوم اور قومی قیادت ایک بار پھر اس نادر موقع کو ضائع کر دے گی، یا وقت کی ضرورت کا احساس کرکے ہم سب اس لعنت کا قلع قمع کرنے کے لیے قانون، اخلاق، راے عامہ اور اجتماعی اصلاح کا پُرامن اور معقول راستہ اختیار کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں گے؟

قائداعظم نے اپنا آخری پیغام اس قوم کو ۶؍ اگست ۱۹۴۸ء عیدالفطر کے موقع پر دیا اور آج ہم پاکستان کے تمام لوگوں کو اس پیغام کی یاد دیانی کراتے ہیں:

میں آپ سے یہ اپیل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں، آپ اسے الفاظ اور زبان کا کوئی سا جامہ پہنا دیں، میرے مشورے کا لُبِ لباب یہی نکلے گا کہ ہر مسلمان کو دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔ (ایضاً، ص ۵۰۲-۵۰۳)