اسلام نے مال کو خیر سے تعبیر کیا ہے۔ دنیوی ضروریات ہو ں یا دینی ضروریات سب کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے جائز طریقوں سے مال حاصل کرنے کی نہ صرف تحسین کی گئی ہے بلکہ اس کو ایک فریضہ قراردیا گیا ہے کیونکہ فقروافلاس بندے کو بہت سے ناگوار کاموں یہاں تک کہ کفر تک کرنے پر مجبورکردیتا ہے۔صاحب ِمال ہونا بندے کو بہت سے اچھے کاموں کے قابل بنا دیتا ہے۔ حضرت سفیان ثوریؒ نے فرمایا ہے:’’ مال مومن کی ڈھال ہے‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح)
lکسبِ حلال کی اہمیت: اسلام نے کسب ِحلال کی بڑی تاکیدکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مَنْ أَكلَ طَیِّبًا وَ عَمِلَ فِی سُنَّــةٍ وَ أَمِنَ النَّاسُ بَوَائِقَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ (ترمذی )’’جو حلال کھائے اور سنت کے مطابق عمل کرے اور لوگ اس کی ایذا رسانیوں سے محفوظ رہیں ،وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے صرف حلال رزق کھانے کا حکم دیاہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِـمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا ۖ (البقرۃ ۲: ۱۶۸)’’اے لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں، انھیں کھاؤ‘‘۔
رزقِ حلال کی اہمیت کے پیش نظر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِ گرامی ہے:طَلَبُ كَسْبِ الْحَلَا لِ فَرِیْضَةٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَةِ (المعجم الکبیر)’’رزقِ حلال طلب کرنا فرض (عبادت)کے بعد فرض ہے‘‘۔
حلال روزی کمانے کے بہت سے طریقے ہیں جن میں تجارت، زراعت، صنعت و حرفت اور ملازمت وغیرہ شامل ہے۔ہاتھ کی کمائی کو بہترین کمائی کا درجہ دیا گیا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کمائی کا کھانا نہیں کھایا۔ اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے‘‘۔(صحیح البخاری)
کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ سب سے افضل کمائی کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:’’ تجارت جس میں رب کی نافرمانی کے طریقے نہ اختیار کیے جائیں اوراپنے ہاتھ سے کام کرنا‘‘۔(مسند احمد)
خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے تجارت بھی کی اور قریش کی بکریاں چراکرمحنت مزدوری بھی کی۔ آپؐ نے حلال روزی کی اہمیت کے بارے میں فرمایا:’’جس نے مانگنے سے بچنے کے لیے ، اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے اور اپنے پڑوسی پر مہربانی کرنے کے لیے حلال طریقے سے دنیا طلب کی وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی مانند ہوگا‘‘۔(شعب الایمان )
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک آدمی گزرا۔صحابہؓ نے دیکھا کہ وہ رزق کے حصول میں بہت متحرک ہے اور پوری دلچسپی لے رہاہے تو انھوں نے آپؐ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر اس کی یہ دوڑدھوپ اور دلچسپی اللہ کی راہ میں ہوتی تو کتنااچھا ہوتا۔جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگر وہ اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لیے دوڑدھوپ کر رہا ہے تو یہ اللہ کی راہ ہی میں شمار ہوگی، اور اگر بوڑھے والدین کی پرورش کے لیے کوشش کر رہاہے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہی شمار ہوگی، او راگر اپنی ذات کے لیے کوشش کررہاہے اور مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچا رہے تو یہ کوشش بھی فی سبیل اللہ شمار ہوگی، البتہ اگر اس کی محبت زیادہ مال حاصل کرکے لوگوں پربرتری جتانے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے ہے تو یہ ساری محنت شیطان کی راہ میں شمارہوگی‘‘۔(الترغیب والترہیب)
lرزقِ حرام اور قبولیتِ دُعا:حرام خور کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’بے شک اللہ پاک ہے اور صرف پاک چیزیں ہی قبول فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسی بات کا حکم دیا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس نے طویل سفر طے کیا تھا اور اس کے بال اور چہرہ غبار آلود ہوگئے تھے، اس نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کیا اور کہا : اے ربّ ! اے ربّ! حالانکہ اس کا کھانا حرام ، اس کا پینا حرام اور اس کا لباس حرام ہے اور وہ حرام مال سے ہی پرورش پاتا رہا تو اس کی دعا کیسے قبول کی جائے؟‘‘(صحیح مسلم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ:’’قیامت کے دن بندے کے قدم نہیں ہل سکیں گے جب تک اس سے پوچھا نہیں جائے گاکہ:کہ عمر کن کاموں میں گزاری؟اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟مال کہاں سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا؟اور اپنے جسم کو کن کاموں میں گھلایا؟‘‘(سنن ترمذی)
برکت سے مراد دولت کی مقدار میں اضافہ نہیں ہے ، بلکہ دولت کا صحیح جگہ استعمال ہونا اور تھوڑی آمدنی میں ضرورت پوری ہوجانا ہے۔ یہ سب مال کی برکت ہے ، جو اللہ تعالیٰ بندے کی نیکی کی وجہ سے عطا کرتا ہے ۔ بہت سے امیرلوگوں کی دولت بیماریوں اور ہسپتالوںمیں، کچھ ناجائز مقدمات کی پیروی میں، کچھ عیش و عشرت میں اور کچھ گناہ کے کاموں میں خرچ ہوجاتی ہے۔ مہینہ پورا ہونے سے پہلے ہی ان کی ساری رقم ختم ہوجاتی ہے اور قرض لینے تک کی نوبت آجاتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں وہ سماجی عزت اور ذہنی سکون دونوں سے محروم ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے برکت کے نزول کا ضابطہ اس طرح بیان کیا ہے :
وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْہِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ (اعراف ۷:۹۶) اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعائیں سکھائی ہیں ان میں کثرت سے برکت مانگنے کا ذکر ہے۔کھانے کے بعد کی مسنون دعا ہے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْهِ وَاَطْعِمْنَا خَیْرًا مِّنْـهُ (سنن ترمذی) ’’اے اللہ! ہمارے لیے اس کھانے میں برکت عطا فرما اور ہمیں اس سے بہتر کھانا عطا فرما‘‘۔
میزبان کے لیے دعا ہو یادودھ یا دوسرا مشروب پینے کی دعا یا دیگر مواقع ہوں آپؐ برکت ضرور مانگا کرتے تھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کوجھوٹی قسمیں کھانے سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔آپؐ کا ارشاد ہے: ’’جھوٹی قسموں سے مال تو فروخت ہوجاتا ہے لیکن اس مال سے ہونے والی کمائی سے برکت اُٹھ جاتی ہے‘‘۔(صحیح البخاری)
دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۹ۚ (الحشر۵۹:۹)’’حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے :
۱- ’’اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دووادیاں بھی ہوں تب بھی وہ تیسری کی خواہش کرے گا اورابنِ آدم کاپیٹ قبر کی مِٹی ہی بھر سکتی ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
۲- ’’ دو بھوکے بھیڑیے جنھیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے [وہ بکریوں کو] اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے د ین کو پہنچاتی ہے‘‘۔ (ترمذی)
۳- ’’انسان کہتا ہے، میرا مال، میرا مال، حالانکہ انسان کا مال بس وہ ہے جو اس نے کھاکر ختم کردیا،پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کرکے آگے ( آخرت کے لیے) بڑھا دیا‘‘۔ (صحیح مسلم)
۴- ’’ہراُمت کے لیے کوئی نہ کوئی چیز وجہِ آزمایش ہوتی ہے، میری اُمت کے لیے آزمایش مال ہے‘‘۔(سنن ترمذی)
اللہ تعالیٰ نے اسراف اور تبذیر کی مذمت فرمائی ہے:
۱- وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۰ۚ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۳۱(اعراف۷:۳۱) ’’ اور کھاؤ پیو اور حد سے نہ نکلو، بےشک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
۲- وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّہٖ كَفُوْرًا۲۷ ( بنی اسرائیل۱۷:۲۶-۲۷) ’’فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے‘‘۔
مال خرچ کرنے میں میانہ روی: خرچ کرنے میں کفایت شعاری اور میانہ روی بہترین حکمت عملی ہے ۔اللہ تعالیٰ بخل اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ایمان والوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے: وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۶۷ (الفرقان ۲۵:۶۷) ’’ وہ ( ایمان والے) جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اعتدال پر قائم رہتے ہیں‘‘۔ اسی حقیقت کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں رہنمائی فرمائی ہے:مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ (مسند احمد)’’جس نے میانہ روی اختیار کی وہ تنگ دست نہیں ہوگا‘‘۔
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بھی کچھ مال اپنے پاس رکھنے کا حکم ہے۔حضرت کعب ؓ نے جب اپنا سارامال صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا:أَمْسِکْ عَلَیْکَ بَعْضَ مَالِکَ فَھُوَ خَیْرٌ لَکَ(صحیح البخاری)’’اپنے مال کا کچھ حصہ اپنے پاس رکھو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے‘‘۔
قرض کی واپسی میں بھی غریب کی سہولت کو ملحوظ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مَنْ یَسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ یَسَّرَاللّٰهُ عَلَیْهِ فِی الدُّنْیَا وَالْاَخِرَةِ (صحیح مسلم)’’ جو (قرض خواہ ) کسی تنگ دست( مقروض کو اپنے قرضے کے سلسلے میں ) سہولت دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت میں سہولت دے گا‘‘۔ ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ہے:’’جسے یہ اچھا لگے کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی تکلیف سے نجات دے دے اسے چاہیے کہ تنگ دست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے‘‘۔ (صحیح البخاری)
امیر کو قرض دینے کی ترغیب کے ساتھ ساتھ غریب کو حکم ہے کہ وہ احسان شناسی کا مظاہرہ کر کے قرض کو بروقت ادا کرنے کی کوشش کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہےکہ ’’قرض کی( بروقت) واپسی واجب ہے‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی)
دوسری حدیث میں ہے:مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ (صحیح البخاری )’’ مال کی واپسی میں صاحب ِاستطاعت کا ٹال مٹول ظلم ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یوں دعا کیا کرتے تھے: أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ(صحیح البخاری)’’اے اللہ! میں گناہ اور قرض کے بوجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔اسلامی تعلیمات کے مطابق قرض لینے کی اجازت کے باوجودمجبوری کے بغیر قرض لینے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔اس لیےسادگی اور کفایت شعاری اپنانے اور قرض لینے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَکَذَبَ مَا وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ ( صحیح البخاری)’’ بلاشبہ جب بندہ مقروض ہوتا ہے تو بات کرتا ہے، تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے، تو خلاف ورزی کرتا ہے‘‘۔
مسلمانوں کی روحانی تربیت اور تزکیٔہ نفس کے لیے رمضان المبارک کا پورا مہینہ مسلسل بھوک ،پیاس ،قیام اللیل اور جنسی خواہشات اور گناہوںسے رکنے کی مشق کروائی جاتی ہے۔ یہی تزکیٔہ نفس یا تقویٰ کاحصول روزے کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
تقویٰ زندگی کے تما م شعبوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسو ل کی اطاعت بجا لانے اور نافرمانی سے بچنے کا نام ہے۔رمضان المبارک میںاسی احساس کو بیدارکرنے کی مشق ہوتی ہے۔اسی مقصدکے حصول کے لیے دن کے وقت بھوک پیاس کو برداشت کیا جاتا ہے اور رات کو عبادات کے لیے قیام کیا جاتا ہے۔
اگرروزے سے اللہ کی رضا ،بخشش اور تزکیہ نفس کے مقاصدحاصل نہ ہوں تو اس سے بھوک پیاس کی تکلیف کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزوں سے سواے بھوک کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی رات کو کھڑے ہونے ہونے والے ایسے ہیں جن کو سواے شب بیداری کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا‘‘۔(مسند احمد، مسند ابی ہریرہ ، حدیث:۹۳۰۸)
ایک مہینے کی مسلسل مشق سے صیام وقیام کے اثرات قلب و جسم پر نقش ہوجاتے ہیں ۔اگر ہم ان ثمرات کو اپنے شب و روز کے اعمال میں زندہ رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم نے حقیقت میںروزوں کی روح کو پا لیا اور اگر ہماری زندگی میں ان کا عکس مفقود رہا تو ہم گویا رمضان کے مقصد کے حصول میں ناکام اور سراسر نقصان کے مستحق ٹھیریں گے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان ثمرات کو کیسے باقی رکھا جائے؟ اسی سوال کا جواب تلاش کرنا اس تحریر کا مقصد ہے۔
رمضان المبارک میں مسلمان اپنی جسمانی اورنفسانی خواہشات کے خلاف جہاد میں مصروف رہتے ہیں۔بھوک اور پیاس پرقابوپانے،شب بیداری (تراویح و تہجد) اورقرآن کریم کی تلاوت جیسے اہم اعمال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جسمانی تقاضوں کی کم از کم اور روحانی تقاضوں کی زیادہ سے زیادہ رعایت کرتے ہیں تاکہ روح بیدار اور تواناہو جائے اور اپنے رب سے تعلق مضبوط بنا سکے۔ یہ سارے عوامل تقویٰ کی کیفیت کے حصول میں معاون ہیں۔
جو اوصاف جن عوامل سے وجود میں آتے ہیں ،انھی عوامل سے برقرار بھی رہتے ہیں ۔اگر وہ عوامل نا پید یا کمزور پڑ جائیں تو ان اوصاف کا برقرار رہنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ذیل میں ان عوامل کی کسی قدر تفصیل بیان کی جاتی ہے جو تقویٰ کو باقی رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
دوسری روایت میں آیا ہے:’’چار چیزیں وہ ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں چھوڑتے تھے:۔عاشور،عشرہ ذی الحجہ( یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم العرفہ یعنی نویں ذی الحجہ تک) اورہر مہینے کے تین روزے اور فجر سے پہلے کی دو رکعتیں‘‘۔(سنن النسائی، حدیث:۲۳۷۳)
محرم کے مہینے میں روزے بھی اسی قبیل سے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ رمضان المبارک کے بعد کون سا روزہ افضل ہے تو آپ نے فرمایا:’’ اللہ کے مہینے محرم کا‘‘(مسلم، حدیث:۱۱۶۳)۔ ایام بیض، یعنی ہر ماہ کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ مستحب ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ایام بیض، یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھیں‘‘۔(سنن النسائی، حدیث:۲۴۲۴)
سوموار اور جمعرات کے دن روزہ رکھنا بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر ان دنوں میں روزہ رکھتے تھے۔ اس بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا:’’ ہر سوموار اور جمعرات کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں، سب مسلمانوں یا ایمان والوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ معاف کردیتا ہے، سواے آپس میں ترکِ گفتگو کرنے والوں کے۔ ان کے بارے میں فرماتا ہے کہ ان کا معاملہ مؤخر کر دو‘‘۔(ترمذی، حدیث:۷۴۷)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ(البقرہ۲:۱۸۵)’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔
روزے اور قرآن کریم قیامت کے دن اپنے متعلقین کی سفارش کریں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’روزے اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے سفارش کریں گے۔روزے کہیں گے :یا رب!میں نے دن کے وقت اس کو طعام اور شہوات سے روکا تھا، لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کرے۔قرآن کہے گا:اے رب!میں نے رات کے وقت اس کو سونے سے منع کیا تھا ،لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کرے۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش بارگاہِ الٰہی میں قبول کی جائے گی‘‘۔(مسند احمد، حدیث:۶۳۳۷)
رمضان المبارک میں اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ نمازِ تروایح اور دیگراوقات میں اس کی کثرت سے تلاوت ہوتی ہے اوراکثر مقامات پر قرآن کریم کی تفسیر وترجمے کی خصوصی کلاسیں ہوتی ہیں اور نماز تراویح سے قبل یا بعد میں مضامین قرآن کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی عظمت و جلالت سے قلوب اور ارواح معمور ہوتے ہیں۔جس کے نتیجے میںروحانی قوت اور ایمان کی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اگر قرآن کریم کے ساتھ یہ تعلق پورے سال کے دوران استوار رہے، تلاوت، تعلیم و تعلم اور تدبر و تفکر کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں قرآنی تعلیمات کا نفاذ بدستور قائم رہے، توہماری زندگیوں میں وہ مثبت تبدیلی برقرار رہے گی جو رمضان کے دوران میں میسر آئی تھی اور جس کا برقرار رکھنا پوری زندگی میں مطلوب ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ کثیر تعداد میں موجودہیں جنھیں ہمدردی اور مددکی ضرورت ہوتی ہے اور صاحبِ استطاعت لوگوںکا ایثار ان کی مشکل کو کافی حد تک کم کر سکتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں مسلسل اسی جذبے کی تربیت کی جاتی ہے اورمفلوک الحال اور محروم الوسائل لوگوں کی حالت کا صحیح احساس کرایا جاتا ہے ۔ہماری عملی زندگی میں ایسے مواقع بار بار آتے ہیں جو ہم سے ایثار اور ہمدردی کا تقاضا کرتے ہیں ۔ رمضان کے اختتام پر صدقٔہ فطر اسی مقصد کے لیے لازم کیا گیا ہے۔اسی جذبے کے تحت ہمیں پورا سال اپنے کمزور بھائیوں کی مدد کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔
انسان اپنی خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہو کر رشوت ستانی ، غلط کاری ، دھوکہ دہی، دروغ گوئی ، غیبت ، جھوٹ اور خود غرضی جیسے اخلاق رذیلہ کے دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ ان قلبی بیماریوں کا علاج بھی روزہ ہی بتایا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: صَوْمُ شَھْرِ الصَّبْرِ وَ ثَلَاثَۃِ أَیَِّامٍ مِنْ کُلِّ شَھْرٍ یُذْھِبْنَ وَحْرَ الصَّدْرِ ’’ماہِ صبر کا روزہ اور ہر مہینے کے تین روزے دل کا میل دُور کرتے ہیں۔(مسند احمد،حدیث:۲۱۹۹۹)
ماہ صیام میں خواہشات پر قابو پانے کی مسلسل تربیت کے نتیجے میں ضروری ہے کہ ہر موڑ پر اپنی خواہشات کو قابو میں رکھا جائے اور ان کا غلام بن کر روزے کے ثمرات کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔
یہ چند عوامل ہیں جن سے روزے کے ثمرات کو باقی رکھنے میں بھر پور مدد مل سکتی ہے اس کے لیے انفرادی محنت، اجتماعی یاددہانی اوراندرونی احساس کی بیداری کی ضرورت ہے۔
پورے سال میں روزے صرف ایک ماہ رمضان میں فرض کیے گیے ہیں اور اس کا مقصد تزکیۂ نفس ا ور تقویٰ ،باہمی ہمدردی اور سخت کوشی کی وہ کیفیت پید ا کرنا ہے جو بندے کو بقیہ سال کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے تیار کرے۔ رمضان المبارک کی مسلسل مشق سے جو ثمرات حاصل ہوتے ہیںوہ مسلمانوں کا بیش قیمت سرمایہ ہوتا ہے جن کی حفاظت کرنا اور ترقی دینا ان کا فرض ہے۔
نیکی کرنا بہ نسبت اس کی حفاظت کرنے کے آسان کام ہے ۔روزِ قیامت کئی بدقسمت ایسے ہوں گے جو دنیا میں بڑی بڑی نیکیاں کر کے ضائع کر چکے ہوں گے اور وہ جنت کے حصول اور دوزخ سے نجات کے لیے ان کے کسی کام نہیں آئیں گے۔
بندہ جونیکی حفاظت کے ساتھ آخرت تک لے جانے میں کامیاب ہوا اس کا انجام بھلائی ہی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ ط وَلَا یَرْھَقُ وُجُوْھُھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّۃٌ ط (یونس ۱۰: ۲۶ )’’جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا، اُن کے لیے بھلائی ہے اور مزید فضل۔اور ان کے چہروں پر روسیاہی اور ذلت نہ چھائے گی‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں اپنی اطاعت کی توفیق اور آخرت میں اچھے انجام سے نوازے ۔ آمین!