حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموسِ رسالتؐ کو ہدف بنانے والوں کی جانب سے سوشل میڈیا (فیس بک ، ای میل وغیرہ) پر نازیبا، رکیک حملوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا گیا ۔ انھوں نے ۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو ایک تفصیلی فیصلہ سنایا ۔ پیشِ نظر کتاب میں ۱۷۴ صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ،مفتی محمد تقی عثمانی، جسٹس فدا محمد خاں، عرفان صدیقی___ اور پھر مفتی منیب الرحمٰن، سیّد ساجد علی نقوی ، سیّد حسین مقدسی، الطاف حسن قریشی ، ڈاکٹر محسن نقوی، انصار عباسی، مولانا زاہد الراشدی ، ہارون الرشید ، اوریا مقبول جان، جاوید صدیق ،خورشید احمد ندیم ، جاوید چودھری ، حفیظ اللہ خاں نیازی، بابراعوان، محمدا عجاز الحق، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، ارشاد بھٹی، اسلم خان، اسرار احمد کسانہ، شاہد حنیف کے مضمون بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی وہ انگریزی تقریر (مع اُردو ترجمہ)بھی کتاب میں شامل ہے، جو انھوں نے قومی اسمبلی میں متفقہ قرار داد کے ذریعے قادیانیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دینے کے فیصلے اور دستوری ترمیم کے موقعے پر کی تھی۔
ناموسِ رسالتؐ کے اس تاریخی مقدمے کی رُوداد کچھ اس طرح ہے کہ درخواست گزار سلمان شاہد نے وفاقِ پاکستان اور چھے دوسروں کے خلاف جو درخواست دی، اس کی سماعت ۷مارچ ۲۰۱۷ء سے شروع ہوئی اور ۳۱ مارچ کو تاریخی فیصلہ آگیا۔
فیس بک (برقی میڈیا )پر بعض لوگوں نے جو نام نہاد مسلمان تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اُمّہات المومنینؓ ،صحابہ کرامؓ، قرآن مجید اور حد یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں انتہائی گستاخانہ مواد ، خاکے، تصاویر ، تحریروں اور ویڈیوز کی شکل میں نشر کرنا شروع کر دیا تھا۔ درخواست گزارنے ڈائرکٹر جنرل ایف آئی اے کو اس توہین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی، مگر اس پر مذکورہ محکمے کی طرف سے کوئی خاص کارروائی نہیں ہوئی۔
جسٹس شوکت صدیقی لکھتے ہیں: ’’عدالت ہذا کے رُو برو ایک ایسا مقدمہ پیش کیا گیا ہے کہ جس کی تفصیلات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے ۔ آنکھوں کی اشک باری تو ایک فطری تقاضا تھا۔ میری روح بھی تڑپ کر رہ گئی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے دل ودماغ پر گزرنے والی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔ (کتابِ مذکور:ص۴۸-۴۹)
عدالت نے چیمبر میں متعلقہ حکام کے سامنے مذکورہ قابلِ اعتراض مواد پیش کیا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ حکومت ِ پاکستان کے سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ: ’’ ذاتِ باری تعالیٰ ، قرآنِ مجید اور دنیا کی معزز ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہراتؓ کے خلاف گھٹیا، اور شرم ناک مہم چلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی‘‘۔ (ایضاً،ص ۵۴)
۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو مقدمے کی آخری سماعت ہوئی اور جسٹس صدیقی صاحب نے فیصلہ سنا دیا۔ پانچ بلاگرز ، جو ملک سے فرار ہو چکے تھے، انھیں پاکستان واپس لا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کی گئی۔ وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی گئی کہ ملک میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) کی نشان دہی کریں، جو ملک میں گستاخانہ اور فحش مواد کی اشاعت وتشہیر کر رہی ہیں، تا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ محترم جج صاحب نے لکھا ہے: ’’عدالت کسی بھی غیر قانونی فعل اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی، لیکن ایسے واقعات اسی صورت میں رک سکتے ہیں، جب گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب عناصر کے خلاف بروقت اور دیانت دارانہ کارروائی ہو۔ ایسے مکروہ فعل کے خلاف پوری پاکستانی قوم مدّعی ہوتی ہے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار‘‘۔(ایضاً،ص۶۴)
فیصلے میں مختلف اخباروں کے اقتباسات اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا یہ بیان بھی پیش کیا گیا کہ: ’’قبل اس کے کہ مسلمان سڑکوں پر آجائیں اور ان کے جذبات بے قابو ہو جائیں۔ آئی ٹی کی وزارت کے حکام ، انٹیلی جنس ادارے اور دیگر حساس مراکز فوری اقدام کر کے عوام کے جذبات مشتعل ہونے سے بچائیں‘‘۔ (ایضاً،ص۷۴)
فیصلے میں پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ایوان بالا (سینیٹ ) میں ۱۰ مارچ ۲۰۱۷ء اور ایوانِ زیریں (پارلیمنٹ ) کے ۱۴ مارچ ۲۰۱۷ء کی قرار دادوں کا بھی حوالہ دیا گیا، جن میں: ’’دین اور پیغمبر خاتم النبیین ؐ ، نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز مواد کی اشاعت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات‘‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔(ایضاً،ص۷۶)
جہاں تک اس جرم کی سزا کا تعلق ہے ، فاضل جج نے قرآنِ مجید سے سورئہ احزاب (۳۳:۵۷) اور سورۂ توبہ (۹:۶۱-۶۹) کی آیات سے بھی فیصلے میں استشہاد کیا ہے۔ ’’مدینہ کے منافقین کی حرکات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیّت پہنچاتی تھیں، ان کی طعنہ زنی، اور بے ہودہ گفتگو جو وہ لوگ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرتے تھے، انھیں کفروالحاد کی گہرائیوں میں گرا دیتی تھی، جس پر وہ سزا کے مستوجب تھے۔ انھیں آگاہ کیا گیا کہ ان کے اعمال وافعال کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بے ثمر قرار دیے گئے کہ وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک کرتے تھے۔ مسلم قانون داں اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ اچھے اعمال وافعال کو اس دنیا میں اور آخرت میں بے ثمر بنادیا جانا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، اگر اس فوجداری جرم کو سزاے موت کا مستوجب قرار نہ دیا جائے۔ گویا ان مسلم قانون دانوں کے نزدیک آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی کرنے کے فعل کی سزا ، سزاے موت سے کم نہیں ہونی چاہیے‘‘ (ایضاً،ص۷۹-۸۰)۔ امام ابن تیمیہؒ نے بھی ایسے شخص کو کافر اور ’مباح الدّم‘ قرار دیاہے۔ گویا وہ سزاے موت کا مستوجب ہے (ایضاً،ص۸۱)۔ یہی موقف امام فخرالدین رازی، امام عمادالدین ابن کثیر ، علامہ شمس الدین قطبی، امام احمد بن علی ابوبکر جصاص ، ابولیث بن سعد کا بھی ہے، جن کے حوالے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تحریر سے لیے گئے ہیں۔
خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دینِ اسلام کے مخالف اور آپؐ کو ایذا پہنچانے والوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ جن میں کعب بن اشرف، یہود کا سرغنہ، ابورافع (حجاز کا بڑا سوداگر )، ابن خطل(بدگو) شامل تھے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی، توہین وتنقیص ، تحقیرواستخفاف، خواہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ، باالفاظِ صریح ہو یا بااندازِ اشارہ وکنایہ ، تحقیر کی نیت سے ہو یا بغیر نیت تحقیر کے، یہ تمام صورتیں گستاخی میں شامل ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات وعادات ، اخلاق واطوار ، آپ ؐ کے اسماے گرامی، اور ارشادات ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ کسی بھی چیز کی ادنیٰ اور معمولی سی تحقیر، یا اس میں کوئی عیب نکالنا بھی گستاخی اور موجب کفر ہے۔ ہر شخص جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس میں عیب اور نقص کا متلاشی ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردار ، خصائل اور اوصافِ حمیدہ ، نسبِ پاک کی طہارت وپاکیزگی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وحرمت کی طرف عیب منسوب کرتا ہو، تو نہ صرف یہ کہ ضلالت وگمراہی اُس کا مقدر بن جاتی ہے، بلکہ ایسے بدبخت وجود سے اس زمین کو پاک کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے اُمت ایسے بدبخت کے واجب القتل ہونے پر متفق ہیں‘‘۔ (ایضاً،ص ۱۰۵-۱۰۶)
اس مسئلے پر اجماع امت کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل منصف نے مسلکِ مالکیہ کے قاضی عیاض اندلسی، حنابلہ کے ابن تیمیہ ، شافعیہ کے تقی الدین علی السبکی اور احناف کے محمد امین شامی کے حوالے دیے ہیں۔ ’اسلام میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی و قانونی حیثیت‘ کے عنوان سے قرآنِ مجید کی آیات وا حادیث، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واحترام کے بارے میں احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
فاضل منصف نے برطانوی ہند میں مروجہ تعزیرات کے حوالوں سے بھی توہین مذہب کے قوانین کے حوالے دیے ہیں: ’’بین الاقوامی انجمنوں واداروں، بین الاقوامی معاہدات، بین الاقوامی اعلامیے ،اور یورپ کے مختلف ممالک کے قانون سے یہ واضح کیا ہے کہ توہین مذہب ، توہین مقدس شخصیات اور افراد واجتماع کے مذہبی جذبات واحساسات کا لحاظ اور اس ضمن میںاظہار ِ راے وتقریروبیان پر مناسب قانونی قدغن دنیا کے تمام مہذب ممالک کا خاصّہ ہے‘‘۔ (ایضاً،ص۱۹۰)
تا ہم، توہین مذہب ومذہبی شخصیت کے الزام پر کسی فرد کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود فیصلہ کرے اور اپنے خیال کے مطابق ’مجرم‘ کو سزا دے ڈالے۔ کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا: ’’___محض ایک جملے میں بیان کردہ وضاحت کو جانچے ، اور بغیر کسی فردِ جرم عائد کیے، بغیر شہادت قلم بند کیے، اسی موقعے پر اپنے تئیں یہ فیصلہ بھی کرے کہ مقتول واجب القتل ہے، اور پھر اسی لمحے اسی مقام پر فی الواقع اپنے ہاتھوں سے سزا کا نفاذ بھی کر ڈالے۔ کوئی معقول انسان مجرم --- کے اس اقدام کا دفاع نہیں کر سکتا، کیوںکہ ہم ایک ایسی ریاست کے باشندے ہیں ، جو ایک دستور ، ایک قانون ، ایک ضابطہ اور ایک طریقِ کار کے ما تحت ہے، اور ہر باشندہ اس امر کا پابند ہے کہ ریاست کی وضع کردہ حدود کے اندر رہے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۰۲)
فاضل منصف نے عدالتِ عالیہ لاہور کے ۲۰۱۲ء کے فیصلوں کی طرف توجہ دلائی اور ان کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا:
فیصلے میں کہا گیا: [توہین مذہب و توہین اکابرین مذہب کا] ’’گھنائونا فعل ایک سازش کے تحت مسلسل جاری ہے۔ اس لیے وزارت ِ داخلہ اور دیگر متعلق اداروں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ’فیس بک‘ انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کر کے اس شرانگیزی کا مکمل خاتمہ کرائے ، اور یہ مطالبہ کرے کہ توہین اللہ رب العزت ، توہین رسالتؐ ،توہین امہات المومنین ؓ، توہین اہل بیت اطہارؓ، توہین صحابہ کرامؓ ، اور توہین قرآن پاک کی ناپاک جسارت کرنے والے صفحات کو نہ صرف بند کیا جائے ، بلکہ فیس بک ، انتظامیہ ایسے مواد کو اپنی منفی فہرست میں شامل کرے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۱۶)
فاضل منصف کے اس تاریخی فیصلے کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں انھوں نے کئی مقامات پر اپنی قلبی کیفیت کے اظہار کے لیے عربی ، فارسی اور اُردو کے نعتیہ اشعار (بعض جگہ پوری نعتیں ) سے استشہاد کیا ہے۔ ان شعراے کرام میں حسّان بن ثابت ، ابوطالب، عبدالرحمٰن جامی، شیخ سعدی، الطاف حسین حالی، ڈاکٹر محمد اقبال ، عبدالستار خاں نیازی، خالد محمود خالد، نعیم صدیقی اور مظفروارثی شامل ہیں۔ اس سیاق میں حالی کی مُسدّس کے اشعار ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ، مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا‘‘ ، ہمارے خیال میں نعت کے بہترین اشعار میں سے ہیں، لیکن فاضل منصف کی نظروں سے رہ گئے ہیں۔
فیصلے کا اختتام بھی چند اشعار پر ہوتا ہے :
میں نہ زاہد ، نہ مجاہد، نہ مفسر ، نہ حکیم
میری ذات دلِ شرمندۂ عصیاں ہی سہی
کوئی نسبت تو ہوئی رحمتِ عالمؐ سے مجھے
آخری صَف کا مَیں ادنیٰ سا مسلماں ہی سہی
’ناموسِ رسالت ؐ ، جیسے بنیادی اور حساس مسئلے پر اس تاریخی فیصلے اور دوسری تحریروں کو مرتب کر کے کتابی شکل دینے ، صحت کے ساتھ بعض عربی یا انگریزی عبارتوں کے تراجم کا اہتمام کرنے، تفصیلی اشاریے مرتب کرنے کے لیے کتاب کے مرتب اور ان کے ہم کار شکریے کے مستحق ہیں۔ اس موضوع پر ایک ایسی کتاب منصہ شہود پر آگئی ہے، جو ہمیشہ حوالے کی کتاب تصوّر کی جائے گی۔ (ناموسِ رسالت ؐ : اعلٰی عدالتی فیصلہ، از جسٹس شوکت عزیز صدیقی ، مرتب : سلیم منصور خالد۔ ناشر:منشورات منصورہ لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔صفحات:۳۴۸۔ قیمت:۴۸۰ روپے )