انقلابی تحریکوں کے لیے ان کے اصول و مبادی جہاں ان کو ایک پہچان مہیا کرتے ہیں، وہاں ان کا تحریکی شعور اور مزاج بھی ترقی و بقا کے لیے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ تحریک کوئی بھی ہو، اگر اس سے وابستہ افراد اُس تحریک کے رنگ میں نہ رنگ جائیں، اس تحریک کی فکر میں نہ ڈوب جائیں اور اگر اپنے مزاج کو اس تحریک کے مزاج سے ہم آہنگ نہ کر دیں، تو وہ تحریک اپنی انقلابی روح کھو دیتی ہے اور صرف افراد کا ایک مجمو عہ بن کے رہ جاتی ہے۔ پھر تحریکی شعور و مزاج سے عاری افراد کی عادات و اَطوار اس تحریک پر مسلط ہوکر اس کی سمت تبدیل کردیتے ہیں۔
انقلاب برپا کرنے کے لیے انقلابی ذہنیت ایک لازمی بنیاد ہے ۔ اگرتحریک اپنے افراد میں انقلابی ذہنیت کو اجاگر کرنے میں ناکام ہو جائے تو وہ ایک انقلابی تحریک کے منصب سے نیچے اُتر آتی ہے۔ انقلابی سوچ افراد کی حُریت فکر کو دبا کر پیدا نہیں کی جاسکتی۔ انقلابی سوچ افراد کو اندھی تقلید پر آمادہ کرکے پیدا نہیں کی جاسکتی، بلکہ انقلابی ذہنیت ایک ایسی فضا میں پیدا ہوتی ہے، جہاں افراد کی ’تجزیاتی سوچ‘(Critical Thinking ) کی حس کو بیدار کیا جائے۔ جہاں تحریک افراد کا اور ان کے کام کا احتساب کر سکے ا ور جہاں افراد تحریک اور اس کے کام کا احتساب کر سکیں۔ ’تجزیاتی سوچ‘ کو دبانے کا کام ہر دور میں اس قوت نے انجام دیا ہے، جو پہلے سے موجود روایتی نظام ( Status Quo )کو قائم رکھنے کے حق میں رہی ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ ’تجزیاتی فکر‘ سے ہی انقلاب کی راہ کھلتی ہے۔ اس لیے انقلاب کو روکنے کے لیے ’تجزیاتی فکر‘ کو دبانا بہت ضروری بن جاتا ہے۔
تحریک کے ہر فرد کو اس بات کی تمیز رکھنا ہوگی کہ اس کا کردار کیا ہے؟ جب تک وہ اپنے آپ کو نہیں پہچانتا، اپنی صلاحیتوں کو نہیں جانتا، وہ تحریک کے لیے صحیح کام نہیں کر سکتا۔ خودشناس افراد تحریک کااثاثہ ہوتے ہیں۔ جب جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی تو سب سے پہلے مولانا مودودی ؒ نے ایک ایک رکن جماعت کو الگ الگ بلا کر اس سے دریافت کیا کہ وہ اپنے آپ کو جماعت میں کس کام کے لیے پیش کرتا ہے۔ کام کی نوعیت کے حساب سے ارکان جماعت کے الگ الگ گروپ بنائے گئے، تاکہ تخصیصی (specialized) انداز میں تحریک کے کام کو انجام دیا جائے۔
اس کے برعکس ایک متردّد [reluctant] کارکن تحریک کے لیے کار آمد نہیں ہو سکتا کیوںکہ اس کی شخصیت میں ابہام اسے کام کرنے سے روکتا اور دوسروں کو شک میں دھکیلتا ہے۔ اس کی شخصیت میں ابہام دو صورتوں سے وجود میں آتا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ خود شناس نہیں ہوتا، اس لیے تحریک شناس بھی نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ غیر تحریکی فکر، شعور اور ماحول نے اس کے اندر گھر کر لیا ہوتا ہے۔ وہ ( تحریک کے حوالے سے)غیر فکری اور غیر شعوری اثرات کو لے کر تحریک میں شامل ہوتا ہے۔اگر تحریک اس کے ابہام کو دور کرنے میں ناکام ہوجائے تو وہاں پر تحریک کو اپنا اوراپنے تربیتی نظام کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ تحریک اپنے کارکنان کو منجمد اور بے جان نہیں چھوڑ سکتی ، بلکہ وہ انھیں حرکت دیتی ہے ، نئی سوچ اور نئی فکر دیتی ہے ، نئی زندگی اور بلند مقاصد سے آشنا کرتی ہے۔
تحریک اپنے افراد کی سوچ سے کٹ کر علاحدہ نہیں رہ سکتی ۔تحریک کو چاہیے کہ افراد کو اس ابہام سے آزاد کر دے کہ جب تک انقلابی قافلہ اپنے ہمراہیوں کو فکری آزادی نہیں دلاتا، وہ انقلاب پرور نہیں کہلاسکتا۔ محکومی اور آزادی کا مزاج ایک جیسا نہیں ہوتا۔ محکوم کوئی اس وقت بنتا ہے جب کوئی دوسرا حاکم بن جاتا ہے، یعنی کسی کے حاکم بننے سے کوئی محکوم بن جاتاہے، مگر آزادی کا مزاج ایسا بالکل بھی نہیں۔کوئی کسی اور کے آزاد ہونے سے آزاد نہیں بنتا اور نہ کسی اور کے آزاد کرنے سے آزاد بنتا ہے ،بلکہ فکری آزادی خود کو آزاد کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
ایک انقلابی تحریک اپنے کارکنان کو جمود کا درس نہیں دے سکتی، ان کی حرکت کو قید کر کے انھیں منجمد نہیں بنا سکتی۔ اُ ن کے دماغ پر گرفت کر کے انھیں مفلوج نہیں بنا سکتی۔ تحریک متحرک افراد سے ہی قائم رہتی ہے۔ ’تجزیاتی فکر‘ کے اُبھرنے سے تحریک میں حرکت جاری رہتی ہے اور اگر اس ’تجزیاتی فکر‘کو کچل دیا جائے، تو تحریک ایک منجمد تنظیم یا روایتی قبیلے میں تبدیل ہوکے رہ جاتی ہے۔ بقولِ اقبالؒ: ’سبق شاہین بچوں کو دے رہا ہے خاک بازی کا‘ ___ایسا کرنا تحریک کے عین مقاصد کے خلاف بھی ہے اور حکمت کے بھی۔
ایک انقلابی تحریک کے لیے یہ بھی اشد ضروری ہے کہ اس کا تنظیمی و تحریکی ڈھانچا اور طریق کار حریف کے تنظیمی ڈھانچے اور اس کے طریق کار سے مختلف ہو۔ اگر یہاں بھی وہی کچھ ہو جو مدِّمقابل کے ہاں ہے، تو پھرجو کچھ ہوگا، وہ محض ہاتھوں کی تبدیلی ہوگا، انقلابی یا جوہری تبدیلی نہیں پیدا ہوسکے گی۔ اس لیے تحریک کو چاہیے کہ حالات بھی بدلیں اور ہاتھ بھی۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برپا کی گئی تحریک میں یہ بات ہمیں بدرجۂ اتم دیکھنے کو ملتی ہے۔ حضوؐرنے اپنی تحریک کو الگ بنیادوں پر قائم کیا۔ وہاں کالے اور گورے کی تمیز نہیں رہتی، وہاں کوئی غلام اور کوئی آقا نہیں رہتا، وہاں ایک ہی صف میں محمود وایاز کھڑے ہو جاتے ہیں، وہاں انسانوں کی کھوئی ہوئی انسانیت کے بارے میں فکرمندی ہے، وہاں انسانیت کو بحال کرنے کی منصوبہ بندی ہے، وہاں حلال و حرام کے قیود ہیں ، وہاں عبادات، ریاضت اور فقر کی ایک انوکھی ہم آہنگی کو پیدا کیا جاتا ہے، وہاں سوال پوچھے جاتے ہیں اور تلخ سوال بھی، لیکن حضوؐر کسی کی تلخی سے دل برداشتہ نہیں ہوتے بلکہ اطمینان سے سوالات سنتے ہیں اور جوابات دیتے ہیں، وہاں بدر کے فیصلہ کن معرکے میں الخبابؓ بن المنذر بن الجموح، حضوؐر سے جاننے کی جرأت کرسکتے ہیں کہ حضوؐر کا انتخاب کردہ مقام اﷲ کا نازل کردہ ہے یا کہ یہ آپؐ کی ذاتی راے ہے؟ وہاں فارس کے سلمانؓ وقت کے پیغمبر ؐ کو مدینہ منورہ کے بچائو اور دفاع کے لیے خندق کھودنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔ ایسی تحریک جہاں خلفا سے سوال کیا جاسکتا ہے، جہاں ایک چپٹی ناک والی عورت حضرت عمرؓ کے اجتہاد پر سوال کھڑا کر سکتی ہے، جہاں پیغمبر کوئی داروغا نہیں بنتا، جہاں شورائی نظام ہو اور جہاں احتسابِ عمل کا اصول واضح ہو___ یہ سب کچھ اس لیے کیوںکہ یہ تحریک بنیادی طور پر تبدیلی چاہتی تھی۔ ایسی تبدیلی جس میں زندگی کے شعبہ جات ہی نہیں خود زندگی ہی بدل جائے۔
تحریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ جن نعروں کو بلند کرتی ہو، جن اصولوں کی تبلیغ کرتی ہو، وہ تحریک کے اندر بھی عملاً موجود ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو تو تحریک کی دعوت موثر نہیں بن سکتی۔ کوئی بھی نعرہ دراصل کچھ حروف کا مرکب ہوتا ہے ۔ نعرہ حرکت دیتا ہے ،عمل پر ابھارتا ہے اور تو اور تحریک کے عمل کی عکاسی کرتاہے۔ اس لیے یہ حروف دراصل عمل اور خیال، یعنی آئیڈیا لوجی کو ظاہر کرتے ہے۔ عمل اگر خیال سے خالی رہ جائے تو قابلِ قبول نہیں۔ اگر خیال اور عمل میں مطابقت نہ ہو تو یہ رویہ منافقت میں شمار ہوتا ہے، اور انقلابی تحریکوں میں ایسے رویے کا گزر موت ہے۔ جمہوریت کا پرچار کرنے والے اگر لوگوں کی زبانوں کو بند کروا دیں ، اظہار راے پر پابندی لگا دیں، قلموں پر زنجیریں گرادیں، حقوق سلب کر دیں، تو یہ کھلی منافقت کہلائے گی ۔ اسی طرح نظامِ قسط و عدل کی علَم بردار تحریکوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر یہ نظام عدل عملاً جاری و ساری ہو۔ اگر عدل و قسط نابود ہو تو تحریک کا اس حالت میں منزلِ مقصود تک پہنچنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
یہاں ایک اہم بات کی وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ تحریکوں سے وابستہ افراد کو عملِ صحیح اور محض ’خام فعالیت‘ (Activism ) کے درمیان حساس فرق کو قائم رکھنا ہوگا اور یہ یاد رکھنا ہو گا کہ خام فعالیت سے انقلابات نہ آئے ہیں اور نہ آسکتے ہیں۔ انقلاب اگر آتا ہے تو عملِ صحیح سے ہی آتا ہے۔ عملِ صحیح یہ ہے کہ اگر انقلاب نہیں آتا ہے تو اس کے اسباب کو تلاش کیا جائے، وجوہ کو ڈھونڈا جائے، تاکہ انھیں تلاش کرکے ان کےسدباب کی کوششیں کی جائیں۔ یہ کوششیں صرف تحریک کے قائدین کا خصوصی حق نہیں، بلکہ ہر کارکن اس کام کو انجام دے اور کوئی بھی اپنے ارکان کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہونا شروع ہوجائے تو یہ تحریک کا عروج نہیں بلکہ زوال ہو گا۔ اسی طرح کارکنوں کی سنجیدہ سوچ ہی قائدین کو سنجیدہ بنا سکتی ہے۔ قائد کارکنوں سے ہوتا ہے اور کارکن قائد سے۔ قائد کی سوچ کارکنان سے پروان چڑھتی ہے اور کارکنوں کی قائد سے۔ اگر قائد کارکنان کے ساتھ مل کر نہیں سوچتے تو ان کی پالیسیاںکامیاب نہیں ہوسکتیں۔ کوئی بھی قائد، کارکنوں کی صلاحیتوں کو ، ان کے شعور کو ، ان کی فہم و فراست کو ، ان کے علم و تجربے کو صرف اس بنا پر نظر انداز نہیں کر سکتا کہ وہ صرف ایک عام کارکن ہے، بلکہ وہ ـ’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘ کی صدا کو اپنے شعور میں اتار کر ہر کارکن کی صلاحیتوں سے استفادہ کرے، ان کی بات کو سنے ،ان کی تجاویز کو پرکھے، اور ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھے کہ اگر کارکن قربانیاں پیش کرسکتا ہے تو اس کی راے کیوں نہیں وزن رکھ سکتی!