انقلابی تحریکوں کے لیے ان کے اصول و مبادی جہاں ان کو ایک پہچان مہیا کرتے ہیں، وہاں ان کا تحریکی شعور اور مزاج بھی ترقی و بقا کے لیے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ تحریک کوئی بھی ہو، اگر اس سے وابستہ افراد اُس تحریک کے رنگ میں نہ رنگ جائیں، اس تحریک کی فکر میں نہ ڈوب جائیں اور اگر اپنے مزاج کو اس تحریک کے مزاج سے ہم آہنگ نہ کر دیں، تو وہ تحریک اپنی انقلابی روح کھو دیتی ہے اور صرف افراد کا ایک مجمو عہ بن کے رہ جاتی ہے۔ پھر تحریکی شعور و مزاج سے عاری افراد کی عادات و اَطوار اس تحریک پر مسلط ہوکر اس کی سمت تبدیل کردیتے ہیں۔
انقلاب برپا کرنے کے لیے انقلابی ذہنیت ایک لازمی بنیاد ہے ۔ اگرتحریک اپنے افراد میں انقلابی ذہنیت کو اجاگر کرنے میں ناکام ہو جائے تو وہ ایک انقلابی تحریک کے منصب سے نیچے اُتر آتی ہے۔ انقلابی سوچ افراد کی حُریت فکر کو دبا کر پیدا نہیں کی جاسکتی۔ انقلابی سوچ افراد کو اندھی تقلید پر آمادہ کرکے پیدا نہیں کی جاسکتی، بلکہ انقلابی ذہنیت ایک ایسی فضا میں پیدا ہوتی ہے، جہاں افراد کی ’تجزیاتی سوچ‘(Critical Thinking ) کی حس کو بیدار کیا جائے۔ جہاں تحریک افراد کا اور ان کے کام کا احتساب کر سکے ا ور جہاں افراد تحریک اور اس کے کام کا احتساب کر سکیں۔ ’تجزیاتی سوچ‘ کو دبانے کا کام ہر دور میں اس قوت نے انجام دیا ہے، جو پہلے سے موجود روایتی نظام ( Status Quo )کو قائم رکھنے کے حق میں رہی ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ ’تجزیاتی فکر‘ سے ہی انقلاب کی راہ کھلتی ہے۔ اس لیے انقلاب کو روکنے کے لیے ’تجزیاتی فکر‘ کو دبانا بہت ضروری بن جاتا ہے۔
تحریک کے ہر فرد کو اس بات کی تمیز رکھنا ہوگی کہ اس کا کردار کیا ہے؟ جب تک وہ اپنے آپ کو نہیں پہچانتا، اپنی صلاحیتوں کو نہیں جانتا، وہ تحریک کے لیے صحیح کام نہیں کر سکتا۔ خودشناس افراد تحریک کااثاثہ ہوتے ہیں۔ جب جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی تو سب سے پہلے مولانا مودودی ؒ نے ایک ایک رکن جماعت کو الگ الگ بلا کر اس سے دریافت کیا کہ وہ اپنے آپ کو جماعت میں کس کام کے لیے پیش کرتا ہے۔ کام کی نوعیت کے حساب سے ارکان جماعت کے الگ الگ گروپ بنائے گئے، تاکہ تخصیصی (specialized) انداز میں تحریک کے کام کو انجام دیا جائے۔
اس کے برعکس ایک متردّد [reluctant] کارکن تحریک کے لیے کار آمد نہیں ہو سکتا کیوںکہ اس کی شخصیت میں ابہام اسے کام کرنے سے روکتا اور دوسروں کو شک میں دھکیلتا ہے۔ اس کی شخصیت میں ابہام دو صورتوں سے وجود میں آتا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ خود شناس نہیں ہوتا، اس لیے تحریک شناس بھی نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ غیر تحریکی فکر، شعور اور ماحول نے اس کے اندر گھر کر لیا ہوتا ہے۔ وہ ( تحریک کے حوالے سے)غیر فکری اور غیر شعوری اثرات کو لے کر تحریک میں شامل ہوتا ہے۔اگر تحریک اس کے ابہام کو دور کرنے میں ناکام ہوجائے تو وہاں پر تحریک کو اپنا اوراپنے تربیتی نظام کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ تحریک اپنے کارکنان کو منجمد اور بے جان نہیں چھوڑ سکتی ، بلکہ وہ انھیں حرکت دیتی ہے ، نئی سوچ اور نئی فکر دیتی ہے ، نئی زندگی اور بلند مقاصد سے آشنا کرتی ہے۔
تحریک اپنے افراد کی سوچ سے کٹ کر علاحدہ نہیں رہ سکتی ۔تحریک کو چاہیے کہ افراد کو اس ابہام سے آزاد کر دے کہ جب تک انقلابی قافلہ اپنے ہمراہیوں کو فکری آزادی نہیں دلاتا، وہ انقلاب پرور نہیں کہلاسکتا۔ محکومی اور آزادی کا مزاج ایک جیسا نہیں ہوتا۔ محکوم کوئی اس وقت بنتا ہے جب کوئی دوسرا حاکم بن جاتا ہے، یعنی کسی کے حاکم بننے سے کوئی محکوم بن جاتاہے، مگر آزادی کا مزاج ایسا بالکل بھی نہیں۔کوئی کسی اور کے آزاد ہونے سے آزاد نہیں بنتا اور نہ کسی اور کے آزاد کرنے سے آزاد بنتا ہے ،بلکہ فکری آزادی خود کو آزاد کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
ایک انقلابی تحریک اپنے کارکنان کو جمود کا درس نہیں دے سکتی، ان کی حرکت کو قید کر کے انھیں منجمد نہیں بنا سکتی۔ اُ ن کے دماغ پر گرفت کر کے انھیں مفلوج نہیں بنا سکتی۔ تحریک متحرک افراد سے ہی قائم رہتی ہے۔ ’تجزیاتی فکر‘ کے اُبھرنے سے تحریک میں حرکت جاری رہتی ہے اور اگر اس ’تجزیاتی فکر‘کو کچل دیا جائے، تو تحریک ایک منجمد تنظیم یا روایتی قبیلے میں تبدیل ہوکے رہ جاتی ہے۔ بقولِ اقبالؒ: ’سبق شاہین بچوں کو دے رہا ہے خاک بازی کا‘ ___ایسا کرنا تحریک کے عین مقاصد کے خلاف بھی ہے اور حکمت کے بھی۔
ایک انقلابی تحریک کے لیے یہ بھی اشد ضروری ہے کہ اس کا تنظیمی و تحریکی ڈھانچا اور طریق کار حریف کے تنظیمی ڈھانچے اور اس کے طریق کار سے مختلف ہو۔ اگر یہاں بھی وہی کچھ ہو جو مدِّمقابل کے ہاں ہے، تو پھرجو کچھ ہوگا، وہ محض ہاتھوں کی تبدیلی ہوگا، انقلابی یا جوہری تبدیلی نہیں پیدا ہوسکے گی۔ اس لیے تحریک کو چاہیے کہ حالات بھی بدلیں اور ہاتھ بھی۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برپا کی گئی تحریک میں یہ بات ہمیں بدرجۂ اتم دیکھنے کو ملتی ہے۔ حضوؐرنے اپنی تحریک کو الگ بنیادوں پر قائم کیا۔ وہاں کالے اور گورے کی تمیز نہیں رہتی، وہاں کوئی غلام اور کوئی آقا نہیں رہتا، وہاں ایک ہی صف میں محمود وایاز کھڑے ہو جاتے ہیں، وہاں انسانوں کی کھوئی ہوئی انسانیت کے بارے میں فکرمندی ہے، وہاں انسانیت کو بحال کرنے کی منصوبہ بندی ہے، وہاں حلال و حرام کے قیود ہیں ، وہاں عبادات، ریاضت اور فقر کی ایک انوکھی ہم آہنگی کو پیدا کیا جاتا ہے، وہاں سوال پوچھے جاتے ہیں اور تلخ سوال بھی، لیکن حضوؐر کسی کی تلخی سے دل برداشتہ نہیں ہوتے بلکہ اطمینان سے سوالات سنتے ہیں اور جوابات دیتے ہیں، وہاں بدر کے فیصلہ کن معرکے میں الخبابؓ بن المنذر بن الجموح، حضوؐر سے جاننے کی جرأت کرسکتے ہیں کہ حضوؐر کا انتخاب کردہ مقام اﷲ کا نازل کردہ ہے یا کہ یہ آپؐ کی ذاتی راے ہے؟ وہاں فارس کے سلمانؓ وقت کے پیغمبر ؐ کو مدینہ منورہ کے بچائو اور دفاع کے لیے خندق کھودنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔ ایسی تحریک جہاں خلفا سے سوال کیا جاسکتا ہے، جہاں ایک چپٹی ناک والی عورت حضرت عمرؓ کے اجتہاد پر سوال کھڑا کر سکتی ہے، جہاں پیغمبر کوئی داروغا نہیں بنتا، جہاں شورائی نظام ہو اور جہاں احتسابِ عمل کا اصول واضح ہو___ یہ سب کچھ اس لیے کیوںکہ یہ تحریک بنیادی طور پر تبدیلی چاہتی تھی۔ ایسی تبدیلی جس میں زندگی کے شعبہ جات ہی نہیں خود زندگی ہی بدل جائے۔
تحریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ جن نعروں کو بلند کرتی ہو، جن اصولوں کی تبلیغ کرتی ہو، وہ تحریک کے اندر بھی عملاً موجود ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو تو تحریک کی دعوت موثر نہیں بن سکتی۔ کوئی بھی نعرہ دراصل کچھ حروف کا مرکب ہوتا ہے ۔ نعرہ حرکت دیتا ہے ،عمل پر ابھارتا ہے اور تو اور تحریک کے عمل کی عکاسی کرتاہے۔ اس لیے یہ حروف دراصل عمل اور خیال، یعنی آئیڈیا لوجی کو ظاہر کرتے ہے۔ عمل اگر خیال سے خالی رہ جائے تو قابلِ قبول نہیں۔ اگر خیال اور عمل میں مطابقت نہ ہو تو یہ رویہ منافقت میں شمار ہوتا ہے، اور انقلابی تحریکوں میں ایسے رویے کا گزر موت ہے۔ جمہوریت کا پرچار کرنے والے اگر لوگوں کی زبانوں کو بند کروا دیں ، اظہار راے پر پابندی لگا دیں، قلموں پر زنجیریں گرادیں، حقوق سلب کر دیں، تو یہ کھلی منافقت کہلائے گی ۔ اسی طرح نظامِ قسط و عدل کی علَم بردار تحریکوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر یہ نظام عدل عملاً جاری و ساری ہو۔ اگر عدل و قسط نابود ہو تو تحریک کا اس حالت میں منزلِ مقصود تک پہنچنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
یہاں ایک اہم بات کی وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ تحریکوں سے وابستہ افراد کو عملِ صحیح اور محض ’خام فعالیت‘ (Activism ) کے درمیان حساس فرق کو قائم رکھنا ہوگا اور یہ یاد رکھنا ہو گا کہ خام فعالیت سے انقلابات نہ آئے ہیں اور نہ آسکتے ہیں۔ انقلاب اگر آتا ہے تو عملِ صحیح سے ہی آتا ہے۔ عملِ صحیح یہ ہے کہ اگر انقلاب نہیں آتا ہے تو اس کے اسباب کو تلاش کیا جائے، وجوہ کو ڈھونڈا جائے، تاکہ انھیں تلاش کرکے ان کےسدباب کی کوششیں کی جائیں۔ یہ کوششیں صرف تحریک کے قائدین کا خصوصی حق نہیں، بلکہ ہر کارکن اس کام کو انجام دے اور کوئی بھی اپنے ارکان کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہونا شروع ہوجائے تو یہ تحریک کا عروج نہیں بلکہ زوال ہو گا۔ اسی طرح کارکنوں کی سنجیدہ سوچ ہی قائدین کو سنجیدہ بنا سکتی ہے۔ قائد کارکنوں سے ہوتا ہے اور کارکن قائد سے۔ قائد کی سوچ کارکنان سے پروان چڑھتی ہے اور کارکنوں کی قائد سے۔ اگر قائد کارکنان کے ساتھ مل کر نہیں سوچتے تو ان کی پالیسیاںکامیاب نہیں ہوسکتیں۔ کوئی بھی قائد، کارکنوں کی صلاحیتوں کو ، ان کے شعور کو ، ان کی فہم و فراست کو ، ان کے علم و تجربے کو صرف اس بنا پر نظر انداز نہیں کر سکتا کہ وہ صرف ایک عام کارکن ہے، بلکہ وہ ـ’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘ کی صدا کو اپنے شعور میں اتار کر ہر کارکن کی صلاحیتوں سے استفادہ کرے، ان کی بات کو سنے ،ان کی تجاویز کو پرکھے، اور ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھے کہ اگر کارکن قربانیاں پیش کرسکتا ہے تو اس کی راے کیوں نہیں وزن رکھ سکتی!
کشمیر کی مخصوص شناخت نے یہاں کی سیاست اور اجتماعی جدوجہد کو متاثر کیا ہے۔ کشمیر کے سیاسی عمل کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے اس کی شناخت ایک اہم حوالہ ہے۔ آزادی، خودمختاری اور خود اختیاری جیسے نعرے عام طور پر ایک چیز، یعنی کشمیری شناخت سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب بھی کوئی حکومت اس شناخت کو بگاڑنے کی کوشش کرتی ہے تو لوگوں کو شدید نوعیت کی بیگانگی محسوس ہوتی ہے۔ اپنی نام نہاد حکومتوں کے خلاف کشمیریوں کی بے زاری کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ مدتوں سے ہے۔ مہاراجا ہری سنگھ کی حکمرانی کے دوران تلخی دو وجوہ سے بڑھی تھی:
۱- مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ جس کا ایک بڑا سبب ان کی تعلیمی پس ماندگی تھی، اور المیہ یہ کہ خود ڈوگرہ حکومت انھیں تعلیم میں پس ماندہ رکھنا چاہتی تھی۔
۲- ڈوگروں اور پنڈتوں کا اس پر اتفاق تھا کہ حکومتی خدمات کے لیے باہر سے تو لوگ لیے جاسکتے ہیں، مگر مسلمان ہرگز نہیں۔
سیاست میں دو پہلوئوں سے پیش رفت یہ ہوئی کہ اسی عرصے میں مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں آیا، جو جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک کے لیے بنیاد فراہم کرنے کا ذریعہ بنی۔ دوسرے یہ کہ پنڈتوں اور ڈوگروں نے الگ سے تحریک چلائی کہ ’’کشمیر، کشمیریوں کے لیے ہے‘‘۔ دراصل یہ تحریک پنڈتوں کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے تھی۔ اس تحریک نے فوجی خدمات میں مسلمانوں کی شمولیت کا بھی راستہ کھول دیا۔ لیکن اس تحریک نے مہاراجا ہری سنگھ کو یہ قانون بنانے پر مجبور کیا کہ غیر ریاستی لوگوں اور غیرریاستی ملازموں کو زمین خریدنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔
اس طرح ریاست نے غیر ریاستی باشندوں کے مقابلے میں ، ریاستی عوام کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا، اور اس استدلال کو تسلیم کرتے ہوئے ۱۹۲۷ء میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے '’ریاستی موضوع‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ زمین کی ملکیت کے لیے قانون سازی کی گئی اور کہا گیا کہ زمین خریدنے والے ہرفرد کی حیثیت پر سوال اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ۱۹۵۲ء میں شیخ عبداللہ اور بھارت کی حکومت نے دہلی میں اتفاق کیا کہ ریاست کو قانون سازی کے ذریعے ریاست کے مستقل رہایشیوں کے حقوق کے تحفظ اور ملکیت کے استحکام کی قوت حاصل ہوگی، خاص طور پر غیرمنقولہ ملکیت کے حصول سے متعلق معاملات کے بارے میں۔
’ریاستی موضوع‘ کے لحاظ سے یہ خاص حیثیت ہی درحقیقت بھارت کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے مکمل انضمام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی چلی آرہی ہے۔ بھارتی دستور کا آرٹیکل ۳۷۰ کشمیر کی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے بھارتی قوم پرست قوتوں کے لیے بے چینی کا سبب ہے، اور وہ ابتدا ہی سے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، آرٹیکل کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوئی حکومت ہمت نہیں کرسکی۔ البتہ اس کی خصوصی اہمیت کو بے اثر اور بے وقعت بنانے کے لیے نئی دہلی حکومت طرح طرح کی پالیسیاں بناتی اور نافذ کرتی رہی ہے۔ حالیہ زمانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ایسی قاتلانہ قانون سازی کی کھلی کھلی کوششیں ہورہی ہیں، مثال کے طور پر:
۲۴؍ اگست ۲۰۰۹ء کو ریاستی قانون ساز اسمبلی میں دیے گئے اعداد و شمار سے یہ پتا چلتا ہے کہ فوج نے ۱۰ لاکھ ۵۴ہزار ۷سو ۲۱ کنال زمین پر بزور قبضہ جمایا ہے، جن میں ۸ لاکھ اور ۵۵ہزار کنال پر تو ۱۰۰ فی صد غیرقانونی طور پر قبضہ کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر مزید ایک لاکھ ۹۹ہزار ۳سو۱۴ کنال زمین سیکورٹی ایجنسیوں نے قبضے میں لے رکھی ہے۔ ’لینڈ ریکوزیشن ایکٹ‘ کے تحت وادیِ کشمیر کی مزید ۵ لاکھ ۹۹ہزار ۴سو۵۵ کنال اور جموں کی ۳لاکھ ۲۱ہزار ۹سو۵۱ کنال زمین بھارتی فوجیوں نے ہتھیا لی ہے۔
ممبراسمبلی مظفر حسین بیگ نے کہا کہ ان پناہ گزینوں کا مسئلہ باوقار طریقے سے حل کرنا چاہیے، اور انھیں نئی اُمید دینی چاہیے۔کشمیر اور جموں کی زمینوں پر بھارتی کالونیوں کی تعمیر کے مسئلے پر، بھارت سے وابستہ رہنے اور بھارت سے الگ ہونے والے لوگ مشترکہ موقف رکھتے اور کہتے ہیں کہ ایسے اقدامات نہ صرف ریاست کی متنازعہ نوعیت کو تبدیل کر ڈالیں گے، بلکہ ریاست میں آبادی کے تناسب کو بھی تبدیل کر ڈالیں گے۔ حُریت (ع) کے چیئرمین عمر فاروق نے کہا کہ: ’’مظفربیگ کا بیان کوئی سیاسی، قانونی یا اخلاقی موقف نہیں ہے۔ وہ اگر پناہ گزینوں کی بحالی کے بارے میں فکرمند ہیں، تو انھیں بھارت لے جائیں‘‘۔
یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ کشمیری مسلمان، اپنے ہم وطن پنڈتوں کی واپسی کے خلاف نہیں ہیں، کیوںکہ وہ کشمیر کا ایک حصہ ہیں، لیکن جس طریقے سے ان کی آبادکاری کا منصوبہ مسلط کیا جارہا ہے، اس طریقے کی مخالفت کی جارہی ہے۔
اس تنازعے میں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ: ’’کشمیری، تارکین وطن کی اپنی وادی میں آبادکاری کے لیے اس طرح سوال کرتے ہیں جیسے بلیوں کے آگے کبوتر ڈالنے کا معاملہ ہو‘‘۔ محبوبہ مفتی کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ یہ باتیں مسلمانوں کے لیے واضح طور پر توہین آمیز اور نفرت انگیز الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مسلمانوں نے کبھی کشمیری پنڈتوں کو ’کبوتروں‘ کی طرح نشانہ نہیں بنایا، اور جنھوں نے انفرادی طور پر کبھی کسی کو نشانہ بنایا تو کشمیری قیادت نے نہایت سختی سے اس کی مذمت کی ہے۔
اس حوالے سے آسیہ اندرابی صاحبہ نے کہا ہے کہ: ’’بھارتی صنعتی پالیسی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ داراورصنعت کار، دولت کے بل بوتے پر کشمیر میں پنجے گاڑ کر، یہاں کی آبادی کا تناسب بدل ڈالیں۔ مزید یہ کہ بھارتی سرمایہ دار اور سرمایہ پرست، افرادی قوت بھی بھارتی ریاستوں سے لائیں گے، جس کے نتیجے میں یہاں کی تہذیب و تمدن، روزگار اور آزادی، سبھی کچھ بھارتی کنٹرول میں چلا جائے گا اور یہاں غربت و ذلّت کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔
جی ایس ٹی نے ریاست سے ہر طرح کی معاشی خودمختاری چھین لی ہے۔ آرٹیکل۳۷۰ ریاست کو محصول اور ٹیکس کی وصولی کا اختیار دیتا ہے، لیکن اب یہ اختیار ریاست کو حاصل نہیں ہے۔ عبدالرحیم راتھر، سابق وزیرخزانہ نے ریاست اور مرکزی حکومت کے اعلان کو رَدکرتے ہوئے کہا کہ: ’’نئے ٹیکس نظام کے تحت، نئی دہلی کو جی ایس ٹی کے ذریعے سیلزٹیکس جمع کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جو کہ دوسری صورت میں جموں و کشمیر حکومت کے دائرئہ اختیار میں ہوتا ہے‘‘۔
جی ایس ٹی میں توسیع کا سادہ مطلب جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات نئی دہلی کے حوالے کرنا ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنے فیصلے کی میکاولین وضاحتیں کی ہیں۔ ڈاکٹر حسیب درابو ریاستی وزیرخزانہ نے بل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم آرٹیکل ۳۷۰ کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں‘‘، اور یہ انھی خطوط پر گفتگو تھی جیساکہ بی جے پی کے نظریے کے حامی بات کرتے ہیں۔
جموں و کشمیر کا آئین اپنے تیسرے حصے میں مستقل رہایشی اور اس کے اختیارات اور مستقل رہایشی کے حقوقِ ملکیت وغیرہ کی تعریف کرتا ہے۔ مستقل رہایشی کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ آئین آرٹیکل۹ کے تحت ریاستی اسمبلی کو تمام اختیارات دیتا ہے، جس کے تحت اسمبلی ریاستی شہری کی تعریف میں کوئی بھی تبدیلی لاسکتی ہے۔ آرٹیکل ۹: درج ذیل اُمور کی وضاحت کرتا ہے، جیسے:
۱- ریاست کے مستقل شہری کی وضاحت کرنا یا تعریف میں تبدیلی کرنا، افراد کی نوعیت (کلاسز) جو بھی ہیں یا ہوں گی،
۲- مستقل شہریوں کو خصوصی حقوق یا اختیار عطاکرنا،
۳- مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق یا اختیارات کو مقررہ ضابطے کے تحت چلانا یا ان میں تبدیلی کرنا۔ یہ اسمبلی سے تب منظور کیے جائیں گے، جب اسے اسمبلی کی دوتہائی اکثریت کی تائید حاصل ہوگی۔
جموں و کشمیر کے شہریوں کے حقوق نہ صرف بھارتی حکومت نے تسلیم کیے ہیں،بلکہ ان کے تحفظ کے لیے آرٹیکل ۳۵-اے آئین کا حصہ بھی ہے۔ یہ آرٹیکل ایک آئینی شق ہے، جو جموں و کشمیر کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق بہ سلسلہ ملازمت، ناقابلِ انتقال جایداد کا حصول، آبادکاری اور اسکالرشپ کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ آرٹیکل جموں و کشمیر میں صدر راجندرا پرشاد کے حکم سے ۱۴مئی ۱۹۵۴ء میں نافذ کیا گیا۔ قانونی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل کو حذف کیا گیا تو جموں و کشمیر تمام خصوصی مراعات بشمول اسٹیٹ سبجیکٹ لا، جایداد کا حق، ملازمت کا حق اور آبادکاری کا حق کھو دے گا۔ بھارتی انتہاپسند قوم پرستوں کے مطابق بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ کشمیریوں کے خصوصی استحقاق کو مسخ کرنے کے لیے ایک بڑی حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔ بی جے پی کے مشن۴۴ کا ہدف کشمیریوں کے خصوصی استحقاق کے اس دستاویزی ثبوت سے نجات حاصل کرنا ہے۔
جموں و کشمیر کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طورپر اس تحریک کے خلاف اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل ۳۵-اے کو منسوخ کیا گیا تو جموںو کشمیر میں بغاوت ہوسکتی ہے (روزنامہ گریٹر کشمیر، یکم اگست ۲۰۱۷ء)۔ اسی طرح وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی حکومت کو سختی سے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل ۳۵-اے کو حذف کیا گیا تو وادی میں ترنگے کو بلند کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ اپوزیشن، حکمران جماعت پی ڈی پی ، علیحدگی پسند اور عوام آرٹیکل ۳۵-اے کی تنسیخ پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔
آرٹیکل ۳۵-اے کی منسوخی نے مرکز اور ریاست میں شدید بحث کھڑی کر دی ہے۔ زیریں سطح پر بہت سے حقائق نے کشمیر کے تشخص پر سخت یورش کو ثابت کر دیا ہے۔ مثلاً ’پرماننٹ ریذیڈنٹ سرٹیفکیٹ‘ (PRC) سے متعلق افواہوں نے ریاست کے عوام میں یہ خدشہ پیدا کردیا ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ گڑبڑ ہے۔ ’اسٹیٹ سبجیکٹ انکوائری کمیشن رپورٹ‘ کے مطابق تقریباً ۱۳۰۰ پی آر سی سرٹیفکیٹ زیرغور ہیں جو کہ حیران کن ہے۔ اے کیو پرے نے کہا ہے کہ ان مقدمات میں انھوں نے پی آر سی سرٹیفکیٹ منسوخ کرنے اور جایداد ضبط کرلینے کی منظوری دی ہے۔ اے کیو پرے نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ غیر ریاستی IAS کے غیرمتعلقہ افسر پی آر سی سرٹیفکیٹ جاری کر رہے ہیں جو کہ قوانین و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
جس روز سے رسمی معاہدے کے تحت بھارت نے ریاست کا انتظام سنبھالا ہے، مرکزی بھارتی قیادت کی خواہش ہے کہ جیسے دوسری ریاستیں بھارت میں ضم ہوگئی ہیں اسی طرح کشمیر بھی بھارت میں مکمل طور پر ضم ہوجائے۔ خودمختاری میں فرسودگی کا عمل اس طریق کار کی زندہ مثال ہے۔ عوام محض اس شبہے کے اظہار کے سوا کیا کرسکتے ہیں کہ یہ ان کے علیحدگی کے تشخص کو منسوخ کرنے کا ایک ٹھوس منصوبہ ہے۔ دستورِ ہند سے آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے لیے بھارت میں واویلا زوروں پر ہے اور اس کو حذف کرنا بی جے پی حکومت کے کارڈوں میں سے ہے۔
اگرچہ اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کی طرف سے انتقامی پالیسیوں کی نشان دہی کی گئی ہے لیکن اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں کشمیر کے تشخص کے خلاف اس بھرپور یورش کو روکنے کے لیے متحد ہوتی ہیں یا کشمیرامرناتھ پارٹ ٹو کی طرف بڑھ رہا ہے؟
نوعِ انسانی کی خاطر برپا ہونے والی امت کے احوال دیکھ کر ایک سوال ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا ہے کہ آخر ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟ اُمتِ مسلمہ آج اس زبوں حالی کا شکار کیوں کر ہوئی ہے اور اس زبوں حالی سے نکلنے کا کیاکوئی راستہ بھی ہے؟ اس نوعیت کے سوالات ہمیں جوابات تلاش کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ جسے ’خیر اُمت‘ کا لقب حاصل ہے اور جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی امین بھی ہے اور جانشین بھی ۔ یہ ایک ایسی امت جسے بجا طور پر سیادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونا چاہیے تھا، اپنے آپ کو مظلوم و محکوم پاتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر کشمیر، برما ، فلسطین، بھارت میں اس امت کی بد حالی، مظلومیت اور مفلوجیت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ایک ایسی امت جو عددی اعتبار سے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر مشتمل ہو، جو جغرافیائی اعتبار سے اسٹرے ٹیجک علاقوں میں سکونت پذیر ہو اور جس کی سرزمین قدرتی و معدنی وسائل سے مالا مال ہو، آخر ایسا کیوں ہے کہ آج اُمتِ مسلمہ کی حیثیت ایک ایسے بے حس جان دار کی سی ہو گئی ہے، جس پر جو چاہے اپنی اجارہ داری قائم کر سکتا ہے۔انسانیت کو اندھیروں سے نور کی طرف لے آنے والی امت آج خود پستی کی دلدل میں دھنسی نظر آتی ہے۔
عالمی سطح پر ۵۶ سے زیادہ اسلامی ممالک کا وزن پانی پر جھاگ کے ماند بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں مسلم ممالک خود کو بے وزن محسوس کرتے ہیں۔ ان کی راے کی کوئی حیثیت نہیں۔ سارے عالمی معاملات جی سیون، جی ففٹین وغیرہ سے منسوب ممالک طے کرتے ہیں۔ امریکا اور اس کے حواری اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی آڑ میںبین الاقوامی مسائل کو اپنی اغراض کے مطابق طے کرتے ہیں۔ الغرض اُمتِ مسلمہ پر ذلت اور مسکنت کا دور جاری و ساری ہے اور عذابِ الٰہی کے کوڑے بڑی شدت کے ساتھ اس اُمت پر برس رہے ہیں۔ ایسی حالتِ زار میں اگر یہ وعدہ پیش نظر رکھا جائے: اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ [اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹]، ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘، اگر قرآن میں اہلِ ایمان کے لیے غلبے کی بشارتیں ہیں تو اُمت کیوں کر پستی اور جمود کا شکار ہو کے رہ جائے؟آخر اس پستی کے اسباب کیا ہوئے اور اس سے نکلنے کی کیا راہ ہے؟
اگر غور سے اس مسئلے پر سوچا جائے تو ہمیں اس بات کے اعتراف میں کوئی باک نہیں رہتا کہ یہ امت خیر اُمت کی تاویل میں غلطی کر گئی ہے ۔ اہل یہود کی طرح شاید ہم مسلمان بھی مدت سے کچھ اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اپنی تمام کج فکریوں کے باوجود بھی ہم ہی تا قیامت دنیا کی سیادت پر مامور کر دیے گئے ہیں۔ چوں کہ خیر اُمت ہم ہیں، لہٰذا اقوامِ عالم کی سیادت پر فائز بھی ہمیں ہی کیا گیا ہے۔ اب چاہے کوئی ہماری اقتدا کرے یا نہ کرے ۔ کوئی کہتا ہے کہ غلبے سے مراد سیاسی، تہذیبی یا معاشی غلبہ نہیں بلکہ روحانی غلبہ ہے۔دراصل ’خیر‘ کا لفظ ان تمام کاموں پر محیط ہے، جس سے نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود وابستہ ہے۔ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہماری ساری توانائی ان باتوں میں خرچ ہوتی ہے کہ لائوڈاسپیکر پر اذان دی جائے یا نہیں، قرآن کی تلاوت جائز قرار دی جائے یا نہیں، موبائل پر بنا وضو قرآن پڑھا جائے یا نہیں، گھڑی دائیں ہاتھ میں پہننی جائز ہے یا بائیں ہاتھ میں، ہوائی جہاز میں کس سمت ہو کر نماز پڑھی جائے؟ ہم نئی ٹکنا لوجی کے خریدار ضرور ہیں، مگر اس کی پیداوار میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ جہاں دوسری قوموں نے دیانت یا محنت کے نتیجے میں اپنا قائدانہ تفوق برقرار رکھا اور اس سمت میں اپنی پیش رفت جاری رکھی، وہیں ہم خیر کے ان کاموں سے یکسر کٹ کر رہ گئے۔ اس سے بڑی کرب ناک اور اذیت دینے والی بات کیا ہو سکتی ہے کہ جب ہمارے سرکردہ علما کسی سائنسی تحقیق [جسے غیر اقوام نے انجام دیا ہو] کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’یہ ہمارے قرآن میں ساڑھے چودہ سو سال پہلے اشارات میں واضح کیا جا چکا ہے‘‘۔ اس بات سے انکار نہ کرنے کے باوجود لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو وہ اشارے اور ارشادات تب تک نظر کیوں نہیں آتے جب تک کہ غیر اقوام کسی سائنسی تحقیق کو سامنے نہیں لے آتیں۔
آج اُمتِ مسلمہ کے ذہن مفلوج ہو گئے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ صلاحیت سے عاری ہیں، بلکہ شاید اس لیے کہ امت نے ان سے کام لینا بند کر دیا ہے۔ اُمت ’ توکل‘ میں اس حد تک غلو کی مرتکب ہوئی کہ عقل کو طاقِ نسیاں میں رکھ دیا۔ ’محرک اور نتیجے‘ کے اصول کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اس اصول سے آیاتِ آفاق وانفس کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ اس کا عملی نتیجہ یہ نکلا کہ امت مسلمہ ’فکرودانش کی خودکشی‘ کے دہانے پر آکھڑی ہوئی۔ امت اب اونٹوں کو کھلا چھوڑ کر ’توکل‘ کا فریضہ انجام دیتی ہے۔
نیال فرگوسن نے اپنی کتاب Civilization: The West and the Rest (۲۰۱۲ء) میں مغربی طاقت کے چھے بنیادی محرکات کو واضح کیا ہے، جو اسے تمام دنیا کی اقوام پر غلبہ اور سیادت بخشتے ہیں۔ان چھے محرکات میں فرگوسن پہلے نمبر پر مقابلے اور مسابقت کو جگہ دیتا اور کہتا ہے کہ یورپ میں مقابلے و مسابقت کی سوچ کے پیدا ہوتے ہی مادی اور فوجی طاقتوں میں حد درجہ اضافہ ہو گیا جو یورپی طاقتوں کے غلبے کا سبب بنا۔اس مسابقت سے نہ صرف معیار میں اضافہ ہوا بلکہ مقدار میں بھی حد درجہ اضافہ ہوا۔ پھر پیداوار اور اس کی کھپت میں انقلابی سطح کی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔فرگوسن کی اس بات کو ہمارا طرزِفکر یہ کہہ کر خارج کر دیتا ہے کہ: ’’اسلام مقابلے کا نہیں بلکہ تعاون کا خواہاں ہے‘‘۔ لیکن فرگوسن کے باقی کے پانچ وجوہ(طب، ملکیت، سائنس، محنت اور کھپت) تو ایسی ہیں، جن سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ ان میں وہ سائنسی میدان میں یورپ کی ترقی کو دوسری بنیادی وجہ سمجھتا ہے۔
اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ جب یورپ پر تہذیبی زبوں حالی کے گھٹاٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے، اُمتِ مسلمہ علوم و فنون کے میدان میں اپنے عروج پر تھی۔ لیکن جب یورپی قومیں اپنی شکست خوردگی سے بیدار ہونی شروع ہوئیں، انھی ایام میں اُمتِ مسلمہ پر ایسی گہری نیند چھائی کہ اب تک بیدار ہونے کانا م نہیں لیتی۔ دورِ رسالت اوردور خلافت وہ شان دار اَدوار تھے، جب اُمتِ مسلمہ ایک تعمیری اُمت ہوا کرتی تھی۔علوم و فنون کی افزایش و ترقی میں اس امت کا ایک کلیدی کردار تھا۔ لیکن جوں جوں مسلم ذہنوں پر سُستی اور کاہلی چھاتی گئی، اس بنیادی کام میں ہمارا حصہ گھٹتا گیا اور آج حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نہ صرف علمی ترقی میں ہمارا کوئی خاص حصہ نہیں ہے، بلکہ علم کے جذب و اجتہاد میں بھی یہ امت بخل سے کام لیتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پرمُسلم ہے کہ اس سائنسی ترقی کا ایک اور رخ بھی ہے جسے ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔ جہاں علم کی ترقی نے انسان کو ایٹمی طاقت پر دسترس عطا کی، وہیں وحی سے کٹ کر انسان نے ایٹم بم بنا کر انسانیت کو ایک دہکتے ہوئے آتش فشاں پر دھکیل دیا ہے۔ انسانیت کی فوز وفلاح کے لیے صرف نت نئی ٹکنالوجی کافی نہیں بلکہ مشفق اور محسن اور آخرت کی جواب دہی سے سرشار انسانوں کی ضرورت ہے، جو اس ٹکنا لوجی کو انسانیت کی بقا کے خاطر استعمال کرسکیں ۔ انسانیت کو اس فساد سے نکال کر امن کی شاہراہ پر صرف اُمتِ مسلمہ ہی ڈال سکتی ہے۔
اُمتِ مسلمہ ایک بانجھ امت نہیں ہے اور نہ کبھی بانجھ رہی ہے۔ اس امت نے علوم و فنون کے ہر شعبے میں اعلیٰ صلاحیت اور امتیازی حیثیت رکھنے والے افراد کو جنم دیا ہے۔ حسن بصریؒ، امام بخاریؒ، امام مسلم ؒ ،امام ابو حنیفہؒ، امام غزالیؒ ، امام ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ، علّامہ محمداقبالؒ، سیّدقطب شہیدؒ اور مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ، اس اُمت کے وہ موتی ہیں، جنھوں نے نہ صرف اس امت کے احیا کے لیے کام کیا، بلکہ تمام انسانیت کی فلاح کے لیے ان کے دل ہمیشہ تڑپتے رہے۔ آج ضرورت ایسے ہی ذہنوں کی ہے، جو اسلامی علوم کی تشکیل جدیدکا بیڑا اٹھائیں اور اس سمت میں اپنی خدمات انجام دیں۔ عشروں کی محنت سے ہم صرف جامعۃ الازہر ،دارالعلوم دیوبند جیسے گنتی کے چند اعلیٰ اداروں کا قیام عمل میں لاسکے ہیں، جب کہ غیر مسلم قومیں علم اور تحقیق کے ایسے ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہوئیں، جن کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ ایسے ہی تحقیقی اداروں سے ایسے کافرانہ نظریات بھی جنم لیتے ہیں جو نہ صرف اسلام دشمن ہوتے ہیں بلکہ انسانیت کے دشمن بھی۔ غرض مغربی ممالک علم وتحقیق کو غلبے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس غلبے سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس تحقیقی کلچر کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے جو سابقون الاولون میں دیکھنے کو ملا تھا۔ اس ناکامی کی اصل جڑ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو دو بڑے خانوں میں تبدیل کر دیا: دُنیوی تعلیم اور دینی تعلیم۔ دنیاوی تعلیم کو ہم نے سرے سے ہی وحی سے کاٹ دیا اور دینی تعلیم کو دنیا سے کاٹ دیا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے [دینی یا دنیوی] صرف اور صرف ’یک رُخا انسان‘ تیار اور فراہم کرتے ہیں، جن میں بنیادی طور پر منقسم شخصیت ہی پیدا ہوسکتی ہے، اسلام کے انسانِ مطلوب کا تصور محال ہے۔