گذشتہ ماہ [۵ ]رمضان [۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء ] کی ایک سہانی شام کو جب ہوا کے جھونکے گلابی جاڑے کی تازگی اور کیفیت میں بس رہے تھے ، ہم علا مہ اقبال سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ میرے شعبۂ انگریزی [اسلامیہ کالج لاہور] کے رفیق پروفیسر عبدالواحد اور صدرِ شعبہ ڈاکٹر سعید اللہ تھے۔ خزاں کا آغاز تھا مگر موسم میں وہ جولانی تھی جو لاہور کا فرحت بخش آسمان صرف کبھی کبھی زمین والوں کو عطا کرتا ہے۔
ساڑھے چار بج چکے تھے۔ سورج کے غروب ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ ہم ایمپرس روڈ سے ہوتے ہوئے اس چھوٹی سی سڑک پر چل رہے تھے، جو ریلوے کے بڑے دفتر کے جنوبی رُخ کے ساتھ ساتھ جاتی ہے۔ وہ سہ راہا آیا، جہاں یہ سڑک میوروڈسے ملتی ہے اور ساتھ ہی ہم نے اس مختصر سے سفید مکان پر نظر ڈالی جہاں دور حاضر میں حقیقت کا سب سے بڑا ترجمان اپنی خاموش مگر ہنگامہ خیز زندگی بسر کر رہا ہے۔ ہم مکان کی ڈیوڑھی کے پاس جا کر رُک گئے۔ اس ڈیوڑھی کی تین محرابیں جن میں اندلسی اور گاتھک انداز تعمیر کی جھلک ملی ہوئی ہے، اپنے ہشت پہلو ستونوں پر سڑک سے صاف نظر آتی ہیں۔ ڈیوڑھی کے ساتھ ہی مکان کا برآمدہ ہے جس کے سفید پیل پاے طبیعت کو رعب ووقار کے بجاے حسن ولطافت کا اثر زیادہ دیتے ہیں۔ ہمارا پرانا دوست علی بخش ہمیں دیکھ کر صحن کے ایک بغلی حجرے میںسے نکلا۔ اس نے جاکر علامہ اقبال کو ہماری آمد کی اطلاع دی اور پھر فوراً واپس آ کر ہمیں اندر آنے کو کہا۔
برآمدے سے گزرتے ہی ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ اس کمرے کا سامان بہت سادہ اور تکلف وتصنع سے پاک تھا۔ اسی کمرے سے ملحق بائیں ہاتھ کو علامہ اقبال کی خواب گاہ ہے۔ اس خواب گاہ کی ایک کھڑکی برآمدے کی طرف کھلتی ہے جس کے ساتھ ملا ہوا علامہ ممدوح کا بستر بچھا رہتا ہے۔ اب ایک عرصہ ہو گیا کہ ہم جب آتے تھے، علامہ اقبال کو اسی بستر پر کبھی کبھی بیٹھے، مگر اکثر لیٹے ہوئے پاتے تھے۔
آج ڈرائنگ روم میں داخل [ہوئے]… ڈاکٹر صاحب بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ انھوںنے تکیے کے سہارے لیٹے لیٹے ہمارے سلام کاجواب دیا۔ ہم تینوں بستر کے برابر کرسیوں پر بیٹھنے ہی کو تھے کہ ڈاکٹر صاحب ہم سے مخاطب ہوئے: ’’کون صاحب ہیں ؟‘‘
یہ سوال سن کر میرے دل کو ایک دھکا سا لگا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں گاہ بہ گاہ حاضر ہوتے اب سات آٹھ سال ہو گئے تھے اور ڈاکٹر صاحب ہمیشہ شفقت وعنایت سے پیش آتے تھے۔ اب میں تعطیل گرما کے بعد اگرچہ چند مہینوں کے وقفے سے حاضر ہوا تھا، پھر بھی ڈاکٹرصاحب کا سوال میری سمجھ میں نہ آیا۔ اپنے استعجاب کو چھپاتے ہوئے میں نے جواب دیا: ’’جی میں ہوں،حمید احمد خاں___سعید اللہ اور عبدالواحد‘‘ اور یہ کہہ کر ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
سب سے پہلے ہم نے ڈاکٹر صاحب کے مزاج کی کیفیت پوچھی۔ اس کے بعد تھوڑی دیر تک سکوت رہا۔ اس سکوت کو ڈاکٹرصاحب نے معمول کے مطابق اپنی اس لمبی استادانہ ’ہوں!‘ سے توڑا جس میں بالعموم گفتگو کے لا تعداد امکانات مضمر ہوتے ہیں۔ میں نے اس تپائی پر نظر ڈالی جو بستر کے برابر لگی ہوئی تھی۔ پانچ سات کتابیں اس کے اوپر تھیں اور دو ایک نیچے فرش پر پڑی تھیں۔ میںنے ایک اچٹتی ہوئی نظر ان کتابوں پر ڈالی اور تھوڑے سے وقفے کے بعد پوچھا: ’’ڈاکٹر صاحب ! آج کل پڑھنے پر زیادہ توجہ ہے یا کبھی کبھی آپ شعر بھی لکھتے ہیںـ؟‘‘
’’پڑھنا کیسا! کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگر کچھ دیکھ سکوں تو پڑھوں‘‘۔
’’نظر نہیں آتا !‘‘ یہ الفاظ میںنے حیرت اور اضطراب کے عالم میں دہرائے۔
ڈاکٹر سعید اللہ : ’’ان گرمی کی چھٹیوں سے پہلے آپ نے ذکر کیا تھا کہ senile cataract اُتر آنے کا خطرہ ہے مگر یہ خیال نہیں تھا کہ اس قدر جلد اتر آئے گا‘‘۔
میں: ــ’’اس کے علاج کی کوئی صورت تو آپ کر رہے ہوں گے؟‘‘
’’شروع سے بے کار تھی!‘‘ اب حیرت کے ساتھ اس فقرے میں ہمارا تاسّف اور دلی کرب بھی شامل تھا۔
سوا پانچ بجے علی بخش نے آ کر [غلام رسول ] مہر صاحب اور [عبدالمجید] سالک صاحب کے آنے کی اطلاع کی۔ دونوں صاحب تھوڑی دیر میں اندر داخل ہوئے اور ہمارے آس پاس دوکرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان دنوں تھوڑا ہی عرصہ پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس لکھنؤ میں ہوا تھا اور پنجاب کی یونینسٹ پارٹی اور [آل انڈیا] مسلم لیگ کے باہمی میثاق کے چرچے تھے۔ مدیران [اخبار] انقلاب کے آتے ہی گفتگو کا رخ سیاسیات کی طرف پھر گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مہر صاحب سے پوچھا کہ اب [پنجاب کے وزیراعظم]سر سکندر حیات خاں [م: ۱۹۴۲ء]کے کیا ارادے ہیں؟ مہر صاحب نے یقین دلایا کہ سر سکندر عنقریب اپنی پارٹی اور مسلم لیگ کے اتحاد کے متعلق اعلان کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے انداز سے یوں معلوم ہوتا تھا گویا انھیں شبہہ ہے کہ ایسا کوئی بیان شائع ہو گا یا نہیں۔ پھر ہم سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ میں سے کوئی صاحب historian [مؤرخ] ہیں؟ ہم نے اپنے عجز کا اعتراف کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا : ’’تاریخ انگلستان میں کبھی ایک عہدہ دار ہوا کرتا تھا جسے Keeper of the king's Conscience [بادشاہ کا ضمیر بردار] کہتے تھے۔ مہر صاحب Keeper of the king's Conscience [وزیر اعظم کے ضمیر بردار] ہیں‘‘۔
اسی اثنا میں افطار کا وقت قریب آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گھنٹی بجا کر اپنے ملازم رحما کو طلب کیا اور اس سے کہاکہ افطار کے لیے سنگترے ، کھجوریں،کچھ نمکین اور میٹھی چیزیں ، جو کچھ ہوسکے، لے آئے۔ [نماز کے بعد] قادیان کی سیاسیات کے متعلق گفتگو ہوئی۔ ان دنوں امیر جماعت قادیان نے اعلان کیا تھا کہ: ’کانگریس اور مسلم لیگ دونوں میں سے جس جماعت نے ہمارے حقوق تسلیم کیے، ہم اسی کے ساتھ شامل ہوں گے‘۔
مہر صاحب نے ، جو گفتگو کے بیش تر حصے میں خاموش رہے تھے، اس موقعے پر بھی سکوت اختیار کیا، لیکن [عبدالمجید]سالک صاحب نے ذرا تفصیل سے اس بات کی شرح کی کہ ایسی صورت حال میں انقلاب کا مسلک کیا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب اسی سلسلے میں ایک پر لطف فقرہ کہہ گئے، جو یہ تھا: ’’ہاں،مرزا بشیر الدین محمود کو تو کانگریس اور لیگ سے (سربہ مہر ) ٹنڈر مطلوب ہیں!‘‘
ان سیاسی مباحث کے بعد خاموشی کا ایک وقفہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اسے توڑا اور کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! گرمی کی چھٹیوں سے پہلے ہم حاضر ہوئے تھے تو آپ نے [میرزا اسداللہ خاں ] غالب [م: ۱۸۶۹ء]اور [میرزا عبدالقادر] بیدل [م: ۱۷۲۱ء]کے متعلق فرمایا تھا کہ آپ کی راے میں غالب نے بیدل کو سمجھا ہی نہیں ۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ بیدل کا تصوف dynamic [حرکی ] ہے اور غالب کا static [سکونی ] ۔ ‘‘
میں : ’’ جی ہاں ۔ اس سے آپ کا کیا مطلب تھا؟‘‘
میں: ’’اس کے کلام کے حرکی{ FR 645 } عنصر کی وجہ سے ؟‘‘
سعید اللہ : ’’ آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے جو غالب نے شروع میں بیدل کی طرح مشکل گوئی کی۔ کیا یہ صرف اس دعوے کے لیے کہ میں بھی مشکل شعر لکھ سکتا ہوںـ؟‘‘
اس موقعے پر مہر صاحب نے سالک صاحب کی طرف دیکھا اور دونوں صاحبوں نے بہ اتفاق ڈاکٹر صاحب سے رخصت چاہی۔ چنانچہ قبل اس کے کہ ڈاکٹر صاحب سعید اللہ{ FR 647 } کے سوال کا جواب دیں کہ ’’ہاں، جوانی میں انسان طبعاً مشکل پسند ہوتا ہے‘‘ وہ دونوں صاحب ڈاکٹر صاحب کی خواب گاہ سے نکل کر ڈرائنگ روم تک جا پہنچے تھے۔ ان کی رفت وبرخاست کی وجہ سے گفتگو میں قدرتاً ایک اور وقفہ آیا۔ اس کے بعد سعید اللہ نے کہا: ’’ آج کل ہندستان کے نیشنل اینتھم [قومی ترانے]کے متعلق بڑی بحث ہو رہی ہے۔ آپ کی اس مسئلے کے متعلق کیا راے ہے؟‘‘
سعید اللہ : ’’بندے ماترم پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ ایک تویہ بنگالی میں ہے، دوسرے اس کے آہنگ میں گرمی نہیں ہے‘‘۔
عبدالواحد : ’’مگر ہندستان کی موسیقی تو خاصی ہیجان انگیز ہے۔ قوالی میں یہی موسیقی کافی گرمی پیدا کر لیتی ہے‘‘۔
عبدالواحد : ’’کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ وجد وحال کی کیفیت مصنوعی ہے؟ مثلاً ہمارے ہاں سیالکوٹ میں نوشاہیوں کا میلہ ہوتا ہے۔ وہاں قوالی سے بعض لوگوں کو یک دم حال آ جاتا ہے۔ کیا وہ آپ کے نزدیک محض دکھاوا ہے؟‘‘
’’یہاں لاہور میں ہمارے (دوست ) حاجی رحیم بخش{ FR 646 } کے مکان پر ایک زمانے میں قوالی ہوا کرتی تھی۔ ایک پیر صاحب تھے جن کا نام مہر صوبہ تھا، حاجی صاحب ان کے مریدتھے ۔ بہرحال ایک مرتبہ حاجی صاحب کے مکان پر سماع کی محفل ہوئی۔ مہرصوبہ اور ان کے مرید جمع تھے۔ حاجی صاحب نے مجھے بھی دعوت دی۔ میں گیا۔ وہاں اسی طرح ایک شخص کو حال آ گیا۔ مہرصاحب کا ایک مرید میرے پاس آ بیٹھا اور کہنے لگا: سنا ہے آپ حال کو نہیں مانتے ؟ میں نے کہا: مجھے حال کی کیفیت سے تو انکار نہیں ہے۔ یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں حال کو نہیں مانتا؟ ‘ وہ بولا: آپ کے متعلق لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ آپ کو جذب وحال کی کیفیتوں پر اعتقاد نہیں ہے، مگر اب یہ ہمارا پیر بھائی آپ کے سامنے ہے، آپ اس کی نسبت کیا کہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا: بے شک اس پر حال کی کیفیت طاری ہے، مگر اس ’حال‘ میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے ’حال‘ میں بڑا فرق ہے۔ اس نے پوچھا: ’وہ کیا؟‘ میں نے کہا: ’یہ بات اپنے پیرصاحب سے جاکر پوچھ لو، وہ بتائیں گے۔ اس پر وہ اصرار کرنے لگا کہ نہیں، آپ ہی کہہ دیجیے۔ میں نے اس سے کہا کہ صحابہؓ کے حال میں اور تمھارے حال میں یہ فرق ہے کہ ا نھیں تو میدان جنگ میں حال آتا تھا اور تمھیں رحیم بخش کی کوٹھڑی میں !‘‘ (اس لطیفے پر ہم لوگ دل کھول کر ہنسے)۔
سعید اللہ : ’’دلی کی جامع مسجد کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
ہم اس فقرے پر ہنسے اور ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ اس منزل پر اسلامی تعمیرات کے متعلق یہ دل کشا بحث ختم ہوئی۔
اب شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے اور تین گھنٹے کی اس مسلسل نشست کو طول دینا مناسب بھی نہیں تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو ان مشورہ طلب نگاہوں سے دیکھا، جنھیں ہم نے معمولاً ڈاکٹر صاحب سے اجازت لینے کا پیش خیمہ قرار دے رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول ہم سے کہا : ’’اچھا، چلتے ہیں آپ ؟‘‘ اور اس کے بعد ہم رخصت ہوئے۔ (اسلامیہ کالج لاہور کے ’حلقۂ نقدونظر‘ کے اجلاس میں دسمبر ۱۹۳۷ء کو پڑھا گیا اور محمود نظامی کے مرتبہ مجموعے: ملفوظات، ناشر: لالہ نرائن دت سہگل، لاہور، س ن میں شامل ہوا۔طبع دوم بہ عنوان: ملفوظاتِ اقبال، [۱۹۴۹ء] میں کتاب کا نام بدل دیا۔ ازاں بعد اقبال کی شخصیت اور شاعری، از حمیداحمد خاں، بزمِ اقبال، لاہور، طبع دوم، ۱۹۸۳ء)