پروفیسر حمید احمد خاں


گذشتہ ماہ [۵ ]رمضان [۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء ] کی ایک سہانی شام کو جب ہوا کے جھونکے گلابی جاڑے کی تازگی اور کیفیت میں بس رہے تھے ، ہم علا مہ اقبال سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ میرے شعبۂ انگریزی [اسلامیہ کالج لاہور] کے رفیق پروفیسر عبدالواحد اور صدرِ شعبہ ڈاکٹر سعید اللہ تھے۔ خزاں کا آغاز تھا مگر موسم میں وہ جولانی تھی جو لاہور کا فرحت بخش آسمان صرف کبھی کبھی زمین والوں کو عطا کرتا ہے۔

ساڑھے چار بج چکے تھے۔ سورج کے غروب ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ ہم ایمپرس روڈ سے ہوتے ہوئے اس چھوٹی سی سڑک پر چل رہے تھے، جو ریلوے کے بڑے دفتر کے جنوبی رُخ کے ساتھ ساتھ جاتی ہے۔ وہ سہ راہا آیا، جہاں یہ سڑک میوروڈسے ملتی ہے اور ساتھ ہی ہم نے اس مختصر سے سفید مکان پر نظر ڈالی جہاں دور حاضر میں حقیقت کا سب سے بڑا ترجمان اپنی خاموش مگر ہنگامہ خیز زندگی بسر کر رہا ہے۔ ہم مکان کی ڈیوڑھی کے پاس جا کر  رُک گئے۔ اس ڈیوڑھی کی تین محرابیں جن میں اندلسی اور گاتھک انداز تعمیر کی جھلک ملی ہوئی ہے، اپنے ہشت پہلو ستونوں پر سڑک سے صاف نظر آتی ہیں۔ ڈیوڑھی کے ساتھ ہی مکان کا برآمدہ ہے جس کے سفید پیل پاے طبیعت کو رعب ووقار کے بجاے حسن ولطافت کا اثر زیادہ دیتے ہیں۔ ہمارا پرانا دوست علی بخش ہمیں دیکھ کر صحن کے ایک بغلی حجرے میںسے نکلا۔ اس نے جاکر  علامہ اقبال کو ہماری آمد کی اطلاع دی اور پھر فوراً واپس آ کر ہمیں اندر آنے کو کہا۔

برآمدے سے گزرتے ہی ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ اس کمرے کا سامان بہت سادہ اور تکلف وتصنع سے پاک تھا۔ اسی کمرے سے ملحق بائیں ہاتھ کو علامہ اقبال کی خواب گاہ ہے۔ اس خواب گاہ کی ایک کھڑکی برآمدے کی طرف کھلتی ہے جس کے ساتھ ملا ہوا علامہ ممدوح کا بستر بچھا رہتا ہے۔ اب ایک عرصہ ہو گیا کہ ہم جب آتے تھے، علامہ اقبال کو اسی بستر پر کبھی کبھی بیٹھے، مگر اکثر لیٹے ہوئے پاتے تھے۔

آج ڈرائنگ روم میں داخل [ہوئے]… ڈاکٹر صاحب بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ انھوںنے تکیے کے سہارے لیٹے لیٹے ہمارے سلام کاجواب دیا۔ ہم تینوں بستر کے برابر کرسیوں پر بیٹھنے ہی کو تھے کہ ڈاکٹر صاحب ہم سے مخاطب ہوئے: ’’کون صاحب ہیں ؟‘‘

یہ سوال سن کر میرے دل کو ایک دھکا سا لگا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں گاہ بہ گاہ حاضر ہوتے اب سات آٹھ سال ہو گئے تھے اور ڈاکٹر صاحب ہمیشہ شفقت وعنایت سے پیش آتے تھے۔ اب میں تعطیل گرما کے بعد اگرچہ چند مہینوں کے وقفے سے حاضر ہوا تھا، پھر بھی ڈاکٹرصاحب کا سوال میری سمجھ میں نہ آیا۔ اپنے استعجاب کو چھپاتے ہوئے میں نے جواب دیا: ’’جی میں ہوں،حمید احمد خاں___سعید اللہ اور عبدالواحد‘‘ اور یہ کہہ کر ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

سب سے پہلے ہم نے ڈاکٹر صاحب کے مزاج کی کیفیت پوچھی۔ اس کے بعد تھوڑی دیر تک سکوت رہا۔ اس سکوت کو ڈاکٹرصاحب نے معمول کے مطابق اپنی اس لمبی استادانہ ’ہوں!‘  سے توڑا جس میں بالعموم گفتگو کے لا تعداد امکانات مضمر ہوتے ہیں۔ میں نے اس تپائی پر نظر ڈالی جو بستر کے برابر لگی ہوئی تھی۔ پانچ سات کتابیں اس کے اوپر تھیں اور دو ایک نیچے فرش پر پڑی تھیں۔ میںنے ایک اچٹتی ہوئی نظر ان کتابوں پر ڈالی اور تھوڑے سے وقفے کے بعد پوچھا: ’’ڈاکٹر صاحب ! آج کل پڑھنے پر زیادہ توجہ ہے یا کبھی کبھی آپ شعر بھی لکھتے ہیںـ؟‘‘

’’پڑھنا کیسا! کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگر کچھ دیکھ سکوں تو پڑھوں‘‘۔

’’نظر نہیں آتا !‘‘ یہ الفاظ میںنے حیرت اور اضطراب کے عالم میں دہرائے۔

  • ڈاکٹر [محمد اقبال] صاحب:’’ہاں، جب آپ لوگ کمرے میں داخل ہوئے ہیںتو میں آپ کو دیکھ نہیں سکا۔ اب تھوڑی دیر گزرنے پر آپ کی صورتیں کچھ دھندلی سی نظر آ رہی ہیں___ کہتے ہیں کہ senile cataract (موتیا بند ) اتر آیا ہے‘‘۔

ڈاکٹر سعید اللہ : ’’ان گرمی کی چھٹیوں سے پہلے آپ نے ذکر کیا تھا کہ senile cataract اُتر آنے کا خطرہ ہے مگر یہ خیال نہیں تھا کہ اس قدر جلد اتر آئے گا‘‘۔

  • ڈاکٹر صاحب: ’’جی ہاں،عام طور پر لوگوں کو دیر سے اترتا ہے، مجھے ذرا پہلے اتر آیا ہے۔ میرے والد مرحوم کو، جن کی عمر سو سال سے کچھ اوپر ہوئی ، ۸۰ برس کی عمر میں اترا تھا‘‘۔

میں: ــ’’اس کے علاج کی کوئی صورت تو آپ کر رہے ہوں گے؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب: ’’اب اس کا آپریشن ہو گا، لیکن جب تک یہ پک نہ جائے آپریشن نہیں ہوسکتا ۔ پکنے میں اسے پانچ مہینے لگ جائیں، پانچ سال لگ جائیں، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بہرحال لکھنا پڑھنا بالکل موقوف ہے۔ کیوں کہ میری داہنی آنکھ تو شروع ہی سے بے کار تھی‘‘۔

’’شروع سے بے کار تھی!‘‘ اب حیرت کے ساتھ اس فقرے میں ہمارا تاسّف اور دلی کرب بھی شامل تھا۔

  • ڈاکٹر صاحب: ’’ جی ہاں، دو سال کی عمر میں میری یہ آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ مجھے اپنے ہوش میں مطلق یاد نہیں کہ یہ آنکھ کبھی ٹھیک تھی بھی یا نہیں۔ ڈاکٹر نے خیال ظاہر کیا تھا کہ داہنی آنکھ سے خون لیا گیا ہے جس کی وجہ سے بینائی زائل ہو گئی۔ میری والدہ کا بیان ہے کہ دو سال کی عمر میں جو نکیں لگوائی تھیں، تا ہم میں نے اس آنکھ کی کمی کبھی محسوس نہیں کی۔ ایک آنکھ سے دن کو تارے  دیکھ لیا کرتا تھا۔ اب اگرچہ میں پڑھتا نہیں ہوں مگر پڑھنے کے بجاے سوچتا ہوں، جس میں وہی لطف ہے جو پڑھنے میں۔ (پھر ذرا سرگرمی کے ساتھ ‘ تکیے سے سر اٹھا کر ) عجیب بات یہ ہے کہ جب سے بصارت گئی ہے، میرا حافظہ بہتر ہو گیا ہے‘‘۔

سوا پانچ بجے علی بخش نے آ کر [غلام رسول ] مہر صاحب اور [عبدالمجید] سالک صاحب کے آنے کی اطلاع کی۔ دونوں صاحب تھوڑی دیر میں اندر داخل ہوئے اور ہمارے آس پاس دوکرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان دنوں تھوڑا ہی عرصہ پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس لکھنؤ میں ہوا تھا اور پنجاب کی یونینسٹ پارٹی اور [آل انڈیا] مسلم لیگ کے باہمی میثاق کے چرچے تھے۔ مدیران [اخبار]  انقلاب کے آتے ہی گفتگو کا رخ سیاسیات کی طرف پھر گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مہر صاحب سے پوچھا کہ اب [پنجاب کے وزیراعظم]سر سکندر حیات خاں [م: ۱۹۴۲ء]کے کیا ارادے ہیں؟ مہر صاحب نے یقین دلایا کہ سر سکندر عنقریب اپنی پارٹی اور مسلم لیگ کے اتحاد کے متعلق اعلان کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے انداز سے یوں معلوم ہوتا تھا گویا انھیں شبہہ ہے کہ ایسا کوئی بیان شائع ہو گا یا نہیں۔ پھر ہم سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ میں سے کوئی صاحب historian [مؤرخ] ہیں؟ ہم نے اپنے عجز کا اعتراف کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا : ’’تاریخ انگلستان میں کبھی ایک عہدہ دار ہوا کرتا تھا جسے Keeper of the king's Conscience  [بادشاہ کا ضمیر بردار] کہتے تھے۔ مہر صاحب  Keeper of the king's Conscience  [وزیر اعظم کے ضمیر بردار] ہیں‘‘۔

اسی اثنا میں افطار کا وقت قریب آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گھنٹی بجا کر اپنے ملازم رحما کو طلب کیا اور اس سے کہاکہ افطار کے لیے سنگترے ، کھجوریں،کچھ نمکین اور میٹھی چیزیں ، جو کچھ ہوسکے، لے آئے۔ [نماز کے بعد] قادیان کی سیاسیات کے متعلق گفتگو ہوئی۔ ان دنوں امیر جماعت قادیان نے اعلان کیا تھا کہ: ’کانگریس اور مسلم لیگ دونوں میں سے جس جماعت نے ہمارے حقوق تسلیم کیے، ہم اسی کے ساتھ شامل ہوں گے‘۔

  • ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ: ’اگر قادیانی کانگریس [انڈین نیشنل] کے ساتھ شامل ہوگئے تو اس مسئلے کے متعلق [اخبار] انقلاب کی روش کیا ہو گی ؟‘

 مہر صاحب نے ، جو گفتگو کے بیش تر حصے میں خاموش رہے تھے، اس موقعے پر بھی  سکوت اختیار کیا، لیکن [عبدالمجید]سالک صاحب نے ذرا تفصیل سے اس بات کی شرح کی کہ ایسی صورت حال میں انقلاب کا مسلک کیا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب اسی سلسلے میں ایک پر لطف فقرہ کہہ گئے، جو یہ تھا: ’’ہاں،مرزا بشیر الدین محمود کو تو کانگریس اور لیگ سے (سربہ مہر ) ٹنڈر مطلوب ہیں!‘‘

ان سیاسی مباحث کے بعد خاموشی کا ایک وقفہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اسے توڑا اور کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! گرمی کی چھٹیوں سے پہلے ہم حاضر ہوئے تھے تو آپ نے [میرزا اسداللہ خاں ]  غالب [م: ۱۸۶۹ء]اور [میرزا عبدالقادر] بیدل [م: ۱۷۲۱ء]کے متعلق فرمایا تھا کہ آپ کی راے میں غالب نے بیدل کو سمجھا ہی نہیں ۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ بیدل کا تصوف dynamic [حرکی ] ہے اور غالب کا static [سکونی ] ۔ ‘‘

  • ڈاکٹر صاحب:  Inclined to be static (مائل بہ سکون )‘‘۔

میں : ’’ جی ہاں ۔ اس سے آپ کا کیا مطلب تھا؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب:’’بیدل کے کلام میں خصوصیت سے حرکت پر زور ہے، یہاں تک کہ اس کا معشوق بھی صاحب خرام ہے۔ اس کے برعکس غالب کو زیادہ تر اطمینا ن وسکون سے الفت ہے۔ بیدل نے ایک شعر کہا ہے جس میں ’خرام می کاشت‘{ FR 644 } کی ترکیب استعمال کی ہے، گویا سکون کو بھی بہ شکل حرکت دیکھا ہے۔ مثالیں اس وقت یاد نہیں ہیںلیکن اگر آپ بیدل کا کلام پڑھیں تو بہت سے اشعار ہاتھ آ جائیں گے۔ میں جن دنوں انار کلی [لاہور] میں رہتا تھا ، میں نے بیدل کے کلام کا انتخاب کیا تھا۔ وہ اب میرے کاغذوں میں کہیں ادھر ادھر مل گیاہے۔ نقشبندی سلسلے اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ [م: ۱۶۲۴ء]سے بیدل کی عقیدت کی بنیاد یہی ہے۔ نقشبندی مسلک حرکت اور رجائیت پر مبنی ہے (ڈاکٹر صاحب نے dynamic and optimistic فرمایا) مگر چشتی مسلک میں قنوطیت اور سکون کی جھلک نظر آتی ہے (یہاں ڈاکٹر صاحب نے pessimistic and static  کے الفاظ استعمال کیے)۔ اسی وجہ سے چشتیہ سلسلے کا حلقۂ ارادت زیادہ تر ہندستان تک محدود ہے مگر ہندستان سے باہر ، افغانستان ، بخارا، ترکی وغیرہ میں نقشبندی مسلک کا زور ہے۔ دراصل زندگی کے جس جس شعبے میں تقلید کا عنصر نمایاں ہے، اس میں حرکت مفقود ہوتی جاتی ہے۔ تصوف تقلید پر مبنی ہے۔ سیاسیات، فلسفہ، شاعری، یہ بھی تقلید پر مبنی ہیں۔ لیکن نقشبندی سلسلے کے شعرا مثلاً ناصر علی سرہندی [م: ۱۶۹۷ء]کو دیکھیے۔ ناصر علی کی شاعری تقلیدی نہیں ہے، اسی لیے حرکت والی قوموں میں وہ زیادہ ہردل عزیز ہے۔ ہندستان میں ناصر علی سرہندی کی کچھ زیادہ قدر نہیں ہے، لیکن افغانستان اور بخارا کے اطراف میں لوگ اس کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔ بیدل کو بھی افغانستان کے لوگ بہت مانتے ہیں‘‘۔

میں: ’’اس کے کلام کے حرکی{ FR 645 }  عنصر کی وجہ سے ؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب: (مسکراتے ہوئے) ’’میرا خیال ہے کہ بیدل کے کلام کو سمجھنے میں انھیں مشکل پیش آتی ہے، اس لیے۔ ‘‘

سعید اللہ : ’’ آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے جو غالب نے شروع میں بیدل کی طرح مشکل گوئی کی۔ کیا یہ صرف اس دعوے کے لیے کہ میں بھی مشکل شعر لکھ سکتا ہوںـ؟‘‘

اس موقعے پر مہر صاحب نے سالک صاحب کی طرف دیکھا اور دونوں صاحبوں نے بہ اتفاق ڈاکٹر صاحب سے رخصت چاہی۔ چنانچہ قبل اس کے کہ ڈاکٹر صاحب سعید اللہ{ FR 647 } کے سوال کا جواب دیں کہ ’’ہاں، جوانی میں انسان طبعاً مشکل پسند ہوتا ہے‘‘ وہ دونوں صاحب ڈاکٹر صاحب کی خواب گاہ سے نکل کر ڈرائنگ روم تک جا پہنچے تھے۔ ان کی رفت وبرخاست کی وجہ سے گفتگو میں قدرتاً ایک اور وقفہ آیا۔ اس کے بعد سعید اللہ نے کہا: ’’ آج کل ہندستان کے نیشنل اینتھم [قومی ترانے]کے متعلق بڑی بحث ہو رہی ہے۔ آپ کی اس مسئلے کے متعلق کیا راے ہے؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب: نیشنل اینتھم تو اس صورت میں کہیں کہ کوئی ’نیشن‘ہو۔ جب سرے سے ’نیشن ‘ ہی کا کوئی وجود نہیں ہے، تو نیشنل اینتھم ، کہا ں ہو سکتا ہے؟ میری تو یہ راے ہے کہ ہندستان کو کسی نیشنل اینتھم کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔

سعید اللہ : ’’بندے ماترم پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ ایک تویہ بنگالی میں ہے، دوسرے اس کے آہنگ میں گرمی نہیں ہے‘‘۔

  • ڈاکٹر صاحب: (ذرا گرمی سے ) ’’ آپ ہندوئوں کی شاعری میں گرمی ڈھونڈتے ہیں! ہندو شاعری کے تمام دفتر دیکھ ڈالیے ، کہیں گرمی نہیں ملے گی۔ ہندو کو ہر جگہ شانتی کی تلاش ہے۔ ہندوئوں کی ادبی پیداوار میں میرے نزدیک اس کی صرف ایک استثنا ہے رامائن، اور وہ بھی  بعض بعض حصوں میں‘‘۔

عبدالواحد : ’’مگر ہندستان کی موسیقی تو خاصی ہیجان انگیز ہے۔ قوالی میں یہی موسیقی کافی گرمی پیدا کر لیتی ہے‘‘۔

  • ڈاکٹر صاحب:’’میں اسے مصنوعی گرمی کہتا ہوں، جس طرح منشیات سے کوئی شخص طبیعت میں ہیجان پیدا کر لے‘‘۔ 

عبدالواحد : ’’کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ وجد وحال کی کیفیت مصنوعی ہے؟ مثلاً ہمارے ہاں سیالکوٹ میں نوشاہیوں کا میلہ ہوتا ہے۔ وہاں قوالی سے بعض لوگوں کو یک دم حال آ جاتا ہے۔ کیا وہ آپ کے نزدیک محض دکھاوا ہے؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب: ’’ان لوگوں نے وجد وحال کو ایک cult (رواج ) بنا لیا ہے۔ یہ کیفیت ان پر واقعی طاری ہوتی ہے، لیکن جب وہ اپنے جوش جذبات کو اس طرح فرو کر لیتے ہیں تو پھر ان میں باقی کچھ نہیں رہتا اور وہ جذبہ دوبارہ طاری نہیں ہوتا۔ دراصل مسلمان جب عرب سے نکلے اور انھیں باہر کی قوموں سے سابقہ پڑا تو صوفیہ نے ان قوموں کی effeminacy (نسائیت/زنانہ پن ) کا لحاظ کرتے ہوئے قوالی اور موسیقی کو اپنے نظام میں شامل کر لیا ۔ effeminacy سے مراد ہے surplus emotion (اضافی جذبات ) ۔ ایران اور ہندستان میں فالتو جذبات کی کثرت ہے، اور حال انھی جذبات کے اخراج کا ایک ذریعہ ہے۔ صوفیہ کے سلسلوں میں قوالی کو جو دخل ہے وہ صرف اسی وجہ سے ہے۔

’’یہاں لاہور میں ہمارے (دوست ) حاجی رحیم بخش{ FR 646 } کے مکان پر ایک زمانے میں قوالی ہوا کرتی تھی۔ ایک پیر صاحب تھے جن کا نام مہر صوبہ تھا، حاجی صاحب ان کے مریدتھے ۔ بہرحال ایک مرتبہ حاجی صاحب کے مکان پر سماع کی محفل ہوئی۔ مہرصوبہ اور ان کے مرید جمع تھے۔ حاجی صاحب نے مجھے بھی دعوت دی۔ میں گیا۔ وہاں اسی طرح ایک شخص کو حال آ گیا۔ مہرصاحب کا ایک مرید میرے پاس آ بیٹھا اور کہنے لگا: سنا ہے آپ حال کو نہیں مانتے ؟ میں نے کہا: مجھے حال کی کیفیت سے تو انکار نہیں ہے۔ یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں حال کو نہیں مانتا؟ ‘ وہ بولا: آپ کے متعلق لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ آپ کو جذب وحال کی کیفیتوں پر اعتقاد نہیں ہے، مگر اب یہ ہمارا پیر بھائی آپ کے سامنے ہے، آپ اس کی نسبت کیا کہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا: بے شک اس پر حال کی کیفیت طاری ہے، مگر اس ’حال‘ میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے ’حال‘ میں بڑا فرق ہے۔ اس نے پوچھا: ’وہ کیا؟‘ میں نے کہا: ’یہ بات اپنے پیرصاحب سے جاکر پوچھ لو، وہ بتائیں گے۔ اس پر وہ اصرار کرنے لگا کہ نہیں، آپ ہی کہہ دیجیے۔ میں نے اس سے کہا کہ   صحابہؓ کے حال میں اور تمھارے حال میں یہ فرق ہے کہ ا نھیں تو میدان جنگ میں حال آتا تھا اور تمھیں رحیم بخش کی کوٹھڑی میں !‘‘ (اس لطیفے پر ہم لوگ دل کھول کر ہنسے)۔

  • ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’حقیقت یہ ہے کہ اسلامی موسیقی کا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک میں اپنا اپنا مقامی فن موسیقی رائج ہے۔ مسلمان جہاں جہاں پہنچے ، وہیں کی موسیقی انھوںنے قبول کرلی اور کوئی اسلامی موسیقی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ فن تعمیر کے سوا فنون لطیفہ میں سے کسی میں بھی اسلامی روح نہیں آئی۔ اسلامی تعمیرات میں جو کیفیت نظر آتی ہے، وہ مجھے اور تو کہیں نظر نہیں آئی ، البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں قدیم فرعونوں کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون باد شاہوں کے بت بھی تھے جن میں power (قوت وہیبت ) کی ایک ایسی شان تھی، جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قوت کا یہی احساس حضرت عمرؓ کی مسجد اور دلی کی مسجد قوۃ الاسلام بھی پیدا کرتی ہے۔ بہت عرصہ ہوا جب میں نے مسجد قوۃ الاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا مگر جو اثر میری طبیعت پر اس وقت ہوا، وہ مجھے اب تک یاد ہے۔ شام کی سیاہی پھیل رہی تھی اور مغرب کا وقت قریب تھا۔ میرا جی چاہا کہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کروں۔ لیکن مسجد کی قوت وجلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا۔ مسجد کا وقار مجھ پر اس طرح چھا گیا کہ میرے دل میں صرف یہ احساس تھا کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں۔
  1. ’’اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اسی خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قوا شل ہوتے گئے ، تعمیرات کے اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا۔ وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا۔ ’قصر زہرا‘ دیووں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے ، مسجد قرطبہ مہذب دیوئوں کا، مگر ’الحمرا‘ محض مہذب انسانوں کا !‘‘
  2. پھر ایک تبسم کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے سلسلۂ کلام کوجاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ میں الحمرا کے ایوانوں میں جا بجا گھومتا پھرا، مگر جدھر نظر اٹھتی تھی، دیوار پر ھوالغالب لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے دل میں کہا : ’’ یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے، کہیں انسان غالب نظر آئے تو بات بھی ہو! ‘‘
  3. اس کے بعد پھر تھوڑی دیر تک ہندستان کی اسلامی عمارت کا ذکر ہوتا رہا ۔ تاج محل کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ’’مسجد قوۃ الاسلام کی کیفیت اس میں نظر نہیں آتی ۔ بعد کی عمارتوں کی طرح اس میںبھی قوت کے عنصر کو ضعف آ گیا ہے، اور دراصل یہی قوت کا عنصر ہے، جو حسن کے لیے توازن قائم کرتا ہے‘‘۔

سعید اللہ : ’’دلی کی جامع مسجد کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب: ’’وہ تو ایک بیگم ہے!‘‘

ہم اس فقرے پر ہنسے اور ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ اس منزل پر اسلامی تعمیرات کے متعلق یہ دل کشا بحث ختم ہوئی۔

اب شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے اور تین گھنٹے کی اس مسلسل نشست کو طول دینا مناسب بھی نہیں تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو ان مشورہ طلب نگاہوں سے دیکھا، جنھیں ہم نے معمولاً ڈاکٹر صاحب سے اجازت لینے کا پیش خیمہ قرار دے رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول  ہم سے کہا : ’’اچھا، چلتے ہیں آپ ؟‘‘ اور اس کے بعد ہم رخصت ہوئے۔ (اسلامیہ کالج لاہور کے ’حلقۂ نقدونظر‘ کے اجلاس میں دسمبر ۱۹۳۷ء کو پڑھا گیا اور محمود نظامی کے مرتبہ مجموعے: ملفوظات، ناشر: لالہ نرائن دت سہگل، لاہور، س   ن میں شامل ہوا۔طبع دوم بہ عنوان: ملفوظاتِ اقبال، [۱۹۴۹ء] میں کتاب کا نام بدل دیا۔ ازاں بعد اقبال کی شخصیت اور شاعری، از حمیداحمد خاں، بزمِ اقبال، لاہور، طبع دوم، ۱۹۸۳ء)