قرآن تین اصولی ہدایات دیتا ہے:اوّل یہ کہ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ، ’’اگر تم علم نہیں رکھتے تو اہل الذکر سے پوچھ لو‘‘ (النحل، رکوع۶،الانبیاء، رکوع۱)۔ اس آیت میں ’اہل الذکر‘کا لفظ بہت معنی خیز ہے۔ ’ذکر‘ کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں مخصوص طور پر اُس سبق کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ اور اس کے رسولؑ نے کسی اُمت کو دیا ہو، اور ’اہل الذکر‘ صرف وہ لوگ ہیں، جنھیں یہ سبق یاد ہو۔ اس لفظ سے محض علم (knowledge) مراد نہیں لیا جاسکتا، بلکہ اس کا اطلاق لازماً علمِ کتاب و سنت ہی پر ہوسکتا ہے۔ لہٰذا، یہ آیت فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرے میں مرجعیت کا مقام اُن لوگوں کو حاصل ہونا چاہیے، جو کتابِ الٰہی کا علم رکھتے ہوں اور اُس طریقے سے باخبر ہوں جس پر چلنے کی تعلیم اللہ کے رسولؐ نے دی ہے۔
دوم یہ کہ وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ۰ۭ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ۰ۭ [النساء۴:۸۳] ’’اور جب کبھی امن یا خوف سے تعلق رکھنے والا کوئی اہم معاملہ ان کو پیش آتا ہے تو وہ اس کو پھیلا دیتے ہیں، حالاں کہ اگروہ اس کو رسولؐ تک اور اپنے اُولی الامر تک پہنچاتے تو اس کی کنہ جان لیتے، وہ لوگ جو ان کے درمیان اس کی کنہ نکال لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ معاشرے کو پیش آنےوالے اہم معاملات میں، خواہ وہ امن کی حالت سے تعلق رکھتے ہوں یا جنگ کی حالت سے، غیراندیش ناک نوعیت کے ہوں یا اندیش ناک نوعیت کے، ان میں صرف وہی لوگ مرجع ہوسکتے ہیں جو مسلمانوں کے درمیان اُولی الامر ہوں، یعنی جن پر اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہو، اور جو’استنباط‘ کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور کتاب اللہ و طریقِ رسولؐ اللہ سے بھی دریافت کرسکتے ہوں کہ اس طرح کی صورتِ حال میں کیا کرنا چاہیے۔ یہ آیت اجتماعی مہمات اور معاشرے کے لیے عام اہل الذکر کے بجاے ان لوگوں کو مرجع قرار دیتی ہے جو اُولی الامر ہوں۔
سوم یہ کہ اَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ (الشوریٰ۴۲:۳۸) ، ’’ان کا کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے‘‘۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا آخری فیصلہ کس طرح ہونا چاہیے۔
ان تین اصولوں کی عملی صورت یہ سامنے آتی ہے کہ لوگوں کو اپنی زندگی میں عموماً جو مسائل پیش آئیں ان میں وہ ’اہل الذکر‘ سے رجوع کریں۔ رہے مملکت اور معاشرے کے لیے اہمیت رکھنے والے مسائل، تو وہ اُولی الامر کے سامنے لائے جائیں، اور وہ باہمی مشاورت سے یہ تحقیق کرنے کی کوشش کریں کہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ کی رُو سے کیا چیز زیادہ سے زیادہ قرین حق و صواب ہے۔(’رسائل و مسائل ‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۱، رجب ۱۳۷۷ھ/اپریل ۱۹۵۸ء،ص ۴۴-۴۵)
دو مختلف نظاموں میں کچھ چیزیں مشترک ہوتے ہوئے بھی، وہ الگ الگ نظام ہوتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں بیش تر چیزیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں، مگر اس کے باوجود ہم انھیں ایک نظام نہیں کہہ سکتے۔ دو مختلف نظاموں کا کسی ایک یا چند اُمور میں ایک دوسرے سے متفق ہو جانا بھی کبھی اُن کے ایک ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی حال اسلام اور مغربی جمہوریت کا ہے۔
اس ضمن میں یہ چیز ذہن نشین رہے کہ کسی نظام کا اصل جوہر طریق نہیں بلکہ وہ اصولی و مقصدی روح ہوتی ہے، جو اُس کے اندر جاری و ساری رہتی ہے اور اسی روح کے متعلق ہم حکم لگاسکتے ہیں۔
ان گزارشات کے بعد اب آپ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے فرق پر غور فرمائیں: