۲۳مارچ ۱۹۴۰ء ہماری تاریخ کا ایک نہایت سنہری اور تابناک دن ہے ۔ اس روز برعظیم پاک و ہندکے مسلمانوں نے قائداعظم محمدعلی جناح کی پُرعزم قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور خودمختار ملک کے قیام کا مطالبہ کیا۔ ایسا ملک کہ جہاں وہ اپنے دین و ایمان، اپنی تہذیب و ثقافت، اپنے نظامِ قانون و اخلاق، اپنی روایات، اپنے سیاسی عزائم اور مفادات کے مطابق اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں۔
برعظیم کے مسلمان برطانوی استعمار کے غلبے سے پہلے آٹھ نو سو سال تک ہندستان کی حکمران قوت تھے۔ برطانوی دورِ اقتدار میں اپنے دینی، تہذیبی اور سیاسی تشخص کی حفاظت کے لیے انھوں نے مختلف محاذوں پر جدوجہد کی، اور سامراج سے آزادی کی تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا لیکن اس جدوجہد میں ایک تلخ حقیقت نے ان کی سوچ اور ان کے سیاسی اہداف کو یکسر بدلنے پر مجبور کردیا۔
تب ہندستان کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد صرف ایک چوتھائی تھی اور عددی اعتبار سے اکثریت ہندوئوں کو حاصل تھی۔ مسلمانوں کی کوشش تھی کہ وہ اپنے دینی، تہذیبی اور سیاسی تشخص کو محفوظ اور مستحکم رکھتے ہوئے اکثریت کے ساتھ مل کر محض ایک قومی ریاست (Nation State) نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست قائم کریں، جس میں ہرقوم اپنے نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی تشخص کو مستحکم کرسکے اور اس طرح ایک کثیر قومی ریاست (Pluralistic State) اور کثیرثقافتی ریاست (Multi-cultural State) کا نیا نمونہ دُنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے لیکن نصف صدی پر پھیلی ہوئی بھرپور سیاسی جدوجہد کے تجربات نے یہ ثابت کر دیا کہ ہندو قوم کسی ایسے تصور کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔
یہ وہ پس منظرتھا جس میں مسلمانوں نے دو قومی نظریے کو فکری، سیاسی اور عملی ہرسطح پر پیش کیا اور اس کے فطری تقاضے کے طور پر مسلمان قوم کے لیے بحیثیت قوم حق خود ارادیت کو تسلیم کرا کے ایک الگ ریاست قائم کرنے کا عزم کیا۔ صاف نظر آرہا تھا کہ اگر وہ اپنے لیے ایک الگ آزاد ملک کے حصول کا راستہ اختیار نہیں کرتے جہاں وہ اپنے نظریے، عقیدے، تہذیب اور سیاسی اور معاشی مفادات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کرسکیں، تو اس کا صاف نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ انگریز کی غلامی سے نجات پاکر ہندوئوں کی غلامی کا شکار ہوجائیں گے۔ مغربی جمہوریت اور اس میں عددی اکثریت کے فیصلہ کن کردار کا یہ منطقی نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو اسلامی قومیت کی بنیاد پر برعظیم کے ان علاقوں میں، جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، ان کی آزاد ریاست کے قیام کی منزل کا اعلان کیا گیا۔ یہی تھا وہ تاریخی لمحہ، جب ہندستان کی تحریک ِ آزادی میں مسلمانوں نے اپنے جداگانہ کردار کو ایک واضح اور متعین رُخ دے دیا۔
۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہونے والی اس قرارداد میں لفظ ’پاکستان‘ نہیں تھا، صرف الگ ریاست کا تصور تھا۔ البتہ اگلے ہی سال مسلم لیگ کے دستور میں آزاد مسلم ملک ’پاکستان‘ کے حصول کو سیاسی جدوجہد کا مقصد قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد ہرسطح پر، شب و روز پاکستان کے وژن کو نکھارنے اور اس پر برعظیم کے مسلمانوں کو متحد اور منظم کرنے کی جدوجہد برپا کی گئی۔ ۱۹۴۵ء اور ۱۹۴۶ء کے مرکزی اور صوبائی سطح کے انتخابات میں مسلم لیگ کو مرکز اور صوبوں میں فقیدالمثال کامیابی حاصل ہوئی۔ اپریل ۱۹۴۶ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نومنتخب مسلمان ارکان کا کنونشن دلّی میں منعقد ہوا، اور اس کی قرارداد اور حلف نامے میں اس تصور کو اور بھی وضاحت سے پیش کیا گیا۔
اس طرح صرف سات سال کی جدوجہد میں، ایسی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں اور اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص سے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو (جو ۲۷رمضان المبارک تھا) مسلمانوں کی آزاد ریاست اور ۲۰ویں صدی میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی پہلی ریاست قائم ہوئی۔ دشمنوں کا خیال تھا کہ یہ ملک چند ہی سال میں اپنا وجود کھو دے گا اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ساری مشکلات اور آزمایشوں کے باوجود اور بہت سے نشیب و فراز کے ساتھ پاکستان کے استحکام کا سامان کیا۔ ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کو سقوطِ مشرقی پاکستان، سانحہ بڑا دل خراش تھا، جو اللہ کی طرف سے ایک تازیانہ اور تنبیہہ بھی تھا، لیکن اس کے علی الرغم برعظیم میں ایک نہیں دو مسلمان ملک پاکستان اور بنگلہ دیش اپنے اپنے انداز میں قائم و دائم ہیں اور ترقی کے مراحل طے کر رہے ہیں، جس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
۲۳مارچ جہاں یومِ تشکر ہے، وہیں یومِ احتساب بھی ہے، تاکہ ہم دیانت داری سے حالات کا جائزہ لیں۔ جہاں اپنی کامیابیوں پر اللہ کا شکر ادا کریں، وہیں اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کا بھی جائزہ لیں اور اصلاحِ احوال کے لیے نقشۂ کار بنائیں اور اس کے حصول کے لیے سرتوڑ کوشش کریں، تاکہ جن مقاصد کے لیے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی اور پاکستان کی شکل میں ایک آزاد اور اسلامی ملک کے قیام کے لیے قربانیاں دیں، اس کا حق ادا کرسکیں۔ یہاں ہم خصوصیت سے ان کروڑوں مسلمانوں کے جذبات، احساسات اور احسانات کو یاد کرنا چاہتے ہیں، جو یہ جانتے تھے کہ وہ ہندستان ہی میں رہ جائیں گے اور ایک مدت تک اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی آزادی کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کی قیمت ادا کرتے رہیں گے۔ اگر ہم پاکستان کو ایک طاقت ور اسلامی فلاحی جمہوری ملک بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو وہ صرف اہلِ پاکستان ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے خطّے کے لیے ایک رحمت اور ایک مثبت قوت ہوگا۔ یہی وہ وژن تھا جو اقبال اور قائداعظم نے پیش کیا تھا، اور جس نے برعظیم کےمسلمانوں کو قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں سب کچھ لٹا دینے کے عزم و ہمت سے سرفراز کیا تھا۔
قائداعظم نے ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء پنجاب یونی ورسٹی لاہور کے اسٹیڈیم میں خطاب فرماتے ہوئے صاف الفاظ میں قوم کو حصولِ آزادی کے اصل مقصد کی یاد دہانی ان الفاظ میں کرائی تھی:
ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دُنیا کی عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ِ ضرورت اپنا سب کچھ قربان کردینےکے لیے آمادہ ہوگا۔
اور یہی بات آپ نے ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء سول، بحری اور فضائی افواج کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی:
قیامِ پاکستان، جس کے لیے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں تھے، آج اللہ کے فضل و کرم سے وہ ایک مسلّمہ حقیقت بن چکا ہے، مگر کسی قومی ریاست کا معرضِ وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں ہوسکتا، بلکہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہی ہوسکتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں، جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح سانس لے سکیں، جسے ہم اپنی صواب دید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔
دیکھیے ،پاکستان کا وژن قائداعظم کی نگاہ میں کتنا واضح ہے۔ یہی وژن پوری تحریک ِ پاکستان کی روحِ رواں تھا۔ اسی منزل کے حصول کے لیے برعظیم کے تمام مسلمان، وہ بھی جن کو پاکستان کی نعمت ملنی تھی اور وہ بھی جو ہندستان میں جانے تھے اور جنھیں مستقبل میں مصائب کا شکار ہونا تھا، وہ سب ایک اعلیٰ وژن کی خاطر اس جدوجہد میں سب سے آگے تھے۔ پچھلے ۷۰سال پر مَیں نگاہ ڈالتا ہوں تو جہاں اللہ کے انعامات پر دل احساسِ تشکر سے لبریز ہے ، وہیں اپنی قیادتوں کی کوتاہیوں اور بے وفائیوں پر دل خون کے آنسو بھی روتا ہے۔
میں بڑے دُکھ سے یہ سطور لکھ رہا ہوں کہ ہم نے اپنی تاریخ اور اپنے شرکاے سفر کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ نہ صرف یہ کہ پاکستان کی تاریخ، اس کے بنیادی محرکات، تصورِ مملکت اور ملکی اور عالمی کردار کا حق ادا نہیں کیا، بلکہ اپنے ذاتی، گروہی اور علاقائی مفادات کی خاطر ملک اور عوام دونوں کے باب میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسی طرح ہم نے اپنی نئی نسلوں کو اپنی تاریخ اور تحریک ِ آزادی کے مقاصد کا صحیح شعور نہیں دیا اور ہمارے حکمرانوں نے الا ماشاء اللہ ملک کی تعمیروترقی اور عوام کی خدمت اور خوش حالی کے باب میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جو وسائل اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو دیے ہیں، اگر ان کو ٹھیک ٹھیک استعمال کیا جاتا تو پاکستان آج دُنیا کے لیے ایک مثال ہوتا اور قیادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتا۔ اس اعتراف کے ساتھ، اس احساس بلکہ یقین کا ادراک بھی ضروری ہے کہ آج بھی جو مواقع حاصل ہیں، وہ بے پناہ ہیں اور ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اگر آیندہ کے لیے صحیح لائحۂ عمل مرتب کیا جائے اور مخلص، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو آگے لایا جائے، تو چند برسوں میں صورتِ حال بدل سکتی ہے اور ان شاء اللہ بدلے گی۔ چند مہینوں میں ملک نئے انتخابات کی طرف جارہا ہے اور یہ ایک تاریخی موقع ہے ،جب قوم اپنے اصل مشن کے حصول کے لیے نئی قیادت اور نئے پروگرام کے تحت نئے سفر کا آغاز کرسکتی ہے۔
۲۳مارچ ۲۰۱۸ء کا یہی پیغام ہے کہ اگر مارچ ۱۹۴۰ء میں ظلمت کی گہرائیوں کے باوجود منزل کے صحیح شعور اور اس کے بارے میں یکسوئی کے ساتھ قومی عزم اور منظم جدوجہد کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے صرف سات سال میں پاکستان حاصل کیا جاسکتا ہے، تو آج ۲۱کروڑ انسانوں کو بیدار اور منظم کر کے قدرتی وسائل سے مالا مال اور ایٹمی صلاحیت اور جدید ٹکنالوجی سے آراستہ یہ مملکت ایک نئی تاریخ کیوں رقم نہیں کرسکتی؟ مشکلات خواہ کتنی ہی ہوں لیکن ایمان اور عزمِ صمیم کے ساتھ صحیح مقاصد کے لیے منظم اور مؤثر جدوجہد کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت دیتا ہے اور بظاہر ناممکن کو ممکن ہی نہیں بناتا، بلکہ مشکل کو آسان کردیتا ہے:
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۵ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۶ۭ (الم نشرح ۹۴:۵-۶) پس حقیقت یہ ہےکہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے، بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔
یوں اہلِ توکّل کی بسر ہوتی ہے
ہرلمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہرشب کے سحر ہوتی ہے
تحریک پاکستان اور تحریک اسلامی سے گہرا تعلق اور عشق کی حد تک وابستگی میری زندگی کی سب سے قیمتی متاع اور اس تاریخ ساز جدوجہد میں گذشتہ ۷۰، ۷۵ سال کی شرکت کی یادیں اور کیفیات سرمایۂ حیات ہیں۔ ۱۲،۱۳سال کی عمر میں شعوری طور پر تحریکِ پاکستان سے وابستگی اور قائداعظم سے گھر کے ماحول میں احترام اور والد ِ محترم کی مسلم لیگ میں دہلی کی قیادت سے قربت اور اجلاسوں میں شرکت کے نتیجے میں گہرا تعلق پیدا ہوا۔ پھر عملاً اینگلوعربک ہائر سیکنڈری سکول کی بزمِ ادب کے پلیٹ فارم سے تحریک ِ پاکستان میں شرکت اختیار کی۔ ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں قائداعظم کے ارشاد کی تعمیل میں دومہینے تعلیم سے بس واجبی تعلق رکھا اور سارا وقت الیکشن کی مہم میں صرف کیا۔ ڈاکٹر عبدالغنی قریشی ہمارے علاقے سے مسلم لیگ کے نمایندہ تھے، جو عظیم اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ الحمدللہ، اس دور کے سارے نشیب و فراز کا مَیں گواہ ہی نہیں، ایک ادنیٰ سا کردار بھی ہوں اور اس امر کی شہادت دے سکتا ہوں کہ تحریک ِ پاکستان کی پوری جدوجہد آزادی، اسلام کی سربلندی اور مسلمان قوم کے لیے اس کا اصل مقام حاصل کرنے سے عبارت تھی۔
۱۹۴۶ء کا مسلم لیگ کا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا کنونشن ہمارے ہی اسکول کے سبزہ زار میں منعقد ہوا تھا، اور مَیں اور میرے بڑے بھائی اس میں رضاکار کے طور پر شریک تھے۔ مئی ۱۹۴۷ء کو امپریل ہوٹل، دلی میں ہونے والے مسلم لیگ کے کنونشن میں میرے والد محترم بحیثیت منتخب کونسلر شریک تھے اور ہم بھائی ،کارکنوں کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ پھر میں نے ہندو مسلم فسادات کے سارے مناظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ قرول باغ دہلی میں اپنا بھرا پُرا گھر لٹتا دیکھا ہے اور تن کے کپڑوں میں جان بچانے کے لیے باڑہ ہندواڑ کے مسلم علاقے میں پناہ لینے کا ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ پھر باڑہ ہندواڑکی وہ رات بھی مَیں کیسے بھول سکتا ہوں، جس میں بلوائیوں سے جان بچانے کے لیے ایک رات میں چار جگہیں ہمیں تبدیل کرنی پڑیں اور بالآخر ہمایوں کے قلعے میں مہاجر کیمپ میں پناہ لینی پڑی، جہاں ایک ماہ سے زیادہ زمین پر سوئے اور خیمے میں زندگی گزارنے کا تجربہ ہوا۔ باڑہ ہندواڑ کی ایک رات کی یہ تلخ یادیں کیسے بھول سکتا ہوں کہ جن تنگ گلیوں میں ہم ایک مکان سے دوسرے مکان میں پناہ لے رہے تھے، تو پاس کے گھروں سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے اور انسانی چربی کے جلنے کی بُو دل و دماغ کو مائوف کر رہی تھی اور موت کے سایے ہر طرف منڈلاتے نظر آرہے تھے۔ مَیں ان تمام مراحل سے گزرا ہوں اور ان کا شاہد ہوں، لیکن الحمدللہ ایک لمحے کے لیے بھی تحریک ِ پاکستان کی صداقت اور کامیابی کے لیے کوئی شبہہ نہیں ہوا۔ بالآخر ۱۲فروری ۱۹۴۸ء کو خاندان کے ساتھ پاکستان پہنچا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ایک آزاد وطن کی نعمت سے مالا مال کیا۔
میں نے ’اشارات‘ میں آج پہلی بار ترجمان کی ادارت سے وابستگی کے بائیسویں برس، ذاتی نوعیت کی یہ باتیں صفحۂ قرطاس پر مرتسم کی ہیں اور ۲۳مارچ کے مبارک موقعے پر لکھی ہیں لیکن اس کا محرک وہ بہت سی تحریریں، بیانات اور تبصرے ہیں،جو کچھ دانش ور اور سیاست دان تحریک ِ پاکستان کی ’ناکامی‘ اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اوہام و خدشات کے باب میں پوری دیدہ دلیری سے بیان فرما رہے ہیں اور جنھیں میڈیا پوری قوت سے اُچھال رہا ہے۔ مَیں اپنی صحت کی خرابی، بینائی کی مشکلات اور ذاتی مجبوریوں کے باعث وطن سے دُور ہوں، لیکن دل مستقلاً پاکستان میں اٹکا ہوا ہے اور الحمدللہ پاکستان کے روشن مستقبل کے بارے میں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی شک نہیں ہوا۔ مَیں جہاں زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کو ضروری سمجھتا ہوں، وہیں اللہ پر بھروسے اور حق کے غلبے کے یقین میں کبھی کوئی لرزش محسوس نہیں کرتا۔ اللہ نے مایوسی کو کفر قرار دیا ہے اور اپنی رحمت سے مایوس ہونے سے دوٹوک الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ مالک کائنات کا ارشاد ہے: لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ ط(الزمر ۳۹:۵۳) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو‘‘ اور لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا ج (التوبہ ۹:۴۰)’’غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
تاریخ کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے، اس نے الحمدللہ مجھے اس یقین سے مالا مال کیا ہے۔ کفر، ظلم اور فساد کی قوتیں ان شاء اللہ شکست سے دوچار ہوں گی اور حق کو بالآخر فتح ہوگی۔ البتہ اس کے لیے اصل ضرورت منزل کے صحیح شعور، اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل ایمان اور اعتماد اور مقصد کے حصول کے لیے صحیح حکمت عملی کے مطابق صبرواستقامت کے ساتھ مؤثر جدوجہد کی ہے۔ بندہ اگر ان کا قرارواقعی اہتمام کرے، تو پھر ربِّ کریم بھی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے کہ اس کا ارشاد ہے:
وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۳۹ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
مزید ارشاد ہوتا ہے:
وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۸۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)اور اعلان کرو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تبدیلی، اصلاح اور اسلام کی سربلندی کے لیے جو راستہ مقرر فرمایا ہے، اس کو بہت صاف الفاظ میں ہمیں سمجھا بھی دیا ہے کہ:
يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ۰ۭ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۸ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۹ۧ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَۃٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ۱۰ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۱ۙ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَۃً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۱۲ۙ وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَہَا ۰ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ ۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۱۳ (الصف ۶۱:۸-۱۳) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نُور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نُو ر کو پورا پھیلا کر رہے گا، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے، جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت، جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، یہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور اَبدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا، یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح، اے نبیؐ! اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔
تحریک ِ پاکستان کی کامیابی اور تاریخِ پاکستان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے آئینے میں بھی اللہ کے اس قانون اور سنت کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ ہماری نگاہ مثبت اور منفی ہر دو پہلوئوں پر ہونی چاہیے اور دیانت داری کے ساتھ زمینی حقائق کے صحیح ادراک اور مطلوبہ مقاصد و اہداف تک پہنچنے کے لیے منصوبہ بندی اور مؤثر لائحۂ عمل کی تیاری اور اس پر صبرواستقامت کے ساتھ عمل ہی اصلاح اور تبدیلی اور بالآخر کامیابی کا صحیح راستہ ہے۔
اس بنیادی یاد دہانی اور تذکیر کے ساتھ ہم چاہتے ہیں کہ نہایت اختصارکے ساتھ ان چند مثبت اور منفی پہلوئوں کی طرف اشارہ کردیں، جو اس وقت اہمیت کے حامل ہیں:
فوج اور عدلیہ، عوام کے لیے معتبر ترین ادارے ہونے کے باوجود اپنے اپنے دائرے میں بھی صرف جزوی طور پر کامیاب ہوسکے ہیں اور جب بھی دوسرے دائروں میں انھوں نے مداخلت کی ہے، تو کچھ جزوی مثبت نتائج کے ساتھ، واقعہ یہ ہے کہ کہیں زیادہ بڑے نقصانات کا وہ باعث ہوئے ہیں۔ سیاسی قوتوں نے بھی بار بار کے تجربات کے باوجود قوم کی توقعات کو پورا نہیں کیا اور اس کی بھی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے بالعموم دستور، مقاصد اور عوام کی فلاح و بہبود کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر، اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو اوّلیت دی ہے۔ ان تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود جو بہت بڑی نعمت ہمیں حاصل رہی ہے، وہ قرارداد مقاصد اور ۱۹۷۳ء کا دستور ہے، جو ایک قومی اور اجتماعی معاہدے (National and Social Contract) کی شکل میں ملک و قوم کی کشتی کے لیے لنگر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دستور وہ فریم ورک فراہم کرتا ہے، جس پر دیانت اور تدبر سے کام کرکے ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے جو آج درپیش ہیں۔
موجودہ انتشار اور تنائو کی صورتِ حال سے نکلنے کا مؤثر ترین راستہ دستور کو مضبوطی سے تھامنے اور اس کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ایک مناسب ترتیب سے اصلاحِ احوال کے لیے قومی سطح کی جدوجہد ہے، جسے باہم مشاورت سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ، عدلیہ اور قومی عساکر پر مشتمل اداروں کے درمیان تصادم کی جو فضا بنتی جارہی ہے، وہ ہماری نگاہ میں قومی نقطۂ نظر سے بہت پریشان کن بلکہ انتہا درجے کی خطرناک صورت ہے۔ اسے مزید ہوا دینا، جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت، ملک کی سیاسی اور دینی جماعتوں، فوجی قیادت ، اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا، ہر ایک کا کردار بہت اہم ہے۔ دستور، جمہوریت کے آداب اور روایات اور تاریخ، سب کا سبق یہ ہے کہ تصادم کے راستے کو بند کیا جائے اور مل بیٹھ کر موجودہ تنائو کی صورتِ حال سے نکلا جائے۔
بدقسمتی سے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عدلیہ اور فوج دونوں کو جس طرح ہدف بنایا ہے، اس نے حالات کو بڑے خطرناک رُخ پر ڈال دیا ہے۔ عمل اور ردِعمل، حالات کو بگاڑ تو سکتے ہیں، انھیں سنوار نہیں سکتے ، جب کہ وقت کی ضرورت آگ پر تیل چھڑکنا نہیں، اسے بجھانا ہے۔ اَنا کی پرستش مزید تباہی کا راستہ ہے اور یہ ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ سیاسی قیادت، تمام پارلیمانی جماعتیں، عدلیہ، وکلا برادری، سول سوسائٹی کے نمایندے، میڈیا اور فوج کے ذمہ داروں پر لازم ہے کہ حالات کی نزاکت کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے تمام معاملات کو دستور میں دیے ہوئے خطوط کے اندر حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں نہ کسی کی فتح ہے اور نہ کسی کی شکست۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ اور کیا بات ہوگی کہ قومی اسمبلی کا اسپیکر بھی احتجاج میں واک آؤٹ کرے، اور ملک کے وزیراعظم صاحب سینیٹ کے چیئرمین کی تضحیک کریں۔ ’ن‘ لیگ کے ’تاحیات رہبر‘ کی صاحب زادی اور مشیر، عدالت عظمیٰ اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف روز اعلانِ جنگ کریں اور فوج کے سربراہ کو مجبوراً صحافیوں کو بریفنگ دینا پڑے اور ملک کا چیف جسٹس روز بیان دے اور وضاحتیں کرے:
بات کرنی مجھے مشکل، کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل، کبھی ایسی تو نہ تھی
ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں: مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک ِ انصاف نے جو انداز اختیار کیا ہے اور جو زبان وہ روزانہ استعمال کر رہےہیں، وہ جلتی پر تیل کا کام تو انجام دے سکتی ہے اصلاحِ احوال کی کوئی صورت اس میں نظر نہیں آتی۔ جب تک دینی سیاسی جماعتوں کا اتحاد وجود میں نہیں آیا تھا، اس کے بارے میں دو آرا ہوسکتی تھیں لیکن اب اس کے قیام میں آجانے کے بعد فوری اور اہم چیلنج اس کے سامنے یہ ہے کہ وہ ملک کو فوری طور پر اس بحران سے نکالنے کے لیے کوئی اقدام کرے کہ ماحول ٹھنڈا ہو اور ملک و قوم انتخابات کے ذریعے صحت مند تبدیلی کے راستے پر گامزن ہوسکے۔
مسلم لیگ (ن) کا سانحہ یہ ہے کہ وہ ایک دستوری اور قانونی معاملے کو سیاسی رنگ دے کر اداروں اور سیاسی قوتوں کو تصادم کی طرف لے جارہی ہے۔ وہ بیک وقت حکومت اور حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہےاور اپنے پونے پانچ سالہ دورِاقتدار میں اپنی کارکردگی کی بنا پر انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے غیرحقیقی مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر عدل اور سلامتی کے اداروں کے خلاف محاذآرائی سے سیاسی فاصلے طے کرنا چاہتی ہے ۔ یہ ان کی قیادت کی خام خیالی ہے کہ اس طرح وہ انتخاب میں ایسی دو تہائی اکثریت حاصل کرسکتی ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ دستور کا تیاپانچا کرنے کی قوت حاصل کرپائے، اور شخصی آمریت کا وہ خواب جو محترم نواز شریف ۲۳سال سے دیکھ رہے ہیں، وہ پورا ہوسکے۔
ہم صاف الفاظ میں انتباہ کرنا چاہتے ہیں کہ سیاست میں فوجی مداخلت نے نہ ماضی میں کوئی قومی خدمت انجام دی ہے، نہ آیندہ دے سکتی ہے۔ فوج کا کام ملک کا دفاع اور ملک کی سول حکومت کی تائید اور معاونت ہے۔ بلاشبہہ قومی سلامتی، دفاع اور ملک کے مفادات کے سلسلے میں فوج کے نقطۂ نظر کو سمجھنا اور باہم مشاورت سے ایک دوسرے سے استفادہ کرنا ہی صحیح سیاسی اور دستوری طریق کار ہے۔ اسی طرح اگر قانون سازی، پالیسی سازی، اچھی حکومت و انتظامی صلاحیت ِ کار، پارلیمنٹ اور حکومت کی ذمہ داری ہے، تو قانون کا احترام، انصاف کا قیام اور دستور کی حفاظت اور تعبیر اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری اور استحقاق ہے۔ اس باب میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور نے بڑی واضح رہنمائی دی ہے اور اعلیٰ عدالتوں کی تعبیرات کی روشنی میں اختیارات میں تحدیدو توازن (check and balance) کا ایک واضح نقشہ سب کے سامنے ہے۔ اس میں عدالتی فعالیت (Judicial activeness) اور عدالتی احتیاط (Judical restraint) دونوں کاایک مقام ہے، جس کا احترام ہونا چاہیے۔ لیکن، ایک دوسرے کے دائرے میں کھلی یا دھمکی (Overt and Covert)، مداخلت ِ دستور اور قومی مفاد دونوں کے احکام اور روح سے مطابقت نہیں رکھتی۔
یہی معاملہ مسلح افواج اور قومی سلامتی کے معاملات کا ہے۔ اس وقت اس سلسلے میں اگر ’بگٹٹ آزادی‘ (free for all ) کی کیفیت نہ بھی ہو، تو ایک دوسرے کے پائوں پر پائوں رکھ کر راستہ روکنے کی کیفیت تو نظر آتی ہے، جس کی اصلاح باہم مشورے سے ضروری ہے۔ جس ملک میں نظامِ حکومت تحریری دستور کی بنیاد پر قائم ہو، وہاں بالادستی صرف دستور کو حاصل ہوسکتی ہے اور باقی سب دستور کی تابع اکائیاں (Creatures) ہوتی ہیںاور انھیں دستور ہی جائز حق (legitimacy) دیتا ہے،اور دستور کے دائرے ہی میں وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرسکتے ہیں۔ دستور نے اعلیٰ عدلیہ کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دستور کی تعبیر کرے اور ایسی قانون سازی ، پالیسی سازی کو خلافِ دستور قرار دے، جو دستور کے انسانی حقوق کی دفعات سے متصادم ہوں، یا وہ جو قرآن وسنت کے احکام کے منافی ہوں۔ عوام کے ووٹ کے تقدس اور بالادستی کے نام پر دستور اور قانون سے کوئی بالادست نہیں ہوسکتا۔
دفعہ ۶۲ اور ۶۳پر تنقید کی حقیقت :دستور کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ نے یہ اصول طے کر دیا ہے کہ جہاں پارلیمنٹ اور حکومت عوام کے ووٹ سے وجود میں آئے گی، وہیں محض ووٹ کی طاقت سے ان دفعات پر پورا نہ اُترنے والا شخص نہ پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہے اور نہ رکن رہ سکتا ہے۔ اور یہ اصول جمہوری دُنیا میں بھی ایک مسلّمہ اصول کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ ووٹ لینے والا قانون سے بالاتر مخلوق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر وہ قانون کی گرفت میں آنے کے بعد اپنی اہلیت کھو دیتا ہے تو محض ووٹ کی قوت سے اسے قیادت کے منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا۔
دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کے بارے میں یہ بات بھی بے معنی ہے کہ یہ صدر جنرل محمدضیاء الحق کی داخل کردہ ہیں۔ بلاشبہہ یہ دفعات ۱۹۷۳ء کے اصل دستور میں موجود تھیں، البتہ ان میں بعد میں اضافے اور تبدیلیاں ہوئی ہیں، جن میں اہم تبدیلیاں آٹھویں، سترھویں اور اٹھارھویں ترامیم کے ذریعے ہوئی ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے جو آخری شکل ان دفعات کو دی گئی ہے، وہ پارلیمنٹ کی متفقہ تجاویز کی بنیاد پر ہیں اور اب ان کی ملکیت (ownership) کا اعزاز جنرل ضیاء مرحوم سے ہٹ کر پارلیمنٹ اور قوم کو منتقل ہوچکا ہے۔ یہاں ضمنی طور پر ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں ’صادق‘ اور ’امین‘ ہونے کے سلسلے میں جو باتیں ایک نام نہاد سیکولر طبقہ ایک مدت سے اُگل رہا ہے اور اب اس میں مسلم لیگ (ن) کے ترجمان اور دانش ور، جو کل تک اس کے مؤید تھے، وہ بھی شریک ہوگئے ہیں، ایک بہت سطحی اور افسوس ناک غوغا آرائی ہے۔ علمِ سیاست ہی نہیں بلکہ مینجمنٹ اور حکمرانی کا ہر طالب علم واقف ہے کہ ہر سیاسی نظام ہی میں نہیں بلکہ چھوٹی اور بڑی کاروباری قیادت تک کے لیے امانت، دیانت اور صداقت بنیادی صفات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسلامی نظام میں تو یہ اوّلین شرائط ہیں، لیکن دنیا کے ہر نظام میں دیانت(Honesty)، اعلیٰ کردار (Integrity) اور معاملہ فہمی (Prudence) لازمی اوصاف تصور کیے جاتے ہیں۔
مشہور مصنف سر آئیور جیننگ[Ivor Jennings ، م: ۱۹۶۵ء] نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب Cabinet Government میں لکھا ہے کہ:’’ ایک وزیر اور وزیراعظم کی اوّلین اور ناقابلِ سمجھوتا خصوصیت اس کا اعلیٰ کردار (Integrity) ہے۔ اگرچہ صلاحیت کے باب میں کمی بیشی ہوسکتی ہے، جس کی تلافی مشیر اور معاونین کے ذریعے ہوسکتی ہے لیکن اگر صداقت اور دیانت کے باب میں قیادت مطلوبہ معیار سے فروتر ہے تو اس کا کوئی متباد ل نہیں ہوسکتا‘‘۔
دفعہ ۶۲ میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
کیمبرج ڈکشنری Honesty کی تعریف یہ کرتی ہے:
سچا یا اعتماد کے قابل، جس کے بارے میں یہ امکان نہ ہو کہ وہ چوری کرےگا، دھوکا دے گا یا جھوٹ بولے گا۔
اسی طرح کولن انگلش ڈکشنری کے بقول:
اگر آپ کسی کو ایمان دار قرار دیتے ہیں تو آپ کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور لوگوں سے دھوکا دہی نہیں کرتے اور نہ قانون کو توڑتے ہیں۔
ہفنگٹن پوسٹ (Huffington Post )کے الفاظ میں:
اخلاقیات میں اخلاقی بلندی (integrity) سے مراد دیانت داری، راست بازی، سچائی اور اعمال کی درستی ہوتے ہیں۔
اسی طرح Integrity کی تعریف لغت کی رُو سے یہ ثابت ہوتی ہے:
اخلاقی اصولوں پر سختی سے عامل، اخلاقی کردار کی درستی اور مضبوطی، دیانت داری۔
انتظامیات (مینجمنٹ) کی کتب میں یہ اصول اور معیار بیان کیا گیا ہے کہ:
اخلاقی بلندی (Integrity) بنیادی اقدار میں سے ایک ہے، جن کی آجر کو اپنے اجیر میں، ملازم رکھتے ہیں، تلاش ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کی امتیازی خصوصیت ہوتی ہے، جو اپنے کام میں ٹھوس اخلاقی اصولوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ آج حکمرانی کے منصب پر فائز رہنے والوں کی طرف سے دستور کی دفعہ۶۲ اور ۶۳ نکالنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہاں مسلم لیگ کی وہ قیادت اور اس کے ہم نوا کالم نگار جو طرح طرح کی گُل افشانیاں کر رہے ہیں اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں، وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سینیٹ آف پاکستان نے متفقہ طور پر (رولز آف بزنس) اصول و ضوابط بنائے ہیں اور جن پر ضیاء الحق مرحوم کا کوئی سایہ بھی کبھی نہیں پڑا، ان میں بھی مذکورہ دفعات موجود ہیں۔ فاعتبروا یااولی الابصار۔
ضابطہ اے-۲۲۶ کی تشریح سینیٹ آف پاکستان کے رولز کے ضمیمے میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:
اپنے پارلیمانی اور سرکاری فرائض کی انجام دہی میں، ارکان سے یہ توقع کی جائے گی کہ وہ چال چلن یا طرزِعمل کے درج ذیل اصولوں کی پابندی کریں گے، جن کی نشان دہی اخلاقیات کی کمیٹی نے کی ہے۔ ان ا صولوںکو اس وقت مدنظر رکھا جائے گا جب ضابطے کے حصہ پنجم میں دیے گئے طرزِعمل کے اصولوں کی خلاف ورزی کے الزامات کی تحقیق و تعیین مقصود ہوگی۔
ان بقراطوں کے سامنے ہم یہ سوال رکھتے ہیں کہ: دستور کی دفعات ۶۲، ۶۳ کا مطالبہ وفاقِ پاکستان کی علامت ایوانِ بالا کے ان اُمورِ کار سے کچھ مختلف ہے؟ اور اگر کوئی رکن ان دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے،تب بھی کیا وہ ووٹ کی عظمت اور عزّت کے نام پر پارلیمنٹ کا رکن رہ سکتا ہے؟
غلط بیانی، دستاویز میں جعل سازی، جھوٹی گواہی، کتمانِ حق، یعنی سچی بات کو چھپانا، وہ اخلاقی اور سماجی بُرائیاں ہیں جو انسان کو ناقابلِ اعتبار بنا دیتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ فرد ان کے ارتکاب کے بعد سیاسی ذمہ داری کی اہلیت کھو دیتا ہے۔ یہ اسلام کا بھی ایک معیاری اصول ہے اور دُنیا کے دوسرے تمام نظاموں ، خصوصیت سے پارلیمنٹ اور حکومت کے مناصب کے باب میں اس احترام کا بنیادی تقاضا ہے۔ دنیا کے بعض دستوری اور قانونی نظاموں میں جھوٹی گواہی، غلط بیانی اور حقائق چھپانا ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے اور اگرکوئی منتخب نمایندہ یا عہدے دار اس جرم، جیسے Perjury (نقضِ عہد، جھوٹی گواہی) کا مرتکب پایا جاتا ہے، تو اسے نہ صرف عہدے سے فارغ کردیا جاتا ہے بلکہ سزا بھی دی جاتی ہے۔
(قانونی اہمیت کے حامل معاملے کے بارے میں) جان بوجھ کر دروغ گوئی کا عمل یا جرم، جب کہ (ایسا کرنے والا) حلف اُٹھا کر بیان دینے کی وجہ سے یا (حلف اُٹھائے بغیر) صدق دلانہ بیان دینے کی وجہ سے یا کسی سرکاری طور پر جاری اعلامیہ کے تحت اس بات کا پابند ہو کہ وہ جو کہہ رہا ہے ، تحریر کررہا ہے، یا جس کا وہ دعویٰ کر رہا ہے، درست اور سچ ہے۔
’Perjury ‘ برطانیہ میں کامن لا کا حصہ ہے اور امریکی قانون میں بھی ایک جرم ہے جس کی مختلف حلقوں میں اور امریکا کی مختلف ریاستوں میں مختلف سزائیں ہیں۔ برطانیہ، کینیڈا اور امریکا میں یہ سزائیں ایک سے پانچ سال تک قید اور جرمانے پر مشتمل ہیں۔
جہاں تک اسلامی قانون کا تعلق ہے، اسلامی ریاست میں امیر، قاضی اور عُمال کے لیے عادل اور صالح ہونا بنیادی اور لازمی شرط ہے۔ کسی بھی معاملے میں خواہ اس کا تعلق شادی بیاہ، طلاق، وصیت سے ہو یا کاروباری معاملات سے، گواہ کے لیے عادل ہونا لازمی شرط ہے۔ جھوٹی گواہی پر حضرت عمرؓ نے ۴۰کوڑوں کی سزا بھی دی ہے اور جھوٹے گواہ کو آیندہ گواہی کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ ہی نہیں ہر مہذب معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی، اخلاقی اور معاشرتی جرائم ہیں۔ علم الرجال کے اصولوں کے مطابق اگرکسی راوی سے کسی معمولی سے معاملے میں بھی خلافِ واقعہ روش کی کوئی جھلک نظر آئی ہے تو اس سے روایت قبول نہیں کی گئی ہے۔
اس امر پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ محض اپنی ذات کو بچانے کے لیے اسلام کے مسلّمہ اصول اور دستور کی واضح دفعات کا مذاق اُڑایا جا رہاہے اور انھیں تبدیل کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، تاکہ وہ افراد جو دیانت و امانت اور صدق و صفا کے معیار پر پورے نہ اُترتے ہوں، وہ ملک و قوم کے سیاہ و سفید کے مالک بن سکیں۔ اس سے بڑا ظلم جمہوریت اور عوام کے ووٹ پر کیا کیا جاسکتا ہے کہ ووٹ لینے والے کو ہرقانون و دستور اور بنیادی اخلاقی اصولوں سے بالا کر دیا جائے اور محض اس بنا پر چوںکہ اسے ووٹ حاصل ہوتے ہیں، اس کے لیے یہ جرم اور قانون شکنی جائز ہوجائے۔ جس طرح ووٹ جمہوریت کا ستون ہے، اسی طرح قانون کا احترام، قانون کی نگاہ میں سب کی برابری، دستور اور قانون کے مطابق سب کا احتساب، جمہوریت کے فروغ اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے ضروری شرط ہے۔ پاکستان کا مستقبل، جمہوریت کا فروغ اور عوام کی فلاح و بہبود کا انحصار دستور کے احترام، قانون کی بالادستی اور سچائی، دیانت، عدل و انصاف اورعوام کی خدمت اور خوش حالی کے لیے تمام وسائل کے استعمال اور سردھڑ کی بازی لگا دینے میں ہے۔ اقبال کا یہ ارشاد ہمارے لیے رہنما اصو ل ہونا چاہیے:
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا