دسمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

سرمایہ دارانہ معیشت کا مستقبل

پروفیسر عبدالقدیر سلیم | دسمبر۲۰۰۵ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

اگرچہ سوشلزم کمیونزم کا زمینی آئیڈیل منہدم ہوچکا ہے‘ لیکن جس مسئلے کے حل کرنے کا ادّعا لے کر وہ آیا تھا‘ وہ مسئلہ [جوں کا توں] باقی ہے: سماجی قوت کا بے حیائی سے اور دولت کا   بے محابا استعمال‘ جو بیش تر صورتوں میں حوادث کا رُخ متعین کرتے ہیں اور اگر بیسویں صدی کا عالمی سبق ایک صحت بخش ٹیکے کے طور پر ناکام رہا‘ تو ایک وسیع سرخ بگولہ ایک دفعہ پھر [اپنی قہرسامانیوں کے ساتھ] مکمل صورت میں نمودار ہوجائے گا۔ (الیگزندر سولزنٹبین‘ نیویارک ٹائمز‘ ۲۸ نومبر ۱۹۹۳ئ)

جدید سرمایہ دارانہ نظام کی عمر اب ۴۰۰ سال ہونے کو آئی ہے۔ اس کا آغاز سترھویں صدی سے ہوتا ہے‘ جب صنعتی شعبے میں ولندیزی (ڈچ) ایجادات و اختراعات اور زرعی شعبے میں ان کی پیش رفت نے انھیں مالیات میں امامت کا مرتبہ عطا کر دیا تھا۔ اس جدید سرمایہ داری میں ان کے بعد امامت کا شرف برطانیہ کو حاصل ہوا۔ اگرچہ ایجادات اور صنعتی شعبے میں وہاں بھی پیش رفت ہوئی‘ لیکن اٹھارھویں/انیسویں صدی میں برطانیہ کی عالمی قیادت کی بڑی وجہ اس کی نوآبادیات (استعمار) تھیں۔ بیسویںصدی کے وسط تک (دوسری جنگِ عظیم کے بعد) برطانیہ اپنی پوزیشن کھوچکا تھا‘ اور عالمی سرمایہ داری کے نظام کی قیادت ریاست ہاے متحدہ امریکا کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں امریکا واضح طور پر عالمی معیشت و سیاست کے فیصلہ کن قائد کے طور پر اُبھرا ہے۔ لیکن اس کی معیشت کی برتری اٹھارھویں/انیسویں صدی کے ’برطانیہ عظمیٰ‘ کے نوآبادیاتی نظام کے نمونے پر نہیں‘ بلکہ ایک آزاد (اور کارآمد) امیگریشن پالیسی (جس کے نتیجے میں محنتی‘ ہنرمند‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت وافر مقدار میں مہیا ہوگئی) اور ایجادات و فنیات میں پیش رفت سے ہوئی۔

اب ہمارے ملک ‘ بلکہ شاید ساری دنیا میں ایک عام تصور یہ ہے کہ ریاست ہاے متحدہ امریکا اپنی دولت اور خوش حالی کی وجہ سے محنت کشوں کے لیے جنت ہے۔ نظامِ سرمایہ داری کے قائد نے منڈی کی معیشت‘ آزاد تجارت اور کھلی مسابقت کے ذریعے نہ صرف یہ کہ پابند معاشی نظام (اشتراکیت/سوشلزم) کو شکست دی ہے‘ بلکہ عام انسانوں اور معاشی کارکنوں کے لیے مسرت‘ خوش حالی اور ترقی کے ایسے زینے مہیا کر دیے ہیں‘ جہاں آسمان ہی رفعتوں کی حد ہے۔

Business Weaksکے چیف اکانومسٹ ولیم وُلمان اور این کولاموسکا نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے۔ ان کی زیرنظر کتاب The Judas Economy: The Triumph of Capital and the Betrayal of Work  [یہودا کی معیشت: سرمائے کی فتح اور محنت کے ساتھ دغا] تین حصوں پر مشتمل ہے: سرمائے کی فتح‘ محنت کے ساتھ دغا اور سرمایہ داری کو خود اپنے آپ سے بچانا۔

سرمائے اور مزدور کی کش مکش‘ عہد قبلِ تاریخ کے پرویز اور شیریں فرہاد کی داستان سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ یہ آویزش اور زیادہ شدید ہوگئی‘ تاہم اختراعات اور نوآبادیاتی وفد کی لوٹ کھسوٹ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت کا کچھ حصہ محروم طبقات تک بھی پہنچا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی طباعت اور نشرواشاعت کے سیلاب کے نتیجے میں محرومی کا شعور بھی شدید ہونے لگا جس کا نقطۂ عروج کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اگرچہ یہ داستان بھی بڑی دل چسپ اور چشم کشا ہے‘ تاہم وُلمان اور کولاموسکا نے پیش نظر کتاب میں اپنے مطالعے کو سردجنگ کے خاتمے (بیسویں صدی کے آخری عشرے) میں امریکا میں سرمائے اور محنت کے تعلقات پر مرکوز رکھا ہے۔

محنت کش سے اُن کی مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی روزی‘ اپنی جسمانی مشقت‘ مہارت یا دماغی ریاضت سے کماتے ہیں‘ چاہے وہ مشین پر کھڑے ہوں‘ یا کسی دفتر میں اعلیٰ عہدے کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہوں۔ معاش کے لیے کام کرنا اُنھیں اُس گروہ سے الگ کرتا ہے‘ جن کے اپنے ’’اثاثوں‘‘ کی ملکیت سے حاصل ہونے والی آمدنی اُنھیں کسی طرح کی ’’محنت‘‘ سے مستغنی کردیتی ہے۔ بقول اُن کے ’’وہ امریکی، جو اپنی روزی کے لیے کام کرتے ہیں‘ ایک ایسی دوڑ میں مصروف ہیں‘ جس کا کوئی خطِ اختتام نہیں۔ ۱۹۸۸ء میں سردجنگ کے اختتام کے بعد سے انھوں نے بڑی سخت محنت کی ہے کہ کوئی معاشی معجزہ کردکھائیں‘ تاہم وہ ایک ایسی معیشت میں گزربسر کر رہے ہیں‘ جہاں ان کا معیار زندگی ایک ٹھیرائو کا شکار ہوگیا ہے‘ اور جہاں انھیں کوئی سکون میسر نہیں۔ سردجنگ میں یہ امریکا کی فتح کے عواقب ہیں‘‘۔ (ص ۱)

امریکی محنت کش کو اُس کے آجر اور سیاست دان جو دلاسے دیتے ہیں‘ وہ عموماً سراب ہی ثابت ہوتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سے معیشت کے پھیلائو اور کارپوریٹ منافعوں میں زبردست اضافوں کے باوجود کارکنوں کی مُزد میں اضافوں کا تناسب نہایت حقیر ہے۔ یہ بات ایک عام محنت کش کے لیے تو درست ہے ہی‘ لیکن عنقریب ان اعلیٰ درجے کے ملازموں (elite workers) کے لیے بھی درست ہوگی‘ جن کی آمدنیوں نے انھیں اب تک خوش حالی کے دائرے میں رکھا ہے۔   یہ بھی مستقبل میں سخت دبائو محسوس کریں گے۔ (ص ۲)

اگرچہ دیوارِ برلن کے انہدام اور سوویت یونین کے خاتمے کو سرمایہ داری کی آخری فتح کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے‘ اور بوڈاپسٹ سے بیجنگ تک ریاستی ملکیت میںکام کرنے والی صنعتیں‘ منڈی کی معیشت کی حامل کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو بخشی جارہی ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سرماے نے وہ قوت حاصل کرلی ہے‘ جو شاید ماضی میں اُسے کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ آزاد اور سریع الحرکت سرمایہ‘ دنیا میں جہاں زیادہ نفع دیکھتا ہے‘ آسانی سے منتقل ہوجاتا ہے۔ اب امریکا میں صورت حال یہ ہے کہ کارپوریٹ منافع تو بڑھ رہاہے‘ لیکن کارکنوں کے معاوضے میں اضافہ نہیں ہورہا۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں فیملی انکم (ایک خاندان کی آمدنی) میں کمی ہوئی ہے۔ ملازموں کا تحفظ‘ پنشن اور علاج معالجے کی سہولتیں کم ہوئی ہیں‘اور متوسط طبقے کی دولت اور اثاثے بھی زوال پذیر ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس ’’آزاد معیشت‘‘ کی میکانیت کے تحت محنت کشوں اور کارکنوں (جسمانی اور ذہنی دونوں) کی آزادانہ نقل و حرکت کی بناپر دوسری اور تیسری دنیا کی افرادی قوت بڑی آسانی سے شمالی امریکا اور یورپ کے اُن علاقوں میں منتقل ہو رہی ہے‘ جہاں انھیں اپنے وطن کے مقابلے میں بہرحال کچھ زیادہ معاوضے اور سہولتیں دست یاب ہیں۔ مگر اس کے نتیجے میں امریکا کی افرادی قوت‘ خواہ وہ نیلی وردی والے مزدور ہوں یا اعلیٰ عہدوں پر مامور باصلاحیت‘ منتظم‘ سبھی اپنی ملازمتوں میں کٹوتی کا شکار ہورہے ہیں۔ (ص ۶)

اب صورت حال یہ ہے کہ مغربی دنیا کے محنت کشوں (بشمول اعلیٰ تعلیم‘ تربیت یافتہ طبقہ‘ اعلیٰ عہدوں پر فائز کارکنوں) کو محنت کی ایک کھلی منڈی میں مسابقت کا سامنا ہے۔ جاپان کے بعد چین‘ ہندستان‘ انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ کوریا اور لاطینی امریکا سے ہنرمند محنت کشوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد بازارِ معاش (job market)میں داخل ہو رہی ہے کہ امریکا اور کینیڈا‘ بلکہ مغربی یورپ کے سبھی ملکوں میں طبقۂ وسطیٰ اور خوش حال کارکنوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں کھلے خطرات کا سامنا ہے۔ ’’ہم اب ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں‘ جہاں سرمائے کے مقابلے میں محنت کی بہتات ہے‘‘ (ص ۷۶)۔ چوں کہ اس کے نتیجے میں اُجرتیں تو منجمد ہوتی جارہی ہیں‘ اور سرمائے کا نفع بڑھتا جا رہا ہے‘ چوں کہ عوامل پیداوار میں اب طلب و رسد کے قانون کے تحت مزدور ارزاں ہے‘ اس لیے اس کا استحصال کیا جا سکتا ہے‘اُسے اپنی شرائط پر کام کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

مصنفین دعویٰ کرتے ہیں کہ سرمایہ داری کے حالیہ فروغ کے بعد اب مغربی سرمائے کے لیے ضروری نہیں رہا کہ وہ نسلی یورپین (مغربی) آبادی کو اپنے ہمراہ لے کرچلے۔ مشرقی ایشیا میں ایسے باصلاحیت‘ منتظم اور ماہرین نسبتاً سستے داموں پر دستیاب ہوگئے ہیں۔ سرکاری خرچ پر    نسبتاً سستی تعلیم‘ سخت محنت‘ غیرملکی پیشہ ورانہ تربیت اور آگے بڑھنے کے مجنونانہ جوش سے آراستہ یہ ’اعلیٰ طبقہ‘ (elite class) اب اپنی اچھی کارکردگی کے ساتھ مغربی سرمائے کو مہیا ہوگیا ہے: اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمائے اور محنت کے درمیان جو بقاے باہمی (symbiotic) رشتہ قائم ہوا تھا‘ ختم ہوچکا ہے۔ مغرب کے محنت کش کے لیے یہ بُری خبر ہے۔

چوں کہ بڑے صنعتی اور کاروباری ادارے بھی اپنی لاگت/منافع کے تناسب کو ہمیشہ اپنے فائدے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘اس لیے یہاں بھی اس پالیسی کا بوجھ عموماً نچلے درجے کے کارکنوں ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پیداوار کے جدید طریقوں کی بنا پر چھانٹیوں (’down sizing ‘ اور ’right sizing ‘)کا شکار عموماً نچلے محنت کش ہی ہوتے ہیں‘ اور ’فربہ‘ منتظمین اعلیٰ (CEO's) کی صحت اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ (ص ۸۱)

’’[امریکا] تاریخ کے ایک ایسے دور میں جھونکا جاچکا ہے جہاں مالیات ہی سب پر حاکم ہے۔ میوچل فنڈز اور اسٹاک ایکسچینج ریسرچ کی تجربہ گاہ اور فیکٹری کی جگہ مرکزی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ کاروبار کی تعلیم کے بڑے مرکزی اسکولوں سے فارغ ہونے والے اب حقیقی معیشت کے بجاے انوسٹمنٹ بینکنگ کا رخ کر رہے ہیں…‘‘ مگر ان کا انجام بھی وہی ہوگا‘ جو اٹھارھویں صدی کے ڈچ اور انیسویں /بیسویں صدی کے برطانوی سرمایہ کاروں کے نتیجے میں ان کی معیشت کا ہوا۔ ’’وال اسٹریٹ کی حیرت انگیز فراست کی خطا بھی جلد سامنے آجائے گی‘‘۔(ص ۱۴۲)

ہارورڈ یونی ورسٹی کے جوزف شوم پیٹر (Joseph A. Schumpeter) اگرچہ دائیں بازو کی سیاست کے دانش ور ماہر معاشیات ہیں‘ لیکن عالمی سرمایہ داری کے اِن رجحانات میں انھیں بھی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں: ’’نظامِ سرمایہ داری‘ ایک عقلی ذہنی افتاد کو تشکیل دیتا ہے‘ جو دوسرے بہت سے اداروں کی اخلاقی بالادستی کو تباہ کردینے کے بعد آخرکار خود اپنی بالادستی کے بھی درپے ہوجاتی ہے‘‘ (ص ۲۲۱)۔ نیویارک ٹائمز کے ٹامس فرائیڈمین کے مطابق جو لوگ ایک ایسی یک رُخی دنیا کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں‘ جہاں کاروبار اور اعداد و شمار کی مالیات ہی سب کچھ ہے‘ انھیں اس عالم گیریت کے خلاف ایک شدید ردعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ (ص ۲۲۱)

اس تباہی سے بچنے کے لیے کتاب کے مصنفین‘ کاروبار اور صنعت کے شعبوں میں ریاست کی زیادہ مداخلت کی تلقین کرتے ہیں۔ کارکنوں کی پیشہ ورانہ رہنمائی اور ایک پیشے سے دوسرے پیشے میں آسان منتقلی‘ اور اس سلسلے میں حکومتی امداد‘ عالمی سرمایہ داری کے منفی اثرات سے کارکنوں کی حفاظت کے لیے ریاست کے زیادہ فعال کردار‘ نیز محنت کشوں اور دوسرے کارکنوں کی صحت‘ بے روزگاری اور پنشن سے متعلق بہتر اور زیادہ مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ (ص ۲۱۸-۲۱۹)

یہ کتاب‘ نظامِ سرمایہ داری کو خود اپنے ستم اور اس سے جنم لینے والی بربادی سے بچانے کی ایک مخلصانہ کوشش محسوس ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سرمایہ داری (جس کے ساتھ استحصال کا نظام لازم و ملزوم ہے) کو بچا لینا کسی طرح بھی مقصود اور خوش آیند قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا شمالی امریکا اور مغربی یورپ کے محنت کشوں کی فلاح و بہبود کو آدرش قرار دیا جا سکتا ہے؟ اب اگر ہم عالمی معیشت کا جائزہ لیں‘ تو نظر آتا ہے کہ عالم گیریت کے نتیجے میں اگرچہ تیسری دنیا کے بعض گوشوں اور طبقات (نیز افراد) میں معاشی خوش حالی نظر آتی ہے‘ لیکن وسیع تر تناظر میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ خطِ غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال ہندستان ہے‘ جہاں کمپیوٹر اور اطلاعی فنیات میں پیش رفت سے اگرچہ ایک گونہ خوش حالی آئی ہے‘ لیکن بہار اور بنگال کے علاقوں میں شدید غربت کے مارے کروڑوں انسان ناقابلِ تصور ہلاکت کا شکار ہیں۔ کچھ اس طرح کی صورت حال انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ فلپائن اور مشرقی یورپ کے بعض خطوں کی ہے۔ افریقہ (خصوصاً وسطی افریقہ) قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود لوٹ کھسوٹ‘ بدانتظامی‘ بھوک اور بیماری (خصوصاً ایڈز) کا اس بری طرح شکار ہے کہ وہاں آبادی کم ہوتی جارہی ہے۔ شاید عالمی سطح پر معیشت اور مالیات کو کنٹرول کرنے والوں نے یہ منصوبہ بندی کرلی ہے کہ ایک بہتر دنیا کی تشکیل یوں ہی ممکن ہے۔

عیسائی روایات کے مطابق یہودا‘ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا وہ منافق حواری تھا‘ جس نے اپنے تھوڑے فائدے (۳۰ درہم) کے لیے آں جناب سے غداری کی۔ آخری عشائیے میں جب وہ ایک باغ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ روپوش تھے‘ اس نے آپ کی پیشانی کو بوسہ دے کر رومی سپاہیوں کو آپ کا پتا دیا اور یوں گرفتار کرایا۔ (The Judas Economy: The Triumph of Capital and the Betrayal of Work ، [یہودا کی معیشت: سرمائے کی فتح اور محنت کے ساتھ دغا]‘ ولیم وُلمان (William Wolman) اور این کولاموسکا (Anne Colamosca)‘ ایڈیسن ویزلی پبلشنگ کمپنی‘ ریڈنگ‘ میساچوسٹس‘ ۱۹۹۷ئ‘ صفحات: ۲۴۰)