دسمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

بھارتی جنگی مشقیں اور پاکستانی قیادت کی خوش فہمیاں

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر۲۰۰۵ | شذرات

Responsive image Responsive image

پاکستان کے بارے میں بھارت کی سیاست کو اگر ایک پرانی کہاوت کی شکل میں بیان کیا جائے تو اس میں ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ ہندو ذہنیت کے بارے میں برعظیم کا ہر خاص و عام جانتا ہے کہ’بغل میں چھری، منہ میں رام رام‘ یہی حال آج بھی ہے۔ ایک طرف کشمیر میں لائن آف کنٹرول کو چند مقامات پر کھولنے اور اس سے بھی بڑھ کر اسے غیرمتعلق (irrelevant) بنانے کی باتیں ہورہی ہیں‘ اور دوسری طرف مشرق اور شمال‘ ہر سمت میںخون آشام جنگی مشقوں کا اہتمام کیا جارہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جب جنوبی ایشیا زلزلوں اور آسمانی تباہی کی ہولناک گرفت میں ہے۔

ابھی مغربی بنگال میں بھارت کی تاریخ کی سب سے اہم جنگی مشقیں بھارت اور امریکا کی مشترک مشق کی حیثیت سے ختم نہیں ہوئی تھیں کہ پاکستان کی سرحد کے قریب راجستھان میں ۱۹۸۷ء کے Operation Brass Tracks کے بعد اسی نوعیت کی ۱۴ روزہ مشقوں کا آغاز ۱۸نومبر ۲۰۰۵ء سے ہوگیا ہے جسے Operation Desert Strike  کا نام دیا گیا ہے‘ اور اس میں ۲۰ہزار فوجی شرکت کریں گے اور بھارت کی ایرفورس فرانسیسی ساخت کے میراج۲۰۰۰‘ روسی ساخت کے ایم جی-۲۷ اور برطانوی ساخت کے Jaguar لڑاکا طیاروں سے اس شان سے شرکت کرے گی کہ مشقوں کا ۴۰ فی صد ہوائی فوج اور باقی بری فوج کی کارروائیوں کے لیے مختص ہوگا۔ بری فوج اس موقع پر روسی ساخت کے این ٹی-۹۰ ٹینکوں کو زیرمشق لارہی ہے جو ۳۱۰ کی تعداد میں بھارت نے روس سے اس طرح حاصل کیے ہیں: ۱۲۴ بنے بنائے روس نے فراہم کیے ہیں‘ جب کہ ۱۸۶ روس سے حاصل شدہ خام مال اور ٹکنالوجی کی مدد سے بھارت نے خود آخری شکل میں تیار کیے ہیں۔ یہ وہ ٹینک ہیں جنھیں اس وقت کا بہترین ٹینک سمجھا جارہا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی قیمت ۱۰ کروڑ ۵۰لاکھ روپے ہے۔

مغربی بنگال کی بھارت امریکا مشترک مشقوں کے آخری دن دہلی میں امریکا کے ناظم الامور رابرٹ اوبلیک نے ایک چونکا دینے والا بیان دیا ہے کہ اگرچہ مشقیں تجرباتی ہیں لیکن اب بھارت اور امریکا کی دوستی اس مقام پر ہے کہ ایسی مشقیں مستقبل میں کسی تیسرے ملک میں فوجی آپریشن کی طرف بھی جا سکتی ہیں۔ البتہ ایسا مشترک فوجی آپریشن ایک قومی فیصلہ ہوگا جو بھارت کی حکومت کو کرنا ہوگا۔ یہ مشترک مشقیں اور اس سے بڑھ کر ان کے اختتام پر یہ بیان اس علاقے کے بارے میں بھارت اور امریکا کے مستقبل کے عزائم کا آئینہ دار اور علاقے کے دوسرے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتا ہے۔

امریکا نے مشرق وسطیٰ‘ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے جو نقشہ بنایا تھا اس میں شاہ ایران اور اسرائیل دو بنیادی کردار تھے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے اس نظام کا ایک ستون منہدم کر دیا۔ امریکا کا سارا انحصار اسرائیل پر رہ گیا جو غیرحقیقت پسندانہ تھا۔ اسی لیے اسرائیل اور بھارت کی دوستی کا آغاز ہوا تاکہ بھارت کو اس نظام میں بالآخر شامل کرلیا جائے۔ پہلے دور میں ۱۰‘۱۵ سال میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کو مستحکم کیا گیا جس نے کلنٹن کے دور میں بھارت کو اس نظام کا حصہ بناکر ایک تثلیث بنانے کے عمل کا آغاز کردیا مگر ۱۹۹۸ء کے بھارت کے ایٹمی تجربات نے سطح کے اوپر نظر بہ ظاہر اس عمل کو سست کردیا۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ اور وسط ایشیا میں تاجکستان‘ ازبکستان اور قازقستان میں فوجی اڈوں کا قیام اس حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن اصل ہدف بھارت کو اس نظام کا حصہ بنانا تھا جو بش انتظامیہ نے پچھلے دوسال میں مستحکم کرلیا ہے‘ اور اکتوبر کی مغربی بنگال مشقیں‘ بھارت اور امریکا کا ۱۰سالہ دفاعی تعاون کا معاہدہ اور سب سے بڑھ کر جولائی ۲۰۰۵ء میں کیا جانے والا ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کا معاہدہ جس نے عملاً بھارت کو ایک نیوکلیر پاور تسلیم کرلیا ہے اور ہائی ٹیک تعاون کا دروازہ کھول کر پورے علاقے کے دفاعی توازن کو درہم برہم کردیا ہے۔ اس پورے عمل کا اصل ہدف چین‘ ایران‘ پاکستان اور عرب ممالک ہیں۔ حالیہ مشقوں کو اسی پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔

مغربی بنگال کی مشترک مشقوں کے فوراً بعد راجستھان کی جنگی مشقیں پاکستان اور ایران کے لیے خصوصی پیغام رکھتی ہیں۔ مشقوں کے آغاز ہی پر بھارت کے ہوائی فوج کے سربراہ ایرچیف مارشل ایس پی تیاگی کا بیان جو انھوں نے پونا یونی ورسٹی میں دیا ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا ارشاد ہے:

گو کہ گذشتہ تین سال میں ان دونوں قوموں کے درمیان حالات بہت کچھ تبدیل ہوگئے ہیں‘ مگر سلامتی کی صورت حال اسی طرح ہے۔ دہشت گردی کا انفراسٹرکچر پاکستان میں ابھی تک موجود ہے اور سرحد پار دہشت گردی میں بھی کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔

ہماری سلامتی کی منصوبہ بندی میں چین جو کچھ کر سکتا ہے اس کو مقام ملنا چاہیے کیونکہ مجھے اپنے پڑوس میں چینی اسلحہ نظرآرہا ہے۔ چین کی جانب سے ہمارے ملک کا اسٹرے ٹیجک گھیرائو کافی آگے بڑھ چکا ہے اور اس سے مستقبل میں ہمارے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے---

پاکستان اور چین کو بھارت کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا:اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے ان دو پڑوسی ممالک کے ساتھ جنگ کے لیے بے تاب ہیں… (ٹائمز آف انڈیا‘ ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ئ)

لیکن جو کچھ بھارت کی مشقیں ظاہر کرتی ہیں اس کے بارے میں یہی کہاجا سکتا ہے کہ   ؎

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر

لہو پکارے گا آستیں کا

بھارت کی ان تیاریوں‘ عزائم اور strategic calculations کا صحیح ادراک ضروری ہے‘ اور دوستی کا جو خمار پاکستان کی قیادت پر طاری ہے اسے حقیقت پسندی کے غسل کی فوری ضرورت ہے۔ ایران اور چین کو بھی ان تیاریوں کا بروقت نوٹس لینا چاہیے‘ نیز امریکا کے ساتھ اندھی دوستی اور امریکا کی خاطر جو اندرون ملک اور بیرونی خطرات ہم نے مول لیے ہیں ان کے ادراک کی    شدید ضرورت ہے۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ان حالات میں ناٹو کے ایک ہزار فوجیوں کا امدادی کاموں کے نام پر پاکستان میں آنا‘ اس پورے آپریشن کا امریکا کی فوجی کمانڈ میں برسرکار ہونا‘اور اس ایک ہزار کی نفری میں صرف ۱۶۸ انجینیر یا ڈاکٹر ہونا اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ حکومت کی خوش فہمیاں جو بھی ہوں‘ پاکستانی عوام اور سیاسی قوتیں اس صورت حال پر سخت متفکر ہیں اور بجاطور پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ عوامی خدشات کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ناٹو کے فوجیوں اور ان کے قائم کردہ کیمپوں اور ہسپتالوں کی حفاظت کے لیے پاکستانی فوج اور رینجرز کی ایک بڑی تعداد لگانا پڑی ہے‘ اور عام آدمی ناٹو کے ہسپتالوں کے مقابلے میں پاکستان اور دوسری سول این جی اوز کے ہسپتالوں میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قیادت اپنی خوش فہمیوں کے سراب سے نکلے اور اپنی      خارجہ پالیسی کا جائزہ لے کر اسے زمینی حقائق اور پاکستانی عوام اور اُمت مسلمہ کی امنگوں سے    ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرے اور پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لے۔ ہماری اصل طاقت اللہ کی مدد کے بعد ملک کے عوام اور اُمت مسلمہ سے یک جہتی اور اتحاد میں ہے‘ اور امریکا پر بھروسا کرنے کے بجاے خودا نحصاری (self-reliance) کا راستہ ہی قومی سلامتی کا راستہ ہے۔

آزادی صحافت کے دعوے اور حقیقت

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہر حکومت نے اپنے اپنے دور میں کسی نہ کسی شکل میں صحافت کو زنجیریں پہنانے اور اپنے مفید مطلب مؤقف اختیار کرنے کی مذموم کوششیں کی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ صحافت کو مکمل آزادی دیں گے اور دستور اور قانون کے دائرے میں اظہاررائے اور تنقید کے حق کے استعمال کا ہر موقع دیں گے۔ کچھ پہلوئوں سے شاید گذشتہ      چھے سالوں میں بظاہر صحافت کو نسبتاً آزادی میسر بھی آئی ہے لیکن آہستہ آہستہ حکومت کی گرفت اور سرکاری وسائل کا صحافت کو زیردام رکھنے کے لیے استعمال بڑھ رہا ہے۔ پریس ایڈوائس کا سلسلہ جاری ہے۔ صحافیوں کو ہم نوا بنانے کے لیے ترغیب اور ترہیب کے ہتھکنڈے بے دریغ استعمال کیے جارہے ہیں۔ لفافہ کلچر بھی اپنا کام کر رہا ہے اور ’الطاف و اکرام‘ کے دوسرے ذرائع بھی اپنا کام دکھارہے ہیں۔ سرکاری اشتہارات کو سرکاری نقطۂ نظر کو فروغ دینے اور اختلافی رائے رکھنے والے اخبارات کو    سزا دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک لسانی تنظیم دہشت گردی کے وہی حربے پھر استعمال کررہی ہے جو ۱۹۹۰ئ/۱۹۸۰ء میں اس کا شعار تھے۔ فریڈم آف انفارمیشن کا قانون نہایت عام اور نقائص سے پُر ہے‘ نیز صحافت اور الیکٹرانک میڈیا میں سرکاری اثراندازی اور اجارہ داری کی صورت دونوں اپنا اپنا ہاتھ دکھا رہے ہیں۔

پارلیمنٹ میں بار بار یہ مسائل اٹھائے گئے ہیں مگر حکومت کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں اور وزیراطلاعات سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک یہی رٹ لگائے جارہے ہیں کہ صحافت آزاد ہے اور جمہوریت کا کارواں رواں دواں ہے۔ ویج ایوارڈ کا مسئلہ برسوں سے معلق ہے۔ وزیراعظم نے ایک کل جماعتی کمیٹی بنائی تھی جس میں راقم کو بھی رکھا گیا تھا مگر جس کام کو دوماہ میں کرنا تھا وہ پانچ ماہ میں شروع بھی نہ کرسکے اور میں نے احتجاجاً کمیٹی سے استعفا دے دیا۔

یہ ہے صحافت کے بارے میں ہمارا رویہ!

اس کا نوٹس اب عالمی سطح پر بھی لیا جا رہا ہے اور اس شذرے کا باعث وہ تازہ سروے ہے جو فرانس کی ایک مشہور تنظیم RSF (Reports Sans Frontiers) نے اسی مہینے شائع کیا ہے اور جس میں ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان حالات کا موازنہ کرکے دکھایا گیا ہے کہ دنیا کے ۱۶۶ممالک جن کا سروے کیا گیا ہے ان میں پاکستان کا نمبر ۲۰۰۲ء میں ۱۱۹ تھا‘ یعنی سب سے نیچے کے ۴۰ ملکوں میں ہم ‘ مگر اب ’ترقی‘ کر کے ۲۰۰۵ء میں یہ شمار ۱۵۰ پر آگیا ہے۔ گویا سب سے بدتر ۲۰ملکوں میں ہم ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ افغانستان کا شمار ہم سے اوپر ہے‘ یعنی ۱۲۵ ویں پوزیشن‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۱۰۹ ہے۔

جمہوریت کے فروغ کے لیے آزادی صحافت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حکومت کے دور میں جس طرح پارلیمنٹ مفلوج ہے اور سول نظام پر فوج کی گرفت بڑھ رہی ہے‘ اسی طرح صحافت پر بھی کنٹرول‘ مداخلت‘ اور ’چمک‘ کے سائے مسلط ہیں اور دعووں اور حقیقت میں خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے جو ہر اعتبار سے خطرناک ہے۔