جب دنیا مغرب کی اسیر ہوئی تو ہر فن میں مغرب کی سند تسلیم کی جانے لگی۔ اسلام کے بارے میں بھی مستشرقین کی رائے کو عالمی سطح پر اہمیت دی گئی۔ جس کے باعث عیسائی دنیا بدستور تعصب میں مبتلا رہی۔ غیر جانب دار دنیا نے بھی اسلام کو مغرب کی عینک سے دیکھا‘ اسی لیے وہ نہ صرف اسلام کے صحیح خدوخال سے ناآشنا رہی بلکہ بڑی حد تک ان کی غیر جانب داری مغرب کی ہم نوائی میں تبدیل ہونے لگی۔ اسلامی معاشرے میں بھی ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا جس نے اسلام کو مستشرقین کی عینک سے دیکھنا اور پرکھنا شروع کر دیا۔ جس کے زیراثر مغربی تعلیم یافتہ طبقہ اسلام سے بیگانہ ہوتا چلا گیا۔ اس تحقیقی مقالے میں مستشرقین کے اسی طرزعمل کو موضوع بنایا گیا ہے تاکہ شکوک میں مبتلا اہلِ مغرب‘ مرعوبیت کے مارے تعلیم یافتہ مسلمان اور بیچارگی کے شکار مسلمان علما پر مستشرقین کی سوچ‘ ان کے مقصد اور طریق کار کو واضح کیا جا سکے‘ اور یہ بات کھل کر سامنے آئے کہ مستشرقین کی تحریروں میں علم کی پیاس‘ حق کی تلاش اور پیشہ ورانہ دیانت داری کس حد تک عنقا ہے اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کی اصلیت کیا ہے۔
اعلیٰ پائے کی اس تحقیق کی حامل یہ کتاب بنیادی طور پر پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جسے ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی نے نومبر ۱۹۸۰ء میں تحریر کیا تھا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینیرتھے۔کتاب‘ کتابیات اور اشاریے سے مزین ہے۔
مصنف نے عیسائیت کی اپنی ’شکل و صورت‘ کو بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ ایسا مذہب جسے دوسرے مذاہب بالخصوص اسلام پر تابڑ توڑ حملے کرنے اور الزام تراشی کے ساتھ بددیانتی کرنے میں عار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے حوالے سے مغرب کی تاریخ‘ تعصب اور بددیانتی سے بھری پڑی ہے‘ مثلاً دوراوّل میں مغربی علما نے عربی سے تراجم کرکے مسلم تصانیف کو اپنے ناموں سے منسوب کیا۔ بددیانتی‘ جھوٹ اور فریب کی ایک اور مثال یہ ہے کہ مغربی چرچ میں یہ امر تسلیم کیا جاتا تھا کہ مسلمان بت پرست تھے اور اسلام بت پرستی کا مذہب تھا۔ عوامی سطح پر مسلمان بڑے جادوگر سمجھے جاتے تھے۔ اسلام مذہب نہیں‘ اسلام جنگی ٹولے کا مذہب ہے۔ اسلام انفرادی مذہب ہے‘ اسلام عرب جاہلیہ کے ’مروۃ‘ کا بدلہ ہوا نام ہے یا اسلام لُوٹ ہے۔ مصنف نے ان بے اصل اور بے بنیاد اعتراضات کا بھرپور جواب اس کتاب میں فراہم کیا ہے۔
دنیا کی کسی اور عظیم شخصیت کو اس قدر متہم نہیں کیا گیا جتنا مغرب نے سرکارِ دوعالمؐ کو کیا۔ اس صدی میں بھی ایسی تحریروں کی کمی نہیں جن میں اخلاقی الزامات دہرائے گئے ہیں۔ مغرب نے بہروپ یا جعل (imposture) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ انیسویں صدی تک یہ الزام تواتر کے ساتھ ملتا ہے۔ اب اسی پرانے نظریئے کو نئے الفاظ عطا کر کے کہا کہ یہ وحی کوئی بیرونی القا نہیں تھی‘ بلکہ لاشعور کی پیداوار تھی جسے غلط فہمی کی بنا پر ملکوتی پیغام تصور کیا گیا۔ (ص ۳۲۰)
کردار نبویؐ پر ایک اور الزام خوں ریزی کا ہے۔ اس لفظ کو ایسے عامیانہ انداز میں استعمال کیا جاتا ہے جو خونِ ناحق اور خونِ برحق کی تمیز مٹا ڈالتا ہے۔ اس الزام کے ضمن میں معاہدہ شکنی‘ دھوکادہی اور سفاکی جیسی گھنائونی تہمتیں بھی لگائی جاتی ہیں۔ (ص ۳۲۳)
مصنف نے نہایت عرق ریزی اور شدید محنت سے اس کتاب میں مغربی مصنفین کی کتابوں کے جو اقتباسات دیے ہیں اگرچہ انھیں پڑھتے ہوئے کوفت ہوتی ہے مگر موضوع کا تقاضا یہی تھا۔ لہٰذا مصنف نے نہ صرف انھیں جمع کیا بلکہ ان کا مدلل جواب بھی دیا ہے۔ مغرب کی موجودہ سوچ کو جاننے کے لیے اور اسلام کے خلاف جاری جنگ کا صحیح ادراک کرنے میں یہ کتاب نہایت مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم مصنف کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اس اعلیٰ پایہ کوشش کو قبول فرمائے۔ آمین! (الیاس انصاری)
زیرنظر کتاب ۲۱ دروس حدیث کا ایک نادر مجموعہ ہے۔ یہ ایمانیات‘ عبادات‘ معاملات‘ اخلاقیات اور اُمت مسلمہ کے مسائل پر دیے گئے اُن خطبات کی ایک سیریز ہے‘ جو محترم خرم مراد نے مارچ ۱۹۹۱ء سے دسمبر ۱۹۹۵ء تک کے عرصے میں گارڈن ٹائون‘ لاہور کی مسجدبلال میں نمازِ جمعہ کے مواقع پر پیش کیے تھے۔ موضوعات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:
اللہ کی قدرت‘ شرک سے پاک اللہ کی بندگی‘ قرآن کے عجائب‘ نیت اور عمل‘ نیکی اور بدی‘ دنیا کی زندگی کی حقیقت‘ حقیقتِ زہد‘ نماز کیسے بہتر کریں؟ حج اور قربانی‘ حبِ دنیا‘ حسد اور بغض‘دل کی زندگی‘ رزقِ حلال‘ شکر اور صبر‘ امانت داری‘وعدے کی پابندی‘ عدل و انصاف کا قیام‘ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا‘ غلطیوں کو معاف کرنا‘ توبہ کا دروازہ کھلا ہے‘ دین آسان ہے۔
ہر درس میں اسلام کے نظامِ زندگی کا ایک جامع اور مختصر نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ ان تمام دروس میں ایک معنوی ربط اور قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب شخصی تربیت و تزکیہ‘ اجتماعی اصلاح وانقلاب‘ اُخروی فلاح اور جنت کے حصول کے لیے فکرمند اور مضبوط کرنے والے ہیں۔
درس قرآن ہو یا درسِ حدیث‘ تقریر ہو یا تحریر‘ خرم مراد مرحوم کے اسلوب بیان میں ایک منفرد شیرینی اور ایمان و یقین کی بے پناہ دل آویزی پائی جاتی ہے۔ مصنف کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ قرآن و سنت کی روح لوگوں کی زندگی میں رچ بس جائے اور اُن کا منشا و مقصود اللہ کی رضا بن جائے۔ یہی تڑپ‘ اضطراب اور بے تابی زیرنظر دروس میں کارفرما نظر آتی ہے۔ کتاب کے مقدمے میں لکھا گیا ہے کہ حدیث کی تشریح اس انداز میں ہے کہ دلوں کے تار چھیڑتی ہے (ص۸)۔ اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں۔ بقول اقبال ع دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔
ان ۲۱ دروس کو‘ دعوت و تبلیغ میں آسانی کے لیے‘ الگ الگ کتابچوں کی شکل میں بھی پیش کیا گیاہے۔ کتاب کے معنوی حُسن کے عین مطابق‘ درست املا‘ عمدہ کاغذ‘ خوب صورت چھپائی اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ مناسب قیمت منشورات ہی کا طرئہ امتیاز ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال نے کہا تھا ؎
ہزار خوف ہو لیکن زباںہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
مصنف کی تحریروں سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ وہ ایک بیوروکریٹ ہیں‘ لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ قلندر بھی ہیں‘ تاہم زیرنظر کتاب کے ۹۹مختصر ’مضامین‘ پر مشتمل ’حرفِ راز‘ سے اُن کی ’قلندرانہ فکر‘ کا ضرور پتا چلتا ہے۔
موضوعات کا تنوع ۹۹ کے عدد کو کہیں پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ بیرونی امداد (خیرات) کے نتائج‘ ججوں کے (بدنام) مجبوری کے فیصلے‘ عالمِ طبیعیات‘ سائنس دان فرینک ٹیلر کی Omega Point کی تھیوری جو نہ صرف قیامت‘ بلکہ برزخ اور جنت و جہنم کا اثبات کرتی ہے‘ قوت و اقتدار کے نشے میں مدہوش چارلس اوّل (برطانیہ) اور دوسروں کا انجام‘ (’سرِّدلبراں‘کو دوسروں کی حکایت میں بیان کرنااچھا ہوتا ہے!)‘ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو پرواز کرتے ہوئے دو تابوت(کیوں کہ پائلٹ‘ جہازوں کا عملہ اور مسافر تو پہلے ہی مرچکے تھے) کس کے حکم پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون سے ٹکرائے‘ یورپ میں اسلحے کا اور مشرقی ایشیا میں بچوں اور عورتوں کا کاروبار‘ نیا امریکی ثقافتی اور سیاسی استعمار‘ دو قومی نظریے سے یک قومی نظریے کی طرف پسپائی‘ کنٹینر میں موت (افغانستان میں حقوقِ انسانی کے علم برداروں کے ہاتھوں مجاہدین پر کیا گزری)‘ عورت اور انڈسٹری‘ (بھیڑیے جنس اور فحاشی کے کاروبار میں عورتوں اور بچوں پر کس طرح پَل رہے ہیں)‘ امریکا چلو کے نتائج‘ پاکستان کے مقتدر حاکمین کی حفاظت (سیکورٹی) کے لیے ’بلیوبک‘، پاک امریکا تعلقات، ’امریکی سنڈی‘ کس طرح پاکستان کو برباد کر رہی ہے! ماڈریٹ اسلام‘ برطانوی صحافی خاتون رونی ریڈلی: طالبان کی قید میں اسلام کی طرف کیوں راغب ہوئی؟دواساز کمپنیوں کے روپ میں ’موت کے سوداگر‘ کس طرح غریبوں کا خون چوس رہے ہیں___ موضوعات کی وسعت حیران کن ہے ___ وہ سب کچھ جو آج ہمیں جاننا چاہیے‘ ایک مخصوص‘ اخلاقی اور اسلامی زاویے کے ساتھ موجود ہے۔
ایک باخبر‘ مخلص‘ محب وطن‘ دردآشنا‘ تیکھی تحریر کے قلم سے مسلّح شخص جو اعتراف کرتا ہے کہ مالک نے ’مجھے پس ماندگی‘ محرومی اور بے یقینی سے نکال کر ان راہداریوں میں لاکھڑا کیا‘ جہاں طاقت‘ اقتدار اور مذاقِ عاجزی گلے مل کر مسکراتے ہیں… مجھے مشورہ دینے والے بہت ہیں‘ میرے خیرخواہ… میرا دامن روز تھام لیتے ہیں… ان کی نظر میں زندگی کی سانسیں‘ عزت‘ احترام‘ سہولتیں‘ سب اس نوکری اور سرکار کی مرہونِ منت ہیں‘ لیکن جب مَیں رات کی تنہائی میں اپنے رب کے سامنے سربسجود ہوتا ہوں‘ تو اس واحد اور رحیم اور کریم کی چوکھٹ کے آگے یہ سارے مشورے‘ یہ ساری خیرخواہیاں ہیچ لگنے لگتی ہیں…‘‘ اوریا مقبول جان کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے!‘‘ بیوروکریسی اور مقتدرہ کی کانِ نمک جس میں اچھے اچھے انقلابی تحلیل ہوجاتے ہیں‘ خدا کرے اوریا بچ جائیں۔
علم و آگاہی کی فراوانی کے ساتھ خلوص‘ کرب و درد میں ڈوبی ہوئی یہ چیخیں کاش‘ اُن لوگوں تک پہنچیں اور انھیں ہوش میں لے آئیں‘ جو اختیار اور اقتدار کی راہ داریوں پر قابض ہیں۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
عورت آج ہمارے ملک ہی کا نہیں پوری دنیا کا اہم موضوع ہے۔ عورت کے حوالے سے آزادی اور حقوق کی جنگ کے مغربی تصور کو رائج کرنے کے لیے مختلف این جی اوز اور کچھ خفیہ طاقتیں ایک تسلسل کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ اس کتاب میں یورپی ممالک کی مسلمان خواتین کے خلاف ایک باقاعدہ اور منظم سازش کا پردہ چاک کرتے ہوئے بہت سے تلخ حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ مسلمان خواتین کو مغربی تہذیب کے اثرات سے بچانے کے حوالے سے یہ ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔ ابتدا میں خواتین کے حقوق کے نام پر ہونے والی کانفرنسوں کے اصل مقاصد کو بے نقاب کرنے کے علاوہ مغربی تہذیب و معاشرت کے تلخ حقائق اعداد و شمار کی روشنی میں بیان کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی اس سارے ایجنڈے کے خلاف مسلم ممالک کی خواتین کے احتجاج اور مظاہروں کی تفصیلات تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتی ہیں۔ مصنف نے اس ساری صورت حال کا ذمہ دار کسی حد تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ٹھیرایا ہے جو مغرب سے متاثر ہے اور دوسرا نقطۂ نظر پیش کرنے میں جانب داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مغرب کا نظریہ مساواتِ مرد و زن‘ اس کے ہولناک نتائج اور مغربی معاشرے میں عورت کی حالت زار کا نہایت حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا گیا ہے۔ اسلام اور مغربی معاشرے میں رشتوں کے حوالے سے عورت کے مقام کا موازنے کے ساتھ ساتھ اسلام میں عورت کا اعلیٰ و ارفع مقام اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کے تفویض کردہ حقوق نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ نومسلم خاتون کا انٹرویو‘ اسلام کی چند نمایاں خواتین کا ایمان افروز تذکرہ‘ جلیل القدر صحابیات کے اخلاقی شہ پارے اور دیگر متفرق تحریریں کتاب کے تنوع میں اضافے کا باعث ہیں۔
کتاب کا لب لباب ’’گزارشات‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ نکات دعوتِ عمل کے ساتھ ذاتی محاسبے کے لیے بنیاد بھی فراہم کرتے ہیں۔ اندازِ بیان جذباتی اور دردمندانہ ہے جو قاری کے قلب و ذہن کو جھنجھوڑتا ہے۔ کہیں کہیں غیرضروری تفصیل یا اعداد و شمار کی زیادتی تحریر کو بوجھل بناتی ہے۔خواتین کی ذاتی لائبریری کے لیے ایک عمدہ اضافہ ہے‘ قیمت بھی مناسب ہے۔ (ربیعہ رحمٰن)
پروفیسر سید محمد سلیم مرحوم کے علم کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انسائیکلوپیڈیا تھے۔ علم کی کوئی شاخ نہ تھی جو ان کے لیے آسان نہ ہو۔ ان کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں لیکن اب کراچی میں پروفیسر سیدمحمدسلیم اکیڈمی قائم کر دی گئی ہے جو ان کے تحقیقی کام کی اشاعت کر رہی ہے۔ سیرت پر اس کتاب میں یہ خوش خبری موجود ہے کہ ان کے تعلیمی مقالات جلد پیش کیے جائیں گے۔
اذکار سیرت‘ سیرت نبویؐ کے متنوع پہلوئوں پر ان کے ۱۴ مقالات کا مجموعہ ہے۔ ہر مقالہ اپنی جگہ خاصے کی چیز ہے۔ اقوامِ عالم کی تشکیل میں عرب کا حصہ‘ صلح حدیبیہ‘ سیاست نبوی کا شاہکار‘ داعی اعظم اور کثرتِ ازواج‘ سیرت طیبہ اور فنون لطیفہ سے موضوعات کے تنوع کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ آخری باب میں غازی علم الدین شہیدؒ جیسے چھے افراد کا تذکرہ ہے جنھوں نے ناموس رسولؐ پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ کتاب کے مرتب نے یہ اہتمام کیا ہے کہ آیات و احادیث کے مکمل حوالہ جات دیے ہیں‘ اگر مصنف نے آیت کا ترجمہ دیا تھا تو مرتب نے متن کا اضافہ کر دیا ہے۔
سیرت پاکؐ کے مختلف پہلوئوں کے مطالعے کے لیے ایک مفید کتاب۔ (مسلم سجاد)
اُردو فارسی شاعری میں نعت گوئی ایک مستقل اور صدیوں پرانی روایت ہے۔جناب نظرلکھنوی کا یہ مجموعۂ نعت کئی حوالوں سے انفرادیت کا حامل ہے۔ پہلی خصوصیت ان کی کہی ہوئی نعتوں کی تعداد ہے کہ میرے مطالعے کی حد تک کسی اور کے ہاں نہیں ملتی۔ عموماً لوگوں نے تبرک کے طور پر ایک آدھ نظم اپنے مجموعہ ہاے کلام میں شامل کر دی ہے۔ یا پھر نیر کاکوردی کی طرح نعتیہ قصیدوں سے کام لیا ہے لیکن جناب نظر نے غزل نما‘ چھوٹی بڑی نعتوں سے کام چلایا ہے۔ اس کے باوجود اُن کا یہ مجموعہ ایسی سیکڑوں نعتوں پر مشتمل ہے‘ جس سے شاعر کا نعت گوئی سے شغف اور غیرمعمولی لگائو کا اندازہ ہوتا ہے۔ دوسری انفرادیت شاعر کا نعت گوئی میں مبالغہ آرائی سے گریز ہے۔ جناب نظر اس دشوار راستے پر بہت سنبھل سنبھل کر چلتے ہیں‘ اور جتنا کچھ قرآن و حدیث سے خدا کے آخری نبیؐ کے اوصاف‘ اختیارات اور اخلاق کا اندازہ ہوتا ہے اس سے آگے یہ نہیں بڑھتے۔ تیسری انفرادیت‘ جس سے نعت گو صاحبان عموماً تہی دامن ہوتے ہیں‘ یہ ہے کہ آنحضوؐر کی حیاتِ طیبہ کے چھوٹے موٹے کاموں سے لے کر بڑے سے بڑے کارناموں تک کا ان نظموں میں ذکر آتا ہے‘ اور اس کے باوجود شعریت کی خوب صورتی اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔چند اشعار بطور نمونہ:
بندھا تھا تارِ نبوت جو‘ اُس پہ ختم ہوا
یہ سلسلہ نہ پھر‘ آگے‘ شہِ شہاں سے چلا
نقوشِ پا سے اُجاگر ہے رہ گزارِ حیات
دیے جلا کے چلا‘ وہ جہاں جہاں سے چلا
کوئی بشر بھی پا نہ سکے گا رہِ حیات
حلقہ بگوشِ سرورؐ عالم ہوئے بغیر
وہ ہے ناراضگیِ رب سے ہمیشہ ترساں
وہ ہمہ وقت ہے خوشنودیِ رب کا خواہاں
لمعاتِ نظر میں ایک خوب صورت جدت یہ بھی ہے کہ ’حصۂ مناقب‘ کے نام سے ایک مستقل عنوان قائم کیا گیا ہے‘ یعنی خلفاے راشدینؓ کی شان میں بھی ایک پوری نظم علیحدہ علیحدہ کہی گئی ہے‘ اور اس طرح ضمناً یہ بتایا گیا ہے کہ ان غیرمعمولی ہستیوں کو بھی درحقیقت رسولِ رحمتؐ ہی کی بدولت وہ اعزاز اور بلند مرتبت عطا ہوئی ہے جو انھیں عالم میں نمایاں کرنے کا موجب ہوئی۔ اور یہ بھی گویا نعت ہی کا حصہ ہے۔ اس کے بعد سانحۂ کربلا کا ذکر بھی‘ گویا‘ ناگزیر تھا۔ اس طرح اس نعتیہ کلام کا خوب صورت خاتمہ کر کے نظم گوئی کے محاسن میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
آخر میں اتنا کہہ دینا نامناسب نہ ہوگا کہ پُرگوئی اور کثرتِ کلام کے باعث جابجا اسقام بھی نظر سے گزرے‘ تاہم وہ اتنے معمولی ہیں کہ ان کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ (آسی ضیائی)
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آزادی سے اب تک حکومتی تعلیمی پالیسیوں میں نظریۂ حیات کے اساسی کردار کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہی ہمارے تعلیمی بحران کی بڑی اور بنیادی وجہ ہے۔ اس کتاب میں اسے اجاگر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد امین ایک عرصے سے تعلیم کے موضوع پر قلمی جہاد میں مصروف ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’پاکستان میں تعلیم کی ثنویت اور نظریاتی کش مکش کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے اس کے پس منظر اور دیرینہ بیماری کا علاج تجویز کرتی ہے‘‘ (ص ۱۵)
کتاب چھوٹے بڑے ۳۲ سے زائد مضامین و مقالات پر مشتمل ہے جن میں ہمارا تعلیمی بحران اور اس کا حل‘ تعلیمی ثنویت کے خاتمے کا طریق کار‘ ایک ماڈل اسلامی اسکول کا خاکہ‘ ایک ماڈل اسلامی یونی ورسٹی کا خاکہ‘ ایک ماڈل اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کا خاکہ اور پاکستان میں تعلیم کی اسلامی تشکیل نو جیسے اہم موضوعات بھی شامل ہیں۔ کچھ مختصر مضامین تعلیم کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ایک مضمون ’’دریا بہ حباب اندر‘‘ میں جملہ مضامین کی تلخیص فراہم کی گئی ہے تاکہ اختصار پسند اور مصروف ماہرین کو ایک نظر میں مندرجات کا اندازہ ہوسکے۔ یہ کتاب پالیسی ساز اداروں‘ ماہرین تعلیم اور طلبہ کے لیے مفید ہے۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)