تحریکِ اسلامی جس تاریخ ساز اور عظیم الشان مشن کو لے کر اٹھی ہے وہ ایک ہمہ وقت متحرک اور بیدار مغز قیادت کے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے لیے منصوبہ بندی‘ تنظیم اور تحریکِ فکروعمل درکار ہے۔ تحریکِ اسلامی کو اس کے اولین علم برداروں ‘یعنی انبیاے کرام کی صالح ترین اور مؤثر قیادتیں حاصل رہی ہیں۔ رسول اکرم خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی قیادت جس تحریکِ اسلامی کو حاصل تھی اور آپؐ کی کمان میں جس انقلابی جماعت نے باطل قوت سے نبردآزمائی کی اس کی فکرونظر کی صالحیت‘ ایمان و یقین کی پختگی‘ عزم و حوصلے کی بلندی اور سرگرمی و فعالیت کی ذمہ دار وہ ذات بابرکات تھی جسے وحی کی رہنمائی‘ فرشتوں کی مدد و اعانت‘ غیبی طاقتوں کی نصرت و حمایت اور ذات حق و صداقت کی براہِ راست نگرانی و رہنمائی حاصل تھی۔ ان کے بعد سلف صالحین اور مجددین اُمت کا ایک تسلسل قائم رہا ہے۔ اس لیے اس معیار کی تلاش موجودہ قیادتوں میں کرناسعی لاحاصل ہے۔ صرف ان کا اسوہ مشعل راہ کا کام انجام دے سکتا ہے۔
لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ تحریکی قیادت کا ایک معیارِ مطلوب اور متعینہ اوصاف ہوں جو تربیت فکروعمل کے بعد حاصل کیے جاسکتے ہوں۔ دوسرے معنوں میں صلاحیتوں کی جلا اور اوصاف کی نمو و بالیدگی‘ پرورش اور نگہداشت کے ایک منصوبہ بند پروگرام سے گزار کر جنھیں اوسط درجے کا قائد بنایا جا سکتا ہو۔ اس طرح کی مساعی کے لیے مطلوبہ اوصاف و صلاحیتوں‘ مثلاً علم‘ حکمت‘ افراد جماعت کے ساتھ رویہ‘ عوامی رابطہ‘ انتظامی صلاحیت‘ نظم الوقتی (time management) اور پہل کرنے کی صلاحیت (initiative ability) کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ دستور جماعت میں بھی امرا و شوریٰ کے لیے مطلوبہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ان اوصاف میں دینی‘ ایمانی‘ علمی و فکری‘ عملی و اجتماعی اور انتظامی معیارات کے لحاظ سے درجہ بندی کی جاسکتی ہے‘ اور یہ کسی تحریکی قیادت کے اقل ترین لوازم (minimum requirements) ہیں جن سے مفر نہیں۔ یہ اوصاف و صلاحیتیں بتوفیق الٰہی‘ اکتسابی طریقوں (تعلیم و تربیت)‘ شخصی ذوق و میلان‘ صحبت صالحین‘جماعتی سرگرمی میں حصہ داری اور ابتدائی سطح سے تنظیمی ذمہ داریوں کے نبھانے اور سماجی زندگی میں تجربات سے گزر کر حاصل کی جاسکتی ہیں۔ تحریکی شعور کی گہرائی‘ مزاج شناسی اور وابستگی کا معیار اسی قدر بلند ہوگا جس قدر بیان کردہ امور میں پختگی اور گہرائی آئے گی۔ اگر قیادت مطلوبہ معیار کی حامل نہ ہو تو مقصدی و اصولی تحریکات کو مطلوبہ اہداف کے حصول میں مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔
تنظیم اور قیادت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر قیادت معیارِ مطلوب کی حامل نہ ہو تو تنظیم کو اس کے معیار مطلوب سے بلندتر معیار حاصل کرنے اور اجتماعی متبادل قیادت کی فراہمی کا انتظام کرنا چاہیے۔ یہ اجتماعی متبادل قیادت تحریکِ اسلامی میں اس کی مجلس شوریٰ فراہم کرتی ہے جو تحریک کی مقامی‘ حلقہ وار اور مرکزی سطح پر اس کا فیصلہ ساز ادارہ (decision making body) ہے۔ تحریکی معاملات میں اس ادارے کا روز مرہ انہماک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسے رہنمائی‘ افرادسازی اور تحریکی سرگرمیوں کے فعال ادارہ کا مقام اس کو حاصل ہو نہ کہ مجہول مشاورتی ادارے کا۔
تحریک اسلامی کی اوّلین روداد میں ہی اس مسئلے کو صاف صاف الفاظ میں بیان کر دیا گیا تھا کہ اسلامی جماعت میں عہدہ و منصب کی طلب کیوں ناپسندیدہ ہے: ’’امیر کے انتخاب میں آپ کو جن امور کا لحاظ رکھنا چاہیے وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص جو امارات کا امیدوار ہو اسے ہرگز منتخب نہ کیجیے‘ کیونکہ جس شخص میں اس کارعظیم کی ذمہ داری کا احساس ہوگا وہ کبھی اس بار کو اٹھانے کی خود خواہش نہ کرے گا اور جو اس کی خواہش کرے گا وہ دراصل نفوذ و اقتدار کا خواہش مند ہوگا نہ کہ ذمہ داری سنبھالنے کا۔ اس لیے اللہ کی طرف سے اس کی نصرت و تائید کبھی نہ ہوگی۔ انتخاب کے سلسلے میں ایک دوسرے سے نیک نیتی کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرسکتے ہیں مگر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف تجویز و سعی نہ ہونی چاہیے۔ شخصی حمایت و موافقت کے جذبات کو دل سے نکال کر بے لاگ طریقے سے دیکھیے کہ آپ کی جماعت میں کون ایسا شخص ہے جس کے تقویٰ‘ علم کتاب و سنت‘ دینی بصیرت‘ تدبر‘ معاملہ فہمی اور راہِ خدا میں ثبات و استقامت پر آپ سب سے زیادہ اعتماد کرسکتے ہیں۔ پھر جو بھی ایسا نظر آئے تو اللہ پر توکل کرکے اسے منتخب کر لیجیے اور جب آپ اسے منتخب کرلیں تو اس کی خیرخواہی اور اس کے ساتھ مخلصانہ تعاون‘ معروف میںاس کی اطاعت اور منکر میں اس کی اصلاح کی کوشش آپ کا فرض ہے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ اوّل‘ ص ۱۶-۱۷)
حکومت و اقتدار اور قیادت و سیاست کو امانت (trust) کہا گیا ہے اور کوہ و جبل جیسی مستحکم اور مضبوط مخلوق پر جب اس بارِ امانت کو پیش کیا گیا تو وہ کترا گئے لیکن انسان نے اپنی عجلت پسندی اور جہالت کے سبب اس کو اٹھا لیا۔ عہدہ و منصب کی طلب و خواہش کا تعلق باطن سے ہے مگر ظاہر میں بھی اس کی علامتوں کا ظہور محسوس کیا جا سکتا ہے ‘مثلاً:
۱- دوسروں کی امارت پر بے جا تنقید کرنے والا اور خود پر تنقید سے برافروختہ ہوجانے والا۔
۲- ذمہ داری کی ادایگی میں لاپرواہ ‘جب کہ ان کے حصول میں ہمہ تن متوجہ ہونے والا۔
۳- اپنی صلاحیت واستعداد پر غیرمتوازن بھروسا رکھنے والا۔
مذکورہ بالا اوّلین دو باتوں کے سلسلے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ملاحظہ کریں: تمھارے اچھے خلفا وہ ہوں گے جن سے تم کو محبت ہو اور تم سے انھیں محبت ہو اور جن کے لیے تم رحمت کی دعائیں کرو اور وہ تمھارے لیے کریں۔ اسی طرح تمھارے برے خلفا وہ ہوں گے جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں اور جن پر تم لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ چنانچہ ایک اورحدیث میں اس رویے کو دین داری کا راست تقاضا قرار دیا گیا ہے: ’’دین اخلاص مندی کا نام ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: ’’کس کے تئیں اخلاص مندی کا؟‘‘ ارشاد ہوا: ’’اللہ کے رسول کے‘ مسلمانوں کے خلفا کے اور عام مسلمانوں کے‘‘۔ (مسلم، منقولہ اسلام اور اجتماعیت‘ مولانا صدرالدین اصلاحی‘ ص ۹۰)
عہدہ و منصب کی طلب جہاں مختلف انفرادی و اجتماعی مفاسد کا باعث ہوئی ہے وہیں یہ کوئی ایسا پہلو نہیں ہے کہ کسی فرد کے قلب میں خواہش کے روپ میں چھپا رہ جائے بلکہ اجتماعی زندگی کے کئی پہلو عہدہ و منصب کے طلب گاروں کو نمایاں کرتے رہتے ہیں‘ جب کہ عہدہ و منصب سے وابستہ کوئی حقیقی خصوصیت‘ خوبی‘ صلاحیت اور استعداد اور آگے بیان کردہ اوصاف بھی وہ کوئی ایسے پوشیدہ امور نہیں ہیں جو ظاہر ہوئے بغیر نہ رہ جائیں۔ ایک صالح اجتماعیت میں کسی فرد کا قیادت کے لیے اہل تر ہونا اور لوگوں کی نگاہ انتخاب کا اس پر پڑنا ایسا کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے جو حل طلب رہ جائے اور جس کے لیے دوڑ دھوپ کرکے آدمی نگاہ خلق و خالق میں نااعتبار ٹھیرے۔ جب مکہ کی جاہلیت زدہ سوسائٹی اپنے درمیان کون ’صادق و امین‘ ہے‘ اس کی پہچان رکھتی تھی تو بھلا کسی ایسی اجتماعیت میں جو اقامت دین کی علم بردار ہو یہ امرمحال کہاں رہ جائے گا۔ ضرورت صرف اوصافِ قیادت کے شعور و ادراک کی ہے۔
’’قرآن و سنت کا علم جس سے آدمی نہ صرف جزوی احکام اور ان کے مواقع سے واقف ہو بلکہ شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔ اس کو ایک طرف یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے شریعت کی مجموعی اسکیم کیا ہے اور دوسری طرف یہ جاننا چاہیے کہ اس مجموعی اسکیم میں زندگی کے ہر شعبے کا کیا مقام ہے۔ شریعت اس کی تشکیل کن خطوط پر کرنا چاہتی ہیں اور اس تشکیل میں اس کے پیش نظر کیا مصالح ہیں‘‘۔(تفہیمات‘ سوم‘ ص ۱۳‘ بحوالہ اسلام میں قانون سازی کے حدود و مآخذ ‘ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ)
دستور جماعت میں کم حیثیت و درجہ والے مناصب و عہدوں کے لیے اس وصف کو علمِ دین یا فہمِ دین کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں صرف کتابی علم کا حصول بذریعہ تدریس و مشق ہی مطلوب نہیں ہے بلکہ اس کے آگے عمیق مطالعہ و مشاہدہ‘ صحبت علما و صالحین‘ ریاضت و مجاہدہ کے دوران تفکر اور غوروفکر‘ توفیق و استعانت خداوندی کے ذریعے تفقہ فی الدین کا مقام حاصل کرکے اور تحقیق و جستجو کی مسلسل کوششوں میں لگے رہنے سے حاصل ہوتا ہے۔
حدیث نبویؐ کے بموجب:
یہ کردار جس سرچشمہ ء علم و آگہی سے بنتا ہے وہ علم کتاب و سنت اور مزاج شناس رسولؐ ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔
’’تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو‘ عبدیت کا شعور ہو‘ خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری و جواب دہی کا احساس ہو‘ اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلت عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں۔ اُس سروسامان میں کس طرح تصرف کرتا ہوں جو مشیت الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے اور انسانوں کے ساتھ کیسا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضاے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کر دی ہے۔
یہ احساس و شعور جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے اس کا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے۔ اس کی دینی حس تیز ہوجاتی ہے۔ اس کو ہر وہ چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔ اس کے مذاق کو ہر وہ شے ناگوار ہونے لگتی ہے جو خدا کی پسند سے مختلف ہو۔ وہ اپنے نفس کا جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر کس قسم کے رجحانات و میلانات پرورش پا رہے ہیں‘ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کر رہا ہوں۔ وہ صریح ممنوعات کو تو درکنار‘ مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے۔ اس کا احساسِ فرض اسے مجبور کر دیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرماں برداری کے ساتھ بجالائے۔ اس کی خدا ترسی ہر اس موقع پر اس کے قدم میں لرزش پیدا کردیتی ہے جہاں حدود اللہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وطیرہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی اس کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہوجائے۔ یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرہ عمل میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرزِفکر اور اس کے تمام کارنامۂ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے اور اس کے اثر سے ایک ایسی ہموار یک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک ہی طرز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۶۲-۳۶۱ بحوالہ تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں ، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ)
تقویٰ و پرہیزگاری کی یہ کیفیات تعلق باللہ‘ فکرِآخرت‘ فرائض ونوافل (عبادات) پر کاربند رہنے‘ معاملات و حقوق العباد میں عدل و قسط‘ احسان‘ ایثار و ہمدردی اور پاکیزہ عائلی زندگی بسر کرنے سے حاصل ہوتی ہیں۔
’’روے زمین پر اگر صرف ایک ہی آدمی مومن ہو‘ تب بھی اس کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اکیلاپاکر اور ذرائع مفقود دیکھ کر نظام باطل کے تسلط پر راضی ہوجائے۔ اھون البلیتین کے شرعی حیلے تلاش کر کے غلبۂ کفروفسق کے ماتحت کچھ آدھی پونی مذہبی زندگی کا سودا چکانا شروع کر دے‘بلکہ اس کے لیے سیدھا اور صاف راستہ یہی ایک ہے کہ بندگانِ خدا کو اس طریق زندگی کی طرف بلائے جو خدا کو پسند ہے۔ پھر اگر کوئی اس کی بات کو سن کر نہ دے تو اس کا ساری عمر صراط مستقیم پر کھڑے ہوکر لوگوں کو پکارتے رہنا اور پکارتے پکارتے مرجانا اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ وہ اپنی زبان سے وہ صدائیں بلند کرنے لگے جو ضلالت میں بھٹکتی ہوئی دنیا کو مرعوب ہوں اور ان راہوں پر چل پڑے جن پر کفار کی امامت میں دنیا چل رہی ہے۔ اور اگر اللہ کے کچھ بندے اس کی بات سننے پر آمادہ ہوجائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ایک جتھہ بنائے اور یہ جتھہ اپنی اجتماعی قوت اس مقصدعظیم کے لیے جدوجہد کرنے میں صرف کرے (جس کا دین تقاضا کرتا ہے)۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۳۰-۲۳۱)
اقامت دین کی جدوجہد کے لیے حکمت و موعظہ حسنہ پر مبنی طریق دعوت لازم ہے جو تدریج اور فطری ترتیب کو ملحوظ رکھتا ہے: ’’یہ طریق کار غیرمعمولی صبر‘ حلم اور لگاتار محنت چاہتا ہے۔ اس میں ایک مدت دراز تک مسلسل کام کرنے کے بعد بھی شان دار نتائج کی وہ ہری بھری فصل لہلہاتی نظر نہیں آتی جو سطحی اور نمایشی کام شروع کرتے ہی دوسرے دن سے تماشائیوں اور مداریوں کا دل لبھانا شروع کر دیتی ہے۔ اس میں ایک طرف خود کارکن کے اندر وہ گہری بصیرت‘ وہ سنجیدگی‘ وہ پختہ کاری اور وہ معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے جو اس تحریک کے زیادہ صبرآزما اور زیادہ محنت و حکمت چاہنے والے مراحل میں درکار ہونے والی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۸۳)
کسی قیادت میں قوت فیصلہ کی کمی اس میں معاملہ فہمی‘ تدبر و اصابت راے کے فقدان اور دینی بصیرت میں کمی کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ کسی مسئلے کی ماہیت اور موقع و محل کی مناسبت اور اس کے اثرات کا تجزیہ اور فہم دین و شریعت کی روشنی میں نہ حاصل ہوسکے تو ایک قائد صحیح یا غلط مشیروں کی باتوں یا مشوروں پر انحصار کرنے لگتا ہے اور ہوتا یہ ہے کہ فیصلہ دوسروں کا ہوتا ہے مگر کہلاتا قائدانہ فیصلہ ہے۔ کسی قائد میں اگر دینی بصیرت نہ ہو تو وہ بہت دنوں بیساکھیوں کے سہارے اپنے دینی مقام کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا اور اجتماعی قیادت کے میدان میں بہت جلد اپنا بھرم کھو دیتا ہے یا بے اثر ہوکر رہ جاتا ہے۔
’’اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلامی جماعت میں امیر کی وہ حیثیت نہیں ہے جو مغربی جمہوریتوں میں صدر کی ہوتی ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں جو شخص صدر منتخب کیا جاتا ہے اس میں تمام صفات تلاش کی جاتی ہیں مگر کوئی صفت اگر تلاش نہیں کی جاتی تو وہ دیانت اور خوفِ خدا کی صفت ہے بلکہ وہاں کا طریق انتخاب ہی ایسا ہے کہ جو شخص ان میں سب سے زیادہ عیار اور سب سے بڑھ کر جوڑ توڑ کے فن میں ماہر اور جائز و ناجائز ہرقسم کی تدابیر سے کام لینے میں طاق ہوتا ہے وہی برسرِاقتدار آتا ہے۔ اس لیے فطری بات ہے کہ وہ لوگ خود اپنے منتخب کردہ صدر پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ وہ ہمیشہ اس کی بے ایمانی سے غیرمامون رہتے ہیں اور اپنے دستور میں طرح طرح کی پابندیاں اور رکاوٹیں عائد کردیتے ہیں تاکہ وہ حد سے زیادہ اقتدار حاصل کرکے مستعبد فرماں روا نہ بن جائے۔ مگر اسلامی جماعت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے صاحبِ امر کے انتخاب میں تقویٰ اور دیانت ہی کو تلاش کرتی ہے اور اس بناپر وہ اپنے معاملات پورے اعتماد کے ساتھ اس کے سپرد کرتی ہے۔ لہٰذا مغربی طرز کی جمہوری جماعتوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنے دستور میں اپنے امیر پر وہ پابندیاں عائد کرنے کی کوشش نہ کیجیے جو عموماً وہاں صدر پر عائد کی جاتی ہیں۔ اگر آپ کسی کو خدا ترس اور متدین پاکر اسے امیر بناتے ہیں تو اس پر اعتماد کیجیے اور اگر آپ کے نزدیک کسی کی خدا ترسی و دیانت اس قدر مشتبہ ہو کہ آپ اس پر اعتماد نہیں کرسکتے تو اس کو سرے سے منتخب ہی نہ کیجیے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ اول‘ ص ۱۷-۱۸)
متقی و پرہیزگار آدمی امانت دار بھی ہوگا اور یہ فرد کے مالی کردار کی درستی پر ہی منحصر نہیں ہے کہ مالی لین دین میں آدمی کھرا اترے‘ بلکہ یہ جماعتی رازوں کی حفاظت‘ وسائل کے صحیح مصرف‘ تحریکی ذمہ داریوں کی بہ حسن خوبی ادایگی‘ صلاحیتوں‘ استعداد اور آرا کے مناسب استعمال پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ: ’’جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی امور کا ذمہ دار ہو اور وہ ان کے ساتھ خیانت کرے تو خدا اس پر جنت حرام کردے گا‘‘۔(بخاری‘ مسلم)
’’جماعت کی نظر میں انتخاب کے وقت جو شخص بھی مذکورہ اوصاف (تقویٰ‘ علم‘ دین میں بصیرت‘ اصابت رائے اور عزم و حزم) کے لحاظ سے اہل تر ہوگا اس کو وہ اس منصب کے لیے منتخب کرے گی‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۲۰-۲۱)
’’مومن ہو یا کافر‘ نیک ہو یا بد‘ مصلح ہو یا مفسد‘ غرض جو بھی ہو‘ وہ اگر کارگر انسان ہوسکتا ہے تو صرف اس صورت میں‘ جب کہ اس کے اندر ارادے کی طاقت اور فیصلے کی قوت ہو‘ عزم اور حوصلہ ہو‘ صبروثبات اور استقلال ہو‘ تحمل اور برداشت ہو‘ ہمت اور شجاعت ہو‘ مستعدی و جفاکشی ہو‘ حزم و احتیاط اور معاملہ فہمی و تدبر ہو‘ باضابطگی کے ساتھ کام کرنے کا سلیقہ ہو‘ فرض شناسی اور احساس ذمہ داری ہو‘ حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور مناسب تدبیر کرنے کی قابلیت ہو‘ اپنے جذبات و خواہشات اور رجحانات پر قابو ہو اور دوسرے انسانوں کو موہنے‘ ان کے دل میں جگہ پیدا کرنے اور ان سے کام لینے کی صلاحیت ہو۔پھر ناگزیر ہے کہ اس کے اندر وہ شریفانہ خصائل بھی کچھ نہ کچھ موجود ہوں جو فی الحقیقت جوہرِ آدمیت ہیں اور جن کی بدولت آدمی کا وقار و اعتبار دنیا میں قائم ہوتا ہے‘ مثلاً خودداری‘ فیاضی‘ رحم‘ ہمدردی‘ انصاف‘ وسعت قلب و نظر‘ سچائی‘ امانت‘ راست بازی‘ پاس عہد‘ معقولیت‘ اعتدال‘ شایستگی‘ طہارت و نظافت اور ذہن و نفس کا انضباط‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۳۵)
’’محض دماغی طور پر ہی کسی شخص کا اس تحریک کو سمجھ لینا اور اس پر صرف عقلاً مطمئن ہوجانا اس راہ میں اقدام کے لیے صرف ایک ابتدائی قدم ہے لیکن اتنے سے تاثر سے کام نہیں چل سکتا۔ یہاں تو اس کی ضرورت یہ ہے کہ دل میں ایک آگ بھڑک اٹھے‘ زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی آگ تو شعلہ زن ہو جانی چاہیے جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر ہوجاتی ہے اور آدمی کو تگ و دو پر مجبور کردیتی ہے اور چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ سینوں میں وہ جذبہ ہونا چاہیے جو ہر وقت آپ کو اپنے نصب العین کی دھن میں لگائے رکھے۔ دل و دماغ کو یکسو کر دے اور توجہات کو اس کام پر مرکوز کر دے کہ اگر ذاتی یا خانگی یا دوسرے غیرمتعلق معاملات کبھی آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچیں بھی تو آپ سخت ناگواری کے ساتھ ان کی طرف کھنچیں۔ کوشش کیجیے کہ اپنی ذات کے لیے قوت اور وقت کا کم سے کم حصہ صرف کریں اور آپ کی زیادہ سے زیادہ جدوجہد اپنے مقصدحیات کے لیے ہو۔ جب تک یہ دل کی لگن نہ ہوگی اور ہمہ تن اپنے آپ کو اس کام میں جھونک نہ دیں گے محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ بنے گا۔ پھر اگر دل کی لگن اپنے اندر نہ محسوس ہو تو اسے پیدا کرنے کی فکر کی جائے۔ جہاں دل کی لگن ہوتی ہے وہاں کسی ٹھیلنے اور اُکسانے والے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے یہ صورت حال بھی پیدا نہیں ہوسکتی کہ اگر کہیں جماعت کا ایک کارکن پیچھے ہٹ گیا یا نقل مقام پر مجبور ہوگیا تو وہاں کا سارا کام چوپٹ ہوگیا۔ بڑے بڑے اقدامات کا نام لینے سے پہلے اپنی قوتِ قلب کا اور اپنی اخلاقی طاقت کا جائزہ لیجیے اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے جس دل گردے کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر پیدا کیجیے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ دوم‘ ص۳۳-۳۶)
’’مخالف طاقتیںاپنے باطل مقاصد کے لیے جس صبر کے ساتھ ڈٹ کر سعی کررہی ہیں اس صبر کے ساتھ آپ بھی ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں۔ اس لیے اصبروا کے ساتھ صابروا کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے مقابلے میں آپ حق کی علم برداری کے لیے اٹھنے کا داعیہ رکھتے ہیں‘ ان کے صبر کا اپنے صبر سے موازنہ کیجیے اور سوچیے کہ آپ کے صبر کا کتنا تناسب ہے۔ شاید ہم ان کے مقابلے میں ۱۰ فی صد کا دعویٰ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ باطل کے غلبے کے لیے جو صبر وہ دکھا رہے ہیں‘ جب تک ان کے مقابلے میں ہمارا صبر ۱۰۵ فی صد کے تناسب پر نہ پہنچ جائے‘ ان سے کوئی ٹکر لینے کی جرأت نہیں کی جا سکتی‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۳۱-۳۲)
’عزم‘ سے مراد پختہ ارادہ‘ جب کہ ’ حُزم‘ کے معنی مستقل مزاجی کے ہیں۔ تحریکی سرگرمیوں کے استحکام‘ انضباط اور تسلسل پر بڑا گہرا اثر قائد کے عزم و حزم کا پڑتا ہے۔
اس ضمن میں پہلی چیز معاملاتِ زندگی کی تقسیم شریعت کے انطباق کے نقطۂ نظر سے ہونا چاہیے: ’’انسانی زندگی کے معاملات میں سے ایک قسم کے معاملات وہ ہیں جن میں قرآن و سنت نے کوئی واضح اور قطعی حکم دیا ہے یا کوئی خاص قاعدہ مقرر کر دیا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں کوئی فقیہہ‘ کوئی قاضی‘ کوئی قانون ساز ادارہ شریعت کے دیے ہوئے حکم یا اس کے مقرر کیے ہوئے قاعدے کو نہیں بدل سکتا۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان میں قانون سازی کے لیے کوئی مجال کار ہے ہی نہیں۔ انسانی قانون سازی کا دائرہ عمل ان معاملات میں یہ ہے کہ سب سے پہلے ٹھیک ٹھیک معلوم کیا جائے اور یہ تحقیق کی جائے کہ یہ حکم کن حالات اور واقعات کے لیے ہے۔ پھر عملاً پیش آنے والے مسائل پر ان کے انطباق کی صورتیں اور مجمل احکام کی جزئی تفصیلات طے کی جائیں اور ان امور کے ساتھ یہ بھی مشخص کیا جائے کہ استثنائی حالات و واقعات میں ان احکام و قواعد سے ہٹ کر کام کرنے کی گنجایش‘ کہاں کس حد تک ہے۔
دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جن کے بارے میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے مگر ان سے ملتے جلتے معاملات کے متعلق وہ ایک حکم دیتی ہے۔ اس دائرے میں قانون سازی کا عمل اس طرح ہوگا کہ احکام کی علتوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ان تمام معاملات میں ان کو جاری کیا جائے گا جن میں علتیں فی الواقع پائی جاتی ہیں اور ان تمام معاملات کو ان سے مستثنیٰ ٹھیرایا جائے گا جن میں درحقیقت وہ علتیں نہ پائی جاتی ہوں۔
ایک اور قسم ان معاملات کی ہے جن میں شریعت نے متعین احکام نہیں بلکہ کچھ جامع اصول دیے ہیں یا شارع کا یہ منشا ظاہر کیا ہے کہ کیا چیز پسندیدہ ہے جسے فروغ دینا مطلوب ہے اور کیا چیز ناپسندیدہ ہے جسے مٹانا مطلوب ہے۔ ایسے معاملات میں قانون سازی کا کام یہ ہے کہ شریعت کے ان اصولوں کو اور شارع کے منشا کو سمجھا جائے اور عملی مسائل میں ایسے قوانین بنائے جائیں جو ان اصولوں پر مبنی ہوں اور شارع کے منشا کو پورا کرتے ہوں۔
ان کے علاوہ ایک بہت بڑی قسم ان معاملات کی ہے جن کے بارے میں شریعت بالکل خاموش ہے۔ نہ براہِ راست ان کے متعلق حکم دیتی ہے اور نہ ان سے ملتے جلتے معاملات ہی کے متعلق کوئی ہدایت اس میں ملتی ہے کہ ان کو اس پر قیاس کیا جاسکے۔ یہ خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ حاکم اعلیٰ ان میں انسان کو خود اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کا حق دے رہا ہے۔ اس لیے ان میں آزادانہ قانون سازی کی جاسکتی ہے مگر یہ قانون سازی ایسی ہونی چاہیے جو اسلام کی روح اور اس کے اصول عامہ سے مطابقت رکھتی ہو جس کا مزاج اسلام کے مجموعی مزاج سے مختلف نہ ہو‘ جواسلامی زندگی کے نظام میں ٹھیک ٹھیک نصب ہوسکتی ہو‘‘۔ (تفہیمات‘ سوم‘ ص ۱۰-۱۲‘بحوالہ اسلام میں قانون سازی کے حدود کا ماخذ ‘مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
انسانی زندگی کے معاملات کو شریعت کے نفاذ و انطباق اور قانون سازی کے پس منظر میں ان اقتباسات میں پیش کیا گیا ہے۔ ان سے ہٹ کر جماعتی زندگی میں معاملہ فہمی بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اولاً معاملات کا صحیح فہم اور ان کو شریعت کی روشنی میں دیکھنے‘ سمجھنے اور اس کے مطابق طے کرنے کی ضرورت ہی ہمیں اُس وصف کی جانب متوجہ کرتی ہے جسے دستور جماعت میں جماعتی عہدوں اور مناصب کے لیے بیان کیا گیا ہے۔
ایک مسلمان کی قوتِ فیصلہ کا دارومدار اس کے ایمان (توحید‘ رسالت اور آخرت) کے استحضار پر ہے: ’’ایک مکمل اسلامی زندگی کی عمارت اگر اٹھ سکتی ہے تو صرف اس اقرار توحید پر اٹھ سکتی ہے جو انسان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی پر وسیع ہو‘ جس کے مطابق انسان اپنے آپ کو اور اپنی ہر چیز کو خدا کی مِلک سمجھے۔ اس کو اپنا اور تمام دنیا کا ایک ہی جائز مالک‘ معبود‘ مطاع اور صاحب امرونہی تسلیم کرے۔ اس کو ہدایت کا سرچشمہ مانے اور پورے شعور کے ساتھ اس حقیقت پر مطمئن ہوجائے کہ خدا کی اطاعت سے انحراف یا اس کی ہدایت سے بے نیازی یا اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں غیر کی شرکت جس پہلو اور جس رنگ میں بھی ہو‘ سراسر ضلالت ہے۔
یہ بھی اس وقت ہوسکتا ہے کہ آدمی پورے شعور اور پورے ارادے کے ساتھ یہ فیصلہ کرلے کہ وہ اور اس کا سب کچھ اللہ کا ہے اور اللہ ہی کے لیے ہے۔ اپنے معیار پسند و ناپسند کو ختم کر کے اللہ کی پسندوناپسند کے تابع کردے۔ اپنی خودسری کو مٹاکر اپنے نظریات‘ خیالات‘ خواہشات‘ جذبات اور اندازفکر کو اس علم کے مطابق ڈھال لے جو خدا نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔ اپنی تمام ان وفاداریوں کو دریابرد کر دے جو خدا کی وفاداری کے تابع نہیں بلکہ اس کی مدمقابل بن سکتی ہوں۔ اپنے دل میں سب سے زیادہ بلند مقام پر خدا کی محبت کو بٹھائے اور ہر اس بت کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نہاں خانۂ دل سے نکال پھینکے جو خدا کے مقابلے میں عزیز تر ہونے کا مطالبہ کرتا ہو۔ اپنی محبت اور نفرت‘ اپنی دوستی اور دشمنی‘ اپنی رغبت اور کراہیت‘ اپنی صلح اور جنگ‘ ہر چیز کو خدا کی مرضی میں اس طرح گم کردے کہ اس کا نفس وہی چاہنے لگے جو خدا چاہتا ہے اور اُس سے بھاگنے لگے جو خدا کو ناپسند ہے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۵۵-۲۵۶)
یہ ایمان باللہ جس کے اندر جتنا مضبوط ہوگا‘ اتنی ہی اس کی قوتِ فیصلہ مطابق رضاے الٰہی ہوگی۔
’’[اسلام] بنیادی انسانی اخلاقیات کو مستحکم بھی کرتا ہے اور پھر ان کے اطلاق کو انتہائی حدود تک وسیع بھی کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر صبر کو لیجیے۔ بڑے سے بڑے صابر آدمی میں بھی جو صبر دنیوی اغراض کے لیے ہو اور جسے شرک یا مادہ پرستی کی فکری جڑوں سے غذا مل رہی ہو‘ اس کے برداشت اور اس کے ثبات و قرار کی بس ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد وہ گھبرا اُٹھتا ہے‘ لیکن جس صبر کو توحید کی جڑ سے غذا ملے اور جو دنیا کے لیے نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کے لیے ہو‘ وہ تحمل و برداشت اور پامردی کا ایک اتھاہ خزانہ ہوتا ہے جسے دنیا کی تمام ممکن مشکلات مل کر بھی لوٹ نہیں سکتیں۔ پھر غیرمسلم کا صبر نہایت محدود نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ابھی تو گولیوںکی بوچھاڑ میں نہایت استقلال کے ساتھ ڈٹا ہوا تھا اور ابھی جو جذبات شہوانی کی تسکین کا کوئی موقع سامنے آیا تو نفس امارہ کی ایک معمولی تحریک کے مقابلے میں بھی نہ ٹھیرسکا۔ لیکن اسلام صبر کو انسان کی پوری زندگی میں پھیلا دیتا ہے اور اسے صرف چند مخصوص قسم کے خطرات‘ مصائب و مشکلات ہی کے مقابلے میں نہیں بلکہ ہر اس لالچ‘ ہر اس خوف‘ ہر اس اندیشے اورہر اس خواہش کے مقابلے میں ٹھیرائو کی ایک ایسی زبردست طاقت بنا دیتا ہے جو آدمی کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کرے۔
’’[اسلام] بنیادی اخلاقیات کی ابتدائی منزل پر اخلاقِ فاضلہ کی ایک نہایت شان دار بالائی منزل تعمیر کرتا ہے جس کی بدولت انسان اپنے شرف کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ اس کے نفس کو خودغرضی سے‘ نفسانیت سے‘ ظلم سے‘ بے حیائی اور خداعت اور بے قیدی سے پاک کردیتا ہے۔ اس میں خداترسی‘ تقویٰ‘ پرہیزگاری اور حق پرستی پیدا کرتا ہے۔ اس کے اندر اخلاقی ذمہ داریوں کاشعور و احساس اُبھارتا ہے۔ اس کو ضبطِ نفس کا خوگر بناتا ہے‘ اسے تمام مخلوقات کے لیے کریم‘ فیاض‘ رحیم‘ ہمدرد‘ امین‘ بے غرض‘ خیرخواہ‘ بے لوث‘ منصف اور ہر حال میں صادق‘ راست باز بنا دیتا ہے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۳۹-۲۴۰)
حدیث شریف میں ہے کہ: ’’جس شخص نے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی ذمہ داری قبول کی پھر اس نے ان کے ساتھ خیرخواہی نہ کی اور اپنے کام انجام دینے میں اپنے آپ کو اس طرح نہیں تھکایا جس طرح وہ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے خود کو تھکاتا ہے تو خدا اس شخص کو منہ کے بل جہنم میں گرا دے گا‘‘۔ (طبرانی)
حلم و بردباری کا تعلق آدابِ زندگی میں باہمی تعلقات سے ہے۔ آداب سیکھنے کا مقام گھریلو حالات‘ مدرسہ اور ماحول سے بھی ہے۔ مگر شرافت اور مجلسی آداب ‘ خاندان سے زیادہ ان اخلاقِ فاضلہ کی دین ہوتے ہیں جو بچپن سے لے کر شعوری عمر تک ایک فرد سیکھتا ہے۔
’’ہماری تحریک کا مخصوص مزاج یہ چاہتا ہے کہ جو کچھ کیا جائے اندرونی تحریک سے کیا جائے (خواہ وہ انفاق فی سبیل اللہ کا معاملہ ہو یا مجاہدہ فی سبیل اللہ کے تحت اقامت دین کے جملہ امور ہوں)۔ جس طرح ایک فرد اپنی بقا کے لیے بغیر کسی خارجی تحریک کے معدے کو غذا بہم پہنچاتا ہے اس طرح جماعت کو اپنے جماعتی معدہ‘ یعنی بیت المال کی بھوک کا خود احساس کرنا چاہیے ورنہ زندگی کی حرکت زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے گی‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ اول‘ ص ۶۹)
’’اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ارکان کو اپنی تحریک اور دوسری تحریکوں کے فرق کا پورا شعور نہیں ہے حالانکہ اس فرق کو اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک عام تحریکوں سے بنیادی اختلافات رکھتی ہے۔ اولاً یہ کہ اس کے سامنے پوری زندگی کا مسئلہ ہے‘ زندگی کے کسی ایک پہلو کا نہیں۔ ثانیاً یہ کہ خارج سے پہلے یہ باطن سے بحث کرتی ہے۔ جہاں تک پہلے پہلو کا تعلق ہے‘ ہمارے سامنے کام اتنا بڑا اور اہم ہے کہ جو اسلامی تحریک کے سوا دنیا کی کسی تحریک کے سامنے نہیں ہے‘ اور ہم اُس جلدبازی کے ساتھ کام نہیں کرسکتے جس جلدبازی سے دوسرے کرسکتے ہیں۔ پھر چونکہ ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے محض تنظیم اور محض ایک چھوٹے سے ضابطہ بند پروگرام پر لوگوں کو چلانے اور عوام کو کسی ڈھرے پر لگادینے سے ہمارا کام نہیں چلتا۔ ہمیں عوام میں عمومی تحریک (mass movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی چاہیے جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیرافکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوسرے فرائض کو سنبھال سکیں۔ (ایضاً‘ ص ۶۹-۷۱)
’’جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ ہونی چاہیے۔ سازشیں‘ جتھہ بندیاں‘ نجویٰ (convassing)‘ عہدوں کی امیدواری‘ حمیت جاہلانہ اور نفسانی رقابتیں‘ یہ وہ چیزیں ہیں جو ویسے بھی جماعتوں کی زندگی کے لیے سخت خطرناک ہوتی ہیں مگر اسلامی جماعت کے مزاج سے تو ان چیزوں کو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ اس طرح غیبت اور تنابز بالالقاب اور بدظنی بھی جماعتی زندگی کے لیے سخت مہلک بیماریاں ہیں جن سے بچنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰)
’’تحریک اسلامی اپنا ایک خاص مزاج رکھتی ہے اور اس کا ایک مخصوص طریق کار ہے جس کے ساتھ دوسری تحریکوں کے طریقے کسی طرح جوڑ نہیں کھاتے۔ جو لوگ اب تک مختلف قومی تحریکوں میں حصہ لیتے رہے اور جن کی طبیعتیںانھی کے طریقوں سے مانوس رہی ہیں‘انھیں اس جماعت میں آکر اپنے آپ کو بہت کچھ بدلنا ہوگا۔ جلسے جلوس‘ جھنڈے اور نعرے‘ یونیفارم اور مظاہرے‘ ریزرویشن اور اڈریس‘ بے لگام تقریریں اور گرما گرم تحریریں اور اس نوعیت کی تمام چیزیں ان تحریکوں کی جان ہیں مگر اس تحریک کے لیے سمِ قاتل ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۳۴-۳۵)
تحریک سے قریبی واقفیت اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے‘ نیز تحریک کے مفاد اور حیثیت عرفی کی حفاظت کے گہرے شعور سے تحریک کے مزاج شناسی کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ تحریکی جدوجہد کے دوران مصائب و آلام اورابتلا سے گزر کر تحریک سے وابستگی پختہ ہوتی ہے۔ کچے پکے لوگ ان مراحل میں حالات سے گھبرا کر راہِ فرار اختیار کرتے اور بالعموم رجعت قہقری کا منظر پیش کرتے ہیں۔
دستور جماعت کی شرائط رکنیت (دفعہ ۶‘ شق ۴) میں کہا گیا ہے کہ:’’دستور جماعت کو سمجھ لینے کے بعد عہد کرے کہ وہ اس دستور کی اور اس کے مطابق نظمِ جماعت کی پابندی کرے گا‘‘۔ دستور جماعت کی دفعہ ۲۸ شق ۱ تا ۵ فرائض و اختیارات امیرجماعت کا بیان ہے۔ یہ ان کے ’دستور جماعت کی پابندی‘ کے پہلو کو نہایت درجہ اجاگر کر دیتا ہے۔ اس طرح دیگر جماعتی اور مناصب عہدوں کے ضمن میں ان کے متعلقہ فرائض و اختیارات کو ’دستور جماعت کی پابندی‘ کے ذیل میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اختصار سے حسب ذیل فرائض و اختیارات ملاحظہ فرمائیں:
۱- نظم جماعت اور تحریک کو چلانے کی آخری ذمہ داری امیر جماعت کی ہے۔
۲- دعوت و تربیت سے متعلق امور کی انجام دہی کے لیے مجلس شوریٰ کے مشورے سے نائب امرا کا تقرر کرسکتا ہے جو اپنے فرائض و ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے اس کے (امیرجماعت) سامنے جواب دہ ہوں گے۔
۳- جماعت کی پالیسی کی تشکیل اور ان تمام اہم معاملات کے فیصلے جن کا جماعت کی پالیسی یا اس کے نظم پر قابلِ لحاظ اثر پڑے‘ انھیں مجلس شوریٰ کے مشورے سے کرنا۔
۴- امیرجماعت کے لیے لازم ہوگا کہ:
الغرض یہ کہ دستور جماعت کی پابندی اُس اقرار واثق کی یاد دہانی قول و عمل سے کراتی ہے جو ہر فردِ جماعت داخلہ کے وقت حاضرین مجلس کے روبرو اپنے خدا سے کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اقرار دستورِ جماعت کے شعوری مطالعے اور راہِ حق کی مشکلات‘ مصائب و آلام کے گہرے ادراک کے بعد ہی صحیح کیفیات کے ساتھ کیاجاسکتا ہے اور اس سے انحراف بہ سلامتی ہوش و حواس ممکن نہیں۔
یہ مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے درکار اہم صفات میں سے ہے اور صبر کے ہم معنیٰ صفت ہے:’’صبر کے بغیر خدا کی راہ میں کیا‘ کسی راہ میں بھی مجاہدہ نہیں ہوسکتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خدا کی راہ میںاور قسم کا صبر مطلوب ہے اور دنیا کے لیے مجاہدہ کرتے ہوئے اور قسم کا صبر درکار ہے۔ مگر بہرحال صبر ہے ناگزیر۔ صبرکے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ جلدبازی سے شدید اجتناب کیا جائے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے دشواریوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی جائے اور قدم پیچھے نہ ہٹایا جائے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ کوششوں کا کوئی نتیجہ اگر جلدی حاصل نہ ہو تب بھی ہمت نہ ہاری جائے اور پیہم سعی جاری رکھی جائے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ مقصد کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرات‘ نقصانات اور خوف و طمع کے مواقع بھی پیش آجائیں تو قدم کو لغزش نہ ہونے پائے‘ اور یہ بھی صبر ہی کا ایک شعبہ ہے کہ اشتعال جذبات کے سخت سے سخت مواقع پر بھی آدمی اپنے ذہن کا توازن نہ کھوئے۔ جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی قدم نہ اٹھائے۔ ہمیشہ سکون‘ صحت‘ عقل اور ٹھنڈے دل اور ٹھنڈی قوتِ فیصلہ کے ساتھ کام کرے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۳۰-۳۱)
’’ہمیں مسلسل اور پیہم سعی اور منضبط طریقہ (systematic) طور پر کام کرنے کی عادت ہو۔ ایک مدت دراز سے ہماری قوم اس طریق کار کی عادی رہی ہے کہ جو کام ہو‘ کم سے کم وقت میں ہوجائے‘ جو قدم اٹھایا جائے ہنگامہ آرائی اس میں ضرور ہو‘ چاہے مہینے دو مہینے میں سب کیا کرایا‘ غارت ہوکر رہ جائے۔ اس عادت کو ہمیں بدلنا ہوگا‘ اس کی جگہ بتدریج اور بے ہنگام کام کرنے کی مشق ہونی چاہیے۔ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی جو بجاے خود ضروری ہو‘ اگر آپ کے سپرد کردیا جائے تو بغیر کسی نمایاں اور معجل نتیجے کے اور بغیر کسی داد کے آپ اپنی پوری عمرصبر کے ساتھ اسی کام میں کھپا دیں۔ مجاہدہ فی سبیل اللہ میں ہر وقت میدان گرم ہی نہیں رہا کرتا ہے اور نہ ہر شخص اگلی ہی صفوں میں لڑسکتا ہے۔ ایک وقت کی میدان آرائی کے لیے بسااوقات ۲۵‘ ۲۵ سال تک لگاتار خاموش تیاری کرنا پڑتی ہے‘ اور اگلی صفوں میں اگر ہزاروں آدمی لگتے ہیں تو ان کے پیچھے لاکھوں آدمی جنگی ضروریات کے لیے ان چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگے رہتے ہیں جو ظاہری نظر میں بہت حقیر ہوتے ہیں‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۳۶-۳۷)
دین حق کے کامل شعور‘ تاریخ دعوت و عزیمت کے گہرے مطالعے اور توفیق الٰہی سے راہِ خدا میں جو پختگی حاصل ہوتی ہے وہ فرد کے شعوری فیصلے‘ خاندانی زندگی میں صبروتوکل اور سماجی امور میں عدل و احسان کی روش‘ فکرِآخرت اور تعلق باللہ کے استحضار سے راہِ خدا میں استقامت کا باعث بنتی ہے۔
بندگانِ خدا کو اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اس عقیدے اور نصب العین کی طرف بلانا جو تحریک کا عقیدہ و نصب العین ہے اور اپنے قول و عمل‘ رویہ و طرزعمل سے اس کی شہادت دینا ہرصاحب منصب کی ذمہ داری ہے اور اپنے مرتبہ و مقام کے مماثل اس کا حق ادا کرنا اس کا شعار ہے۔ اس کا مطالبہ ہر اس فرد سے ہے جو شعوری طور پر تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہے۔
تنظیمی صلاحیت یا ذمہ داریوں کو انجام دینے کی صلاحیت وہ مقام ہے جس کی نشوونما قائدانہ بصیرت‘ تنظیم کا مالہ‘ وماعلیہ سے قریبی واقفیت‘ لگائو‘ انہماک اور ضروری تربیت کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ لااُبالی اور سطحی مزاج کے حامل افراد جو مؤثر ترسیلی مہارت میں بھی کورے ہوں وہ کبھی اس منصب پر پہنچ جائیں تو وہ خود دوسروں کے آلہ کار بن جاتے ہیں کجا کہ تنظیمی میدان میں قائدانہ صلاحیت کا اظہار کرسکیں۔ افراد کار میں جذبہ و ایثار کو نہ اُبھار سکنا اور ان کا صحیح رخ سے محاسبہ نہ کرسکنا بھی انتظامی مہارتوں (organizational skills) کی خامی ہے۔
یہ اوصاف دستور جماعت میں امیرجماعت کے منصب کے تحت درج ہیں مگر ذمہ داریوں کے لیے بھی کم و بیش یہ اوصاف یا ان کا ابتدائی درجہ (مثلاً دینی معلومات‘ فہم دین یا علمِ دین کو علمِ کتب و سنت کا ابتدائی درجہ کہا جا سکتا ہے) دیا گیا ہے۔ آگے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں وہ اضافی طور پر مطلوب ہیں مگر یہ بھی ناگزیر ہیں جیساکہ ان کی تفصیلات سے ظاہر ہو رہا ہے۔
کسی کام کو صحیح وقت پر انجام دینا یا دلوانا ہی نظم الوقتی (time management) نہیں ہے بلکہ حالات و زمانے کا صحیح ادراک کرتے ہوئے تحریکی سرگرمیوں کو قابو میں رکھنا اس کا تقاضا ہے۔ وقت اور حالات کو اپنے قابو میں رکھنا اور وقت کا صحیح و بھرپور استعمال کرنا‘ کم وقت میں زیادہ اہمیت کے کام انجام دینا اور دستیاب اوقات کی مناسب تخمینہ سازی (budgetting) کرنا اورکسی کام کو موزوں وقت گزار کر کرنا‘ نتائج کے اعتبار سے غلط ہوتا ہے۔ اس لیے وقت پر کام کے اصول کو مدنظر رکھنا قیادت کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔
یہ کسی بھی قیادت کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔ اس سے متوسلین تحریک میں اعتماد اور مسابقت کی فضا پیدا کی جا سکتی ہے‘ بلکہ سماجی‘ ملکی اور عالمی معاملات میں پہل کرنے والی قیادت دوسری قیادتوں اور تحریکوں کو مقابلے کے میدان میں مات دے سکتی ہے۔
جماعتی ذمہ داروں اور اہلِ مناصب کے لیے مطلوبہ ’ذہنی و جسمانی و استعداد‘ کا معیار مطلوب مقرر کرنا دشوار ہے‘ تاہم عمر‘ تجربہ‘ علمی لیاقت‘ دانش ورانہ اوصاف اور ذہنی و جسمانی طور پر صحت مندی کے لحاظ سے بہترین افراد کے انتخاب کے لیے متعلقہ افراد کی ترجیحات میں یہ پہلو بہرحال پیش نظر رہنا چاہیے۔
ضعیفی میں کم و بیش تمام اعضا و قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں اور بسااوقات نسیان‘ ہذیان‘ کثرتِ گفتگو‘ ضد اور اپنی رائے پر بے جا اصرار کی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں جو جماعتی زندگی پر مضراثرات مرتب کرتی ہیں۔ شریعت میں معذورین اور مریضوں کے لیے بے شک رعایتیں اور احکام ہیں اور ثواب سے یقینا محرومی نہیں ہوگی مگر اقامتِ دین کے فریضہ کی بحسن و خوبی ادایگی میںحسنِ نیت کے ساتھ ظاہری اعمال کی خوبی بھی معیار مطلوب میں سے ہے۔ جماعت کی ہر سطح کی قیادت کے اوصاف میں اگر تجویز کے مطابق ذہنی و جسمانی صلاحیت و استعداد کے الفاظ کا اضافہ کردیا جائے تو ان کے تقرر و انتخاب کے وقت ان کا لحاظ رکھا جا سکے گا۔ استثنائی صورتوں میں بیماریوں کے باوجود جسمانی طور پر چاق و چوبند ہونے اور ذہنی طور پر چست (alert) ہونے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔
غرض یہ کہ نصب العین پر یقین‘ اصولوں پر اطمینان‘ مقاصد سے عملی وابستگی‘ جذبہ‘ باطنی اخلاص‘ ذہنی یکسوئی‘ سیرت کی بلندی اور عمل کی پاکیزگی جس تحریک کے ابتدائی درجہ کا معیارِمطلوب ہو‘ اس کی قیادت کے لیے ان امور سے بدرجہ بہتر کا انتخاب لازمی ہے بلکہ دستور جماعت میں تحریک کی قیادت کے لیے مطلوب اوصاف بیان کرنے کے بعد یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو فرد ان اوصاف میں پوری جماعت میں بہتر ہو‘ اس کے حق میں رائے دی جائے۔
حکم ربانی ہے کہ امانتوں کو ان کے مستحقین تک پہنچا دو۔ اس حکم کے دو پہلو ہیں‘ ایک یہ کہ وہ افراد جو امانتوں کی حفاظت کے لیے درکار اوصاف کے حامل ہوں‘ ان کے حوالے امانتیں کی جائیں۔ دوسرے یہ کہ کسی عہدہ و منصب کے طلب گار وہ افراد جو امانتیں حوالے کرنے کا استحقاق کھوچکے ہوں‘ ان کے حوالے کوئی امانت نہ کی جائے۔ چنانچہ مذکورہ حکم ربانی کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کی صراحت دستورِ جماعت کی ہر اس دفعہ میں موجود ہے جو جماعت کے کسی عہدہ یا منصب پر‘ تقرر یا انتخاب کے لیے رکھی گئی شرائط میں بیان کی گئی ہیں۔
قیادت کے اوصاف کے حوالے سے علامہ اقبال ؒکے ان اشعار پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ؎
نگہہ بلند‘ سخن دلنواز ‘ جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرکارواں کے لیے
علامہ نے اگر سخن دلنوازی کا معیار یہ پیش کیا ہے تو دوسری طرف اس کی عدمِ موجودگی کے عواقب و نتائج سے بھی آگاہ کر دیا ہے ؎
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ میرکارواں میں نہیں خوے دلنوازی