دسمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| دسمبر۲۰۰۵ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

مشترکہ خاندانی نظام: چند عملی مسائل

سوال: میری شادی حال ہی میں ہوئی ہے۔ ہم مشترکہ خاندانی نظام میںرہتے ہیں۔ میرے ساس سسر‘ جیٹھ جٹھانی اور دیور ساتھ ہی رہایش پذیر ہیں۔ میں چند مسائل کی وجہ سے ذہنی کش مکش سے دوچار ہوں۔

مجھے مطالعے کا شوق ہے اور فارغ وقت میں اپنے ذوق کی تسکین کا سامان کرتی ہوں۔ میری ساس چلنے پھرنے سے معذور ہیں‘ چھڑی کی مدد سے تھوڑا بہت چل سکتی ہیں۔ مگر وہ چاہتی ہیں کہ میں فارغ نہ بیٹھوں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کام میں لگی رہوں۔ ان کا انداز گفتگو بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ گھر کا کام تو مجھے کرنا ہی تھا مگر اس رویے سے ذہنی کوفت ہوتی ہے۔

گھر کے سربراہ سسر ہیں۔ ان کی اجازت سے ہی اپنے امی ابو سے ملنے جاسکتی ہوں بلکہ ساس کی خواہش ہوتی ہے کہ میں ہی گھر کا کام کاج کروں۔ پھر صبح جاکر شام کو لازماً واپس آنا ہوتا ہے۔ والدین کے گھر ٹھیرنے کی اجازت نہیں‘ جب کہ گھر ایک ہی شہر میں ہے۔ اگر کبھی میرے شوہر خریداری یا سیر کے لیے اپنے ہمراہ لے جائیں تو اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔ اس بات سے مجھے شدید ذہنی کوفت ہوتی ہے کہ میں شوہر کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ سسرال والوں کی خدمت کے لیے لائی گئی ہوں۔ گویا بیوی نہ ہوئی‘ گھر میں موجودہ سسرالی رشتہ داروں کی زرخرید لونڈی ہوئی۔

میری خواہش ہے کہ میں اپنے خاوند کی خدمت کروں‘ ان کی پسند کے مطابق خود کھانا بنائوں‘ ان کے لیے آزادی سے تیار ہو سکوں‘ مجھے اتنی آزادی تو میسر ہو جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایک شادی شدہ جوڑے کو دی ہے‘ اور جو ایک عورت کا حق ہے۔ لیکن ساتھ رہتے ہوئے اور جیٹھ اور دیور کی موجودگی میں تو ایسا کرنا عملاً ممکن نہیں۔ پھر اگر گھر الگ لینے کی بات کی جائے تو ساس سسر ناراض ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ تمام بچوں کو اپنے ساتھ ہی رکھیں۔ کیا ایک بیٹا جس کے لیے ممکن بھی ہو‘ الگ گھر میں نہیں رہ سکتا‘ جب کہ دوسرے بھائی والدین کے ساتھ رہ رہے ہوں؟

شادی تو گھر کے سکون اور میاں بیوی کی خوشی و مسرت کے لیے کی جاتی ہے۔ ایسے مشترکہ خاندانی نظام کا کیا فائدہ جو دلوں میں رنجشیں پالنے اورہمہ وقت ذہنی تنائو کا سبب بنے اور انسان کو ذہنی مریض بناکر رکھ دے۔ اسلام میں تو اس کا کوئی تصور نہیں۔ میرے مسئلے کو حقیر نہ جانیے گا‘ بہت سے گھرانے اس سے دوچار ہیں۔

جواب :آپ نے اپنے سسر اور ساس صاحبہ کے حوالے سے مشترکہ خاندان کے نظام کی بعض مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہمارے بیش تر معاشرتی مسائل کا سبب بزرگوں اور نوجوانوں کا دینی تعلیمات سے کم آگاہ ہونا یا بالکل لاعلم ہونا ہے۔ ہمارا معاشرہ تاریخی طور پر جن ادوار سے گزرا ہے ان کے نتیجے میں بہت سی مقامی روایات معاشرتی تحت الشعور سے چسپاں ہوکر رہ گئی ہیں اور نام نہاد مشرقیت کے پرستار اپنے ان تعصبات سے قطعاً لاعلم نظر آتے ہیں۔

ایک بنیادی بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ شادی کے نتیجے میں دو مختلف گھرانے ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ مختلف ماحول‘ مختلف مزاج‘ رہن سہن اور معاشرت کے فرق کی بنا پر ایڈجسٹمنٹ میں مشکلات کا سامنا ہونا فطری امر ہے۔ بہو کو اس نفسیاتی پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ والدہ کے لیے بیٹا ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ بہو کے آنے سے بیٹے کی توجہ بٹتی ہے۔ اگرچہ والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بیٹے سے وہ پہلے والی توجہ ملنا عملاً محال ہے‘ تاہم بہو کو اس نفسیاتی امر کے پیش نظر حکمت‘ صبروتحمل اور وسعت قلبی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر یہ پہلو ابتدا ہی سے پیش نظر رہے اور مشکلات کا کچھ اندازہ ہو تو بتدریج مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر شادی کے ابتدائی ایام یا چند ماہ کے بعد ہی توقعات کے پورا نہ ہونے یا ہم آہنگی نہ ہونے کی بناپر بہت زیادہ پریشان ہوجانا یا بہتری کے حوالے سے مایوس ہوجانا بھی مناسب نہیں۔ ہمت و حوصلے‘ تدریج اور حکمت سے یہ مسائل کافی حد تک حل ہوسکتے ہیں۔

آپ نے جو نکات اٹھائے ہیں ان کے حوالے سے جواب اختصار کے ساتھ عرض ہیں:

  • ساس اور سسر کی بزرگی اور ان کے بمنزلہ والدین ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ محبت و شفقت کا مظاہرہ کریں‘ نئی نویلی دلھن کو بھرپور محبت دیں‘ اس کی پسند وناپسند کا خیال رکھیں تاکہ اسے ایڈجسٹ ہونے میں آسانی ہو‘ نہ کہ وہ اپنے اس استحقاق کی بنا پر اپنی عاقل بالغ اولاد کو ان کے معاشرتی حقوق سے محروم کر دیں۔ بلاشبہہ ایک بیٹے اور بہو سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر کے بزرگوں کا احترام کریں‘ محبت و الفت کے ساتھ ان سے پیش آئیں‘ اور جس حد تک ممکن ہو ان کی خدمت اور ان کی خوشی کو مقدم رکھیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ نہ اپنے احباب کے ہاں جاکر کھانا کھا سکیں اور نہ گھر کی دلھن اپنے والدین کے ہاں رات گزار سکے۔ ساس اور سسر کا اپنی بہو کو ان حقوق سے محروم کرنا زیادتی ہے‘ خلافِ حکمت ہے اور دُوری کا سبب بنتا ہے۔
  • عموماً والدین کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ان کے بیٹے اور ان کی بہو ان کے ساتھ رہیں۔ یہ کوئی ناجائز خواہش نہیں ہے بالکل فطری بات ہے۔ لیکن اسلام جو دین فطرت ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ اس فطری خواہش کی تکمیل کے لیے ایک فطری ماحول پیدا کیا جائے‘ یعنی اپنے بیٹے اور بہو کو ایک دوسرے کے لیے لباس کی مانند ہونے کی بنا پر [جو قرآن کریم کا فرمان ہے] تنہائی اور آزادی فراہم کی جائے۔ اگرچہ الگ کمرے کی گنجایش تو موجود ہے مگر انھیں محض ایک کمرے میں بند کر دینا اسلامی تصور معاشرت کے منافی ہے‘ جب کہ الگ گھر بھی لیا جا سکتا ہو۔

والدین کو عام طور پر گھروں میں ایک سے زائد لڑکے اپنی بیویوں کے ساتھ رکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اگر وہ واقعی ایسی خواہش رکھتے ہیں تو پھر ایک شادی شدہ جوڑے کو اپنے گھر میں اتنی مکانیت فراہم کریں کہ ان کا بیٹا اور بہو آزادی کے ساتھ محض سونے کے کمرے میں نہیں گھر کے دوسرے حصوں میں بھی بے تکلف مل جل سکیں‘ اپنی پسند کا لباس اور غذا استعمال کرسکیں۔ یہ اسلام کے اصولوں کے ساتھ ایک مذاق ہے کہ گھر میں دیور اور جیٹھ بھی موجود ہوں اور بہو سے کہا جائے کہ وہ پورے سنگھار کے ساتھ مشترکہ مجلس میں کھانا کھائے‘ چائے پیے وغیرہ‘ یا یہ کہا جائے کہ وہ ہر وقت عام لباس کے اوپر لبادہ پہن کر اور سوائے چہرے کے اپنے تمام جسم کو ڈھانک کر گھر میں چلے پھرے۔ اسلام کے دیے ہوئے بنیادی حقوق میں جو قرآن و سنت نے دیے ہیں اس قسم کا مطالبہ کرنا دین میں مشکلات پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ چند لمحات کے لیے کسی مخصوص صورت حال میں اگر ایسا کرلیا جائے تو اسے گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ معمول بنا لیا جائے کہ اپنے دیور اور جیٹھ کے ایک ہی مکان میں رہنے کے سبب ایک لڑکی کو مسلسل لبادے میں رہنا پڑے تو یہ اس کے ساتھ بہرحال زیادتی ہے۔ اگر ساس اور سسر اپنے گھر میں ایسی فضا پیدا نہیں کرسکتے تو پھر انھیں اپنے بیٹے اور بہو کے الگ گھر میں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ خود اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے۔ سنت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ سیدہ فاطمہؓ اور حضرت علیؓ اپنے الگ مکان میں رہے۔

  • اگر آپ کے شوہر کو کوئی ملازمت ایسی مل جاتی ہے جس کے بعد آپ الگ مکان میں رہ سکیں لیکن وقتاً فوقتاً اپنی ساس اور سسر سے ملاقت کر سکتی ہوں تو سب سے بہتر ہے۔ اگر ان کا بڑا بیٹا ان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے تو انھیں آپ کے الگ رہنے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
  • یہ خیال بھی بے بنیاد ہے کہ ایک بیوی کا بنیادی مقصد اور فائدہ یہ ہے کہ اس طرح لذیذ کھانے اور تازہ اور گرم روٹی یا حسبِ خواہش عمدہ قسم کی چائے مل جاتی ہے۔ ایسے ہی یہ خیال بھی غلط ہے کہ اس کا مصرف گھر کے برتن دھونا یا کپڑوں پر استری کرنا یا کمروں میں صفائی ستھرائی کے ساتھ اندرونی زیبایش کرنا ہے۔ یہ سارے کام ایک بہت کم تنخواہ پر رکھے ہوئے باورچی یا ملازمہ سے بھی کرائے جا سکتے ہیں۔ شادی تو ایک ایسا مقدس بندھن ہے‘ قول و قرار اور پایدار رشتہ ہے جو الفت و محبت‘ ایک دوسرے کی خیرخواہی‘ خوشی و مسرت اور سکون کا باعث ہے نہ کہ توہین اور تضحیک و تذلیل کا ذریعہ۔ لہٰذا اگر کوئی بہو یہ سارے کام اپنی خوشی سے کرتی ہے تو یہ اس کا اپنے شوہر کے ساتھ ایک حسنِ سلوک ہے۔ شریعت نے اُس سے صرف ایک مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کے ناموس کی حفاظت کرے اور اس کے لیے سکون کا باعث ہو۔ اسے یہ حق دیا گیا ہے کہ اپنے شوہر کے وسائل کی مناسبت سے مختلف کاموں کے لیے وہ خدمت گار کا مطالبہ کرسکے۔ ہاں‘ اگر باہمی رضامندی اور بلا کسی دبائو کے وہ گھر کا کوئی کام کرتی ہے تو اس کی اس خدمت کو تسلیم کرنا ایک اخلاقی فریضہ ہے۔
  • اپنے شوہر کے ساتھ ایک بیوی اگر دو منٹ نہیں کئی دن کے لیے بھی کہیں جاتی ہے تو یہ اس کا اسلامی بنیادی حق ہے۔ ہاں‘ اگر وہ ایسا کرتے ہوئے اپنے ساس سسر کو بے یارومددگار چھوڑتی ہے‘ جب کہ ضعیفی کی بنا پر انھیں امداد کی ضرورت ہو تو ایسا کرنا درست نہیں ہوگا کیوں کہ ان کا حق اولاد پر یہ ہے کہ جب وہ ضعیف ہوں تو وہ انھیں تقویت دے۔
  • ساس سسر کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ بجاے اپنی بزرگی کے ڈنڈے کو استعمال کرنے کے محبت کے ساتھ اپنی بہو سے پیش آئیں تاکہ گھر میں اتحاد و تعاون کی فضا میں اضافہ ہو۔ بہو جو کام کرے‘ اس پر جائز تعریف میں بخل سے کام نہ لیں۔ اسی طرح بہو کو بھی ساس سسر کے بزرگی کا احترام کرتے ہوئے معاملات کو افہام و تفہیم سے سلجھانا چاہیے۔ سب سے اہم ذمہ داری بیٹے یا شوہر کی ہے کہ وہ دونوں طرف توازن رکھنے کی کوشش کرے اور اس کی بیوی کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ وہ تنہا ہے۔ اگر کہیں مسائل حل نہ ہوپائیں تو خاندان کے ایسے بزرگوں سے مشورہ کرنا چاہیے جن کی بات سنی جاتی ہو اور جو مسئلے کو سلجھا سکیں۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے حقوق و فرائض کا تعین کرکے معاملات و مسائل کو احسن انداز میں حل کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر دی ہے۔ ضرورت خوفِ خدا اور آخرت کی جواب دہی کے احساس‘ صبروتحمل‘ سوجھ بوجھ‘ حکمت اور  ہمدردی و خیرخواہی اور احسان کے جذبے سے معاملات کو لے کر چلنے کی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)