دسمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

زلزلے کے بعد…!

قاضی حسین احمد | دسمبر۲۰۰۵ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کا زلزلہ اپنے ساتھ عبرت کا بہت سارا سامان لے کر آیا۔ اس عظیم سانحے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آزاد کشمیر کی ایک خاتون نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ جس گھر کی ایک ایک چیز کو میںنے بڑے پیار سے مدتوں میں سجایا تھا مجھے ایسا لگا کہ اس کی دیواریں میرا پیچھا کررہی ہیں۔ جب میں کمرے کی ایک دیوار سے بچنے کے لیے بھاگی تو دوسری اور تیسری دیوار بھی میرے اوپر گرنے لگی اور بڑی مشکل سے میں جان بچاکر جب باہر نکلی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں ساری عمر ایک سراب کے پیچھے بھاگتی رہی۔ یوں دنیا کی زندگی کی حقیقت میرے اوپر کھل گئی کہ یہ آزمایش کے چند دن ہیں اور اللہ راحت و آسایش اور تکلیف و مصیبت دونوں میں ہمیں آزماتا ہے کہ ہم کیا طرزعمل اختیار کریں۔

کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً ط وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ o (انبیا ۲۱:۳۵)

ہر جان دار کو موت کا مزا چکھنا ہے‘ اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَا ط (الحدید ۵۷:۲۲)

کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمھارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (یعنی نوشتۂ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو۔

زندہ اور بیدار اور حقیقت شناس لوگوں کی یہ نشانی ہے کہ وہ سخت مصیبت اور المناک سانحوں کے مواقع پر بھی اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہیں اور مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس مصیبت سے نکلنے کی تدابیر سوچتے ہیں اور ان تدابیر پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو زلزلے کے شدید نقصانات کے وقت بھی حوصلہ دیا‘ کچھ بندوں نے ہمت کر کے لاشوں اور زخمیوں کو ملبے سے نکالنے‘ فوت ہونے والوں کا جنازہ پڑھنے‘ انھیں دفنانے اور زخمیوں کا علاج کرنے کا کام فوری طور پر شروع کر دیا۔ بالاکوٹ‘ باغ اور مظفرآباد میں یہ کام فوری طور پر جماعت اسلامی‘ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت الدعوۃ کے کارکنوں نے شروع کیا۔ حزب المجاہدین کے کارکن اور پیما (پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن) کے کارکن جو موقع پر موجود تھے فوری طور پر سرگرم عمل ہوگئے۔ بعض اللہ کے بندے اپنے بیٹے بیٹیوں اور والدین کی تدفین سے فارغ ہو کر فوری طور پر اس خدمت میں لگ گئے۔ انھوں نے عزم و ہمت کی لازوال کہانیاں نقش کیں۔

بالاکوٹ کے ۸۲سالہ بزرگ رکن جماعت حاجی غلام حبیب کی پوری تیسری نسل اللہ کو پیاری ہوگئی۔ پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں سب رخصت ہوگئیں لیکن انھوں نے بچے ہوئے لوگوں کی خدمت کے لیے کمر کس لی۔ امیرجماعت اسلامی ضلع باغ‘ عثمان انور صاحب اپنی والدہ اور بیٹی دونوں کی نماز جنازہ اور تدفین کے بعد ریلیف کیمپ میں حاضر ہوگئے۔ مظفرآباد کے شیخ عقیل الرحمن صاحب اپنے بیٹے اور چودھری ابراہیم صاحب اپنی جوان بیٹی کی تدفین سے فارغ ہوکر ریلیف کیمپ کے انتظامات میں لگ گئے۔

مظفرآباد میں پیما کے ڈاکٹر محمد اقبال اپنے بہت سے قریب ترین رشتہ داروں کا غم سینے میں دبائے ہوئے فوری طور پر خیموں کے نیچے ہسپتال قائم کرنے اور زخمیوں کے آپریشن کرنے کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے مظفرآباد سے سٹیلائٹ ٹیلی فون کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے ساتھیوں کو بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی سے آگاہ کیا اور انھیں فوری طور پر مدد کے لیے پہنچنے کا پیغام دیا۔ مصیبت کی گھڑی کے دلخراش واقعات سامنے آئے۔ انھوں نے کہا کہ ایک عورت کو ملبے کے ایک بڑے سلیب کے نیچے سے زندہ نکالنے کے لیے انھیں آری سے اس کا ہاتھ کاٹنا پڑا۔ جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے سابق امیر عبدالرشید ترابی کے خاندان کے ۲۲افراد اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن وہ ہمہ تن اور مجسم خدمت بن گئے۔ جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں اسلامی جمعیت طلبہ‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن‘اسلامی جمعیت طالبات‘ حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان‘ پاکستان انجینیرز فورم‘ تنظیم اساتذہ پاکستان‘ شباب ملّی اور دوسری دینی جماعتوں جماعت الدعوۃ‘ الرشید ٹرسٹ‘ ایدھی فائونڈیشن نے پوری پاکستانی قوم کی نمایندگی کی۔ پاکستان بھر کے عوام نے زخمیوں کے علاج اور زلزلے میں بچنے والے بے خانماں اور بے سروسامان لوگوں کی مدد کے لیے جس جوش و جذبے کا اظہار کیا ان تنظیموں نے اسی جوش و جذبے کو ایک مثبت سمت عطا کی اور امداد کو مستحقین تک پہنچانے کا قابلِ اعتماد وسیلہ بن گئے۔

زلزلے کے چند لمحوں کے اندر آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے پانچ اضلاع میں حکومت کا پورا ڈھانچا مفلوج ہوگیا۔ سرحدوں پر متعین اور کیمپوں میں مقیم فوج کے اوپر قیامت ٹوٹ پڑی۔ انتظامیہ اور فوج میں یہ سکت نہیں رہی کہ وہ کسی کی مدد کو پہنچ سکیں۔ آزاد کشمیر کے صدر اور وزیراعظم کی رہایش گاہیں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئیں۔ پولیس کا سارا نظام تتربتر ہوگیا۔ ایسے عالم میں جماعت اسلامی کا منظم نیٹ ورک بروے کار آیا اور اچانک سانحے سے پیدا ہونے والے خلا کو اس نے پُرکردیا۔

اس سانحے نے کچھ خدشات اور اہم سوالات کو جنم دیا۔ آزاد کشمیر میں متعین فوج سرحدوں کی نگرانی کے لیے متعین ہے۔ یہ فوج چھائونیوں میں مقیم فوج کی طرح نہیں ہے بلکہ مورچہ بند (deployed army) ہے۔ اس کی گھڑی گھڑی کی خبر فوج کے ہائی کمان کو ہونی چاہیے اور فوجی ماہرین کے کہنے کے مطابق زلزلے میں فوج پر جو بیتی اس کی خبر پوری فوج کے تمام متعلقہ حلقوںتک زیادہ سے زیادہ دو گھنٹوں میں پہنچنی چاہیے تھی لیکن فوجی ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان صاحب سانحے کے ۹ گھنٹے بعد انٹرویو میں کہتے ہیں کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسین صاحب کہتے ہیں کہ میڈیا والے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں‘ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۴۰‘ ۵۰ تک ہے۔ کیا فوجی حکمران بے خبر تھے یا یہ ان کی پالیسی تھی؟ دونوں صورتیں عوام کو گہری تشویش میں مبتلا کرنے والی اورافواج پاکستان کی قیادت کے بارے میں بے اعتمادی پیدا کرنے والی ہیں۔ وزیراطلاعات   شیخ رشیداحمد نے بھی کہا کہ میڈیا نقصانات کو بڑھا چڑھ کر پیش کر رہا ہے۔

جنرل پرویز مشرف بیرونی امداد کے بارے میں متضاد بیانات دیتے رہے۔ انھوں نے ابتدائی دنوں میں بیرونی امداد کے بارے میں اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ کافی امداد پہنچ گئی ہے‘ جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل چیخ رہے تھے: نقصانات کا اندازہ سونامی سے زیادہ ہے اور امداد کی فراہمی قطعی ناکافی ہے۔ بعد کے دنوں میں خود جنرل پرویز مشرف بھی کہنے لگے کہ      بین الاقوامی برادری اور دولت مند ممالک نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ اس تضاد بیانی سے بھی فوجی حکمرانوں کی نااہلی جھلکتی ہے۔

زلزلے کی مصیبت پر ۱۰‘ ۱۵ دن گزرنے کے بعد بھی ایسے گوشے موجود تھے جہاں تک فوج کے افراد نہیں پہنچ سکے۔ افواج پاکستان کے ذمہ دار افراد کا کہنا ہے کہ فوج کو جب مارچ کا حکم دیا جاتا ہے تو تیسرے دن اسے تمام مقامات تک پہنچنا چاہیے خواہ وہ کتنے ہی دُور دراز اور دشوارگزار کیوں نہ ہوں۔ دسویں روز تک دُور دراز مقامات تک نہ پہنچ سکنا بھی تشویش ناک ہے۔

حکومتی میڈیا نے اسلامی ممالک خاص طور سے سعودی عرب‘ ترکی اور متحدہ عرب امارات کے فیاضانہ اور فراخ دلانہ تعاون کو کماحقہ اُجاگر نہیں کیا حالانکہ اس موقع پر اُمت مسلمہ نے اپنے ایک جسدِواحد ہونے کا ثبوت فراہم کیا اور نہ صرف حکومتوں نے بلکہ مسلم عوام نے پاکستانی عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ زلزلے کے پہلے ہی ہفتے میں مصر‘ ملایشیا‘ سنگاپور‘ انڈونیشیا‘ ترکی‘ افغانستان‘ سوڈان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ برطانیہ اور امریکا سمیت دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان ڈاکٹروں کے وفود زلزلہ زدہ علاقے میں پہنچ گئے۔ چارٹرڈ طیاروں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ادویات‘ خیمے اور کمبل پہنچ گئے لیکن اسلامی ممالک کی امداد کو اجاگر کرنے کے بجاے حکومت اور میڈیا اسرائیل اور بھارت سے امداد کی پیش کش کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے حالانکہ عملاً اسرائیل سے کوئی مدد نہیں پہنچی اور بھارت کی امداد بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔

دنیابھر کے مسلمانوں نے جس طرح پاکستانی مسلمانوں کے دکھ درد کو محسوس کیا اس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کی جھلک نظر آئی‘ جس میں آپؐ نے فرمایا:

اہلِ ایمان تمھیں آپس میں ایک دوسرے سے ایسی محبت کرنے والے‘ ایسے رحم کرنے والے‘ ایسے پیار کرنے والے نظر آئیں گے جیسے ایک جسدواحد ہوں جس کے ایک عضو کو جب کوئی گزند پہنچتی ہے تو پورا جسم اس کے لیے بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

ہمارے ملک کے سیکولر حکمران اور لادین طبقہ مغرب کی دوستی کے شوق میں اور اسلامی نظریۂ حیات سے جان چھڑانے کے لیے مسلسل کہہ رہا ہے کہ اُمت کہاں ہے؟ where is Ummah?

اس موقع پر اُمت نے ثابت کیا کہ وہ موجود ہے‘ زندہ جسم کی مانند ہے اور ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتی ہے۔ مجھے سوڈان‘ مصر‘ ترکی‘ ملیشیا‘ ایران اور دوسرے اسلامی ممالک کے وفود کے ممبران نے کہا کہ ہمارے ممالک میں عوام کا ردعمل اس طرح سامنے آیا جیسے ان کے اپنے ملک کے اندر یہ آفت نازل ہوئی ہے‘ اور اگر باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت متاثرین کی بحالی کے لیے ان ممالک کے عوام سے مدد مانگی جائے تو لوگ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔

زلزلے کے ابتدائی ایام میں خیموں کی شدید کمی تھی اور بیرون ملک سے خیمے پہنچانے کی اپیل کی جا رہی تھی۔ فوج کے باخبر حلقوں کے کہنے کے مطابق پاکستان میں فوج کے افراد کی تعداد تقریباً ۶ لاکھ ہے۔ اس تعداد کے لیے ہر ۱۲ افراد پر ایک خیمہ‘ یعنی ۵۰ ہزار خیمے ہر وقت سٹور میں موجود رہنے چاہییں۔ ۲۰ ہزار فوجی افسران کے لیے ایک بڑا خیمہ اور ایک چھوٹا خیمہ فی افسر دوخیموں کے حساب سے ۴۰ہزار خیمے مزید موجود رہنے چاہییں۔ ان کے علاوہ ریزرو کے حساب سے جوانوں اور افسروں کے لیے مزید ۴۰ ہزار خیمے ہونے چاہییں۔ اس طرح تقریباً ڈیڑھ لاکھ خیمے فوج کے سٹور میں موجود ہونا چاہییں تھے تاکہ اگر جنگ کے موقع پر کسی وقت فوج کو نکلنے کا حکم ملے تو وہ فوری طور پر میدان میں خیمہ زن ہوسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مصیبت کے وقت یہ خیمے کہاں تھے؟

حکومتی میڈیا پر دینی جماعتوں کے کارکنوں کی خدمات کو نظرانداز کیا گیا۔ بعض سیکولر گروہوں کی معمولی امداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا‘ حالانکہ لوگوں کے جذبۂ خدمت کو مہمیز دینے کے لیے ضروری تھا کہ جو لوگ رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور دُوردراز‘ دشوارگزار علاقوں تک پہنچ کر خیمے‘ گرم کپڑے‘ کمبل اور خوراک کا سامان پہنچا رہے ہیں ان کی خدمات کو زیادہ اُجاگر کیا جاتا۔ فوج کے افراد تو جو خدمت سرانجام دے رہے ہیں وہ اپنے فرض منصبی کے تحت اس کے لیے مامور ہیں اور اس کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ اگرچہ فرض منصبی کو ادا کرنا بھی قابلِ ستایش ہے لیکن ان سے زیادہ قابلِ ستایش وہ لوگ ہیں جو خالص اللہ کی رضا اور مخلوق کی خدمت کے جذبے کے تحت گھربار چھوڑ کر بغیر کسی دنیاوی اجر اور معاوضے کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن فوجی حکمرانوں نے اس مصیبت کو بھی اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور قوم کی خدمت کے جذبے کو سراہنے میں کوتاہی برتی۔

۸ اکتوبر کے زلزلے کے وقت مَیں پشاور میں اپنے مکان کے ایک کمرے میں تھا۔ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے کے بعد میں کھلے صحن میں نکلا۔ میرے بیٹے انس فرحان بھی اپنے چھے ماہ کے بیٹے اسامہ اور اپنی بیوی کے ہمراہ صحن میں آگئے۔ زلزلہ گزر جانے کے بعد جب ہم واپس کمرے میں آئے تو میرے بیٹے کی زبان سے نکلا کہ نہ جانے یہ زلزلہ کہاں کہاں کتنی تباہی لے کر آیا ہوگا۔ زلزلے کے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ ان کی تشویش بجا تھی۔ چند منٹ بعد اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کی خبر پورے ملک میں پھیل گئی۔ میں بھی پشاور سے اسلام آباد آگیا۔ مارگلہ ٹاور جانے سے پہلے مجھے اطلاعات مل چکی تھیں کہ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے وسیع علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ زلزلے کے دو گھنٹے بعد صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ اکرم خان درانی اور سینیروزیر سراج الحق   ہیلی کاپٹر پر زلزلہ زدہ علاقوں کے دورے پر تھے۔ سراج الحق صاحب نے وسیع علاقوں میں زلزلے سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورت حال سے آگاہ کیا۔ مظفرآباد سے اگلے روز پیر صلاح الدین صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ دریاے نیلم کے دونوں جانب پہاڑ ٹوٹ کر دریاے نیلم میں گرے ہیں اور اس نے تقریباً ۲۴ گھنٹے تک دریاے نیلم کے پانی کے سامنے بند باندھے رکھا ہے۔ فوج کا نثار کیمپ ملبے میں تبدیل ہوگیا ہے اور تقریباً ۳۰۰ فوجی اس کے نیچے دب گئے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم ہائوس کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے۔ اسکول‘ کالج‘ یونی ورسٹی‘ ہسپتال اور سرکاری عمارتیں سب زمیں بوس ہوگئی ہیں۔ مظفرآباد شہر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ صورت حال کا جائزہ لینے اور فوری امدادی کارروائیوں کے لیے ۹ اکتوبر کو منصورہ میں جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس منعقد ہوا۔ کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان صاحب کو امدادی کارروائیوں کی مہم کا انچارج بنا دیاگیاجو پیرانہ سالی کے باوجود خدمت اور محنت کی علامت ہیں۔ ملک بھر سے برادر تنظیموں اور جماعت کی اعلیٰ قیادت کا ایک اجلاس ۱۰ اکتوبر کو اسلام آباد میں بلا لیا گیا۔

چونکہ زلزلے کی وجہ سے پورے علاقے کے ہسپتال منہدم ہوگئے تھے اور جو باقی بچے تھے ان میں بھی دراڑیں پڑگئی تھیں اور مسلسل جھٹکوں کی وجہ سے ان کے اندر کام ممکن نہیں تھا‘ اس لیے ’پیما‘ کے ڈاکٹروں نے جماعت اسلامی اور الخدمت کے کارکنوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کے تعاون سے فوری طور پر ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ بالاکوٹ‘ بٹ گرام‘ مظفرآباد‘ باغ اور راولاکوٹ میں خیموں کے اندر عارضی ہسپتال قائم کر دیے تھے۔ سرکاری اور فوجی ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے بھی عارضی طور پر انھی ہسپتالوں میں کام شروع کر دیا تھا۔

۱۰ اکتوبر کے اجلاس میں راولپنڈی اسلام آباد میں مرکزی کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ڈاکٹرحفیظ الرحمن‘ سید بلال اور نورالباری کو ان کا انچارج مقرر کیا گیا۔ مانسہرہ اور مظفرآباد میں صوبہ سرحد اور آزادکشمیر کے لیے دو ذیلی کیمپ بنا دیے گئے۔ مانسہرہ کے کیمپ کے ذیلی کیمپ بالاکوٹ‘ ایبٹ آباد‘ بٹگرام‘ الائی‘ تھاکوٹ‘ کوائی‘ پارس‘ شانگلہ اور بشام سمیت تقریباً ۳۰ مقامات پر بنا دیے گئے‘ جب کہ مظفرآباد کے علاوہ باغ اور راولاکوٹ میں بھی بڑے مرکزی کیمپ اور آزادکشمیر کے چپے چپے تک امداد پہنچانے کے لیے کارکنوں کی ٹیمیں متعین کر دی گئیں۔ جماعت اسلامی کے تقریباً ۱۰ہزار کارکنوں نے ان کیمپوں میں شب و روز ڈیوٹی دی اور ہماری خدمت کی شناخت کو مستحکم کیا۔

اللہ کا شکر ہے کہ ان خدمات کا اعتراف ہر اس ادارے اور ہر فرد نے کیا جس نے ان علاقوں کو دیکھا یا دورہ کیا۔ قبائلی علاقوں سے مرکزی وزیر ڈاکٹر جی جے (گلاب جمال) قومی اسمبلی میں میری نشست پر آئے اور کہا کہ انھوں نے ۱۵ روز تک متاثرہ علاقے کا دورہ کیا ہے اور جہاں بھی سڑک کھلی ہے وہاں پہنچ گئے‘ اور انھوں نے دیکھا کہ جہاں بھی وہ گئے الخدمت فائونڈیشن کے کارکن ان کے جانے سے پہلے وہاں موجود تھے اور خدمت میں ہمہ تن مصروف تھے اور پورے علاقے سے مکمل طور پر باخبر اور آگاہ تھے اور لوگوں کی اور امداد کرنے والوں کی مدد اور رہنمائی کررہے تھے۔

جنرل حمیدگل صاحب نے مجھے لکھا کہ انھوں نے الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کی برادر تنظیموں کی تنظیم اور خدمت کے جذبے کا مشاہدہ متاثرہ علاقے میں خود پہنچ کر کیا ہے اور انھیں یقین ہے کہ جماعت ملک میں بڑے سماجی انقلاب کی قیادت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک خط میں آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کے رہنما نے جماعت کے کارکنوں کے جذبۂ خدمت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور آڑے وقت میں مدد کے لیے آنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔ ملک بھر کے انصاف پسند کالم نویسوں نے جماعت کی خدمات کا اعتراف کیا ہے اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر بعض لوگوں کو ناجائز طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور دوسروں کی خدمات کو نظرانداز کرنے کے مجرمانہ فعل پر ان کا ضمیر ملامت کر رہا ہے لیکن دبائو کے تحت یہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔

اس سے یہ خطرناک حقیقت واضح ہوگئی کہ میڈیا کے اس دور میں عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کے بجاے میڈیا حقائق کو چھپانے اور خلافِ حقیقت تصویر بنانے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے‘ یعنی یہ معلومات (information) کے بجاے غلط معلومات (disinformation) کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس لیے معاشرے کے ذمہ دار افراد کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور درست معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن کریم میں خبردار کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ o (الحجرات۴۹:۶)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب تمھارے پاس ایک ناقابل اعتماد شخص کوئی خبر لے کر آئے تو پوری طرح تحقیق کرلیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ بے خبری اور غلط معلومات کی بناپر تم کسی گروہ کو نقصان پہنچا دو اور پھر اپنے ہی کیے پر نادم ہو جائو۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بڑے سانحے کے موقع پر نہ صرف حکومتی الیکٹرانک میڈیا بلکہ بعض پرائیویٹ نیوز چینل بھی امدادی کارروائیوں کی حقیقی صورت حال کو نمایاں کرنے میں ناکام رہے جس سے نہ صرف خدمت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی بلکہ عوام کی غلط رہنمائی کی گئی اور انھیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح ان اداروں نے اپنی ساکھ کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا کیونکہ حقائق تو بالآخر لوگوں کے سامنے آہی جاتے ہیں۔

امدادی کارروائیوں میں تاخیر سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پوری قوم میں فوج سمیت ہنگامی صورت حال سے نبٹنے کے لیے نہ کوئی ادارہ ہے نہ کوئی لائحہ عمل (working plan) تیار ہے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد کے مرکزی شہر میں مارگلہ ٹاور جیسی بڑی عمارت زمین بوس ہوگئی۔ پرویز مشرف اور وزیراعظم سمیت بڑی بڑی شخصیات دو تین روز تک تماشے کے لیے آتے رہے اور ملبہ اٹھانے کے لیے فقط کرایہ کے دو بلڈوزر اور کچھ رضاکار موجود تھے۔ آخری چارئہ کار کے طور پر بیرون ملک سے زندگی کے بچے کھچے آثار معلوم کرنے کے لیے کچھ کارکن آلات اور تربیت یافتہ کتے لے کر آئے جن کی مدد سے چند افراد کو زندہ نکالا جاسکا۔ اگر حکومت کے پاس کوئی Disaster Management Planموجود ہوتا تو اسلام آباد کے اندر ہی مارگلہ کے پہاڑوں میں کام کرنے والے ہزاروں ماہر مزدوروں اور پہاڑ کو کاٹنے کا کام کرنے والے ٹھیکے داروں اور ان کے پاس مہیا مشینری کی مدد سے پورے مارگلہ ٹاور کے ملبے کو چند گھنٹوں کے اندر اٹھایا جا سکتا تھا۔ جب ایک مجلس میں یہ بات سامنے آئی تو مجلس میں موجود ایک ٹھیکے دار نے اعتراف کیا کہ اگر یہ تجویز بروقت اس کے ذہن میں آتی یا کوئی فرد اس کو اس طرف متوجہ کرتا تو ہزاروں کارکنوں پر مشتمل پوری فورس کو اس کام پر لگایا جاسکتا تھا۔ مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں شہری ملبے کے نیچے دبے ہوئے لوگوں کی حالت زار کا بے بسی کے ساتھ تماشا کرتے رہے۔

مستقبل میں اس طرح کے سانحوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہزاروں کارکنوں پر مشتمل ایک ریسکیو سکواڈ بنایا جائے جو ضرورت کے وقت فوری طور پر متحرک ہوجائے۔ اس کے پاس ہر طرح کا سامان موجود ہو یا اس کے فوری حصول کا طریقہ معلوم ہو۔ حکومت کے علاوہ خدمت خلق کا کام کرنے والے اداروں کا بھی فرض ہے کہ تربیت یافتہ کارکنوں کی اس طرح کی ٹیمیں منظم کریں جو آفات سماوی اور امن اور جنگ کے وقت کام آسکیں۔

امدادی کارروائیوں کے موقع پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ اور امدادی سامان کو حقیقی مستحقین تک پہنچانے کے لیے منظم جماعتوں کی ضرورت ہے جو عوام میں سے ہوں اور جن کی شاخیں ہر گلی کوچے میں قائم ہوں۔ کچھ تنظیمیں جن پر لوگوں کا اعتماد تو موجود ہے اور جو دیانت دار اور مخلص لوگوں کی قائم کی ہوئی ہیں ایسی ہیں جن کا انفراسٹرکچر اور نیٹ ورک عوام میں موجود نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے تنخواہ دار کارکنوں کے ذریعے سامان تو پہنچا دیتے ہیں لیکن مستحقین تک سامان کو پہنچانے کا انتظام ان کے ہاں نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ اپنا سامان ان لوگوں کے حوالے کر دیں جن کے پاس مستحقین تک پہنچنے کا نظام موجود ہے‘ مثلاً ایدھی فائونڈیشن کے ٹرک سڑک پر کھڑے ہوجاتے تھے اور لوگوں کو سامان لے جانے کے لیے بلا لیتے تھے۔ ٹرکوں سے سامان لوگوں کی طرف پھینک دیا جاتا تھا۔ اس سے ایک تو بدنما منظر بنتا تھا کہ لوگوں کا ہجوم سامان حاصل کرنے کے لیے بے ہنگم بھکاریوں کی طرح سامان کی طرف لپک رہا ہے‘ دوسرا پیشہ ور چھیناجھپٹی کرنے والوں کو دوسروں کا حق چھیننے کا موقع ملتا تھا۔ اس صورت میں حیادار سفیدپوش مصیبت زدگان کے لیے ضروری سامان خوراک حاصل کرنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے پورے ملک میں بڑی حد تک یہ ضرورت پوری کر دی ہے۔ یہ ہرگلی کوچے میں موجود ہیں۔ دیانت دار اور فرض شناس مرد اور خواتین سب مل کر کام کرتے ہیں۔ ضرورت کے وقت فوری طور پر میدان میں نکل آتے ہیں۔ لیکن ابھی جماعت کو بھی اپنے اداروں کو مزید منظم کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔ ملک کے طول و عرض کے ہر گلی کوچے میں الخدمت فائونڈیشن کی ممبرسازی کر کے عوام کو اس کا حصہ بنانا چاہیے اور پوری قوم کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے لیے ہمہ جہتی اور ہمہ وقتی پروگرام بنانا چاہیے۔

اس وقت اہم ترین مسئلہ تعلیمی اداروں کی بحالی کا ہے۔ مساجد کے منہدم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی اجتماعیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ فوری طورپر مساجد کی تعمیرنو کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مساجد میں مسجدمکتب کے ذریعے بچوں کی تعلیم کا فوری انتظام‘ بیٹھک اسکولوں کا بڑے پیمانے پر اجرا‘ تنظیم اساتذہ‘ اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام اسکولوں کے سلسلے کا احیا‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور سرکاری اسکولوں کو دوبارہ منظم کرنے میں امداد کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایاجاسکے۔

اس وقت ایک فوری ضرورت متاثرہ لوگوں کو حوصلہ اور ہمت کرکے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی تلقین کرنے کی ہے۔ بحیثیت مسلمان کے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا اور خاص طور پر لوگوں کو تلقین کرنا کہ مصیبت کی گھڑی میں صبر کرنے والوں کے لیے بڑا اجر ہے۔ الحمدللّٰہ الذی لا یحمد علی مکروہ سواہ، اس اللہ کا شکر ہے جس کے سوا مشکل میں کسی کی تعریف نہیں کی جاتی‘ یعنی اللہ جس حال میں بھی رکھے بندہ اس پر اپنے رب کا شکرگزار ہو۔ بقول اقبال   ؎

در رہ حق ہرچہ پیش آید نکوست

مرحبا نامہربانی ہائے دوست

اللہ کے راستے میں جو کچھ بھی آئے اچھا ہے۔ حبیب کی طرف سے اگر کوئی تکلیف بھی آئے تو اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔

لوگوں کو نفسیاتی طور پر بحال اور اُن کی تمنائوں اور آرزوئوں کو ازسرِنو بیدار کرنے کے لیے اور انھیں رجوع الی اللہ کی تلقین کرنے کے لیے اور لغو اور فضول سرگرمیوں سے مثبت اور مفید مشاغل کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ایک سماجی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جماعت اسلامی نے پُرعزم اور باہمت ‘خداترس کارکنوں کو متاثرہ علاقوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حلقہ خواتین نے لوگوں کو اِس مصیبت کی گھڑی میں عزم و ہمت سے کام لینے اور اُن کی نفسیاتی بحالی کے لیے اُمیدنو کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے جسے مزید توسیع دینے کی ضرورت ہے۔

سیکولر اور لادین طبقے میں رجوع الی اللہ کے رجحان سے تشویش پیدا ہوگئی۔ استحصالی طبقے نے ہمیشہ لوگوں کے سفلی جذبات اور ہوا و ہوس کی خواہشات کو اُبھار کر لوگوں کے اخلاق و کردار اور ان کے اموال پر ڈاکا ڈالاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے پاس اپنی اولاد کی بنیادی ضروریات ‘ چھپر‘ خوراک‘ پوشاک‘ تعلیم اور علاج کی رقم تو نہیں ہوتی لیکن جھونپڑی میں بھی ڈش انٹینا لگانے اور وی سی آر پر کرایہ کی فحش فلمیں خریدنے پر محنت کی کمائی ضائع کی جاتی ہے۔ غریب اور محنت کش طبقے میں بھی سگریٹ نوشی عام ہے۔

لاہور میں ورلڈ فیسٹیول کے نام سے عین اس وقت جب رجوع الی اللہ کے لیے تلقین کی جارہی ہے لہوولعب کے ایک بڑے میلے کی تیاری ہے۔ دنیابھر سے موسیقار اور رقص و سرود کے گروپوں کو دعوت دی گئی ہے۔ زلزلے کے صدمے سے دوچار ہونے والی قوم کو دوبارہ رقص و سرود میں مشغول کرکے غم غلط کرنے اور جھوٹی خوشیاں منانے کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ مادہ پرست لوگ اپنے اس نظریے کا پرچار کر رہے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔ بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے نوجوان لڑلے لڑکیاں آلاتِ موسیقی ہاتھوں میں تھامے مغربی لباس اور مغربی شعار اپنانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اللہ کی رضا‘ آخرت کی بھلائی اور مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی محبت کے بجاے لوگوں کے سفلی جذبات اُبھار کر زلزلہ زدگان کی مدد کی اپیل کی جارہی ہے تاکہ خدا ترسی کے جذبے کے تحت جو مثبت دینی رجحانات پیدا ہوئے ہیں‘ اِن کا قلع قمع کیا جاسکے۔ حالانکہ مایوسیوں کے اندھیرے میں اسلام کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کی محبت‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور بندگانِ خدا کی محبت کے جذبات کو مہمیز دی جائے۔

مظفرآباد میں عیدالفطر کے موقع پر ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ روح پرور منظر دیکھا کہ مصیبت کے مارے ہوئے لوگوں کے دل شکر وسپاس کے جذبات سے لبریز ہیں۔ آنکھیں پُرنم ہیں لیکن پُرنم آنکھوں سے وہ ہمارا شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنی عید ان کے درمیان منانے کو ترجیح دی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اللہ کی کبریائی کی صدائیں بلند کرنے کے لیے یونی ورسٹی کے ملبے کے اوپر جمع ہیں جس کے نیچے سیکڑوں جوان‘ طلبہ اور طالبات جاں بحق ہوچکے تھے۔ لوگ آپس میں مصافحہ کر رہے ہیں‘ معانقہ کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دے رہے ہیں۔ غربا اور مستحقین میں ضرورت کی چیزیں تقسیم کر رہے ہیں۔ خیموں میں بچوں سے مل رہے ہیں‘ ان کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یہ حقیقی خوشی کا وہ تصور ہے جو اسلام نے عطا کیا ہے۔جنسی خواہشات کو مہمیز دینے والا رقص و سرود خوشی نہیں بلکہ انحطاط کا پیغام دیتا ہے۔ بقول اقبال    ؎

میں تجھ کو بتاتا ہوں‘ تقدیر اُمم کیا ہے

شمشیر و سناں اوّل‘ طائوس و رباب آخر

جب قومیں ترقی اور عروج کی منزلیں طے کرتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں شمشیر اور تیروتفنگ ہوتا ہے لیکن جب وہ انحطاط پذیر ہوتی ہیں تو ان کے پاس طائوس و رباب ہوتا ہے۔

آزمایش کے ان لمحات میں قوم کو متحد کرنے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آیا تھا۔ پوری قوم میں ہمدردی اور یک جہتی کا رجحان تھا۔ فوجی حکمران کے جذبۂ حب الوطنی کا امتحان تھا۔ ہم نے تجویز پیش کی کہ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے سربراہوںکا اجلاس بلایا جائے اور بحالی و امدادی سرگرمیوں کے لیے ایک جامع‘ شفاف اور متفقہ پروگرام بنایا جائے لیکن  ع  اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

فوجی حکمران نے اس سنہرے موقع کو ضائع کر دیا اور اس موقع کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ پارلیمنٹ اور دستوری اداروں کو یکسرنظرانداز کردیا گیا۔ اپنے نامزد وزیراعظم اور کٹھ پتلی کابینہ اور کٹھ پتلی حکمران جماعت کو بھی کسی قابل نہیں سمجھا گیا۔ متنازعہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلاکر بحالی کے پورے کام کو فوج کے جرنیلوں کے حوالے کر دیا گیا۔ انھیں ہر طرح کی عدالتی چارہ جوئی سے مبرا قرار دیا گیا۔ اور غضب ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو ملک کے پورے ترقیاتی بجٹ سے زیادہ رقم پر تصرف رکھتا ہے اسے محض ایک انتظامی حکم کے ذریعے قائم کیا گیا ہے اور یہ تکلف بھی نہیں کیا کہ یہ کام آرڈی ننس کے ذریعے کیا جاتا جسے نافذ کرنے کے بے محابا اختیارات صدر کو حاصل ہیں۔ لیکن غالباً خطرہ یہ تھا کہ اس آرڈی ننس کو بھی پارلیمنٹ کے سامنے توثیق کے لیے پیش کرنا ہوگا جو انتظامی آرڈر کے لیے ضروری نہیں۔ پارلیمنٹ کی اس سے زیادہ بے وقعتی کا تصور بھی محال ہے۔ اب تو ڈونرز کانفرنس کے موقع پر یورپی یونین نے بھی یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ریلیف اتھارٹی کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے۔

دوسری طرف زلزلے کو اسرائیل اور بھارت سے پینگیں بڑھانے کے لیے دوسری طرف استعمال کیا گیا۔ تمام اداروں کو نظرانداز کر کے ناٹو کی فوجوں کو بلانے کا فیصلہ فردِواحد نے اپنی مرضی سے کرڈالا اور یہ تک نہ دیکھا کہ ناٹو کا دستہ امریکی کمانڈر کے تحت کام کر رہا ہے پاکستان کی فوج کے تحت نہیں اور اس کے ایک ہزار افراد کے دستے میں ڈاکٹر اور انجینیرصرف ۱۵۰ کے قریب ہیں‘ باقی فوجی کون سے محاذ کو سرکر رہے ہیں؟ کسی کو علم نہیں۔

کنٹرول لائن کو مستقل بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنے کے ناعاقبت اندیشانہ اقدامات کیے گئے جس سے ملک کی آزادی اور سالمیت کو خطرات لاحق ہوئے۔ محب وطن عناصر کو بجاطور پر تشویش لاحق ہے کہ کیا ناٹو کی فوجیں واپس جائیں گی یا یہ افواج وسیع تر مشرق وسطیٰ (Greator Middle East) کے امریکی نظریے کے تحت پورے عالمِ اسلام کو اپنی آماجگاہ بنانے کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے پاکستانی علاقے کو مستقر بنانے پر اصرار کریں گی۔ اگر یہ واپس جانے سے انکار کردیں تو کیا ہماری حکومت میں یہ ہمت اور طاقت ہے کہ انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے۔ یہ افواج ایسے علاقے میں تعینات ہیں جو ہمارے ملک کا حساس ترین علاقہ ہے۔ یہ علاقہ بھارت‘ چین اور وسط ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ یہاں قریب ہی ہماری ایٹمی تنصیبات ہیں۔ یہ چند ماہ میں ساری حساس معلومات اکٹھی کر کے کسی بھی وقت حملہ کرنے کا منصوبہ بناسکتے ہیں۔ غالباً اس کا ذکر کرتے ہوئے کونڈولیزا رائس نے ایوان نمایندگان میں کہا تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں کو پاکستان میں غیرمحفوظ ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے ان کے پاس ہنگامی منصوبہ (contingency plan) موجود ہے۔

ملک کو گوناگوں خطرناک اور مستقبل کی غیریقینی صورت حال سے نکالنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی یک جہتی کی ضرورت ہے۔ زلزلے کے موقع پر ہنگامی صورت حال نے واضح کر دیا ہے کہ سیاست میں مداخلت نے فوج کی دفاعی صلاحیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اسے فوری طور پر سیاسی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنی اصلاح کرسکے اور اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف کماحقہ توجہ دے سکے۔

اس مقصد کے لیے اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ ایک بڑی سیاسی تحریک کا آغاز کیا جائے جو قوم کو ایک سیاسی اور سماجی انقلاب کے لیے تیار کرسکے تاکہ آئینی ادارے نئے سرے سے منظم ہوسکیں‘ عدالتی نظام کی اصلاح کی جائے‘ سیاسی بنیادیں مستحکم ہوں اور آئین کے مطابق ہر ادارہ اور ہرطبقہ اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکے۔ یہ وقت ہے کہ فردِ واحد کی آمریت سے ملک کو نجات دلائی جائے اور ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیے پوری قوم متفقہ جدوجہد کرے۔

یہاں پاکستان بھر میں مخیر حضرات تاجروں‘ صنعت کاروں اور عوام کے جذبۂ انفاق کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جنھوں نے امدادی کارکنوں اور اداروں کی پشتیبانی کی اور ان کی ہر ضرورت کو پورا کیا۔ امدادی کام ان مخیرحضرات کے خوش دلانہ مالی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ہمیں کسی موقعے پر کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ لوگوں نے خود نقد رقوم‘ خیمے‘ ترپال‘ کمبل‘ لحاف‘ گرم کپڑے‘ بستر اور سامانِ خوراک بہم پہنچایا۔ سیور فوڈ والوں نے مسلسل صبح شام ہزاروں افراد کو کھانا فراہم کیا۔ لاکھوں لوگوں کو صبح و شام ہمارے کیمپوں میں خوراک مہیا کی جاتی رہی اور اللہ کے فضل اور عوام کے تعاون سے ہمارے ہاں سے کوئی بھی فرد خالی ہاتھ یا بھوکے پیٹ واپس نہیں لوٹا۔

لاہور کے ڈاکٹرز ہسپتال کے ڈاکٹروں نے مجھے چار لاکھ روپے کا چیک متاثرین کو جاڑوں کی ٹھنڈسے بچانے کے لیے تھرمل سوٹ خریدنے کے لیے دیا۔ میں نے جب کراچی میں اپنے صنعت کار دوستوں سے تھرمل سوٹ کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے بغیر قیمت کے مجھے ایک ماہ کے اندر ۵۰ ہزار تھرمل سوٹ فراہم کرنے کا وعدہ کیا جس کی قیمت تقریباً ایک کروڑ روپے بنتی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں پاکستانی تاجروں نے مقامی مخیر حضرات کے تعاون سے ساڑھے چار کروڑ روپے کی ضروری ادویات کا ایک جہاز بھیجا۔ سعودی عرب کے دوستوں نے تقریباً ۱۲ ہزار خیموں اور کروڑوں روپے کی ادویات کے علاوہ ضرورت کی ہر چیز فراہم کی۔ اسلامی تحریک کی دنیا بھر کی تنظیموں نے مصر‘سوڈان‘ امریکا اور یورپ سے امداد فراہم کی۔ یوکے اسلامک مشن نے زلزلے کے پہلے ہی روز گرانقدر عطیہ بھیجا جو باعث برکت بنا۔ اسی جذبۂ انفاق کو مسلسل جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس کو سات سو گنا بڑھا کر دے گا۔

پاکستانی فوج کے بجٹ کی تفصیلات پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونے والے حسابات سے مستثنیٰ ہیں۔ سلامتی کونسل کے تحت زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے جو ادارہ قائم کیا گیا اور جسے مکمل طور پر فوج کے جرنیلوں کے سپرد کر دیا گیا اس کے بارے میں بھی اسی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے کہ وہ عوامی نمایندوں اور عدالتوں کے سامنے جواب دہی سے مستثنیٰ ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے پارلیمنٹ کی کسی ایسی کمیٹی میں شمولیت سے معذرت ظاہر کی جس کو سلامتی کونسل کے قائم کردہ ادارے پر مکمل بالادستی حاصل نہ ہو۔ حزبِ اختلاف کا مؤقف یہ ہے کہ سارے فیصلے سلامتی کونسل میں ہوجانے کے بعد پارلیمنٹ کی کمیٹی کے قیام کی کوئی افادیت یا مصرف نہیں ہے۔ ملک کے اندر حزبِ اختلاف کے شکوک و شبہات اور تمام معاملات میں فوجی عمل دخل اور      عوامی نمایندوں کے احتساب سے بالاتر ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ اب غیرملکی امداد دینے والے (donors)بھی کھلم کھلا فوجی حکمرانوں پر عدمِ اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ چنانچہ جاپانی حکومت کے نمایندوں نے مطالبہ کیا کہ جب تک حسابات کو شفاف نہیں بنایا جاتا اس وقت تک امداد دینے والے ممالک مدد دینے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے۔

ان کے مطالبے پر پرویز مشرف حکومت نے کسی تیسری ایجنسی کے سامنے حسابات رکھنے  کا عندیہ پیش کیا ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ اپنی قوم کے عوامی نمایندوں کے سامنے حسابات دینے سے کترانے والے اپنی افواج کے زیراہتمام خرچ ہونے والے حسابات کا آڈٹ کسی تیسری ایجنسی سے کروانے کے لیے تیار ہیں۔ فوجی حکمران جس طرح ملک کی آزادی اور خودمختاری سے بتدریج دست بردار ہو رہے ہیں یہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔

بحالی کے سلسلے میں اب تک جو عملی تجاویز سامنے آئی ہیں ان میں عام دیہاتی آبادی کی بحالی کی یہ تجویز فوری طور پر قابلِ عمل ہے کہ ایک خاندان کو اپنی چھت اور دیواریں سیدھی کرنے کے لیے ۲۰‘ ۲۵ ہزار روپے دیے جائیں۔ اپنی ضرورت کے لیے جنگل کی عمارتی لکڑی کاٹنے کی اجازت حکومت نے دے دی ہے۔ اگر دیہاتی علاقے میں آرے کی مشین اور مستری فراہم کیے جائیں تو لوہے کی چادروں اور لکڑی اور گرے مکان کے ملبے سے تھوڑی سی محنت اور ہمت کے ساتھ اپنے گھر کو قابلِ استعمال بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر دیہاتی علاقے میں ایک گائے اور دو بھیڑیں خریدنے اور اپنی کھیتی کو کاشت کرنے کے لیے سہولت فراہم کردی جائے تو ایک اندازے کے مطابق ۶۰ہزار روپے میں ایک خاندان کو ابتدائی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایک ہزار ڈالر اگر ایک فرد فراہم کرے تو وہ ایک غریب خاندان کو سہارا دے سکتا ہے۔ یہ مواخاۃ کی تحریک کا ایک طریقہ ہے اور دو خاندانوں کے سربراہوں کو اس طرح آپس میں ایک دوسرے سے متعارف کرایا جا سکتا ہے تاکہ ایک سربراہ دوسرے خاندان کو سہارا دے کر اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا حق ادا کرسکے۔

پاکستان انجینیرز فورم نے اسٹیل کے فریم اور فائبر گلاس کی چھت اور دیواروں کے ایک ایسے مکان کا ڈیزائن اور ماڈل بھی پیش کیا ہے جو فوری طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے اور ایک کمرے اور غسل خانے‘ باورچی خانے پر مشتمل ایک چھوٹا مکان ایک لاکھ روپے میں بنایا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کام بڑے پیمانے پر کیا جائے تو یہ رقم ۸۰ہزار روپے تک نیچے لائی جاسکتی ہے۔ بعض اداروں نے    پیش کش کی ہے کہ وہ سو دو سو مکانات‘ ایک اسکول اور ایک ہسپتال اور ایک مسجد پر مشتمل ایک چھوٹی سی کالونی بنانے کے لیے تیار ہیں۔ یورپ میں مکین ترک باشندوں کی تنظیم ملی گورش نے بالاکوٹ‘ باغ اور مظفرآباد کے علاقوں میں اس طرح کی تین کالونیاں بنانے کے لیے چار یا پانچ لاکھ یورو (تقریباً چار یا پانچ کروڑ) کا عطیہ دینے کی پیش کش کی ہے۔

ہمیں امید ہے کہ ایک منظم طریقے سے یہ کام شروع ہونے کے بعد بہت سے مخیرحضرات اور برادر تنظیموں کی طرف سے مسلسل مزید امداد کی پیش کش آئے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الخدمت فائونڈیشن اور دوسری برادر تنظیمیں مل کر فیلڈ میں اپنے کام کو مربوط اور منظم کریں۔

اس تباہی سے خیر نکالنے کا راستہ یہی ہے کہ بحالی کا کام مربوط طریقے سے ایک منصوبے کے مطابق کیا جائے اور متاثرہ لوگوں کو بحالی کے اس پورے کام میں اس مرحلے پر شریک کیا جائے اور انھیں اصل درس یہی دیا جائے کہ بحالی کے اس کام میں اصل عنصر ان کی اپنی ہمت‘ محنت اور امداد باہمی ہے۔ باہر کے لوگ انھیں سہارا دے سکتے ہیں لیکن اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ان کا اپنا فرض ہے۔

اگریہ کام خالصتاًاللہ کی رضا کے لیے کیا جائے تو اللہ کی نصرت شاملِ حال ہوگی اور یہ ہماری کوتاہیوں اور گناہوں کا ازالہ بنے گا۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری حقیر خدمات کو قبول فرمائے اور ہماری کوتاہیوں کو      بخش دے۔آمین!