دسمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| دسمبر۲۰۰۵ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

عہد فراموشی کا نتیجہ

…… یہ جدوجہد ۱۳ برس تک مکہ میں جاری رہی‘ پھر وہ وقت آیا جب دشمنانِ حق کے لیے اس دعوتِ توحید کی مقبولیت اور روز افزوں ترقی ناقابلِ برداشت ہوگئی اور انھوں نے آنحضرتؐ کے قتل کا انتظام کرکے اس دعوت کو فنا کر دینا چاہا تو داعی حق اور اس کے پیروان صفاکیش نے مکہ کو خیرباد کہہ کر مدینہ کو اپنے مشن کا مرکز بنایا اور وہاں سے اس نصب العین کی خاطر جدوجہد شروع کر دی جس کو وہ اپنا مقصد زندگی بناچکے تھے‘ اور جب کفار نے وہاں بھی چین نہ لینے دیا اور ادھر اہلِ ایمان کی ایک منظم جمعیت بھی فراہم ہوچکی تھی تو بدی کے استیصال اور حق و عدل کی بقا کے لیے تلوار اٹھائی گئی۔ ایک مدت تک تو طاغوتی طاقتیں خود بڑھ کر مدینہ پر حملہ آور ہوتی رہیں اور مسلمان صرف مدافعت کرتے رہے۔ اس دوران میں وہ خوف‘ دہشت‘ بے اطمینانی اور طرح طرح کے خطرات برداشت کرتے رہے اور جان و مال کی ہر ممکن قربانی کر کے حق کی شہادت دیتے رہے‘ یہاں تک کہ حدود عرب میں کفر کی شوکت ٹوٹ گئی اور طاغوت کا علم سرنگوں ہوگیا۔

اس وقت مسلمانوں کا قلب اس تائید و نصرت الٰہی پر شکرو امتنان کے جذبات سے بھر تو گیا مگر ان کی سواریوں کے کجاوے اسی طرح بندھے کے بندھے رہے اور ان کی تلواریں اسی طرح کھنچی رہیں۔ ان کے ہاتھ‘ جو اب تک دفاع کے لیے اٹھ رہے تھے‘ اب جارحانہ اقدام کے لیے سرگرم کار ہوگئے کیونکہ‘ گو عرب میں بدی نے ہتھیار ڈال دیے تھے‘ مگر اس کے باہر ہر چہار طرف اس کی حکمرانی پوری شان کے ساتھ قائم تھی اور مسلمان اپنے اس مشن کو بھول نہیں سکتا تھا کہ منکرات کو مٹا دینا چاہیے‘ جہاں کہیں بھی ہوں‘اور ہرغیراللہ کی آقائی پامال ہوجانی چاہیے‘ خواہ وہ کسی گوشۂ ارض پر ہو‘ یہ زمین خدا کی پیدا کی ہوئی ہے‘ اس پر اسی کا حکم چلنا چاہیے‘ اسی کے قانون کا اتباع ہونا چاہیے‘ اسی کی مرضی پوری ہونی چاہیے‘ اور اس ’’چاہیے‘‘ کی کل ذمہ داری میرے سر پر ہے۔ چنانچہ یہ ذمہ داری انھوں نے پورے احساس فرض کے ساتھ ادا کی‘ اور جب تک وہ ایسا کرتے رہے‘ اللہ تعالیٰ کی موعودہ تائید و نصرت ان کے ہمرکاب رہی‘ یہاںتک کہ اللہ تعالیٰ سے باندھا ہوا عہد اقامت دین فراموش ہونا شروع ہوا اور دین حق کا چڑھتا ہوا سورج مسلمانوں کی قسمت کا ماتم کرتا ہوا زوال پذیر ہونے لگا۔ اور اب دوبارہ بامِ عروج پر آنے کے لیے اس مبارک صبح کا منتظر ہے جس میں حاملین قرآن عہدفراموشی کے خواب گراں سے بیدار ہو کر اپنے فرضِ منصبی کو ازسرنو سنبھال لیں گے۔ (’فریضۂ اقامت دین‘ ، مولانا صدرالدین اصلاحی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۷‘ عدد ۵-۶‘ ذی القعدہ و ذی الحجہ ۱۳۶۴ھ‘ نومبر و دسمبر ۱۹۴۵ئ‘ ص ۸۱)