عین اس وقت‘ جب کہ عالمی استعماری قوتیں مسلمانوں کے خلاف جارحانہ اقدامات میں مصروف ہیں‘ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث کا آغاز تشویش ناک ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان کی سلامتی سے متعلق ہے‘ یہی وجہ ہے کہ عوامی اور سیاسی سطح پر اس موضوع پر سنجیدہ مکالمے کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس بحث کا آغاز قصوری شیلوم ملاقات منظر عام پر آنے سے ہوا۔ اس ضمن میں دو سوالات اہم ہیں: ۱- اسرائیل کو تسلیم کیا جانا کیوں ضروری ہے ؟ ۲-اسرائیل کو رد کرنا کیوں ضروری ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ کچھ مغرب زدہ اسکالر اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر تے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی مہم چلا رہے ہیں۔ اس کے باعث پاکستان کی واضح اور دو ٹوک خارجہ پالیسی تحفظات اور شکوک و شبہات کا شکار ہو گئی ہے۔ جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کررہے ہیں ان کی طرف سے مندرجہ ذیل دلائل بڑے شدومد کے ساتھ دیے جا رہے ہیں:
۱- اسرائیل ایک حقیقت ہے اس لیے اب اسے تسلیم کر لینا چاہیے۔
۲- اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے لیے معاشی طور پر خوشحالی کا باعث ہو گا ۔
۳- امریکا سے پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئے گی ۔
آئیے! ان دلائل پر غور کرتے ہیں کہ آیا یہ حقائق پر مبنی ہیں یا محض سطحی پروپیگنڈا ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض ان بنیادوں پر کسی ملک کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ اب وہ جغرافیائی طور پر موجود ہے۔ کیا اس کا کوئی تعلق قانون ‘ضابطۂ اخلاق اور بین الاقوامی تعلقات سے نہیں؟ کیا آپ ایک لٹیرے اور اپنے گھر پر قابض ڈاکو کو چند برسوں بعد صرف اس لیے گھر کا مالک مان لیں گے کہ اب اس قبضے کو کئی سال بیت گئے ہیں؟ پھر کیا یہ ضروری ہے کہ دنیا کا ہر ملک دوسرے تمام ممالک کو تسلیم کرے یا سفارت کاری اور تجارت کا رشتہ استوار کرے۔ آج بھی امریکا سمیت بہت سے ممالک نے بہت سے ممالک کو تاحال تسلیم نہیں کیا۔ اس کے باوجود دنیا کی طرف سے ان پر کوئی دبائو نہیں ہے۔ دوسری طرف حقائق ثابت کرتے ہیں کہ اسرائیل‘ جغرافیائی‘ تاریخی‘ آبادی اور اخلاقی اعتبار سے حقیقت نہیں بلکہ ہر اعتبار سے ایک جھوٹ ہے۔
۱۹۱۹ء میں ورسائی امن کانفرنس کے موقع پر اپنی مجوزہ یہودی ریاست کا جو نقشہ پیش کیا گیا تھا: اس کی رو سے اسرائیل کو جن علاقوں پر قبضہ کرنا ہے ان میں دریاے نیل تک کا مصر‘ پورا اردن‘شام کا مکمل علاقہ‘ پورا لبنان‘ عراق کا بڑا حصہ‘ ترکی کا جنوبی حصہ اور مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔ (D.H.Miller: My Dairy at the Conference of Paris with Documents, Vol v p 17)
ہمارے لیے ضروری نہیں کہ ہم اپنی ریاست کی حدود بیان کریں۔ (بن گورین کی ڈائری ‘ ۱۴ مئی ۱۹۴۷ئ)
یہ بیانات کسی اسرائیلی جذباتی شہری کے نہیں بلکہ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم کے ہیں جو اپنی پالیسی پر اظہار خیال کر رہے ہیں اور یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اسرائیل کا اپنا وجود بہت سے ممالک کی آزادی کے لیے خطرہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات عالمی امن اور مہذب دنیا‘ دونوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
اسرائیل کے تاریخی اعتبار سے غیر حقیقی ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ دنیا بھر کے انسائیکلوپیڈیا بالاتفاق اس حقیقت کو آشکارا کرتے ہیں فلسطین پر مسلمانوں نے ۱۲۰۰ سال ‘ جب کہ یہودیوں نے ۶۳۷سال حکومت کی‘اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ فلسطین کے قدیم ترین رہایشی وہ کینانائٹس تھے جو آج سے ساڑھے پانچ ہزارسال پہلے اُس علاقہ جسے آج سعودی عرب کہتے ہیں‘ ہجرت کرکے فلسطین میں آباد ہوئے۔ ان پر قابض ہو کر یہودیوں نے یہاں حکومت قائم کی ‘ جب کہ کینانائٹس کی اکثریت نے حضرت ابراہیم ؑ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء ؑ کی دعوت ِحق پر لبیک کہا۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر فلسطین کی غیریہودی آبادی مسلمان ہوگئی۔ گویا تاریخ کی ہر منطق سے اسرائیل ایک حقیقت نہیں بلکہ جھوٹ ہے۔
اس سوال کے جواب کے لیے مصر اور ترکی کے حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ دونوں ممالک سالہا سال سے اسرائیل سے تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں مگر ان کی اقتصادی حالت بہتر ہونے کے بجاے مزید ابتری کا شکار ہے۔ ترکی طویل عرصے سے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے یورپ کی دہلیز پر پیشانی رگڑ رہا ہے لیکن یہاں پر اس کے اسرائیل سے تعلقات کام نہیں آئے۔ مصر کے عوام معاشی زبوں حالی کا شکار ہو چکے ہیں۔ حسنی مبارک اور اس کی انتظامیہ تو اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں لیکن مصری عوام اسرائیل کو تسلیم کرنے کی قیمت تا حال ادا کر رہے ہیں۔ کیا ان واضح مثالوں کے بعدبھی پاکستان اپنے معاشی مسائل کے حل کے لیے اسرائیل سے دوستی کرے گا؟
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد گنوانے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح امریکا سے تعلقات میں بہتری ہو گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا سے ہمارے تعلقات نئے ہیں؟ امریکا سے پاکستانی حکمرانوں کی دوستی ۵۸ برس پرانی ہے جس میں پاکستان کا جوش و خروش زیادہ نمایاں ہے۔ امریکی مفادات کا تحفظ ہم نے ہمیشہ اپنی بساط سے بڑھ کر کیا ہے۔ امریکا کے کہنے پر ہی ہم نے روس سے دشمنی مول لی ‘ اسی کے کہنے پر افغانستان میں اپنے بھائیوں کو اپنا دشمن بنا لیا۔ ہماری ۵۸ سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے امریکا سے دوستی کی بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے ‘ جب کہ امریکا کے مطالبات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اور دوستی کے نام پر امریکا اپنی ناپسندیدہ شرائط کا دائرہ وسیع کرتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک پاکستان امریکی مطالبات پر سرتسلیم خم کرتا رہے گا؟ امریکا کاموجودہ مطالبہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ امریکا کے نزدیک اپنے مفادات کے علاوہ کوئی چیز قابل قدر نہیں ہے۔ ہمیں اس مرحلے پر کچھ توقف کر کے اپنے اور امریکا کے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔ کیا امریکا نے اپنے سابقہ وعدوں کا پاس کیا ہے؟ کیا اب تک ایف ۱۶ طیاروں کی فراہمی کو تعطل میں رکھنا امریکی بے وفائی کا ایک واضح ثبوت نہیں ہے؟ ہمیں ایک آزاد ‘خودمختار اور نظریاتی مملکت ہونے کے ناطے امریکا سے اس موضوع پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کرنا چاہیے۔ اس کے بہت سے طریقے ہیں جن کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ امریکا میں خود کئی لابیاں اس ضمن میں موثر ثابت ہو سکتی ہیں لیکن یہ اس وقت کارگر ہوں گی جب ہم اس حوالے سے منصوبہ بندی کریں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کر لینے میں امریکا کا کیا مفاد پوشیدہ ہے؟ ہر فرد جانتا ہے کہ امریکا خود یہودی لابی کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ اس لیے اسے وہ سب کام کرنا پڑتے ہیں جو یہودی لابی اس سے کروانا چاہتی ہے۔ لہٰذا اسرائیل پاکستان پر امریکی اثرورسوخ کو بھی استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل پاکستان سے تعلقات کے ذریعے درج ذیل مقاصد کا حصول چاہتا ہے:
۱- پاکستان اہم اسلامی ملک ہے ۔اس لیے او آئی سی پر اثرات رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو ہمنوا بنایا جائے ۔
۲- پاکستان کے ذریعے سعودی عرب اور ایران سے تعلقات کو بہتربنایا جا سکتا ہے ۔
۳- پاکستان سے تعلقات کاسب سے زیادہ فائدہ یہ ہو گا کہ عالم اسلام کی اسرائیل سے نفرت کم ہو نے کا امکان ہے۔
ان تینوں مقاصد کا حصول پاکستان کے ذریعے ہی سے ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان عالم اسلام کا اہم اور قائدانہ کردار کا حامل ملک ہے اور پھر اس کی ایٹمی قوت بھی اس کی اہمیت کو دو چند کرنے کے لیے کافی ہے۔ دراصل اسرائیل ہمسایہ اسلامی ممالک پر جارحانہ کارروائیوں میں پاکستان کو مہرے کے طور پر استعمال کرنا چاہتاہے تا کہ باقی اسلامی ممالک کی بھی خاموش حمایت حاصل کر سکے ع
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
اسرائیل کو کیوں تسلیم نھیں کرنا چاھیے؟
۱- اسرائیل کے جارحانہ ‘غاصبانہ اور ظالمانہ قبضہ کو پوری اسلامی دنیا نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پاکستان بحیثیت اسلامی ملک اسلامی برادری کو نظر انداز کر کے کس طرح اسرائیل سے تعلقات نبھا سکے گا۔
۲- اسرائیل کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو پھر ہندستان سے کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف کو کیسے نبھایا جائے گا۔
۳- اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد پاکستان کے اسلامی اور نظریاتی تشخص کی کیا حیثیت باقی رہ جائے گی۔
۴- اسرائیل کے جارحانہ عزائم جو پاکستان کی سلامتی کے لیے روز اوّل ہی سے خطرہ ہیں‘ ان سے کس طرح بچائو ممکن ہو سکے گا۔
۵- پاکستان بھارت کے جارحانہ عزائم کا سامنا اور ملکی سلامتی و تحفظ کو کس طرح یقینی بناسکے گا۔
۶- پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھارت اور اسرائیل سے درپیش خطرات کا مقابلہ کس طرح ممکن ہو سکے گا۔
۷- پاکستان کے اندرونی استحکام کو عصبیتوں اور قومیتوں کا شکار ہونے سے کس طرح بچایا جا سکے گا۔
یہ محض چند نکات نہیں بلکہ پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے وہ عنوانات ہیں جن کو معاشی خوش حالی کے فریب میں بالکل نظرانداز کر دینا نہ صرف نقصان دہ بلکہ تباہی کا باعث ہو گا۔کوئی بھی باشعور او رزندہ قوم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی کہ اپنی آزادی کی قیمت پر چند مالی فوائد حاصل کرلے۔ پاکستانی قوم کو اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے از سر نو اپنے کردار کا جائزہ لینا ہو گا۔
وسط ایشیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خصوصی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور اس کی وجہ سیاسی اور معاشی سے زیادہ نظریاتی اور اسلامی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا کو متحد کرنے اور انھیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے او آئی سی کے قیام پر زور دیتا رہا ہے اور اس کے قیام کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ او آئی سی میں پاکستان کا فعال کردار اسلامی دنیا سے اس کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا باعث بنا۔ تمام مسلم ممالک پاکستان کے ساتھ والہانہ عقیدت اور محبت کے جذبات رکھتے ہیں اور مشکل وقت میں پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیںجس کا پاکستان نے ہمیشہ گرم جوشی سے جواب دیا۔ اگر پاکستان اسلامی دنیا کے اسرائیل کے خلاف نفرت کے جذبات کو نظر انداز کر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرتا ہے تو ظاہر ہے یہ محبت اور عقیدت کم ہو گی اور پاکستان اسلامی دنیا میں تنہا رہ جائے گا ۔
ہماری عالمی صہیونی تحریک کو فوری طور پران خطرات کا نوٹس لینا چاہیے جو ہمیں مملکت پاکستان کی طرف سے ہیں۔ اب عالمی صہیونی تحریک کا ہدفِ اول پاکستان ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست اسرائیل کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس ملک کا ہر باشندہ عربوں سے لگائو رکھتا ہے ‘ جب کہ یہودیوں سے نفرت کرتا ہے۔ عربوں کا شیدائی یہ ملک ہمارے لیے عربوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ چنانچہ صہیونیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری اقدامات کریں۔
ایک دفعہ پھر یاد کر لیں کہ یہ بیان اسرائیل کے کسی جذباتی شہری کا نہیں … اسرائیل کے بانی وزیر اعظم کا ہے۔ اس کے بعد بن گورین بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کو سراہتے ہوئے کہتا ہے:
چونکہ ہندستان میں بسنے والوں کی اکثریت ہندوئوں کی ہے‘ جن کے دلوں میں صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور نفرت بھری ہے اس لیے ہندستان ہمارے لیے اہم ترین اڈا ہے‘ جہاں سے ہم پاکستان کے خلاف ہر قسم کی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس نہایت کارآمد اڈے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور انتہائی چالاک اورخفیہ کارروائیوں سے پاکستانیوں پر زبردست وار کر کے انھیں کچل کر رکھ دیں۔
ایک محب وطن پاکستانی کے لیے یہ الفاظ کسی اعلان جنگ سے کم نہیں ہیں۔ اسرائیل کے ان بیانات کے بعد کیا اب بھی گنجایش موجود ہے کہ اس سے تعلقات استوار کیے جائیں۔
پاکستان اسرئیل کو تسلیم کر لے تب بھی اسرائیل پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
اگر بھارت کی پاکستان سے جنگ ہوتی ہے تو بھارت جو بھی فیصلہ کرے گا اسرائیل اس فیصلے میں بھارت کا ساتھ دے گا۔ (دی نیشن‘ ۹ جنوری ۲۰۰۳ئ)
اے پیغمبرؐ تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں۔ (المائدہ۵: ۸۲)
اس حوالے سے یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اسرائیل نے بھار ت سے مل کر کئی مرتبہ پاکستان کے کہوٹہ پلانٹ کو تباہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ ۱۹۸۳ء میں ایریل شیرون (موجودہ وزیر اعظم اسرائیل اور سابقہ وزیر دفاع) نے تجویز پیش کی کہ بھارت اور اسرائیل مل کر پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کر دیں۔ مگر وہ یہ کام اس لیے نہ کر سکے کہ بھارت یہ کام اسرائیل سے تنہا کروانا چاہتا تھا۔
وکٹر اوسٹروسکی (Victor Ostrovsky) نے جو موساد کا آفیشل رہا ہے بتایا کہ جولائی ۱۹۹۴ء میں بھارت کے ایٹمی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا تاکہ پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کر سکیں کیوں کہ اسرائیل ۱۹۸۱ء میں عراقی ایٹمی ریکٹر پر کامیاب حملہ کر چکا تھا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام جس طرح آج سازشوں کا شکار ہے اگر اس وقت اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر ہماری ایٹمی قوت کا کیا ہوگا۔
پاکستان کی وحدت کا انحصار اسلامی نظریے پر ہے۔ تحریک آزادی پاکستان کا بنیادی نعرہ بھی یہی تھا: پاکستان کا مطلب کیا … لا الہ الاللہ … اگر اس نظریے کو پس پشت ڈال دیا جائے تو پاکستان میں مختلف زبان ‘رنگ اور نسل کے گروہوں کو کس طرح اکٹھے رکھا جا سکے گا۔ نتیجتاً اس خطے میں موجود مختلف قومیتیں اور گروہ سر اٹھائیں گے جس سے عصبیتی اور گروہی آزادی کی نام نہاد تحریکیں زور پکڑ جائیں گی۔ پھر ’’سندھ سندھیوں کا… پنجاب پنجابیوں کا … بلوچستان بلوچوں کا… اور سرحد پختونوں کا ‘‘جیسے بے بنیاد نعروں کو جواز مل جائے گا کیوں کہ وہ آج تک صرف اسلام کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اگر اسرائیل کو تسلیم کیا گیا تو پاکستان خارجی خطرات کے ساتھ داخلی انتشار کا شکار بھی ہوجائے گا۔ یہ ملکی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے‘ اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
سب سے اہم بات یہ کہ کیا ہم ایسی قوم سے تعلقات قائم کرنے کے بعد اللہ کی ناراضی سے بچ سکیں گے جس پر اللہ نے نہ صرف یہ کہ لعنت کی ہے بلکہ دوستی کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے کچھ ہی عرصے کے بعد یہودیوں کی عہدشکنیوں کے بعد ان سے تمام معاہدے ختم کر کے انھیں جزیرہ عرب سے نکال دیا تھا۔
اور تم سے یہودی اور عیسائی کبھی خوش نہیں ہوں گے یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی اختیار کر لو۔ ان سے کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے اور اگر تم اپنے پاس علم وحی آ جانے کے بعد بھی یہودونصاریٰ کی خواہشوں پر چلو گے تو تم کو اللہ سے بچانے والا کوئی دوست ہوگا نہ مددگار۔ ( البقرہ۲: ۱۲۰)
اے ایمان والو یہودونصاریٰ کو دوست نہ بنائو یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انھی میں سے ہوگا۔ بے شک اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (المائدہ ۵:۳۱)
حقائق کی روشنی میں اور غیرجذباتی ہو کر کسی بھی رخ سے اس مسئلے پر غور کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان اور عالم اسلام کے لیے ناقابل قبول ہے‘ بلکہ اس سے پاکستان خطرات کی ایک ایسی دلدل میں پھنس جائے گا جس سے نکلنا ممکن نہ ہو گا۔